ایک خصوصی انٹرویو : اشتیاق احمد کی انسپکٹر جمشید سیریز کے کردار کے علاوہ اردو ادب کے فروغ میں عملی طور پر نظر آنے والا نمایاں نام
An Exclusive Interview with a real character from Inspector Jamshed Series by Ishtiaq Ahmed
انٹرویو : شہزاد بشیر (ویب پبلشر کتاب دوست ڈاٹ کوم)
اشتیاق احمد کے تمام چاہنے والوں کے لئے ایک بار پھر کتاب دوست ایک بڑے سرپرائز کے ساتھ آپ کی ملاقات کروانے جا رہے ہیں ایک ایسی شخصیت سے جنھیں اشتیاق احمد کے مداحوں سے متعارف کروانے کے لئے صرف ان کا نام لینا ہی کافی ہے۔ گویا یہ شخصیت بجا طور پر صحیح معنوں میں اشتیاق احمد کے حوالے سے “نام ہی کافی ہے” کی ٹیگ لائن کے حقدار ہیں۔
مگر ٹھہریئے ! اگر آپ سمجھتے ہیں کہ صرف اس شناخت کے علاوہ موصوف کی کوئی اور وجہ شہرت نہیں ہے تو آپ کی معلومات ان کے بارے میں ناکافی ہیں۔ موجودہ دور میں مصائب و آلام کے باوجود اردو ادب کے فروغ میں جو کردار یہ شخصیت ادا کرتی آئی ہے اور کر رہی ہے اس کی ادائیگی کا موقع کم بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
اگر آپ کو یہ تمہید کچھ طویل ہوتی محسوس ہو تو مجھے معاف فرمائیے گا لیکن میں مجبور ہوں کیونکہ اس کے بغیر میں نہ صرف خود بھی ان کے تعارف میں تشنگی سی محسوس کروں گا بلکہ پڑھنے والے بھی وہ تجسسس کا وہ مزہ نہ لے پائینگے جو آگے چل کر اس انٹرویومیں پڑھنے کو ملنے والا ہے۔
اس ضمن میں ایک سوال ذہن میں کئی بار گونجا اور جب بھی یہ سوال ذہن میں آیا ایک عجیب سی گو مگو کی سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔
تو سوال سنئے ! بلکہ پڑھئے اور بتائیے یہ سوال کبھی آپ کے بھی ذہن کے نہال خانوں میں دستک دے چکا ہے یا نہیں۔
سوال ہے کہ : کیا ہوتا اگر آپ کے محبوب مصنف اشتیاق احمد جوسن 2000 کے بعد ناول لکھنا بند کر چکے تھے، مزید ناول نہ لکھتے اور جتنی ان کے ناولوں کی کل تعداد ہے آپ کو اس کے آدھے ہی ناول پرھنے کو ملتے ؟
اس کا سیدھا سا جواب کسی عام انسان کی طرف سے یہ آسکتا ہے کہ جی کچھ نہیں ہوتا، کوئی آسمان نہیں گر جاتا، قیامت نہیں آجاتی، دنیا نہیں ہل جاتی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر خاص انسان یعنی کہ اشتیاق احمد سے اور ان کے ناولوں سے جنون کی حد تک محبت کرنے والے قارئین سےپوچھئے تو اس کا جواب اتنا سادہ ، آسان، مختصر اور عامیانہ نہیں ہو سکتا
اس سوال کا جواب کیوں اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے یہ آپ کو آگے چل کر انٹرویو کے دوران معلوم ہوگا۔ اس وقت جن لوگوں نے اس کا وہی جواب سوچا ہوگا جو ایک عام انسان سوچ سکتا ہے وہ بغلیں جھانکنے، کنی کترانے، نظریں جھکانے اور جان چھڑانے کی کوشش کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنوں کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا بھولتے جا رہے ہیں۔ ہر چیز میں کیڑے نکالنا اور تنقید کرنا اور مادیت پسندی کے لبادے میں چھپنا اب عام رویہ بنتا جا رہا ہے۔ یاد رکھئے کسی ایسے انسان کی جس کو اللہ رب العزت کی جانب سے عزت و توقیر ملی ہو اس کی خدمات کو عامیانہ پن کے ساتھ کوئی مقام نہ دینا اور ڈھٹائی سے اپنی بات پر ڈٹے رہنا خدا سے بغض رکھنے کے مترادف ہے۔
چلئے اب ہم اس مرحلے پر آچکے ہیں جہاں آپ یقیناََ جاننا چاہ رہے ہونگے کہ آخر کونسی شخصیت ہے جن کے انٹرویو سے پہلے اتنی تمہید باندھی گئی ہے۔ تو ملئے اشتیاق احمد کے بے حد قریب رہنے والے، بچپن سے ان کے ناول پڑھنے ان پر مثبت تنقید کرنے، مشورے بھیجنے، ان سے ملاقات کے لئے طویل سفر کر کے لاہور پہنچنے، ان کے ایک کردار کی چلتی پھرتی تصویر بننے، ان کی اپنے شہر میں بارہا دفعہ میزبانی کرنے، ان کے ناول لکھنا بند کردینے کے بعد جھنگ پہنچ کر دھرنا دینے، ان کو سولہ گھنٹے بعد دوبارہ لکھنے پر راضی کرنے اور پھر ان کے اور صرف ان کے ناولوں کو شائع کرنے کی غرض سے ایک پبلیکیشنز کا ادارہ قائم کرنے پھر ان کی زندگی کے کئی سال اور بعد از انتقال ان کے قارئین کو ان کے ناول شائع کر کے فراہم کرنے اور ان کی یادوں کو زندہ رکھنے والے۔۔اور ۔۔اور ۔۔اور۔
اب اور میں کیا عرض کروں یہ تو شاید چند فیصد بھی نہیں مگر خیر باقی آپ کے ذمے رہا۔
تو جناب ملئے اشتیاق احمد کے سب سے قریبی دوست، ساتھی، کاروباری کردار، قاری، میزبان کے علاوہ اور بھی بہت کچھ
فاروق احمد صاحب سےجو بانی ہیں اٹلانٹس پبلیکیشنز کے
اور یہ وہ پرائمری ادارہ ہے جو اشتیاق احمد صاحب کی مرضی سے صرف ان کے ناولوں کی اشاعت کے لئے معرضِ وجود میں آیا
جن کے بارے میں مزید کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں اس لئے آپ کو وہ بتاتا ہوں جو وجہہ اپنے ذوق کی شوق کی اور تجسس کی تسکین کے لئے بمعہ بہت سے قارئین کے سوالات کے مجھے ان تک لے گئی اور پھر کیا باتیں ہوئیں وہ پیشِ خدمت ہیں۔
فاروق احمد سے رابطے کا احوال
راقم کے گزشتہ انٹرویو جناب علی وصی زیدی عرف شتوکے ساتھ (انٹرویو پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے) میں اس اتفاق کا ذکر آ چکا ہے جس کے ذریعے ان سے اتفاقیہ گفت و شنید کا موقع ملا اور جناب فاروق احمد صاحب کا کئی جگہ اور کئی دفعہ بہت اہم حوالوں سے ذکر آیا اور نہ صرف میں نے اپنے طور پر بلکہ اور انٹرویو کو پڑھ کر بعد میں کئی اور لوگوں نے یہ اصرار کیا کہ جناب فاروق احمد صاحب کا بھی انٹرویو کر کے کتاب دوست ڈاٹ کوم کے توسط سے اشتیاق احمد کے مداحوں کو ایک اور تحفہ دیجئے۔
