فلسطین اسرائیل جنگ: 7 اکتوبر تا یکم نومبر تک کا تجزیہ
تحریر: شہزاد بشیر
بھڑکتی آگ، مجاہدین کے حملے اور اسرائیل کی بوکھلاہٹیں
اسرائیل نے جو آگ اپنے غرور اور تکبر میں اپنی جدید ٹیکنالوجی اور امریکی پشت پناہی پر انحصار کرتے ہوئے لگائی تھی اب اس میں خود اس کا اپنا وجود جلنے اور پگھلنے لگا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ آپ نے کچھوے اور خرگوش کی کہانی تو سنی اور پڑھی ہوگی تو سمجھ لیجئے اسرائیل اور حماس کی کہانی بھی وہی ہے۔
اسرائیل سویا تو حماس نے اس کی آنکھ کھلنے سے پہلے ہی وہ کچھ کر ڈالا جس کا اس نے خواب میں بھی کبھی نہیں سوچا تھا۔
چند مٹھی بھر مجاہدین جو باقاعدہ کوئی فوج نہیں ہے بس ایک تنظیم ہے مگر ان کے سینوں میں بھڑکتی آگ نے ایک ایک مجاہد کو جوالا مکھی بنایا ہوا ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے بچے، ماں، باپ، بہن بھائی، بیوی اور دیگر رشتوں کو کھویا ہے ۔
وہ انتقام کی آگ سینے میں لئے اکیلے ہی صرف اللہ کی مدد کے دم پر آسمان مین اور پانی سے اچانک ایسے اسرائیل پر جھپٹے کہ اس کو اب تک بھی جب ایک ماہ ہونے کو ہے یہی پتہ نہی چل سکا کہ اس کے ساتھ آخر ہوا کیا ہے؟
اس کی ناک کے نیچے نہ صرف ہزاروں راکٹس اور دیگر اسلحہ، پانچ پانچ سو کلومیٹر طویل سینکڑوں سرنگیں، ڈرونز، اینٹی ٹینک میزائلز، اور نہ جانے کیا کیا تیار کرلیا گیا۔
اور جب حماس کے گوریلے بپھر کر اسرائیل پر چڑھ دوڑے تو نہ صرف اس کی سرزمین میں کامیابی سے اتر کر تباہی پھیلائی بلکہ ان کی اہم فوجی، سیاسی، اور دیگر شخصیات کو اغوا کر کے اس کی ہی سرزمین سے بحفاظت غزہ بھی لے گئے اور اسرائیل کو کان و کام خبر تک نہ ہوسکی۔
ایک طوفان اٹھا جس نے اسرائیلی عوام کا پارہ ساتویں آسمان پر پہنچا دیا۔
ان کی چیخیں اور رونا دھونا دنیا نے پہلی بار دیکھا بھی اور سنا بھی۔
دنیا نے دانتوں تلے انگلیاں داب لیں۔
دنیا میں چوہدری بنا پھرتا امریکہ تک انگشت بدنداں ہے اور اب تک اس کے سیاسی، جنگی، دفاعی تجزیہ کار تک یہ نہیں جان سکے کہ حماس نے اسرائیل کے اس قدر منظم اور جدید ٹیکنالوجی کے حامل دفاعی نظام کو کس طرح چکمہ دیا؟
اسرائیل پوری دنیا میں اپنے دفاعی نظام آئرن ڈوم کی مارکیٹنگ کرتا رہا ہے مگر اب اس کی ناکامی نے اس کی نیندیں اڑا کے رکھ دیں۔
یعنی اس قدر جدید اور مہنگا ترین سسٹم حماس کی چالاکیوں کے آگے ڈھیر ہوگیا۔
یاد رہے کہ آئرن ڈوم فضا میں ہی اسرائیل کی جانب آنے والے راکٹس کو انٹرسیپٹ کرکے تباہ کرتا ہے ۔
مگر اس کا ایک ایک میزائل یونٹ بمعہ بیٹری کس قدر مہنگا پڑتا ہے یہ اعدادوشمار بھی ہوش اڑا دینے والے ہیں۔
آپ اس بات سے اندازہ لگائیے کہ حماس نے جو راکٹس داغے تھے وہ صرف پندرہ سو سے دو ہزار ڈالرز تک کے تھے مگر ان کو روکنے والے اسرائیلی آئرن ڈوم سسٹم کا ایک ایک راکٹ ایک سے ڈیڑھ لاکھ امریکن ڈالر تک کا پڑتا ہے۔پاکستانی پونے تین کروڑ روپے سے سوا چار کروڑ روپے بنتے ہیں۔
یعنی ایک بار اگر وہ راکٹس کو روکنے کیلئے جتنے میزائل فائر کرتا ہے اس کی لاگت اتنی ہے۔ اب حساب خود لگا لیجئے۔ کتنی مہنگی پڑتی ہے اسے اپنی حفاظت ۔
