ِ رائٹر اکاؤنٹ بنائیے
  ِاپنی تحریر پوسٹ کیجئے
  مفت ناول ڈاؤن لوڈ کیجئے
ِ آن لائن شاپ / کتاب آرڈر کیجئے  
       
       
  قسط وار ناول پڑھئے
  بچوں کی کہانیاں پڑھئے
  بلاگ بنانا سیکھئے
ِدیگر اہم اصناف  
       

قارئین کی پسندیدہ کیٹگریز

              

وقت کا کھیل (ٹائم ٹریول کہانی – دوئم انعام)

1

وقت کاکھیل  

تحریر: ریحان خان 

(ٹائم ٹریول کہانی -دوئم  انعام)

کتاب دوست ادبی مقابلہ ستمبر 2024 


ریحان خان ٹائم ٹریول کہانی

( وقت کا کھیل۔:  – (ریحان خان –  کراچی

کبھی کبھار زندگی وقتی طور پر  بے مقصد اور بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے -خاص کر جب آپ کا کوئی اپنا آپ سے بچھڑ جاتا ہے

امی کی اچانک موت کا سانحہ بھی میرے لیے ایسا ہی تھا-میں سنبھل نہیں پایا تھا – میرا دل و دماغ اس بات کو ماننے سے قاصر تھا -کہ  امی اس طرح اچانک ہمیں چھوڑ کے جا سکتی ہیں! لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ جانے والوں کو کون روک پایا ہے .

وہ ۲ اگست ۲۰۱۵ کا دن تھا جب امی اپنی بچپن کی ایک دوست سے ملنے ماموں کے ساتھ گئی تھیں- جہاں واپسی میں ان کی گاڑی کو ایک حادثہ پیش آیا اور اس میں امی کی زندگی چلی گئی اور ماموں  شدید زخمی ہو گئے تھے- میں نے آہستہ آہستہ اپنی زندگی کو معمول پہ لانے کی کوشش کرنا شروع کی کہ جانتا تھا کہ وقت بہت بڑا مرہم ہوتا ہے- جانے والے کا خلا کوئی پر نہیں کر پاتا اس کی یادیں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتی ہیں .میں ایک لوجسٹکس کمپنی میں جاب کر رہا تھا میں نے سب سے پہلے دوبارہ کام پر جانا شروع کیا -اور کوشش کی اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنے کی- آپ جتنے فارغ ہوتے ہیں- اتنے ہی خیالات کی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں- تو میں نے بھی اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مصروف کرلیا-

ایک دن فیس بک پر اپنے اسکول کا ایک گروپ دیکھا تو مجھے اپنے اسکول کے سارے دوست یاد آگئے -جن سے ملے ہوئے دیکھے ہوئے سالہا سال بیت گئے تھے۔

میں نے اس گروپ میں ایک پوسٹ بنا کر ڈالی- اور جتنے ہم جماعت  کے نام مجھے یاد تھے وہ میں نے سب ڈال دیے اور انتظار کرنے لگا۔

تقریبا آٹھ سے دس لوگوں کے میسجز میرے پاس آئے اور میں نے سب کو ایک ریسٹورنٹ  میں مدعو کر دیا جن میں سے پانچ دوست آئے۔

“عدنان سعد ثاقب کاشف  اور عبداللہ- جن سے مل کر مجھے بہت اچھا لگا- اور پھر ہم نے عہد کیا کہ اب ہم اپنی دوستی کو برقرار رکھیں گے -اور ایک دوسرے سے ملتے رہیں گے”

میری زندگی آہستہ آہستہ معمول پر آنے لگی تھی- آفس جانا -گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنا -اور دوستوں کے ساتھ آؤٹنگ پر جانا وغیرہ۔