میرا بس چلتا تو فاروق احمد صاحب سے اگلے روز ہی ملنے پہنچ جاتا لیکن علی وصی زیدی صاحب کے انٹرویو کے بارے میں کافی دن تک لوگ پڑھتے رہے اور اپنی رائے دیتے رہے تھے۔ دوسرا یہ کہ جناب فاروق صاحب ایک مصروف شخصیت ہیں تو ٖظاہر ہے پہلے ان سے وقت لینا اور پھر اس وقت کے مطابق ان سے ملنا ہی بہتر ہوتا۔ تیسری بات یہ تھی جناب علی وصی زیدی صاحب کی پاکستان آمد متوقع تھی اور یہ طے تھا کہ وہ بھی ملاقات کے دوران موجود ہونگے لیکن ان کی گوناگوں مصروفیات کی بنا پر جب طے شدہ وقت پر ان کی آمد کے آثار نظر نہ آئے تو میں نے خود ہی فاروق احمد صاھب کو فون کر لیا۔ یہ ان سے پہلی گفتگو تھی جو 19 فروری 2021 کو ہوئی اور اس مختصر سی گفتگو میں جب میں نے اپنا تعارف کتاب دوست ڈاٹ کوم کے حوالے سے کروایا تو وہ فوراََ بولے کہ “جی ہاں میں نے دیکھی ہے یہ ویب سائٹ اور علی بھائی کا انٹرویو بھی پڑھا ہے” . یہ میرے لئے باعثِ فخرو حوصلہ بات تھی کہ اب کتاب دوست ڈاٹ کوم اشتیاق احمد کے حوالے سے سب سے معتبر شخصیت کے علم میں بھی آ چکی تھی۔
اس ٹیلیفونک گفتگو میں پانچ مارچ کا دن طے پایا اور بعد نمازِ جمعہ ان کے دفتر میں ملاقات طے ہوئی۔ میرے ایک دیرینہ دوست “منظور احمد صاحب” جو ایک اسکول کے پرنسپل بھی ہیں وہ بھی فاروق احمد صاحب سے ملنے کے خواہشمند تھے مگر عین روانگی کے وقت انہیں سٹی اسٹیشن جانا پڑا تو یوں میں اپنے فرزند “لاریب شہزاد” کے ساتھ ان سے ملاقات کیلئے پہنچا۔ پتہ تلاش کرنے میں ذرا دشواری ہوئی تو دیکھا کہ فاروق احمد صاحب اپنے دفتر کے باہر موجود ہیں انہوں نے ہماری کار پارک کروائی اور ہمیں اپنے دفتر میں گرمجوشی سے خوش آمدید کہا۔
ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ حال احوال پوچھا اور پھر جو گفتگو کا سلسلہ چلا تو آپ یہ جان کر حیران ہونگے کہ میں تقریباََ ساڑھے تین بجے ان کے پاس پہنچا تھا اور اندازہ تھا کہ پانچ بجے تک یعنی ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ملاقات ختم ہو جائے گی۔ مگر جب میں ان سے مصافحہ کر کے باہر نکلا تو مغر ب ہو چکی تھی۔ سورج غروب ہونے کو تھا اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی سنیما ہال سے بہت ہی دلچسپ فلم دیکھ کر نکلا ہوں یعنی وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا کیونکہ یہ گفتگو تقریباََ تین گھنٹے سے زائد جاری رہی تھی اس دوران دو تین بار ایسا لگا کہ اب وقتِ رخصت ہے لیکن پھر کوئی نہ کوئی ایسی بات نکلی جس میں وقت گویا رکا رکا سا محسوس ہوا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ جتنی اپنائیت سے، خلوص سے، پیار سے اور انہوں نے ملاقات کا شرف بخشا اور ہر رنگ میں ہر مزاج میں ہمیں ہمارے اصل مقصد سے متعلق معلومات فراہم کیں صرف خیالی طور پر نہیں بلکہ تجرباتی طور پر بھی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جیسا سنا تھا اس سے کہیں بڑھ کر فاروق احمد صاحب کو پایا۔ اور اب سمجھ میں آیا کہ اشتیاق احمد صاحب ان کے مداح کیوں تھے۔ جی ہاں صحیح پڑھا ہے آپ نے وہ فاروق صاحب کے مداح تھے اور کئی حوالوں سے تھے۔
میں تقریباََ بیس سے زائد سوالات ترتیب دے کر گیا تھا مگر صاحب کہاں کی ترتیب اور کیا انٹرویو، وہاں تو ایسا لگا جیسے فاروق صاحب اپنے کسی بہت ہی عزیز دوست سے اپنی زندگی کی بہترین یادیں شیئر کر رہے ہیں۔ سوالات کی ترتیب بھلا کہاں یاد رہتی سب کچھ گڈ مڈ ہو گیا اور وقت کے دھارے میں بہتے بہتے اور یادوں کے دوش پر اڑتے کبھی ماضی ، کبھی حال، پھر ماضی پھر حال اور کچھ مستقبل کے جھروکوں سے مناظر دیکھتے رہے۔ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔
مجھے تو خود یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے نہ جانے کب سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ اور اس نہج تک لانے میں ظاہر ہے ہمارے میزبان کا ہی کمال تھا۔ یہ محسوس ہی نہ ہونے دیا کہ پہلی ملاقات ہے۔ اپنے پیشہ ورانہ زندگی کے آغاز سے اس دن تک میں نے سینکڑوں انٹرویوز کئے بھی تھے اور دئے بھی تھے مختلف حوالوں سے یعنی کبھی ملازمت، کبھی کاروبار، کبھی خدمات، کبھی خریدوفروخت کے انٹرویوزمگر سچی بات ہے اس دفعہ کا معاملہ سب سے الگ اور انوکھا رہا۔
An Exclusive Interview with “Farooq Ahmed“
A Real Character of Farooq from Inspector Jamshed Series by Ishtiaq Ahmed
& Founder of “Atlantis Publications“
SHAHZAD BASHIR | FAROOQ AHMED |
Founder of KitabDost.com | Founder of Atlantis Publications |
!فاروق احمد سے گفتگو
شہزاد بشیر : السلام و علیکم فاروق بھائی ! سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ نے وقت دیا اس میٹنگ کیلئے۔ میں ذاتی طور پر آپ سے ملنے کا خواہشمند تھا پھر لوگوں کی بھی فرمائش تھی کہ آپ کے خیالات اور اشتیاق صاحب کی باتیں پڑھنے کو ملیں۔
فاروق احمد (مسکراتے ہوئے) : وعلیکم السلام ۔ آپ کا بھی بہت شکریہ آپ نے آنے کی زحمت کی۔ میں نے علی وصی (شتو) کا انٹرویو پڑھا تھا آپ کی ویب سائٹ پر اور انہوں نے بھی آپ کا ذکر کیا تھا تو میں بھی چاہتا تھا کہ ملاقات ہو جائے۔
شہزاد بشیر : فاروق بھائی میرے خیال میں تو ایسا کوئی بھی شخص نہیں ہوگا جو اشتیاق احمد کے حوالے سے آپ کا نام نہ جانتا ہو آپ اور اشتیاق احمد گویا ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اب بھی جبکہ وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔آمین
فاروق احمد : جی بس اللہ کا شکر ہے کہ اتنی بڑی اور مشہور ہستی کے ساتھ وقت گزارنے اور ان کا حسبِ توفیق ساتھ نباہنے کی کوشش کی اور اللہ نے عزت دی۔
شہزاد بشیر : ایک اور بہت بڑی وجہ تھی جس کے لئے میں نہ صرف خود بلکہ میری ویب سائٹ کتاب دوست ڈاٹ کوم کے بہت سے سبسکرائبرز اور یوزرز کی بھی یہ خواہش تھی اور میں ذاتی طور پر حیران بھی تھا کہ آپ کہاں کہاں سے کتابوں کے گویا گمشدہ خزانے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکال لاتے ہیں اور انہیں شائع کرکے عوام کو مطالعے کی جانب راغب کرتے ہیں۔ یہ برسوں پرانے کتابوں کے گمشدہ، بھولے بسرے، نامعلوم خزانے آپ جس طرح گویا دریافت کر کے لوگوں کو ان سے از سرِ نو روشناس کر وا رہے ہیں یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا کارنامہ اور اردو ادب کی خدمت ہے۔
فاروق احمد : جی بس یوں کہہ لیں کہ کتابوں کا عشق تو ہے ہی، ساتھ ہی آج کے جدید دور میں نئی نسل کو مطالعے کی جانب واپس لانے کی ادنیٰ سی کوششیں کرتا رہتا ہوں اور اس میں بہت سے اور دوست احباب بھی شامل ہیں۔
شہزاد بشیر : جی یہ بہت اعلیٰ خدمت ہے معاشرے کی۔ اچھا آپ نے اشتیاق احمد کے ناول کب پڑھنے شروع کئے ؟
فاروق احمد : میں نے 1974 سے ان کے ناول پڑھنا شروع کئے اور پہلا ناول تھا “ان کے کارنامے“۔
شہزاد بشیر: اوہ۔۔”ان کے کارنامے” 1974 میں فیروز سنز سے شائع ہوا تھا اور یہ اشتیاق احمد کا چوتھا ناول تھا۔ یعنی آپ تو ابتدائی قاری ہیں ان کے۔
فاروق احمد : جی بالکل ان کے ابتدائی ناولوں سے ہی ان کا فین تھا۔
شہزاد بشیر : پہلی ملاقات اشتیاق احمد سے کب ہوئی ؟
فاروق احمد : دراصل ان سے ایک قلمی تعلق تو پرانا تھا۔ یعنی خطوط کے ذریعے سے کیونکہ 1977 سے میں انہیں خط لکھا کرتا تھا۔ پہلی
ملاقات 3 جنوری 1980 میں ہوئی جب ہم وہاں لاہور ان سے ملنے گئے۔ اس وقت وہ کرشن نگر لاہور میں مقیم تھے۔
دوسری ملاقات جب وہ مئی 1980 میں اکیلے کراچی آئے تب ہوئی تھی۔ پھر وہ 1981 میں دو بار کراچی آئے. اصل میں ان کے والد گرامی مشتاق احمد حج پر جا رہے تھے تو اس وقت کراچی کی بندرگاہ سے “سفینہ عرب اور سفینہ عابد” جہاز حجاج کو لے کر جایا کرتے تھے تو ان کے والد اور وہ ہمارے ہاں ٹھہرے۔ پھر تین مہینے بعد جب وہ واپس آئے تو اشتیاق صاحب والد کو لینے دوبارہ آئے۔ اور پھر 1982 میں جب وہ خود حج پر گئے تھے تو تب بھی ہمارے ہاں سے ہی روانہ ہوئے تھے۔
شہزاد بشیر : آپ کے دوستوں سے بھی تبھی ملاقات ہوئی ؟ میرا مطلب علی وصی اور شعیب صاحب سے ہے۔
فاروق احمد : جی ہاں علی وصی عرف شتو اور شعیب عرف مانٹو سے بھی ان کی دوستی ہو گئی اور پھر بعد میں ان دونوں کو انہوں نے اپنے ناولوں میں بھی پیش کیا۔ “تیسرا آدمی، چوٹ پر چوٹ اور پھر ملاشا کا زلزلہ جو دوسرا خاص نمبر تھا اس میں ان دونوں کو شہید ہوتا بتایا گیا”۔ ہم سب اشتیاق صاحب کو سمندر پر پکنک کیلئے بھی لے گئے انہیں خوب گھمایا پھرایا کرتے تھے۔ حیدری پر آئس کریم کھلانے لے جاتے تھے۔ مطلب بہت انجوائے کیا جب بھی وہ آئے۔
ہوا کچھ یوں کہ ان کا ایک ناول تھا”الہ دین کا چراغ اور ہم“۔ اس میں اشتیاق احمد کا ایڈریس مجھے نظر آگیا تو میں نے ایک خط انہیں لکھ دیا۔ اور حیرانی کی بات یہ کہ صرف پانچ دن بعد اس خط کا جواب بھی آگیا تو ہم تو خوب خوشی سے اچھلنے لگے کہ اتنے بڑے مصنف نے ایک گیارہ سال کے بچے کو خط لکھا۔ انہوں نے کہا کہ خط نہیں پوسٹ کارڈ بھیجا کرو وہ سستا پڑتا ہے اس زمانے کے حساب سے یہی تھا۔ تو بہر حال میں نے ان سے ان کی ایک تصویر اور ناول “پیکٹ کا راز” مانگا تو انہوں نے وہ مجھے بھیج دیا۔ یعنی اتنا خیال کرنے والے انسان تھے اشتیاق احمد۔
شہزاد بشیر : اچھا یہ ذرا فرمائیے گا کہ جب کبھی اشتیاق احمد کراچی آیا کر تے تھے اور آپ کے گھر ہی ٹھہرا کرتے تھے تو کیسا وقت گزرتا تھا؟
فاروق احمد : دیکھئے اشتیاق احمد بہت ہی سادہ دل، سادہ طبیعت، سادہ مزاج غرض جتنے بھی سادگی کے الفاظ ہو سکتے ہیں وہ ان کی شخصیت میں تھے۔ جب وہ پہلی بار گھر آئے تو بہت بے تکلفی سے رہتے تھے اس وقت میرے والدین حیات تھے۔ وہ میری فیملی سے جلد ہی پوری طرح گھل مل گئے تھے۔ میری چودہویں سالگرہ تھی جب پہلی بار اشتیاق احمد گھر آئے۔ اصل میں 6 مئی کو میری سالگرہ ہوتی ہے مگر اشتیاق صاحب کا خط آیا کہ وہ 7 مئی کو کراچی پہنچ رہے ہیں تو میں نے کہا کہ پھر میں 8 مئی کو سالگرہ مناؤں گا۔
شہزاد بشیر : اوہو۔۔ بہت خوب۔ تو تحفہ ملا پھر آپ کو ان سے ؟
فاروق احمد : (ہنستے ہوئے) جی آج تک اشتیاق احمد کا دیا ہوا تحفہ بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
شہزاد بشیر : اچھا کراچی میں آپ کا اشتیاق احمد کے حوالے سے کوئی یاد گار واقعہ تو بیان کیجئے جو آپ کو اب تک یاد ہو؟
فاروق احمد : (ہنستے ہوئے) جی ہاں ! مئی 1980 میں جب پہلی بار اشتیاق صاحب کراچی آئے تھے تو اپنی ایک قاری “سیما صدیقی” کے گھر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے کہا کہ جی میں لے جاتا ہوں۔ والد صاحب کے ایک دوست کی موٹر سائیکل یاماہا 75 پر ہم بیٹھے اور چل دیئے۔ نئی نئی موٹر سائیکل چلانی سیکھی تھی ان دنوں۔ اب ہوا یہ کہ جب عائشہ منزل پر پہنچے تو ایک ٹریفک سارجنٹ نے دیکھا کہ ایک لڑکا موٹر سائیکل چلا رہا ہے تو وہ ہمارے پیچھے لگ گیا۔ اب ہمارے پاس نہ لائسنس تھا نہ کاغذات لہٰذا ایک گلی میں گھس گئے، وہ بھی ہمارے پیچھے آتا گیا، اور پیچھے بیٹھے اشتیاق احمد مجھے کہتے ارے اس گلی میں گھسو، اب اس گلی میں گھسو، اور یوں گھستے گھساتے ہم بالکل ان کے کرداروں کی طرح سارجنٹ کو چکر دے کر بچ گئے۔ لیکن پھر سیما صدیقی کے گھر نہ جا سکے اور واپس آگئے۔ تو یہ ایک ناقابلِ فراموش واقعہ ہے جس پر ہم بعد میں ہنسے بھی بہت تھے۔
