لاحاصل (افسانہ)
از : افشین نسیم
طاہر نے اپنے بیڈروم میں قدم رکھا ۔
یہ وہی کمرہ تھا جس میں وہ ایک مدت سے تنہا رہ رہا تھا ۔
ماں باپ کو بچپن میں گنوانے کے بعد دادا کے ساتھ ایک عرصہ تک اس گھر میں اکیلے ہی رہے تھے دونوں۔
پھر ایک دن دادا بھی سڑک پر پھسل کر سر میں گہری چوٹ آنے سے اسے دنیا بھر میں بالکل ہی تنہا چھوڑ گئے تھے ۔
لیکن آج ،، آج اس کمرے کی دھج ہی نرالی تھی اس کے بچپن کے جگری دوست تنویر نے بہت محنت اور محبت سے اس کمرے کو سجایا تھا ۔
نیا رنگ و روغن ،، گلابی دیواروں کے ساتھ گلابی کارپیٹ ،، گلابی رنگ کے پردے ، اور کریم اور گولڈن امتزاج کا فرنیچر ،، گلاب کے پھولوں کی لڑیاں جو بیڈ کے چاروں اطراف لٹک رہی تھی ۔
اور بہترین خوشبو سے معطر اس کا حجلہ عروسی آراستہ کیا گیا تھا ۔
کمرے کے وسط میں بیڈ پر اسکی محبت ثانیہ ، اس خوبصورت ترین منظر کو مکمل کرتے ہوئے اس کے دل میں اتر گئی تھی ۔
وہ آگے بڑھا اور کمرے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا ۔
جیب میں ہاتھ ڈال کر اس نے اپنی ماں کی ہیرے کی انگوٹھی نکالی اور سرشاری کے عالم میں بیڈ کی طرف قدم بڑھائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ طاہر ۔۔طاہر۔یار باہر بھی آجا میری امی اور بھابھی بھی آئی ہوئی ہیں ۔ ناشتہ کرلیں ۔ تنویر نے کوئی تیسری بار دروازہ پیٹتے ہوئے کہا تھا
دروازہ کھلا اور طاہر اور ثانیہ بے حد خوش آور سرشار کمرے سے باہر نکل آئے ۔
ثانیہ کے بھی ماں باپ نہیں تھے ۔
اسکی بڑی بہن اور بہنوئی موجود تھے سب نے ناشتہ کیا اور ثانیہ انکے ساتھ چلی گئی ۔
طاہر ، تنویر اور اس کی امی اور بھابھی کا شکریہ ادا کرنے لگا کیونکہ انہوں نے ہی اسکی شادی میں مدد کی تھی رشتہ لے کر جانے سے بارات لے جانے تک ۔۔ دوسرے دن ولیمہ بخیر و خوبی انجام پاگیا تھا ۔
کچھ دن ناران کاغان گھومنے کے بعد طاہر اپنے آفس جانے لگا ۔
پہلے ثانیہ بھی اسکول میں ٹیچر تھی لیکن اب طاہر کے مطابق ان دونوں کی زندگی کے لیے اسکا کمانا کافی تھا ۔
وقت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے کی نعمت سے بھی نوازا اور فراغی اور دولت میں بھی اضافہ ہوا تھا ۔
طاہر اس کو ثانیہ کے نصیب کی برکت کہتا تھا ۔
طاہر کی شادی کے کچھ عرصے بعد ہی تنویر کی شادی اس کی امی کی پسند سے ایک گھریلو مگر عام سی شکل وصورت والی سلیقہ مند لڑکی سے ہو گئی تھی ۔
لیکن چار سال بعد بھی وہ اولاد سے محروم تھے ۔ ثانیہ دوبارہ امید سے تھی ۔
لیکن دولت کی فراوانی نے اب اسکے رنگ ڈھنگ بدل دیئے تھے ۔
لیکن بھلا طاہر کو اس بات کا احساس کیسے ہوتا وہ ہی تو اسکی کل کائنات تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طاہر ۔۔یار کہیں باہر ملتے ہیں” بہت دن بعد تنویر کی کال طاہر نے ریسیو کی اور فورآ ہی ہاں کر دی”
ہاں یار کہو کیسے یاد کیا بھائی کو ؟ ” طاہر نے اس کے بلانے پر ریسٹورنٹ میں میز پر بیٹھ کر کہا”
ساتھ ہی ویٹر کو ہاتھ سے اشارہ کیا ۔۔