شرمندگی تو طے ہے مگر اب دنیا اس پر ہنس بھی رہی ہے اور یہ مان رہی ہے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور تھے کھانے کے اور۔
یعنی سوچئے تو ذرا کہ ایک چھوٹی سی عسکری تنظیم نے سپر پاور اور اس کے بغل بچہ یہودی ریاست کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔
اب اس ہزیمت کا بدلہ اس بزدل یہودی فوج نے معصوم بچوں عورتوں اور عام لوگوں پر بم برسا کر لیا ہے۔
اس میں پوری دنیا اب اس کے خلاف یک زبان ہوچکی ہے۔
خود اسرائیل کے اندر شدید غم وغصہ ہے اپنی ہی حکومت اور فوج کے خلاف۔
انہیں تو دنیا کے دیگر ممالک سے لا کر یہ گارنٹی دے کر بسایا گیا تھا کہ اب دنیا پر حکمرانی کرنی ہے اور دجال کا آنے کا راستہ ہموار کرنا ہے۔
اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوگئے تھے کہ اچانک بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا والی مثال سامنے آئی۔
اور اسرائیل جو دنیا کے اسلامی اور خاص کر عرب ممالک کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے، لالچ سے اور مجبوریوں سے مکاری سے اپنا ہمنوا بنا ہی چکا تھا اور قریب تھا کہ یکے بعد دیگرے سب اسے تسلیم کرلیتے کہ اچانک حماس نے سرپرائز دیتے ہوئے ایسی شدید ضرب لگائی اور ایسا زبردست اور تیز ترین حملہ کیا کہ اسرائیل اپنی تمام تک کمزوریوں اور خامیوں کے ساتھ ننگا ہو گیا۔
دنیا کے ہر ملک نے اسرائیل کے قیدی حماس کی قید میں دیکھے تو انہیں یقین ہی نہیں آیا۔
اور وہ کوئی عام لوگ بھی نہیں تھے۔ کوئی انٹیلی جنس کا سربراہ تھا، کوئی نیول چیف تھا کوئی ڈیفنس منسٹری کا عہدیدار تھا تو کوئی اور اہم ترین ادارے کا سربراہ۔
دنیا نے پہلی بار انہیں بھیگی بلی کی طرح حماس کے گوریلوں کے سامنے ہاتھ باندھے کانپتے لرزتے دیکھا تو انہیں اس قوم کی بزدلی پر حیرت سے غش آنے لگے۔
اب فوراََ امریکہ بہادر اٹھا اور اپنا بحری بیڑہ اور دو ہزار فوجی روانہ کئے مگر اب دیر ہوچکی تھی۔
اس وقت تک روس اور چائنا بھی سمجھ چکے تھے کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے
یعنی اسرائیل کا بھرم خاک میں مل چکا تھا۔
ظاہر ہے جب وہ ایک چھوٹی سی تنظیم کے ہاتھوں ذلت کی تصویر بن چکا تھا کہ بھلا کسی باقاعدہ فوج کے آگے کیا خاک کچھ کرسکتا ہے۔
تو یہ موقع کوئی پاگل ہی ہوگا جو گنوائے گا۔
چنانچہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے انتہائی اہم سرکاری دورہ کیا اور چین کے ساتھ باقاعدہ ایک اسٹریٹجی پلان کی اور دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف اسرائیل اور امریکہ کو دھمکیاں دے ڈالیں بلکہ چائنا نہ ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے چھ بحری جنگی جہاز بھی سمندر میں اس جگہ پہنچا دیئے جہاں وہ امریکہ کو یہ باور کروا رہیے ہیں کہ اپنی حد سے تجاوز مت کرنا۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے فوراََ دوڑ لگائی اور اسرائیل کے ہونق بنے وزیر اعظم نیتن یاہو کو سمجھایا کہ بھیا کچھ عقل پکڑو تم نے تو ہماری ناک کٹوا دی۔