شہزاد بشیر : آپ جب اشتیاق صاحب کے پاس جاتے تھے تو وہاں کیا ماحول ہوتا تھا؟
فاروق احمد : جی ہم لوگ دراصل سردیوں میں جایا کرتے تھے کیونکہ گرمیوں میں تو اکثر وہاں سیلاب وغیرہ آتا رہتا تھا۔ تو وہاں بڑی آؤ بھگت ہوا کرتی تھی اشتیاق صاحب کی بیگم آمنہ جنھہیں ہم “ماں جی” کہا کرتے تھے بہت پیار سے خلوص سے ملا کرتی تھیں۔ ہمارے لئے ناشتہ، کھانا وغیرہ بناتیں، خود اشتیاق صاحب بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔
شہزاد بشیر : اچھا میں نے ان کی کتاب “میری کہانی” میں پڑھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ اگر آپ کو دیکھ کر انہیں لگا کہ گویا آپ ان کے کردار انسپکٹر جمشید کے بیٹے فاروق ہیں اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
فاروق احمد : (ہنستے ہوئے، انکساری سے) اس زمانے میں ہوتے ہونگے شاید ایسے کردار بولنے والے۔اس وقت ساڑھے تیرہ سال کی عمر تھی ۔ شاید انہیں لگتا ہوگا کہ ان کا تخیل مجھ پر یا میں ان کے فاروق کے تخیل پر پورا اترتا ہوں۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ ہے جب وہ کراچی میں ہمارے گھر میں ٹھہرے ہوئے تھے اور ہم کرکٹ کھیل رہے تھے تو گیند برابر والے گھر میں چلی گئی۔ اب چونکہ ہم لوگ تو عادی تھے چھتوں اور دیواروں پر چڑھنے اور کودنے کے تو میں فوراََ دیوار پر چڑھ گیا اور بال لے آیا تو تب اشتیاق صاحب نے حیرت سے کہا تھا کہ دیکھا! تمہیں اسی لئے فاروق کہتا ہوں میں۔
شہزاد بشیر : (ہنستے ہوئے) نہیں دراصل میں پہلے یہ بات ان کی کتاب میں بھی پڑھ چکا تھا مگر جب علی وصی بھائی نے آپ کی پرانی 1980 کی تصویریں بھیجیں تو مجھے لگا کہ اشتیاق احمد صاحب نے یہ بات بالکل ٹھیک کہی ہے ۔ کیونکہ ماشاءاللہ آپ اس وقت بالکل ایک چاکلیٹی ہیرو نظرآرہے تھے اور مجھے بھی بالکل ایسا ہی لگا کہ فاروق کا کردار واقعی آپ پر ٖفٹ بیٹھتا ہے۔ وہ تصاویر میں نے اپنی ویب سائٹ میں بھی شائع کی ہیں۔
شہزاد بشیر : اشتیاق احمد صاحب نے لکھنا بند کیوں کر دیا تھا اور پھر آپ نے انہیں کیسے راضی کیا دوبارہ لکھنے کے لئے؟ مطلب آپ کیا سوچتے تھے کہ اگر آپ کو یہ ناول پڑھنے کو نہ ملیں تو کیا ہوتا؟ آپ دوسرے مصنفین کے بھی تو پڑھ سکتے تھے جاسوسی ناول۔ ایسا کیا تھا کہ آپ نے سوچا کہ نہیں بس انہیں کے ناول پڑھنے ہیں ؟
فاروق احمد : یار سیدھی بات میں آپ کو بتاؤں تو پہلے تو ان سے میں نے اپنی ذات کے لئے لکھنے کے لئے کہا میں نے سوچا کہ میں پڑھنے سے محروم رہ جاؤں گا۔ حالانکہ اس وقت تہ میرے بچے بھی بڑے ہو چکے تھے اور اسکول جاتے تھے۔ مگر جب انہوں نےلکھنا چھوڑا تو مجھے لگا کہ یہ کردار جیسے میری زندگی کا ایک حصہ ہیں اور اب یہ سلسلہ رک جائے گا۔ تو میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ ایک ناول لکھ دیجئے میرے لئے لکھ دیجئے بے شک اگر آپ نہیں چھاپنا چاہتے تو میں اپنے پاس رکھ لوں گا۔ آپ جو معاوضہ پبلشر سے لیا کرتے ہیں وہ مجھ سے لے لیجئے کیونکہ میں پڑھنا چاہتا ہوں۔
یہ سن کر اشتیاق صاحب ہنسے بھی مسکرائے بھی۔
شہزاد بشیر : بہت خوب ! یہ تو آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے اپنے لئے لکھوائے جبکہ مجھے بہت سے لوگوں نے یہ کہا کہ جب آپ فاروق بھائی سے ملیں تو ان کو ہماری طرف سے بھی شکریہ کہئے گا کیونکہ ان کی وجہ سے ہمیں ناولز دوبارہ پڑھنے کو ملنے لگے تھے۔ آپ کی وجہ سے دراصل اور نہ جانے کتنے آپ ہی کے جیسے قارئین جن میں میں بھی شامل ہوں کو اشتیاق احمد کے ناول پڑھنے کو ملنے لگے۔ میرے خیال سے یہ آپ کا ایک قرض ہے نہ صرف اشتیاق احمد کے قارئین پر بلکہ اردو ادب کے حوالے سے یہ ایک ایسا قدم ہے جس کو سراہنا چاہئے تھا۔ یہ ایک طرح سے قومی خدمت ہے۔
فاروق احمد : دراصل اشتیاق صاحب بہت ہی حساس طبیعت کےمالک تھے تو کمپیوٹر اور موبائل آنے کے بعد ان کے پڑھنے والوں کی دلچسپی انہیں لگا کہ کم ہوئی ہے۔ اور یہ ایک بدقسمتی کہہ لیں یا ہمارے معاشرے کا المیہ کہہ لیں۔ ان کی کتابوں کی فروخت جب کم ہوئی
یعنی آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ کہاں تیرہ 13000 ناولوں کی سرکولیشن اور کہاں کم ہوتے ہوتے دس ہزار، پانچ ہزار اور پھر پانچ سو رہ گئی۔ بلکہ ناول واپس آنے لگے دکانوں سے، اور دکاندار، ڈیلرز جو کبھی ان کے آگے پیچھے پھرا کرتے تھے انہوں نے بھی منہ پھیر لیا۔ فون تک اٹھانا چھوڑ دیا۔ جس کی کئی اور بھی وجوہات تھیں تو انہوں نے اس بات کو دل پہ لے لیا کہ شائد اب لوگوں نے مجھے پسند کرنا چھوڑ دیا ہے تو پھر میں کیوں لکھوں جب لوگ پڑھنا نہیں چاہتے ہیں تو۔ وہ بہت دلبرداشتہ ہوئے اور اس کا ذکر انہوں نے اپنے ناولوں کی دو باتیں میں بھی کیا تھا کہ مجھے لگتا ہے اب چلے جانا چاہئے۔ تو ان وجوہات کی بنا پر لکھنا بند کر دیا تھا اور ایک اخبار میں ملازمت کر لی تھی۔
شہزاد بشیر : (افسوس سے) اوہ۔۔ واقعی ان حالات میں تو انسان کا دلبرداشتہ ہو جانا کسی اچنبھے کی بات نہیں ۔ بڑی حیرت کی بات ہے کہ ایسے دور بھی اتنی مقبول شخصیات پر آیا کرتے ہیں اور کوئی حکومتی ادارہ، انتظامیہ وغیرہ کوئی مدد یا سپورٹ فراہم نہیں کرتی۔