ہاں مگر امی کی یاد روزانہ شدت سے آیا کرتی تھی کہ یہ ایک فطری بات تھی۔

میں اکثر سوچتا تھا کہ کاش بچپن کے دن واپس آ جائیں جہاں کوئی فکر نہ فاقہ بس عیش کر کاکا- جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو ہماری بڑی شدت سے خواہش ہوتی ہے کہ ہم جلد سے جلد بڑے ہو جائیں اور جب بڑے ہو جاتے ہیں تو سوچتے ہیں کاش بچپن میں واپس چلے جائیں مگر ایسا تو نہیں ہو سکتا نا۔

زندگی کے معاملات یوں ہی چل رہے تھے کہ پھر ایک دن وہ بھی آیا جو میری زندگی کا ناقابل فراموش دن بن گیا- بلکہ نہیں مجھے یوں کہنا چاہیے کہ میری زندگی کا ناقابل یقین دن بن گیا۔

آج بھی سوچتا ہوں تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ ایسا بھی کبھی کسی کے ساتھ ہو سکتا ہے- شاید وہ ایک خواب ہو لیکن نہیں وہ خواب نہیں تھا قطعا نہیں تھا۔

 اس دن رات کو آفس سے لیٹ نکلا تھا- سیدھا گھر جا رہا تھا ابھی آدھے راستے ہی پہنچا تھا کہ سامنے ایک آدمی کھڑا ہوا نظر آیا جس نے لفٹ لینے کے سے انداز میں ہاتھ کا اشارہ کیا ہوا تھا۔

جس طرح کراچی کے حالات ہیں بندہ ایسے موقع پہ نظر انداز کر کے آگے بڑھ جاتا ہے مگر پتہ نہیں کیوں میں نے گاڑی آہستہ کر دی اور اس کے قریب جا کے روک دی- وہ ایک بوڑھے سے آدمی تھے اور بظاہر بے ضرر نظر آتے تھے۔

“کہاں جائیں گے آپ بابا جی”- میں نے گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے پوچھا۔

“بیٹا بس مجھے اگلے سٹاپ پر اتار دینا”- انہوں نے  بڑے پیار اور شفقت کے سے انداز میں کہا۔

“آئیے چلیے بیٹھ جائیے”- میں نے بھی پر اخلاق  لہجے میں کہا اور وہ گاڑی میں بیٹھ گئے۔

“خوش رہو بیٹا تم نے گاڑی روک دی  ورنہ یہاں  تو کوئی بھی رکنے کو تیار نہیں تھا”- انہوں نے تھکے تھکے سے انداز میں کہا۔

“جی کوئی بات نہیں آپ چلیں میں آپ کو چھوڑ دوں گا”- یہ کہہ کر میں نے گاڑی کی سپیڈ اور بڑھا دی ۔

“آپ مجھے بتا دیجئے گا آپ نے کہاں اترنا ہے”- میں نے دھیمے لہجے میں کہا۔

“بس بیٹا یہیں اتار دو انہوں نے فورن ہی بول دیا”-

“ارے ابھی تو آپ بیٹھے ہیں” –  میں نے بوکھلاتے ہوے کہا۔

“مجھے بتا دیں آپ کو میں گھر تک چھوڑ دوں گا “ میں نے زور دیتے ہوے کہا۔

“نہیں بس یہیں  اتار دو”- انہوں نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔

میں حیران ہو رہا تھا کہ اچھے بھلے بزرگ آدمی ہیں کیا صرف دو قدم کے لیے ہی لفٹ لی تھی -مگر میں نے مزید کچھ نہیں کہا اور گاڑی روک دی۔

“جزاک اللہ بیٹا -اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے اور تمہاری ہر جائز خواہش کو پورا کرے “

“جی آمین” میں نے مسکراتے ہوئے کہا ۔

“ویسے بیٹا کیا خواہش ہے تمہاری ابھی کوئی؟ انہوں نے پھر مجھے حیران کر دیا- یہ سوال پوچھ کر”

“ارے بابا جی ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بس دعا  میں یاد رکھیے گا” میں نے ٹالنے کے سے انداز میں کہا-