اب اور بے وقوفیاں مت کرنا مگر اب اپنی عوام کے مطالبے اور حالات کا ادراک کرکے پیچھے ہٹنے کے بجائے اس نے شرمندگی مٹانے کیلئے نہتے فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری شروع کردی۔
اس کے وحشیانہ پن کی حد دیکھئے کہ ہسپتالوں تک پر بم برسادییے جہاں بچے بھی موجود تھے۔ پانچ سو سے زائد نہتے معصوم فلسطینی شہید کردیئے۔
اب اس جنگ کو شروع ہوئے تین ہفتے سے زائد ہوگئے مگر ہر محاذ پر حماسی مجاہدین کا پلڑا بھاری رہا۔
اسرائیل کو صرف نہتے لوگوں کو مارنے کے علاوہ کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
حماس کی کامیابیوں کا تسلسل دیکھتے ہوئے لبنان کی ملیشیا حزب اللہ بھی میدان میں آگئی اور اب ایک محاذ ادھر بھی کھل گیا ہے۔
حزب اللہ بہرحال حماس سے زیادہ طاقتور ہے جس کے پاس جدید میزائل، راکٹس، ڈرونز اور باقاعدہ ٹرینڈ ملیشیا ہے۔
وہاں سے بھی راکٹوں اور میزائلوں کی بارش شروع ہوچکی ہے۔
اسرائیل نے وہاں بھی فضائی حملے شروع کئے مگر اسے اب تک اندازہ نہیں ہو سکا کہ اس بار مسلمان مجاہدین ایک الگ ہی انداز اور موڈ میں نظر آرہے ہیں۔
شام سے بھی اسرائیل کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے اور اب ان تینوں جگہوں پر اسرائیل کو انگیج کر دیا گیا ہے۔
آج کی تازہ خبروں کے مطابق ایک اور ملک نے غیر متوقع طور پر انٹری کردی ہے اور وہ ہے یمن۔
جی ہاں یمن نے تو باقاعدہ سرکاری سطح پر حماس کے ساتھ یکجہتی دکھاتے ہوئے جنگ میں کودنے کا اعلان کردیا اور میزائل بھی داغ دیئے۔
اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ ان کے میزائلوں نے اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے شہر “ایلات” میں تباہی کی ہے۔
گو کہ شاید وہ زیادہ نقصان نہیں کر سکے مگر یہ اسرائیل کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
کیونکہ ایلات اسرائیل کی ایک مصروف بندرگاہ ہے جہاں سے اس کی سمندری تجارت ہوتی ہے۔
اس پر حملے کا مطلب ہے کہ یمن کے حوثیوں کو یہ پتہ ہے کہ دشمن کی دکھتی رگ کون سی ہے۔
ادھر حماس نے اسرائیل کے ایئر ڈیفنس سسٹم “آئرن ڈوم” کا توڑ ڈھونڈ نکالا ہے اور اب وہ اسے چکمہ دے کر تل ابیب، اشدود، اشکلان اور دیگر شہروں پر راکٹ برسا رہے ہیں۔
بے شک وہ راکٹس اسرائیل کا ایئر ڈیفنس انٹرسیپٹ کررہا ہے مگر کچھ راکٹس ان شہروں میں گرے ہیں اور وہاں تباہی مچائی ہے۔
لیکن اصل پریشانی نیتن یاہو اور اس کی فوج کو اب ایک اور ہے۔
وہ یہ کہ حماس راکٹ پر راکٹ مار رہا ہے، وہ رکتا ہے تو حزب اللہ شروع ہو جاتا ہے اور اب تیسری جانب سے یمن نے شروع کر دیا تو اب ہو یہ رہا ہے کہ ان کی جو یہودی عوام ہے وہ پاگلوں کی طرح بلی چوہے کا کھیل کھیلنے پر مجبور ہو گئی ہے۔
کیونکہ جیسے ہی حماس، حزب اللہ اور یمن راکٹس یا میزائلز فائر کرتے ہیں تو اسرائیل کا خودکار سسٹم اسے ڈیٹکٹ کرتے ہی سائرن بجا دیتا ہے اور اسرائیل کے ہر بندے کو یہ آرڈر ہے کہ جونہی سائرن بجے انہوں نے فوراََ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگنا ہے اور انڈر گراؤنڈ پناہ گاہوں میں چھپ جاتا ہے۔