کچھ نہیں بس دوستوں سے ہی انسان دل کی باتیں بلکہ بھڑاس نکال سکتا ہے اس لیے تمھیں یاد کیا ہے” تنویر نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔۔
طاہر کو ریسٹورنٹ کے خواب ناک اور خوبصورت ماحول میں تنویر کی مسکراہٹ اور لہجہ کچھ زیادہ ہی محسوس ہوا
میں بھائی ہوں تمھارا تنویر یار جو کچھ بھی ہے کھل کر کہو” ، طاہر نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر دلاسہ دینے والے انداز میں کہا
تنویر نے ویران آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا اور پھر رشک اور حسد سے پر ٹھندی سانس لی
طاہر حالات کی آسودگی کی وجہ سے بہت خوش آور آسودہ حال نظر آرہا تھا ۔۔
چھوڑ تو بتا بھابھی اور بچے کیسے ہیں ؟؟ ” طاہر نے محسوس نہیں کیا کہ اسکے لہجے میں کچھ بہت الگ ہے ۔۔
” ماشاءاللہ بھئی تمھاری بھابھی اور بھتیجا بھتیجی سب خیریت سے ہیں ۔۔ تم تو راستہ ہی بھول گئے ہو گھر کا ۔ اب آتے کیوں نہیں ہو ” طاہر نے پیار بھرے انداز میں شکوہ کیا تھا۔۔ وہ تنویر کی بدلتی ہوئی کیفیت سے بے خبر تھا
اتنے میں ویٹر نے پر تکلف ڈنر میز پر رکھ دیا
کھانا شروع کر نے سے پہلے ہی اچانک طاہر کو خیال آیا کہ وہ ثانیہ کو فون کر دے اس نے جیب سے موبائل فون نکالا تو اس کی بیٹری ختم تھی ۔
طاہر نے تنویر سے کہا کہ وہ ثانیہ کو بتانا چاہتا ہے وہ کھانا کھا کر آئے گا ۔
ابے یار میرے موبائل فون میں بیلنس نہیں ہے ۔۔اور تو اتنا بزدل کیسے ہو گیا کہ میرے ساتھ کھانے کی اطلاع بھی بیوی کو دے گا”
تنویر کا انداز اس قدر استہزاء آمیز تھا کہ طاہر چپ کر گیا ۔۔
وہ دونوں رات بہت دیر تک اپنی پرانی جگہوں پر گھومتے اور پرانے دوستوں سے ملتے رہے ۔۔
تقریباً ایک بجے جب طاہر گھر پہنچا تو اس کے خیال میں ثانیہ سوگئی ہوگی لیکن وہ جاگ رہی تھی ۔۔اور بہت پریشان بھی تھی ۔۔
” کہاں رہ گئے تھے آپ میں نے کہاں کہاں فون نہیں کیا تھا ۔
اس نے پریشانی سے کہا تو طاہر مسکرا دیا اور اس کو بانہوں میں بھر کر پوچھا
بچے سو گئے ہیں کیا” ثانیہ سب بھول گئی تھی”
یہ بھی کہ اس نے سب سے پہلے تنویر کو فون کیا تھا اور اس نے قطعی لاعلمی کا اظہار کیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم میری زندگی میں عذاب بن کر نازل ہوئی ہو ۔۔ تمھاری بد قسمتی سے میں نا کمانے کا رہا ہوں ۔۔ نا تو نے مجھے اولاد ہی دی ہے ۔۔ منحوس عورت نکل جا میری زندگی سے”” تنویر کی چنگھاڑتی ہوئی آواز نے اس کے ہوش اڑادئیے تھے ۔۔
” چل آج میں تجھے تیرے ماں باپ کے گھر پھینک کر ہی آؤں گا”” وہ آگے بڑھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے باہر لے جانے لگا ۔ اماں نے روکا تو وہ ان پر الٹ پڑا تھا پھر بلقیس نے برقع پہن کر اور کچھ کپڑے بیگ میں ڈال کر باہر آکر اپنی ساس کو منع کیا اور کہا ۔۔
رہنے دیں امی میں نے تنویر کو دیا ہی کیا ہے سوائے دکھوں کے یہ مجھے چھوڑ آئیں ” وہ کہتے ہوئے دروازے کے باہر چلی گئی اور تنویر بکتا جھکتا اس کے پیچھے چلا گیا ۔۔