فاروق احمد : جی بالکل ! ایک دن اچانک انہوں نے ایک ناول میں لکھا کہ میں بند کر رہا ہوں یہ ناولوں کا سلسلہ تو میں نے انہیں فون کر دیا کہ یہ آپ نے کیا لکھ دیا؟ انہوں نے یہ وجوہات بیان کیں اور بولے کہ بس اب اور نہیں لکھ سکتا اور یہ ان کا حتمی فیصلہ تھا۔
شہزاد بشیر : اچھا یہ بڑی دلچسپ صورتِ حال ہے مجھے بہت تجسس تھا اور بھی لوگو ں کو تھا تو ہم یہ جاننا چاہتے ہیں آپ ذرا تفصیل سے بتائیے کہ کیسے آپ نے انہیں قائل کیا دوبارہ لکھنے پر؟
فاروق احمد : میں نے ان کو بہت سمجھایا مگر نہ مانے۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ میں آپ سے ملنے جھنگ آرہا ہوں۔ اب میں نے ٹکٹ کٹایا اور پہنچ گیا ان سے ملنے۔ ان سے بات ہوئی مگر انہوں نے منع کر دیا کہ نہیں بس اب نہیں ہو سکتا جو فیصلہ کر لیا اب اسی پر قائم رہنا ہے۔ میں نے بھی ٹھان لیا کہ چاہے کچھ ہو انہیں لکھنا ہی ہوگا۔ اسی بحث میں شام ہو گئی۔ اشتیاق صاحب نے مجھ سے کہا کو جاؤ گے نہیں تو میں نے کہا کہ نہیں جب تک آپ دوبارہ شروع نہیں کرتے میں یہیں پڑا رہوں گا۔ میں پیسے ساتھ لے کر گیا تھا اس یقین کے ساتھ کہ ان کو منا کو ہی لوٹوں گا۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ جو بھی معاوضہ لیتے ہیں وہ مجھے بتا دیجئے تو انہوں نے بتایا کہ مجھے چھ ہزار روپے کی آفر ہے ایک پبلشر کی جانب سے اور اس وقت چھ ہزار6000 بہت بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔
اب مجھے کچھ بات بنتی نظر آئی تو فوراََ کہا کہ آپ مجھ سے آٹھ ہزار8000 لے لیجئے۔ وہ مسکراکر بولے کہ ایک مہینہ دو گے پھر کیا کروں گا۔ تو میں نے کہا کہ آپ ایگریمنٹ کر والیں میں ہر ماہ آپ کو دیا کرونگا۔ اب انہوں نے کہا کہ بھئی تم ناول چھاپو گے کیسے تمہیں تو اس کا تجربہ ہی نہیں ہے۔
میں نے کہا کہ یہ میرا کام ہے ۔ میں مارکیٹنگ جانتا ہوں اور کوئی بھی پروڈکٹ ہو اسے کیسے فروخت کرنا ہے یہ میں جانتا ہوں لہٰذا آپ اس کی فکر نہ کریں۔ یہ سن کر انہوں نے مجھے کافی سمجھایا کہ دیکھو نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ مگر جب میں ڈٹا رہا اور ان کو پیشگی معاوضہ بھی ادا کرنا چاہا تو وہ بولے کہ بس یہ رکھو میں صرف تمہیں دیکھ رہا تھا کہ کتنے ضدی ہو۔ یعنی پیسے بھی ساتھ لے آئے۔ اب ان کو قائل ہوتے ہی بنی ۔ تو یوں پھر انہوں نے دوبارہ لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور پہلا ناول “فائل کا دھماکہ” لکھ کر دیا۔
یوں میرے اور ان کے درمیان قاری اور دوست کے علاوہ کاروباری رشتہ بھی قائم ہوا۔ 8000 روپے سے شروع ہونے والی رقم بعد میں سال بہ سال بڑھتی گئی۔ وہ ناول لکھ کر دیتے رہے اور یہ سلسلہ چلتا رہا ۔
یہ واقعہ سن کی ہی اتنا دلچسپ لگ رہا ہے۔ یعنی فاروق احمد نے ایک ایسی شخصیت سے اپنی بات منوائی جو خود الفاظ کے، گفتگو کے اور رویوں کے بہترین کھلاڑی تھے ان سے اپنی بات منوا کر اٹھنا کوئی آسان کام نہیں رہا ہوگا۔ بہرحال میں اسے اشتیاق احمد کے دوسرے دور کا آغاز ہی کہوں گا اور اس کا سہرا فاروق احمد کے سر ہے جنہوں نے زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی طور پر قدم اٹھایا اور اردو ادب خصوصاََ جاسوسی ادب کے آسمان کے ایک ستارے کی روشنی سے پڑھنے والوں کے ذہنوں کو منور کرنے کا سامان کیا۔ _شہزاد بشیر |
شہزاد بشیر : اچھا بہت خوب۔ اچھا ایک اور بہت ہی اہم اور بہت ہی خاص سوال۔ جو میرے ذہن میں کافی عرصے سے بے چینی پیدا کئے ہوئے تھا۔ ذرا بتائیے کہ کیا آپ نے یہ ادارہ “اٹلانٹس پبلیکیشنز ” صرف اشتیاق احمد کے ناول شائع کرنے کی غرض سے شروع کیا یا اور بھی لوگوں کی کتابیں یا کوئی اور مقصد بھی تھا اس کے پیچھے؟
فاروق احمد : جی بالکل! صرف اشتیاق احمد کے ناولوں کی اشاعت کے لئے ہی اٹلانٹس پبلیکیشنز کا ادارہ وجود میں لایا گیا تھا مگر بعد میں پھر ہم نے اور مصنفیفن کی بھی کتابیں شائع کیں مگر بنیادی طور پر یہ صرف انہیں کے ناولوں کے لئے شروع کیا گیا تھا۔
شہزاد بشیر : اچھا فاروق بھائی کتابوں سے اتنی محبت اور شوق ہے ماشاءاللہ آپ کو اور پھر علی وصی بھائی نے بھی بتایا کہ آپ تو دلدادہ ہیں کتابوں کے تو پھر ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ آپ نے اپنی بھی کوئی کتاب نہ لکھی ہو۔ تو ذرا اس بارے میں بتائیے گا کہ آپ کی کوئی ذاتی تخلیق بھی ہے؟
فاروق احمد : جی بالکل ۔ دیکھئے میری تین کتابیں چھپ چکی ہیں ۔ آؤٹ آف اسٹاک ہیں ان میں سے دو تو جبکہ تیسری ابھی آنے والی ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان سے چھپ رہی ہے “اشتیاق احمد ۔۔ شخصیت و فن” جو اسی مہینے آ جائے گی۔ اس کے علاوہ میں نے “جاسوسی ادب کی تاریخ” بھی مرتب کی تھی۔ یہ آج سے کوئی چھ سال پہلے کی بات ہے۔ اب وہ دوبارہ پرنٹ کرنی ہے کیونکہ اس میں کچھ اضافے بھی کرنے ہیں۔ اسکے علاوہ “بچوں کے ادب کی تاریخ” بھی ہم نے شائع کی تھی۔
شہزاد بشیر : بہت خوب ۔۔اچھا ایک ناول بھی آپ نے لکھا تھا؟
فاروق احمد : جی ہاں وہ 800 واں ناول ہے اشتیاق صاحب کا “عمران کی واپسی” جو ہم دونوں نے ملکر لکھا ہے۔
انسپکٹر جمشید ویب سیریز
شہزاد بشیر : اچھا ابھی حال ہی میں ایک ویب سیریز کا ٹریلر بھی ریلیز ہوا ہے انسپکٹر جمشید سیریز کے حوالے سے ایک میڈیا کمپنی کی طرف سے تو اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے۔ لوگ تو کافی ایکسائٹڈ ہیں۔