اب وہ بے چارے بھاگتے ہیں، کچھ نہیں ہوتا تو وہ پھر ایک دو گھنٹے بعد باہر نکلتے ہیں تو پھر سائرن بج جاتا ہے اور وہ پھر دوڑ پڑتے ہیں۔
تو اب ان کے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور وہ اپ اپنی ہی حکومت اور فوج پر چڑھ دوڑے ہیں کہ یہ کس عذاب میں تم لوگوں نے ہمیں پھنسا دیا ہے۔
عوام میں غم و غصہ اس وجہ سے بھی ہے کہ وہ جو اپنی کمائی کا اور محنت کا پیسہ کما کر اس میں سے ٹیکس دے دے کر اسرائیل کو جنگی لحاظ سے ناقابل تسخیر بنانے کیلئے دن رات لگے ہوئے تھے تو اب وہ سب تو ملیا میٹ کرکے رکھ دیا حماس نے۔
اب وہ یہ سوال کر رہے ہیں کہ اتنا بڑا بجٹ اور ٹیکنالوجی اور فوج اور اسلحہ اور سپورٹ ہوتے ہوئے بھی انہیں ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور شدید خوف و ہراس میں دن اور رات کٹ رہے ہیں تو اس جنگ کا فائدہ کیا ہے؟
اچھا۔۔۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ اسرائیل کے ہر شہری کے پاس ڈیول نیشنیلٹی ہوتی ہے یعنی ہر اسرائیلی کسی نہ کسی اور ملک کا بھی شہری ہے یعنی کینیڈا، امریکہ، یوکے، فرانس وغیرہ کا۔
تو جب سے جنگ چھڑی ہے ان کے بھی ہوش اڑے اور بہت بڑی تعداد میں تو لوگ بھاگ کھڑے ہوئے اور بوریا بستر سمیٹ کر اپنے اپنے دوسرے ملک چلے گئے۔
صورت حال اب اسرائیل کے کنٹرول سے باہر ہوئی تو اسے پھر باقاعدہ درخواست کرکے اپنے لوگوں کو بلانا پڑا ۔
اور اس بار اس نے کھل کر کہا کہ ہمارے خدا کو لانے کیلئے یہ سب کرنا ضروری ہے۔
یعنی دجال کو آنے کیلئے یہ یہودی اس کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔
اب وہ اپنے لوگوں کو کیوں بلا رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر اسرائیلی شہری کو لازمی جنگی تربیت دی جاتی ہے ۔
یعنی اسکول کالج لائف میں لڑکوں کو چار سال کی اور لڑکیوں کو اڑھائی سال کی جنگی تربیت لازمی دی جاتی ہے۔
پھر بے شک ان میں سے کوئی کسی بھی فیلڈ میں چلا جائے اور کچھ بھی بن جائے مگر جب جب ضرورت ہوگی وہ فوج میں شامل ہوکر جنگ کا حصہ بنیں گے۔
ان کو ریزروسٹ reservist کہا جاتا ہے۔ مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ ان میں سے اکثر تو پہلی بار ہی جنگ کیلئے سامنے آئے ہیں۔
کیونکہ اس سے پہلے تو کبھی انہیں زمینی لڑائی لڑنی ہی نہیں پڑی تھی۔
اور اگر کچھ تھا بھی تو ان کا مقابلہ تو غلیلوں اور پتھروں سے ہوتا تھا جو بے چارے فلسطینی ان کی طرف اچھالتے تھے مگر ان سے ان کا کوئی نقصان تو ہوتا نہیں تھا۔
یعنی انہوں نے کبھی مردانہ وار تو جنگ کی ہی نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک غزہ میں چھ بار حملہ کرنے کے باوجود بھی حماس کے ہاتھوں بری طرح پٹ رہے ہیں اور ہر بار لاشیں اور گاڑیاں اور ٹینک تباہ کروا کر یا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب اسرائیلی فوجی تک اپنی حکومت کو برا بھلا کہہ کر بے دلی سے زمینی جنگ کو ٹالنے کے بات کر رہے ہیں۔
یہودیوں کا غم و غصہ اس قدر شدید ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو کو “ٹویٹ” کرنا پڑ گیا کہ یہ سراسر لوکل انٹیلی جنس ایجنسی شِن بیت کی ناکامی ہے۔جبکہ جزوی طور پر موساد کی بھی ناکامی ہے۔