“نہیں پھر بھی بتاؤ مجھے اپنی کوئی شدید خواہش”- ان بزرگ نے شدید پر زور دیتے ہوئے کہا۔

“یار کہاں پھنس گیا میں نے دل میں سوچا “

“ارے بابا جی بس کیا بتاؤں اب تو یہ خواہش ہے کہ بس اپنے بچپن میں چلا جاؤں اور اپنی امی کی گود میں سر رکھ کے سو جاؤں “میں نے حسرت بھرے لہجے میں کہا۔

“واہ کیا بات ہے بیٹا چلو چلے جانا اپنے بچپن میں خدا حافظ”- یہ کہتے ہی وہ گاڑی سے اترے اور تیزی سے چلتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

“واہ بھائی عجیب ہی آدمی تھا -سمجھ نہیں آیا چاہتا کیا تھا-  میں نے دل ہی  دل میں سوچا  ۔

“چلو خیر مجھے کیا میں اپنی منزل کی طرف روانہ  ہو گیا”

گھر پہنچا تو کافی رات ہو گئی تھی- کھانا میں نے آفس میں ہی کھا لیا تھا- بس جلدی سے میں  اپنے کمرے میں پہنچا چینج کیا فریش ہوا اور دھب سے اپنے بستر پہ گر گیا  کہ کافی تھکن محسوس کر رہا تھا اور نیند بھی آ رہی تھی- پھر کب نیند کی وادیوں میں کھو گیا پتہ ہی نہ چلا۔

“آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو نہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ جب میرا خواب شروع  ہوا تو میں نے اپنے آپ کو اپنے اسکول کی کلاس میں پایا۔

“ارے یار پھر میں اسکول میں آ گیا چھوٹا سا اب یہاں کیا کروں”؟ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا۔

“آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں یہ کیا باتیں کر رہا ہوں- کہ خواب میں آ کے اپنے آپ سے باتیں کر رہا ہوں-  کیا خواب میں بھی کوئی اپنے آپ سے بات کر سکتا ہے اس طرح؟”

جی ہاں بالکل کر سکتا ہے مگر ہر کوئی نہیں۔

میں بچپن سے ہی ایسے خواب دیکھتا ہوا آ رہا تھا  کہ جب میرا خواب شروع ہوتا تھا کسی بھی سچویشن میں تو مجھے پتہ ہوتا تھا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں- یعنی میرا خواب کسی فلم کی طرح نہیں چل رہا ہوتا بلکہ خواب میں میرا اپنا کنٹرول ہوتا ہے۔

مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں تو میں  سو رہا ہوں اور یہ ایک خواب ہے- اب میں جو چاہوں اس خواب میں کر سکتا ہوں چاہے کسی سے بات کروں اوپر سے چھلانگ مار دوں یا کچھ بھی۔

“ہاں   مجھے  وہ خواب    آتے ہیں اور مجھے اس کے بارے میں بہت بعد میں پتہ چلا  

ایک اسٹڈی کے مطابق دنیا میں جتنے بھی لوگ ہیں ان میں سے 50 فیصد  لوگ کبھی نہ کبھی lucid dream دیکھتے ہیں -اور دنیا کے 20 فیصد  لوگ وہ ہیں جو مہینے میں ایک بار ضرور کوئی lیہ  خواب  دیکھتے ہیں -اور میرا شمار انہی لوگوں میں ہوتا ہے۔

اب میں اپنی کلاس میں موجود ہوں اور غالبا یہ کلاس پانچویں کلاس ہے اور یہاں چھٹی کا ٹائم ہونے والا ہے- سامنے ہی مجھے عدنان نظر آرہا ہے -عدنان ویسے ہی لگ رہا تھا جیسے اپنے بچپن میں تھا۔

“عدنان یہ کون سی کلاس ہے “میں نے اس سے پوچھا ۔

عدنان نے یوں میری طرف دیکھا جیسے میرا دماغ خراب ہو گیا ہو۔

 “کیا ہو گیا بھائی کیا تمہاری یادداشت چلی گئی ہے اس نے تنک کے مجھ سے پوچھا”