فاروق احمد : جی وہ میں نے دیکھا ہے مگر وہ صرف ایک فلیئر چلایا گیا ہے اس پر کام نہیں ہو رہا میری ذاتی معلومات کے مطابق۔ تو شاید ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ سیریز لانچ ہوگی یا نہیں۔
دوسرے یہ کہ اس ویب سیریز کی کامیابی کے لئے انہیں ان کے پرانے ناولوں کی طرز پر کہانی دکھانی ہوگی جس کو لوگ پسند کرتے ہیں ۔ یعنی سادہ کونٹنٹ جس میں جاسوسی سسپنس وغیرہ ہوا کرتاہے۔
شہزاد بشیر : اچھا یہ تو بڑی مایوسی کی بات ہوگی اشتیاق احمد کے چاہنے والے تو بڑی بے چینی سے اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ ویسے مجھے بھی شکوک ہیں اس معاملے پر کیونکہ ٹریلر ریلیز کرنے کے بعد میں نے بھی اس پر ایک ویب سائٹ بنا کر لانچ کر دی تھی انسپکٹر جمشید ویب سیریز ڈاٹ کوم اس کا نام ہے۔ لیکن کچھ دن بعد ہی سوشل میڈیا پر اسی میڈیا کمپنی کی طرف سے ایک پول اسٹارٹ کیا گیا جس میں انسپکٹر جمشید کے کردار کے لئے لوگوں سے رائے مانگی جا رہی تھی۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی اور میں نے اس پر ایک تنقیدی کمنٹ بھی کیا تھا کہ اگر ابھی کردار ہی سلیکٹ نہیں ہو پائے تو سیریز کب شروع ہوگی۔
فاروق احمد : میں خود بھی دلچسپی لے رہا تھا اس میں لیکن میرے ذاتی اندرونی ذرائع سے اب تک کی خبر تو یہی ہے کہ ابھی تک کچھ بھی شوٹ نہیں ہوا ہے اس ویب سیریز میں۔ تو ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سیریز لانچ ہوگی یا نہیں یا ہوگی تو کب ہوگی۔ یہ صرف میری ذاتی اطلاعات ہیں باقی حتمی بات تو میڈیا کمپنی ہی بتا سکتی ہے کہ اس پر کام ہو رہا ہے یا نہیں۔
شہزاد بشیر : اچھا کتابوں کے حوالے سے، ناولوں کے حوالے سے عوامی رحجان کس طرف جاتا نظر آرہا ہے۔ بطور پبلشر آپ کی کیا رائے ہے اس بارے میں۔ کیا لوگ اب بھی کتابیں دلچسپی سے خرید کر پڑھتے ہیں؟ ویسے میں نے بھی ایک آن لائن سروے کیا ہے کل ہی اور اس کے مطابق بڑے حیران کن نتائج حاصل ہوئے ہیں یعنی 75 سے 80 فیصد تک لوگ ہارڈ کاپی یعنی کتابی شکل میں ناول پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟
فاروق احمد : جی بالکل ! آپ نے اچھا سروے کیا ہے اور بالکل یہی نتائج ہیں ہماری ریڈنگ بھی یہی ہے کہ لوگ کتابی شکل میں ہی پڑھنا پسند کرتے ہیں کیونکہ موبائل میں یا ای بک کی شکل میں پڑھنے میں کافی مشکلات ہیں آپ کا دھیان بار بار موضوع سے ہٹتا ہے۔ کبھی میسج آجاتا ہے، کبھی کوئی سوشل میڈیا پر میسج یا پوسٹ وغیرہ تو اصل مزہ تو کتابی شکل میں ہی ہے۔ ویسے جو آن لائن ناول یا کتابیں دستیاب ہیں ان سے بھی ہمیں فائدہ پہنچا ہے اور لوگوں نے مطالعے کی طرف رحجان دکھایا ہے۔
شہزاد بشیر : آپ کے خیال میں نیٹ پر موجود ای بکس کی شکل میں جو ناول دستیاب ہیں لوگ انہیں پڑھتے ہیں؟
فاروق احمد : اس کے باوجود کہ اشتیاق احمد صاحب کے تقریباََ تمام ناول نیٹ پر آن لائن موجود ہیں، لوگ پھر بھی ناول خرید کر پڑھنے میں زیادہ دلچسپی دکھاتے ہیں اور یہ ایک اچھا سائن بھی ہے۔
شہزاد بشیر : اچھا ایک اور بات کہ میں نے حال ہی میں ایک معتبر آن لائن سروے پڑھا جس میں یہ کہا گیا کہ پاکستان میں مصنفین کی کمی خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے خاص طور پر جاسوسی ادب میں۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
فاروق احمد : دیکھئے ! ابھی چار دن پہلے ایک نجی ٹی وی چینل والے بھی میرا انٹرویو کرنے آئے تھے اور انہںوں نے بھی یہی سوال پوچھا کہ جاسوسی ادب میں زوال کی وجہ کیا ہے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ پہلے یہ بتائیے کہ آپ زوال سمجھتے کس کو ہیں ؟ مطلب ہمارے ہاں عروج کب تھا کہ زوال آیا؟ یعنی آپ یورپ کی مثال لیں تو وہاں چھ ہزار جاسوسی ناول نگار موجود ہیں جو لکھتے رہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں عروج کہتے ہیں ابنِ صفی، اشتیاق احمد اور مظہر کلیم کے دور کو۔ یعنی اگر 6000 میں سے اگر تعداد 2000 بھی ہو تو کہہ سکتے ہیں کہ جی زوال ہے مگر جہاں تھے ہی صرف تین وہاں زوال کیسا۔
شہزاد بشیر : اچھا ایک بہت ہی اہم قانونی سوال ہے جو مجھ تک قارئین نے بھی پہنچایا ہے ویسے میں خود بھی جاننا چاہتا تھا۔ وہ یہ کہ اشتیاق احمد کے ناولوں کے رائٹس کیا آپ کے پاس ہیں یا کوئی اور بھی ان کے ناول شائع کرنے کا مجاز ہے؟
فاروق احمد : جی ہاں رائٹس تو 100 فیصد میرے پاس ہی ہیں قانونی طور پر صرف اٹلانٹس پبلیکیشنز ہی ان ناولوں کو شائع کرنے کا مجاز ہے لیکن کچھ موقع پرست ہیں جو کوشش کرتے رہتے ہیں فائدہ اٹھانے کی مگر اب یہ لوگوں کا کام ہے کہ اس کو سمجھیں۔
میرے پاس ٹریڈ مارک رائٹس بھی ہیں، میرے پاس کاپی رائٹس بھی ہیں اور اشتیاق احمد کے خصوصی طور پر دیئے گئے رائٹس بھی ہیں اور یہ بات میں ببانگِ دہل کہتا ہوں۔ فاروق احمد اٹلانٹس پبلیکیشنز |
شہزاد بشیر : چلئے یہ آپ نے کلیئر کر دیا لیکن میری ذاتی رائے میں اشتیاق احمد کے پڑھنے والوں کو اخلاقی طور پر بھی جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ آپ کا قرض ہے قارئین پر، صرف اٹلانٹس پبلیکیشنز کے ناول ہی خرید کر پڑھنے چاہئیں کیونکہ یہ ادارہ بنا ہی اسی وجہ سے ہے۔ یہ قارئین کی اس ادارے کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش بھی ہوگی اور قانونی طور پر بھی یہی ہونا چاہئے۔