بارڈر فورس کی بھی ناکامی ہے ۔یہی نتیجہ ہوتا ہے جب انسانی ذہن سے زیادہ ٹیکنالوجی پر انحصار کیا جائے۔
اب اس ٹویٹ نے ایک اور نیا تنازعہ کھڑا کردیا۔ اسرائیلی انٹیلی جنس اور فوج دونوں بھڑک گئے۔
کیونکہ اس طرح تو سارا ملبہ نیتن یاہو ان پر ڈال کر صاف بچ رہا تھا۔
مگر وہ بھول گیا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کسی بھی ملک کی ہو اصل پاور اسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
اسرائیلی آرمی چیف نے جب نیتن یاہو کا دماغ ٹھکانے لگایا تو دنیا نے دیکھا کہ پہلی بار کسی ملک کے وزیر اعظم کو اپنا بیان واپس لینا پڑا اور اسے وہ ٹویٹ ڈیلیٹ کرنا پڑی۔
کیونکہ اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ ایک طرف حماس اور حزب اللہ ہمارے فوجیوں کی درگت بنا رہے ہیں اور دوسری طرف یہ فوج کا مورال ڈاؤن کرنے والا ٹویٹ کردیا تو فوج لڑے گی کیسے؟
ادھر امریکہ نے بار بار اسرائیل کو منع کیا ہے کہ وہ زمینی حملہ نہ کرے۔
کیونکہ انٹیلیجنس رپورٹ صآف بتا رہی ہے کہ حماس قابو سے باہر ہو چکا ہے اور اسرائیلی فوج اس کا کچھ نہیں بگاڑ پائے گی۔
پانچ پانچ سو کلومیٹر طویل سینکڑوں سرنگوں کا جال بچھا ہوا ہے جس کا سوائے حماس کے گوریلوں کے کسی کو نہیں پتہ کہ کونسا راستہ کہاں نکلتا ہے۔
اسی لئے اسرائیلی آرمی چیف بوکھلا کر انٹرنیشنل میڈیا کو بتا رہا ہے کہ حماس کے لوگ گھات لگا کر ہمارے لوگوں کو مارتے ہیں اور غآئب ہو جاتے ہیں۔
یہ بالکل وہی صورت حال ہے جو امریکہ کو افغانستان میں درپیش تھی اور بالآخر اسے وہاں سے چپلیں چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا۔
تو وہ اب اسرائیل کو سمجھا رہے ہیں کچھ ہوش کے ناخن لو۔ ابھی یہ زمینی حملے کا وقت نہیں ہے ۔
تم پٹو گے اور ساتھ ہمیں بھی دنیا بھر میں گندہ کرواؤ گے۔
مگر اب اسرائیل کے پاس پیچھے ہٹنے کاراستہ نہیں ہے۔
وہ بند گلی میں پہنچ چکا ہے۔
آپ اس سے اندازہ لگائیے کہ اس کی عوام چیخ رہی ہے کہ یار بس کردو تم سے نہ ہوپائے گا۔
حماس نے جو مطالبہ کیا ہے کہ ہمارے قیدی چھوڑو اور اپنے لے جاؤ۔ اس پر عمل کرکے جان چھڑواؤ۔
مگر یہ تو پھر ہمیشہ کی ذلت و رسوائی کا سبب بنے گا اسرائیل کیلئے۔
اور دنیا بھر میں تھو تھو ہو جائے گی کہ وہ اپنے قیدی تک نہ چھڑوا سکا اور حماس کے ساتھ ڈیل کر کے معاملہ طے کرنا پڑا جو کہ ایک شرمناک بات ہوگی۔
اس لئے اب وہ کوشش کر رہا ہے کہ یا تو کسی طریقے سے وہ امریکی فوجیوں کے ساتھ ملکر آپریشن کرکے اپنے لوگ چھڑوا لے یا پھر انہیں بھی حماسیوں کے ساتھ ہی مار ڈالے۔
اسی لئے وہ اندھا دھند بمباری کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے چند اغوا شدہ یہودیوں کی تصاویر بھی اپنی عوام کو دکھا کر کہا تھا کہ یہ لوگ حماس نے مار دیئے ہیں۔
مگر حماس نے ان لوگوں کی ویڈیوز جاری کر کے بتایا کہ یہ لوگ ابھی ان کی قید میں ہیں اور زندہ ہیں تو ان لوگوں کے رشتہ دار وغیرہ تو پھٹ پڑے اور خوب لعنتیں دیں کہ تم چھڑوا نہیں پا رہے۔