“یار مذاق کر رہا تھا کلاس 5 ہے نا یہ میں نے فورا کہا”۔

“نہیں ہم میٹرک میں ہیں  اور بڑے ہو گئے ہیں” عدنان نے طنزیہ  انداز میں کہا ۔

ابھی میں کچھ اور کہنے والا تھا کہ اسکول کی گھنٹی بج گئی -اور سب بچے  کلاس سے باہر نکلنے لگے۔

“چلو بھائی میں بھی باہر نکل کے دیکھتا ہوں کیا سین ہے میں نے دل ہی دل میں سوچا”-

اور میں سکول سے باہر آگیا- سامنے ہی میری اسکول وین کھڑی تھی -میں اس میں جا کے بیٹھ گیا۔

اسکول کی وین چلنا شروع ہو گئی ۔

“یا اللہ میاں بس میرا یہ خواب ابھی نہ ٹوٹے میں گھر پہنچ جاؤں اور جا کر امی کو دیکھ لوں”- میں نے دل ہی دل میں دعا کی ۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے اس طرح کے خواب مختصر ہوتے تھے -اور جلد ہی ٹوٹ جایا کرتے تھے -یا پھر بعض دفعہ میں خود ہی اپنے آپ کو کسی جگہ سے گرا کے  خواب توڑ دیا کرتا تھا  ۔

لیکن اب مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا تھا- خواب حقیقت سے قریب تر لگ رہا تھا اور ابھی تک ختم بھی نہیں ہوا تھا ۔

میرا گھر آ چکا تھا -اس زمانے میں ہم لوگ ایک اپارٹمنٹ میں رہا کرتے تھے -جس کا نام تھا اپسرا اپارٹمنٹ۔

“یار کچھ تو گڑبڑ ہے یہ ہو کیا رہا ہے- مجھے سب کچھ بالکل روشن نظر آرہا ہے جیسے یہ خواب نہیں حقیقت ہو “-

حالانکہ میں خواب میں چھوٹا ہی ہوں یعنی ویسا جیسے میں کلاس 5 میں ہوا کرتا تھا –

اپارٹمنٹ کے نیچے چند دکانیں تھیں -جیسے جنرل سٹور بک شاپ وغیرہ .

میں بک شاپ  میں گیا -سامنے عارف بھائی بیٹھے ہوئے تھے جن کی دکان تھی ۔

“عارف بھائی  کیا حال چال ہیں سب مزے میں ہیں”- میں نے ان سے پوچھا ۔

“ہاں بیٹا اللہ کا شکر ہے- تم سناؤ سکول سے آ رہے ہو ؟-انہوں نے پوچھا

“جی بس جا رہا ہوں اوپر” یہ کہتے ہوئے میں نے ان کے سامنے جو اخبارات لگے ہوئے تھے  ان میں سے ایک کو اٹھایا -اور اس کی تاریخ دیکھی – 27 مارچ 1991۔

“ابے تیری یہ کیا سین ہے یہ تو 1991 ہے” اور میرا خواب کیوں نہیں ٹوٹا ابھی تک اتنا لمبا چلے جا رہا ہے۔

“ایک منٹ! میں اپنے آپ کو کہیں گراتا ہوں اوپر سے- خواب ہوگا تو ٹوٹ جائے گا۔

“نہیں پہلے اوپر جاتا ہوں گھر پہ وہاں امی بھی تو ہوں گی”  بس یہ خیال آتے ہی میں  بھاگتا ہوا  اپنے گھر داخل ہوا ۔

امی تو سامنے ہی کھڑی ہوئی تھیں -اور بالکل ویسے ہی تھیں جیسے وہ اس دور میں تھیں۔

میں اپنی کیفیت کیسے بیان کروں- کیا تھیں میرے سامنے میری ماں زندہ کھڑی تھیں۔

“ارے آگئے تم بیٹا – نہ سلام نہ دعاامی نے مجھے دیکھ کر کہا  –“ –

“ام امی السلام علیکم “

میری با مشکل ہی آواز نکلی -اور میں دوڑتا ہوا امی سے لپٹ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

