آخر کیوں کرتے ہو؟
ایک دوست سے دلچسپ مکالمہ
شہزاد بشیر

کبھی کبھار اتفاقیہ مل جانے والے ایک مشہور و معروف دوست شخصیت سے ملاقات ہوئی۔
“دوست: “اور بھئی شہزاد کیا حال ہے کیسے ہو؟
“میں: “الحمدللہ۔ ٹھیک ٹھاک۔
“دوست: “بھئی واہ۔بڑے سرپرائز، ناول ، انٹرویوز، پروموشنزوغیرہ چل رہے ہیں ۔ ادیب بن گئے ۔
“میں: “اوہو۔۔تم کو کیسے معلوم۔ ہم کوئی پندرہ بیس سال میں دو چار بار ہی ملے وہ بھی میں ہی عید تہوار پر دوستوں میں نکلا تب۔
“دوست: “بس کیا کہیں مصروفیت ہے۔ مگر میں دیکھتارہتاہوں تمہاری پوسٹس سوشل میڈیا پر۔
“میں: “ہائیں۔۔ کیا مطلب۔ تم ایڈ ہو میرے پاس؟
“دوست: “ہاں ۔۔ ہو ں نا۔ مگر اصلی نام سے نہیں ہوں۔
“میں: “اچھا۔۔ وہ کیوں ؟
“دوست: “بس ویسے ہی ۔۔۔ مگر یار تمہاری پوسٹس دیکھ کر میں ہر بار مسکراتا ہوں، کتنا فالتو وقت ہے تمہارے پاس۔
میں: “ارے۔ فالتو وقت۔ ۔؟ کیا مطلب۔ ارے بھائی میرے پاس تو سر کھجانے کا وقت نہیں ۔اپنا ویب سروسز کا کام اور ادبی معاملات کی بھرمار میں تم نے فالتو وقت کہاں دیکھ لیا؟
دوست: “یار تم کبھی نئے رائٹرز کو سامنے لا رہے ہو کبھی کتابوں پروموشن کبھی کچھ کبھی کچھ ۔۔۔کیا ملتا ہے؟ اور پھر جو بات یونہی لکھ کر پوسٹ کی جاسکتی ہے ۔ اسے اتنا بنا کر سجا کر ڈیزائن کر کے۔ الفاظ بنا کر جملے بنا کر تصویریں لگا کر ۔۔ مطلب ایک ایک پوسٹ پر کم ازکم تمہارا آدھا ایک گھنٹہ تو لگتا ہوگا۔ وہی کام پانچ منٹ میں ہو سکتا ہے۔ کیا فائدہ چند لائکس اور کمنٹس کیلئے اتنا فضول وقت ضائع کرنے کا۔ لوگ تمہارے اتنی محنت سے کئے کام کو اگنور کردیتے ہیں۔ ایک لائک دینے کو بھی سوچتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے اپنی ایک تصویر دیا کرو اور کچھ ٹیکسٹ ڈسکرپشن میں لکھ دیا کرو۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ دوست یہ قوم شخصیت پرست ہے ۔ محنت کو نہیں تصویر کو لائک کرتی ہے۔ چھوڑو ڈیزائن ویزائن ۔ یہ دیکھو میرا پروفائل ۔ صرف اپنی تصویر لگاتا ہوں اور دیکھو بنا ڈسکرپشن دو دوسو پانچ پانچ سو لائک آتے ہیں۔
میں :”بات تو تمہاری سو فیصد درست ہے۔ قو م شخصیت پرست تو ہے۔ اس میں شک نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ہماری محنت کو لوگ وہ پذیرائی نہیں دیتے جو حق ہے۔ میں بھی یہ تجربہ کر کے دیکھ چکا ہوں۔ اپنی تصویریں لگا کر دیکھی ہے۔ مگر دوست۔یہ جو انسانی فطرت ہوتی ہے نا ۔۔اور یہ جو معیاراور ذاتی تسلی وتشفی جیسے لفظ ہیں ۔ یہ انسان کو ہر انعام سے پرے رکھتے ہوئے صرف اپنے کام سے اپنے دل و ذہن کو مطمئن کرنے پر ہی توجہ مرکوز رکھنے پر اڑے رہتے ہیں۔ بے شک کوئی لائک کرے نہ کرے ۔ میری تسلی تب تک نہیں ہوتی جب تک میں اپنا سو فیصد اپنے کام میں شامل کر کے مطمئن نہ ہوجاؤں ۔ ایک تخلیق کار کو ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کی تخلیق کو کتنے لوگ سراہتے ہیں۔ اسے صرف اس بات سے فرق پڑتا ہے اس کی اپنی تسلی و اطمینان ہوا ہے یا نہیں۔
میں ایک رائٹر ہوں اگر تمہاری منطق کو اپنے ذہن میں جگہ دوں تو میری ایک تحریر کے بعد کوئی دوسری پڑھنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس میں عامیانہ پن ہوگا۔ کوئی انفرادیت کوئی جدت کوئی نیا پن نہ ہوگا ۔ پھر تو وہ بھی عام سی تحریر رہ جائے گی اور ایک دن تم کہو گے یار کیا وہی گھسا پٹا انداز ہے۔ کچھ نیا کرو۔ اگر میں خود اپنی چیز سے مطمئن نہیں تو دوسرے بھلا کہاں ہونگے۔ تو بس میرے دوست یوں سمجھو۔ میں وہ سب کچھ کسی کیلئے نہیں اپنے لئے کرتا ہوں ۔ مجھے اپنا کام ایک اعلیٰ معیار کا کام نظرآتا ہے تو میری تسلی ہوتی ہے۔ مجھے کسی کو نہیں بلکہ خود کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ اور میں بہت خوش ہوتا ہوں۔ الحمدللہ۔
دوست: “ہونہہ۔ ویسے یار۔ بات تو ٹھیک ہے تمہاری ۔۔ کیونکہ جب بھی تمہاری کوئی پوسٹ سرچ میں گوگل پر یا سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے اس کا اپنا ہی ایک انداز اور ایک لک ہوتا ہے۔ نظروں کو گرفت میں لے لیتی ہے وہ پوسٹ۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔ شخصیت پرستی تب تک
“رہتی ہے جب تک انسان رہتا ہے مگر کام ہمیشہ کیلئے امر ہوجاتا ہے۔ کام کو پذیرائی ملنی چاہئے۔ میں تمہیں پورے نمبر دیتا ہوں۔
تحریر: شہزاد بشیر
اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز - ڈاؤن لوڈ کیجئے
ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟ We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff ! | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household Items | Buy from Amazon |