یعنی اب اسرائیل باولے کتے کی طرح اپنے ہی زخم چاٹ رہا ہے اور بال نوچ رہا ہے کہ یہ کس مصیبت میں پھنس گیا ہے۔
ادھر ایران بار بار دھمکیاں دے رہا ہے اور دعویٰ کر رہا ہے کہ اس کی فوج تیار ہے۔
حال ہی میں اس نے ایمرجنسی فوجی مشقیں کی ہیں۔
جبکہ چائنہ اور روس امریکہ کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ معاملات کو تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیلے گا تو نقصان اٹھائے گا۔
ایک جانب ترکیہ کی عوام بے قابو ہو چکی ہے اور وہ صدر رجب اردوان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ بس بہت ہو گیا اب اسرائیل کو سبق سکھانے کا وقت ہے۔
مگر ترکیہ کیونکہ کہ نیٹو تنظیم کا حصہ ہے اس لئے اسرائیل پر حملے سے پہلے اسے نیٹو کی رکنیت چھوڑنی ہوگی جس کا نتیجہ اس کے خلاف جائے گا اور نیٹو میں شامل چالیس ممالک اس پر حملہ بھی کر سکتے ہیں تو ایسے میں پھر وہ اکیلا ان میں گھر جائے گا۔
کیونکہ کوئی اور مسلم ملک تو ابھی تک کھل کر اس کا ساتھ دینے کی بات کر رہا ہے نہ اس کا امکان ہے۔
اس لئے وہ بھی ابھی شش و پنج میں ہے کہ کیا فیصلہ کیا جائے۔
اسی اثنا میں ایک اور گیم چینجر ملک جاگ گیا ہے۔
میں بات کر رہا ہوں سعودی عرب کی جس نے اپنا موقف اب بالکل واضح کردیا ہے اور امریکہ کو صاف کہا ہے کہ وہ اب اسرائیل کو لگام دے اور جنگ بندی پر قائل کرے ۔
کیونکہ اب اس کی عوام میں بھی حد درجے بے چینی ہے اور پریشر دن بدن بڑھ رہا ہے۔
ایک اور بہت بڑی ڈیویلپمنٹ سامنے آئی جب اردن (جورڈن) نے بھی اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلوا لیا اور مطالبہ کیا ہے کہ یہ خونریزی فی الفور بند کرے۔
ساتھ ہی اس نے اپنی فضائی حدود بھی اسرائیل کیلئے بند کرنے کا اشارہ کردیا ہے۔
اب معاملہ یہ ہے کہ اس وقت اسرائیل کافی حد تک نرغے میں آچکا ہے اور اس کو شرمندگی، ہزیمت، ناکامیاں اور نفرت کا سامنا ہے۔
نہ صرف اپنے عوام کیجانب سے بلکہ اب تو دنیا بھر سے بھی اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
یکم نومبر یعنی کل امریکی پارلیمنٹ کا سیشن بار بار رکتا رہا کیونکہ ان کے سینیٹرز بھی غزہ پر اسرائیلی حملوں اور اسکے نتیجے میں ہونے والی بچوں عورتوں اور مردوں کی شہادت پر آواز اٹھا رہے تھے۔
ایک کو باہر نکالتے تھے تو دوسرا بول پڑتا تھا۔
وہاں لوگوں نے اپنے بازوؤں پر فلسطین کے حق میں تحریریں لکھ رکھی تھیں۔
یعنی خود امریکہ میں بھی شدید غم و غصہ ہے اور اسی لئے اب امریکہ و اسرائیل دونوں پریشان ہیں کہ اب اس مسئلے سے کیسے باعزت نکلا جائے۔
اس وقت تک کی صورت حال تو یہی بتا رہی ہے کہ اگر چند ایک اسلامی ممالک یک جان ہو کر میدان میں آجائیں تو اس بار ہمیشہ کیلئے اسرائیل کا نام و نشان مٹایا جا سکتا ہے ۔
کیونکہ اس وقت وہ گھر چکا ہے اور ہر محاذ پر اس کی طبیعت سے پٹائی ہو رہی ہے۔
تو یہی وقت ہے آخری وار کا۔
معاشی طور پر بھی اس بار اسرائیل کو بڑے دھچکے لگے ہیں۔ اس کی کرنسی “شکل” گیارہ فیصد تک گری ہے۔ تجارت خطرے میں ہے۔