“ارے ارے بیٹا کیا ہو گیا کیوں رو رہے ہو تم کیا ہو گیا تمہیں” امی ایک دم گھبرا گئیں۔

“کچھ نہیں امی بس آپ  بہت یاد آرہی تھیں  مجھ سے اور کچھ نہیں کہا گیا “-

“ارے بیٹا اسکول ہی تو گئے تھے  میں تو یہیں ہوں تمہارے پاس “-امی نے مجھے پیار کرتے ہوئے کہا۔

چلو شاباش اب منہ ہاتھ دھو لو اور کھانا کھا لو اور اب مت رونا ایسے میرا دل بھی کانپ کر رہ گیا امی نے مجھے پیار کرتے ہوئے کہا۔

جی امی میں آتا ہوں یہ کہتے ہوئے میں اپنی بالکنی کی طرف آگیا”۔

“یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے؟” 

یہ تو واقعی خواب ہے- امی تو زندہ ہیں یہاں- تو یہ خواب ہی تو ہو سکتا ہے -لیکن اتنا واضح اور لمبا خواب ؟ نہیں یہ خواب تو نہیں لگ رہا ۔

“ایک کام کرتا ہوں اپنے آپ کو اونچائی سے گرا کر دیکھتا ہوں خواب ہوگا تو آنکھ  کھل جائے گی” یہ سوچتے ہوئے میں نے بالکنی  سے نیچے جھانکا تو میں گھبرا کر پیچھے ہٹا- ہم تیسری منزل پر رہا کرتے تھے اور بالکنی زمین سے کافی اونچی تھی۔

لیکن مجھے ڈر کیوں  لگا میں تو اکثر ایسا کرتا تھا اپنے خواب میں۔

“یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے تو ہی بتا میرے مالک”- مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا میرا سر چکرا رہا تھا ۔

پھر میں نے اپنے آپ کو کھڑے کھڑے ہی زور سے زمین پہ گرایا- لیکن کچھ نہیں ہوا- پھر زور سے اپنی انگلی کاٹی تب بھی کچھ نہیں ہوا ۔

“نہیں یہ خواب نہیں ہو سکتا !پھر یہ کیا ہے کیا میں وقت کا سفر کرتا ہوا اپنے ماضی میں پہنچ گیا ہوں؟”

“ارے نہیں یار ایسا نہیں ہو سکتا یہ تو فلموں میں ہوتا ہے “

میرا دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔

ایک منٹ!  ہے تو یہ خواب ہی۔

چلو جتنا بھی لمبا چلتا ہے چلنے دو -میں اپنے آپ سے کہہ کے جیسے مطمئن سا ہو گیا ۔

پھر میں نے اس خواب کو چلنے دیا- کھانا کھایا -امی کے ساتھ باتیں کیں – ان کو دیکھتا رہا -ابو اس زمانے میں سعودی عرب میں ہوا کرتے تھے- اور میرے بڑے بہن بھائی بھی موجود تھے -اور اتنے ہی بڑے تھے جتنے 1991 میں تھے۔

میں نے اپنے بھائی سے بات کرنی چاہیے

“یار بھائی ایک بات کہوں؟”

“ہاں بولو کیا ہوا” بھائی نے فورا پوچھا ۔

اگر میں کہوں کہ میں مستقبل سے آیا ہوں -2015 سے تو کیا آپ میرا یقین کرو گے؟

“او بھائی بس کر دیے یہ  “back to the future” مووی کے اثرات ہیں- چلو نکل لو شاباش- یہ کہتے ہوئے بھائی آگے بڑھ گئے۔

میں سمجھ گیا تھا کہ کسی سے کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔

میرے لیے سب سے خوشی کی بات یہ تھی کہ میں اپنی امی کے ساتھ تھا- ان سے باتیں کر رہا تھا -ان کے گلے لگ رہا تھا -ان کی گود میں سر رکھ کے لیٹا تھا۔

“آہ !کاش میرا یہ خواب کبھی ختم نہ ہو- اب میں اپنی امی کے ساتھ ایسے ہی ہمیشہ  رہتا رہوں اے کاش۔

لیکن مجھے پتہ تھی کہ یہ خواب ہے یا جو کچھ بھی ہے عارضی ہی ثابت ہوگا۔

اسی طرح پورا دن گزر گیا تھا -اور میرا خواب تھا کہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔

اب رات ہو چکی تھی اور امی مجھے سونے کا کہہ رہی تھیں۔

“جی امی بس لیٹ رہا ہوں میں آپ میرے پاس آ کے مجھے سلائیں”- میں نے پیار سے اپنی امی سے کہا۔

میں تھکن بھی محسوس کر رہا تھا اور نیند بھی آ رہی تھی۔

امی میرے پاس ہی تھیں۔

اچانک میرے ذہن میں بجلی کی سی تیزی کی طرح ایک خیال آیا۔

“امی !آپ میری بات سنیں”  میں نے سنجیدہ سے لیجے میں کہا ۔

“ہاں بیٹا بولو کیا ہوا” امی نے فورا کہا ۔

“امی اپ بس میری ایک بات بہت غور سے سنیں”- مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا میں کیسے امی سے کہوں۔

“بولو بھی بیٹا کیا ہوا جلدی کہو اور پھر سونے کی کرو صبح سکول بھی جانا ہے” -امی نے جلدی جلدی کہا

“جی امی بس آپ میری بات بہت غور سے سنیں- بلکہ پہلے آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ جو بات میں آپ کو ابھی کہوں گا -آپ اس کو نہ صرف یہ کہ بہت غور سے سنیں گی بلکہ اس کو ہمیشہ یاد رکھیں گی  مجھ سے وعدہ کریں ابھی “میں نے جلدی جلدی امی سے کہا ۔

“اچھا بابا ٹھیک ہے یاد رکھوں گی اب بولو  کیا کہنا ہے”- امی نے اسی طرح پیار سے مجھے کہا۔

امی! میں نے امی کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

 “آہ امی کا وہ لمس- وہ مامتا کی خوشبو- جو میں ہمیشہ محسوس کیا کرتا تھا -اور اب جس کے لیے ترس گیا تھا وہ بدستور محسوس ہو رہی تھی- “

میں اپنی کیفیت شاید صحیح طرح بیان نہیں کر پا رہا -مجھے الفاظ ہی نہیں مل پا رہے یہ بیان کرنے کے لیے کہ میں اس وقت کیسا محسوس کر رہا تھا -اپنی امی کے سامنے جن کو میں کھو چکا تھا- کیا بتاؤں کیا کہوں۔

“امی آپ کی وہ بچپن کی دوست ہیں نا نور جہاں آنٹی؟”

“ہاں کیا ہوا- اس کے شوہر اسے  باہر بلا رہے ہیں -امریکہ میں- شاید وہ وہاں شفٹ ہو جائے” امی نے مجھے بتایا جو مجھے پہلے ہی پتا تھا۔

“جی امی وہ وہاں شفٹ ہو سکتی ہیں- شاید سال  2000 تک- لیکن ایک دن آپ ان سے ملنے جائیں گی -کافی عرصے بعد شاید ماموں کے ساتھ “-میں نے ایک ایک لفظ کو آرام سے ادا کیا

“ارے !مگر تم کیسے کہہ سکتے ہو یہ- کہ وہ امریکہ کب جائے گی- اور میں اس سے ملنے جاؤں گی- بہت عرصے بعد” امی نے حیرانی سے مجھ سے پوچھا۔