فاروق احمد : جی یہ تو پڑھنے والوں پر منحصر ہے میں قانونی ایکشن بھی لے سکتا ہوں مگر اس کی ضرورت نہیں کیونکہ لوگ خود سمجھدار ہیں اور جانتے ہیں پوری ہسٹری۔ ویسے بھی کوئی پیسے کمانے کے غرض سے تو یہ ادارہ بنایا نہیں تھا۔ مجھے تو بس یہ ناول شائع کرکے خوشی ملتی ہے۔ یہ تو شوق ہے میرا۔ لوگ آتے ہیں چھاپتے ہیں مگر پھر مایوس ہو کر بند بھی کر دیتے ہیں، میں تو گزشتہ بیس برس سے شائع کر رہا ہوں کیونکہ یہ محبت ہے کوئی مالی منفعت میرا مطمح نظر نہیں ہے۔
دراصل ناول تو کوئی بھی چھاپ سکتا ہے۔ لیکن جس محبت سے ہم اشتیاق صاحب کی ہر چیز جس میں خاص طور پر دوباتیں وغیرہ اور کچھ دیگر چیزیں ہیں ان کا اندازہ لوگ خود لگا سکتے ہیں۔ کیونکہ ہم ہر چیز اسی حالت میں چھاپ رہے ہیں جیسے کہ جو بچوں کے خطوط تھے وہ بھی بالکل ویسے ہیں دوبارا چھپ رہے ہیں، کوئی اشتہار بھی بیچ میں نہیں ہے، اور پھر ہم اس میں اپنے کمنٹس لکھ رہے ہیں اور لوگوں کو اس ناول کی ہسٹری بھی بتا رہے ہیں۔
شہزاد بشیر : ایک اور بہت اہم سوال ہے آپ سے۔ کیا واقعی لکھنے والوں کا رحجان ختم ہوتا نظر آرہا ہے یا ہمیں امید رکھنی چاہئے۔ کیا اب بھی لکھنے والے آپ کو اپروچ کر رہے ہیں؟
فاروق احمد : جی اگر چھ ماہ پہلے آپ یہ سوال کرتے تو جواب کچھ مختلف ہوتا مگر اب ہمیں امید ہے۔ ابھی حال ہی میں “عثمان جامعی” صاحب کا ایک ناول شائع کیا ہے ہم نے۔ اس ناول “سرسید، سینتالیس، سیکٹر انچارج” کا بہت اچھا رسپانس آیا ہے. ٹیکنیکل چیزیں کرنے کے بعد ہم نے اب ڈیجیٹل پرنٹنگ کا سیٹ اپ شروع کیا ہے اور اس میں اچھے مواقع حاصل ہو رہے ہیں۔
شہزاد بشیر : اچھا فاروق بھائی اٹلانٹس پبلیکیشنز اشتیاق احمد کے ناولوں کے علاوہ اور کن پروجیکٹس پر کام کر رہی ہے؟
فاروق احمد : جی ہم مزید کتابوں کے سلسلے پر بھی کام کر رہے ہیں ۔ ایک سلسلہ “زندہ کتابیں” کے نام سے ہم نے جناب “راشد اشرف” کے ساتھ مل کر شروع کیا ہے۔ اس میں بہت پرانے ادب، سوانح عمری، ناول اور شخصی خاکے وغیرہ ہیں۔ اب تک 150 ڈیڑھ سو کتابیں ہم شائع کر چکے ہیں۔
شہزاد بشیر : بچوں کے ادب پر بھی کتابیں ہیں آپ کے پاس؟
فاروق احمد : جی بالکل بچوں کے ادب کے حوالے سے بھی ہیں اور اس وقت سترہ ہزار 17000 کتابیں موجود ہیں ہمارے پاس۔ ہندوستان اور پاکستان کی۔ ایک اور بات یہ کہ ابھی حال ہی میں ہم نے ایک پروجیکٹ شروع کیا ہے” بچوں کا کلاسیکی ادب” کے نام سے۔اس میں ہم سالوں پرانی کہانیوں کو ری پرنٹ یعنی دوبارہ شائع کر رہے ہیں۔
شہزاد بشیر : ماشاءاللہ۔۔ بہت زبردست خدمت ہے یہ آپ کی اردو ادب کی تاریخ میں۔ ابھی مجھے یاد آیا کہ آپ نے اشتیاق صاحب کی بھی بچوں کے لئے لکھی گئی کہانیوں کا مجموعہ شائع کیا ہے۔
فاروق احمد : جی ہاں ۔ ان کی تعلیم و تربیت میں جو 1974 سے 1779 تک کی کہانیاں تھیں وہ شائع کی ہیں۔ آئندہ “بچوں کا اسلام ” میں چھپنے والی کہانیوں کا بھی مجموعہ آنے والا ہے۔
After Death of Ishtiaq Ahmed اشتیاق احمد کے انتقال کے بعد
جب فاروق احمد صاحب سے اشتیاق احمد کے انتقال کے حوالے سے ذکر نکلا تو انہوں نے کراچی ایئر پورٹ پر پیش آنے والے واقعات بھی بتائے اور یہ بھی کہ کس طرح وہ ایکسپو سے فاروق صاحب سے مل کر اپنے گھر کیلئے روانہ ہوئے تھے اور پھر کس طرح انہیں ان کی وفات کی دہلا دینے والی خبر ملی اور وہ دوڑ پڑے۔ ساتھ ہی کچھ آخری ملاقات کی تفصیل بھی انہوں نے بتائی اور اشتیاق احمد کی روانگی اور ان کی فیملی ممبرز کی کچھ خوبصورت خواہشات اور اشتیاق احمد کی ان سے محبت کا بھی ذکر ہوا۔ جیسے جیسے وہ ان واقعات کا ذکر کر رہے تھے ہمیں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ واقعات ان کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چل رہے ہیں۔ اور پھر آخری لمحات میں وہ آبدیدہ ہو گئے ظاہر ہے ایک عرصہ جس شخصیت کے ساتھ گزارا ہو اور وہ یوں اچانک رخصت ہو جائے تو ذہن مشکل سے ہی تسلیم کرتا ہے ایسی حقیقیت کو۔ میری اپنے قارئین سے بھی اور دیگر پڑھنے والوں سے بھی ایک درخواست ہے کہ جو بھی کوئی فاروق احمد صاحب سے ملاقات کے لئے جائے یا انٹرویو کے لئے، پلیز اشتیاق احمد کے انتقال کے وقت کی تفصیل ان سے نہ پوچھیں کیونکہ اس طرح ان کا دکھ تازہ ہو جاتا ہے۔ شکریہ۔ |
!اشتیاق احمد کی ایک حیرت انگیز پیشن گوئی جو 100 فیصد سچ ثابت ہوئی
فاروق احمد : ایک بڑی حیرت انگیز بات مجھے یاد ہے کہ ایک روز باتوں ہی باتوں میں اشتیاق احمد نے کہا کہ ہر انسان کو آخر جانا ہی ہے تو جب میرا وقت آئے گا تو میں بھی اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا اور دیکھنا جب میں جاؤں گا تو میرے 24 ناول تمہارے پاس ہونگے۔ اس وقت تو یہ ایک عام سی بات محسوس ہو ئی تھی مگر پھر واقعی ان کے انتقال کے بعد جب میں نے اپنے پاس موجود ان کے مسودوں کو شمار کیا تو ان کی تعداد 24 ہی تھی۔ یہ ایک ناقابلِ یقین بات لگتی ہے کہ انہیں پہلے سے کیسے معلوم تھا مگر خیر یہ بات حقیقت ہے کہ 24 ناولوں کے مسودے اور 2 نامکمل ناول چھوڑ گئے۔
شہزاد بشیر : اوہ ۔۔ یہ تو واقعی ناقابلِ یقین بات لگتی ہے۔ مگر ایسے واقعات بہر حال دیکھنے پڑھنے اور سننے میں آئے ہیں کہ اللہ والوں کو علم ہو جاتا ہے۔
فاروق احمد : جی بالکل صحیح کہا۔
شہزاد بشیر : اچھا اشتیاق احمد کا جانا ایک بڑا صدمہ تھا لیکن آپ کے پاس ان کے کتنے ناول تھے جو آپ شائع کرچکے ہیں؟
فاروق احمد : اشتیاق احمد کے انتقال کے بعد ان کے 24 ناول ایسے تھے جو ابھی شائع نہیں ہوئے تھے۔ تو میں نے فیصلہ کیا کہ ہر سال ایک ناول ان کا شائع کیا جائے تاکہ ہمیں یہ نہ محسوس ہو کہ اب وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ تو اس طرح شائع کر تے رہے۔ ابھی حال ہی میں آخری ناول “نواب پور کا محل” شائع کیا ہے ۔