جنگ چھیڑنا آسان ہے اسے بھگتنا بہت مشکل ۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ 250 ملین ڈالر کا خرچ آرہا ہے اس جنگ پر۔
یعنی ماہانہ کھربوں ڈالر آگ میں جھونک رہا ہے اسرائیل۔
جنگ جیت بھی جاتا ہے تو اس کی اپنی چیخیں نہیں رکنے والی۔
انفنٹری، ٹینکس، بکتر بند، ہیلی کاپٹرز، فائٹر پلینز وغیرہ سب اسرائیل کی عوام کا خون نچوڑ کر خریدے گئے تھے مگر اب حماس کے ہاتھوں تباہ و برباد ہو کر اس کی معیشت کی کمر توڑ رہے ہیں۔
اگر یہ جنگ جاری رہتی ہے جیسے کہ نیتن یاہو نے کہا ہے کہ یہ تو ابھی لمبی چلے گی۔
اس بیان پر اسرائیلی عوام نے شدید تنقید کی ہے کہ اس صورت میں تو سب کچھ برباد ہوجائے گا۔
کاروبار، تجارت، معیشت، طاقت ، رعب ، عیاشی سب قصہ پارینہ ہوجائیں گے۔
یہ وقت اسرائیل میں سیاحت کے عروج کا وقت ہوتا ہے مگر ان سیاحتی مقامات پر اب فوج نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور بری طرح نقصان ہو رہا ہے۔
ادھر اس بار پوری دنیا میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی جو لہر اٹھی ہے اس نے بھی اسے ہلا کر رکھ دیا ہے۔
دنیا بھر میں اس کی فرنچائزز خالی پڑی منہ چڑا رہی ہیں۔
یہاں پاکستان میں بھی اب نوبت یہاں تک آگئی کہ اسے اپنی پراڈکٹس کے ساتھ چاول اور دیگر چیزیں لالچ دینے کیلئے لگانی پڑ رہی ہیں۔
مگر اس بار عوام نے بھی قسم کھا لی ہے۔ ہر طرح سے فلسطینی شہادتوں پر غصہ اور تفرت نظر آرہی ہے۔
دوسری جانب پاکستانی میڈیا کی بات کریں تو وہی ازلی منافقت صآف دکھائی دیتی ہے۔
عوام بائیکاٹ کر رہے ہیں اور میڈیا میچز اور دیگر پروگرامز میں دھڑا دھڑ اسرائیلی مصنوعات کے اشتہارات دکھا رہا ہے۔
یعنی ایک طرف رونا دھونا مچا رکھا ہے دوسری جانب مال بھی بنا رہے ہیں یہ منافق۔
اور اشتہارات بھی ایسے واہیات قسم کے جن کا مقصد صرف بے حیائی کو فروغ دینا ہے۔
مادر پدر آزاد نوجوانوں کے ڈانس اور بے باکیوں کے علاوہ کچھ نہیں دکھا رہے۔
عوام کو چاہئے ان کا بھی بائیکاٹ کریں۔
اللہ سے دعا ہے کہ مسلم حکمرانوں کو جذبہ جہاد عطا کرے اور اسرائیل کے خلاف کھڑے ہونے کی ہمت و جرات عطا کرے۔جنگ کو جلد سے جلد ختم ہو ۔
آخری بات یہ کہ میں نے اپنے اس کالم میں جنگ کے ضمن میں پاکستان کا ذکر نہیں کیا تو وہ اس لئے کہ اس بار پاکستان کو بین الاقوامی معاملات میں نظر انداز ہی کیا جا رہا ہے جس کی وجہ بھی ہے۔ اور سب جانتے ہیں ۔
کالم کے بارے میں اپنی رائے دیجئے گا تاکہ آئندہ بھی اس حوالے سے لکھنے کا حوصلہ ملے ۔ پڑھنے کیلئے بہت شکریہ ۔
اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز - ڈاؤن لوڈ کیجئے
ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟ We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff ! Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household Items | Buy from Amazon |
شہزاد بھائی ماشاءاللہ بڑا زبردست اپ کا تجزیہ ہے اور ماشاءاللہ بہت زبردست اپ نے کیا ہے تجزیہ اور بالکل اصل حقائق جو ہے وہ اپ نے سامنے رکھے ہیں تو بھائی جان اپ کو بہت بہت مبارک ہو اتنے بہترین تجزیہ کرنے پر