“امی پلیز,! میری پیاری امی- آپ نے کہا تھا نا کہ آپ میری بات غور سے سنیں گی -اور اس کو ہمیشہ یاد رکھیں گی -بس پلیز مجھ سے کوئی سوال نہ کریں -اور جو میں کہہ رہا ہوں وعدہ کریں آپ کہ آپ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں گی  

میں نے ایک ایک بات پر زور دیتے ہوے کہا”۔

“ارے مگر! امی نے کچھ کہنا چاہا۔

“کچھ اگر مگر نہیں آپ میری بات سنیں امی”! میں نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

وہ بہت عرصے امریکہ میں رہیں گی -اور اس کے بعد پاکستان آئیں گی تو اپ ان سے ملنے جائیں گی- ماموں کے ساتھ -بس آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ جب وہ پاکستان آئیں گی تو آپ ان سے ملنے نہیں جائیں گی ۔چاہے کچھ بھی ہو جائے -آپ نے نہیں جانا بلکہ آپ ان کو اپنے گھر بلائیے گا پلیز!” میں نے امی کی منت سماجت  کرتے ہوئے کہا۔

“بیٹا آپ کیا کہہ رہے ہو میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا “   امی نے بیچارگی سے کہا۔

“مجھے پتہ ہے امی آپ کے کچھ سمجھ نہیں آئے گا- بس آپ کو مجھ سے وعدہ کرنا ہے امی- پلیز! وعدہ کیجیے -آپ کو میری قسم میں نے- جذباتی ہوتے ہوے کہا۔

“کیا ہو گیا ہے تمہیں کیسی باتیں کر رہے ہو” امی نے کچھ الجھ کر کہا۔

“پلیز امی! پلیز امی!- میری خاطر- امی میری خاطر آپ وعدہ کر لیں مجھ سے- میں نے تقریبا روتے ہوئے کہا۔

“اچھا اچھا بیٹا ٹھیک ہے میں وعدہ کرتی ہوں- وہ کبھی آئے گی تو میں اس سے ملنے نہیں جاؤں گی -اس کو ہی اپنے گھر بلا لوں گی اب خوش؟ امی نے ہار مانتے ہوے کہا

“جی امی بہت خوش- بہت خوش آپ کا بہت شکریہ- بس آپ یاد رکھیے گا میری یہ بات”- میں نے بہت پرجوش انداز میں یہ بات انہیں کہی

“اچھا چلو بس اب جلدی سے سو جاؤ شاباش”  امی نے کہا

“جی امی بس آپ مجھے پیار سے سلائیں- میں سو جاؤں گا -میں نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا”

اور پھر کب میں ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے سو گیا مجھے پتہ ہی نہ چلا۔

 جی ہاں میں ایک خواب دیکھتے ہوئے اسی میں پھر سو گیا- ہے نا کتنی عجیب بات ۔

-اور پھر میری آنکھ کھل گئی۔

 کہاں کھلی -وہیں 1991 میں ؟

“جی نہیں بلکہ 2015 میں جب میں رات آفس سے آ کر جلدی سو گیا تھا “

-میں ایک دم ہڑبڑا کر اٹھا تھا۔

دن کے 12 بج رہے تھے اور مجھے یاد آیا کہ دوسرے دن اتوار تھا-۔

اف میرے مالک! اتنا لمبا خواب- اتنا واضح  خواب۔

“مجھے پورا خواب لمحہ بہ لمحہ یاد تھا- آہ! میری امی- میں نے کتنا وقت گزارا تھا امی کے ساتھ -لیکن مجھے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ ایک خواب تھا -ان کی خوشبو میں ابھی تک محسوس کر رہا تھا۔

“ایک منٹ”- میں نے اپنے آپ سے کہا – مجھے کچھ معلوم کرنا چاہیے -اگر وہ واقعی خواب نہیں تھا تو۔