غصے میں بائیک چلاتے ہوئے اچانک سامنے سے آتی ایک لینڈرو سے اتر کر آگے بڑھتی ہوئی دیہاتی عورت بائیک کی زد میں آگئی ۔۔
حادثہ تو خطرناک نہیں تھا لیکن وہ عورت رحیم داد مزارعے کی بیوی تھی جو دوسرے بچے کی آپریشن سے پیدائش کے لیے شہر آئی ہوئی تھی بائیک کی ٹکر سے وہ کچھ اس طرح گری کے جابحق ہی ہوگئی ۔۔
رحیم داد نے تنویر کو پولیس کے حوالے کر دیا ۔۔
بلقیس نے اپنے باپ بھائیوں سے مدد مانگی اور پھر کیس چل گیا ۔۔
بہر حال رحیم داد نے پچیس لاکھ روپیے خون بہا کے مطالبے پر تنویر کی جان بخشی کا پروانہ دے دیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
تنویر پولیس کی لسٹ پر آگیا تھا اس لیے اس کی نوکری چھوٹ گئی تھی ۔۔
بلقیس نے کپڑے سیئے اور سلائی بنائی کا کام شروع کر دیا تھا۔۔
سا تھ ہی اپنا زیور بیچ کر اس نے گھر کے باہر کے حصے میں تنویر کو کریانے کی دوکان کھل وادی تھی ۔۔ انہیں حالات میں فضہ انکی زندگی میں بہار بن کر داخل ہوئی تو تنویر کو اپنے تمام دوستوں کو اپنی خوشی میں شریک کرنے کا خیال آیا تھا ۔۔
اس نے بلقیس سےذکر کیا تو وہ چپ سی ہو گئی۔۔ تنویر جو اسکے سلیقے اور وفا کا گرویدہ ہو گیا تھا اس کو فوراً محسوس ہوا ۔ اسکے اصرار پر بلیقس نے بتایا کہ
” میں سب سے پہلے طاہر بھائی اور ثانیہ کے گھر مدد کے لیے گئی تھی ۔۔ ثانیہ نے میری بہت بے عزتی کی تھی اور مجھے اور اماں کو چلے جانے کو کہا تھا ۔
اور یہی نہیں اس نے مجھے بدنصیب بھی کہا تھا ۔۔ لیکن اس وقت مجبوری تھی گھر سے ہم واپس آگئے تھے ۔۔ طاہر بھائی دوسرے دن دس لاکھ کا چیک دے گئے تھے ۔۔ میں نے واپس کرنا چاہا تو ہاتھ جوڑ کر رونے لگے تھے ۔۔ مجبوراً میں نے رکھ لیا تھا آپکی جان بخشی کے لیے ضروری تھا لیکن اب میں انکی وہ رقم لوٹانے کے لیے بی سی ڈال کر انتظار کر رہی ہوں ۔۔” بلقیس خاموش ہو گئی تھی
” اور تنویر سوچ رہا تھا کہ اس کا دوست بدل گیا ہے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طاہر نے ثانیہ کو سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی لیکن وہ اپنے بچوں کو لے کر کینیڈا اپنی بہن کے پاس چلی گئی تھی ۔۔ طاہر کی بے تحاشا محبت اعتبار اور آزادی نے اس کو اتنا خود سر کر دیا تھا کہ وہ اب کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتی تھی ۔۔ اسکا مطالبہ تھا کہ طاہر بھی اب کینیڈا چلے اس ملک میں کچھ نہیں رکھا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طاہر نے گھر میں داخل ہو کر خالی گھر کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ اس نے ز ندگی سے کیا پایا ہے ۔۔ کچھ حاصل بھی کیا ہے یا لاحاصل رشتہ اور بے مقصد زندگی گزار آیا ہے
ختم شد
افشین نسیم
کراچی پاکستان
اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز - ڈاؤن لوڈ کیجئے
ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟ We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff ! Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household Items | Buy from Amazon |