شہزاد بشیر : اب آپ کے پاس مزید اشتیاق احمد کے کتنے ناول باقی ہیں ؟
فاروق احمد : اشتیاق صاحب کے چوبیس 24 میں سے 18 اٹھارہ ناولز اب تک ہم شائع کر چکے ہیں جیسا کہ حال ہی میں “نواب پور کا محل” شائع ہوا ہے۔ اب ان کے چار 4 ناول مکمل جبکہ 2 ناول نامکمل ہمارے پاس باقی ہیں۔ اور چونکہ ہم ہر سال ایک ناول شائع کرتے ہیں اس لئے ابھی مزید چھ 6 سال ان کے ناول قارئین پڑھ سکیں گے۔
اور ہم نے ہر سال ایکسپو میں ناول لانچ کیا اس سال کیونکہ ایکسپو نہ ہو سکا تو ویسے ہی لانچ کر دیا۔ اب یہ ہے کہ ہم ہر سال ایک ناول شائع کریں گے ان بقایا ناولوں میں سے۔ جبکہ اس سال ہم نے ان کے 30 تیس پرانے ناول دوبارہ شائع کئے ہیں۔ ابھی 16 ناولز پرنٹنگ کے عمل سے گزر رہے ہیں اور جلد ہی قارئین کے ہاتھوں میں ہونگے
شہزاد بشیر : اچھا فاروق بھائی آپ لوگوں کو لکھنے کے حوالے سے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
فاروق احمد : انسان کو لکھتے رہنا چاہئے چاہے وہ چپھے یا نہیں مگر لکھنا طبی لحاظ سے بھی بہت ضروری امر مانا جاتا ہے۔ لکھتے رہنا آپ کو بہت سی پریشانیوں سے بھی بچاتا ہے۔ مثلاََ زیادہ عمر میں انسان کو جو الزائمر یا ڈیمنشیا کا مسئلہ ہوتا ہے وہ کسی تخلیق کار کو یا لکھنے والے کو نہیں ہوتا۔ نہ لکھنے کا مطلب دماغ کو استعمال نہ کرنا یا زنگ لگا دینے کے مترادف ہے۔ تو لکھنا چاہئے۔ تو قلم اٹھائے اور لکھنا شروع کریں۔ ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔
شہزاد بشیر : بہت بہت شکریہ فاروق بھائی آپ کے ساتھ یہ پہلی ملاقات توقع سے زیادہ دلچسپ، خوشگوار اور معلوماتی خزانے کی طرح لگی ہے جس میں بہت سی نئی باتیں اشتیاق صاحب کے حوالے سے بھی، آپ کے حوالے سے بھی اور آپ کے ادارے کے حوالے سے بھی سامنے آئیں۔ ہماری دعا ہے کہ آپ اور آپ کا ادارہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے ۔ آمین
فاروق احمد : آپ کا بہت شکریہ کہ آپ وقت نکال کر مجھ سے ملنے آئے اور اپنے پڑھنے والوں کے لئے سوالات کے جوابات بھی حاصل کئے۔ انشاءاللہ آئندہ بھی ملاقات رہیگی۔
دوستو ! فاروق احمد صاحب سے یہ ملاقات طے شدہ وقت سے بھی تقریباََ دو گھنٹے زائد جاری رہی۔ یعنی میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ ملاقات شائد ڈیڑھ گھنٹہ میں ختم ہو جائی گے مگر یقین کیجئے کہ تقریباََ ساڑھے تین گھنٹے کے بعد جب میں انہوں نے رخصت کیا اور باہر تک چھوڑنے آئے تو مغرب ہو چکی تھی
فاروق احمد کی شخصیت کا اندازہ آپ کو پہلے سے بھی ہوگا مگر میں تھوڑا سا اور اضافہ کر نا چاہوں گا۔ مجھے فاروق احمد بہت سیدھے سادھے محبت کرنے والے انسان جو اشتیاق احمد جیسے گوہر نایاب کے ساتھ سالوں گزارنے کے بعد ٖظاہر ہے اردو ادب سے محبت اور کتابوں کی قدرو قیمت ایک عام انسان سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ میری اربابِ اختیار سے درخواست ہے جو اردو ادب کی ترویج و فروغ میں کوئی بھی کردار ادا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں چاہے وہ سرکاری سطح پر ہو یا نجی فاروق احمد کی پذیرائی کرنی چاہئے۔
چلتے چلتے فاروق بھائی نے بہت ہی قیمتی تحفہ یعنی تین چار ناول اور بچوں کی کتابیں بھی ہمیں پیش کیں جو ہم نے بخوشی قبول کیں اور ان میں سے ایک ناول جو حال ہی میں شائع ہوا ہے “عمران کی واپسی” اس پر میں نے انہیں فیڈبیک دینے کا وعدہ کیا۔ ساتھ ہی شوکی برادرز کے ناول “نیلی روشنی ” کا تحفہ بھی شامل تھا۔ یہ بھی ایک انمول ناول ہے۔ میں تمام قارئین کی طرف سے فاروق بھائی کا شکریہ ادا کر تا ہوں۔
ڈیئر قارئین ! آپ نے انٹرویو پڑھا۔ کیسا لگا یہ ضرور بتائیے گا۔ چاہے کمنٹ کریں یا ایک میل کیجئے۔ انشاءاللہ کتاب دوست ڈاٹ کوم آپ کے لئے ایسے ہی دلچسپی سے بھرے معلوماتی شخصیات کے انٹرویوز لاتے رہیں گے۔ شکریہ
Web Publisher: KitabDost.com
اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز - ڈاؤن لوڈ کیجئے
ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟ We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff ! Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household Items | Buy from Amazon |
جزاک اللہ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے
حوصلہ افزائی اور نیک تمناؤں کا بے حد شکریہ جناب!
بہت شاندار انٹرویو لیا آپ نے، پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اور بہت معلومات بھی حاصل ہوئیں۔ اسی طرح کے اور انٹرویوز کا انتظار رہے گا
انٹرویو پسند کرنے اور کمنٹ کرنے کا شکریہ۔ انشاءاللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
Thank you very much.
You’re welcome !
Mere liye bais e fakahar ha ke me ne ye interview parha yaqeen janie yaden taza hone ke sath ankho se ansoo bhi rawa hoe, ap ki is kawish or lagan ko me salam pesh karta ho, apna ye silsla isi tarah jari rakhiye boht umda kam kaam hai, insha Allah ap ko har qadam per qamyabia naseen hongi
محمد علی عباسی بھائی ! آپ کے جذبات اشتیاق احمد سے محبت کا اظہار ہیں۔ ہم سب کے بھی یہی جذبات ہیں۔ اس انٹرویو میں جہاں اشتیاق احمد کی رحلت اور بعد کے سوالات ہیں اس وقت میری اور فاروق احمد صاحب کی حالت بھی تقریباََ ایسی ہی تھی۔ اللہ اشتیاق احمد کے درجات بلند کرے آمین۔ کمنٹ کرنے کا بہت شکریہ۔