میں اپنے کمرے سے باہر نکلا تو سامنے مجھے بھائی نظر اگئے۔

“السلام علیکم بھائی” کیا حال چال ہیں -خیریت سے ہیں- میں نے فورا کہا

“ہاں اللہ کا شکر ہے تم بتاؤ اٹھ گئے؟”انہوں نے پوچھا

“جی بھائی اٹھ گیا”- یار ایک بات سنیں -میں نے وقت ضائع کیے بغیر کہا۔

“ہاں بولو کیا ہوا “بھائی نے بھی فورا پوچھا۔

“بھائی امی کہاں ہیں ؟ میں نے ایک دم پوچھا۔

بھائی کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا مجھے خاموشی سے دیکھنے لگے۔

مجھے لگا جیسے بھائی کہنے والے ہیں کہ امی تو اپنے کمرے میں ہیں -یعنی میں یہی سوچ رہا تھا کہ وہ خواب نہیں تھا -اور میں واقعی ماضی میں پہنچ گیا تھا- اور ہو سکتا ہے کہ امی نے اپنا وعدہ یاد رکھا ہو اور اس دن نورجہاں آنٹی سے ملنے نہ گئی ہوں اور نہ اس دن انکا ایکسیڈنٹ ہوا ہو –-اور وہ ابھی حیات ہوں۔

“  کیا ہو گیا تمہیں! کوئی خواب دیکھا ہے کیا؟ یا امی کو خواب میں دیکھا ہے-؟ تمہیں تو اکثر امی نظر آتی ہیں خواب میں -جب سےانکا  انتقال ہوا ہے” انہوں نے مجھے گھورتے  ہوئے کہا۔

امی کا انتقال !ہاں بھائی -بس وہ امی کو خواب میں دیکھا تھا مجھے سمجھ نہیں آیا کیا کہوں۔

اس کا مطلب ہے وہ واقعی خواب ہی تھا اور مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے میں اصل میں ماضی میں چلا گیا تھا ۔

حد ہو گئی یار- میں نے اپنے آپ سے کہا۔

“اچھا یار بات سنو” مجھے بھائی کی آواز آئی۔

جی بھائی بولیں۔

“یار وہ امی کی بچپن کی جو دوست تھیں  نور جہاں آنٹی -وہ واپس امریکہ جا رہی ہیں -ان کے جانے سے پہلے ہمیں ان سے ایک بار مل لینا چاہیے-“بھائی  نے میری طرف دیکھتے ہویے کہا۔

“امی کی بھی ان سے ملاقات نہیں ہو پائی تھی اور ان کا انتقال ہو گیا، کیا خیال ہے تمہارا؟ انہوں نے مزید کہا۔

“بھائی کے الفاظ تھے یا ایٹم بم۔”

“کیا مطلب بھائی امی کا انتقال تو اسی دن ہوا تھا جب وہ ان سے مل کر واپس آ رہی تھیں” میں نے ہیجان کی سی کیفیت میں کہا۔

“کیا ہو گیا تمہیں- امی تو  ان سے مل ہی نہیں پائی تھیں- یار امی کے انتقال پر ہی تو نور جہاں آنٹی آئی تھیں- اتنا افسوس کر رہی تھی کہ مجھ سے ان کی ملاقات نہیں ہو پائی- اور تم کہہ رہے ہو کہ امی ان سے مل کر آئی تھیں- ابھی تک نیند میں ہو کیا!- بھائی کہتے چلے گئے۔

“اور میرا وہ حال کے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔”

“ہاں بھائی سوری- میں شاید نیند میں ہی ہوں ابھی تک -میں نے بمشکل  کہا ۔

“اچھا بھائی امی کے انتقال کی تاریخ 2 اگست 2015 تھی نا !”میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

“ہاں یار یہی وہ منحوس تاریخ تھی جب امی کو دل کا دورہ پڑا تھا “بھائی نے افسوس زدہ لہجے میں کہا۔

“دل کا دورہ امی کو”- میں بڑبڑایا۔

یہ کیا ہو رہا ہے میری سمجھ سے باہر تھا -امی کا انتقال تو ایکسیڈنٹ میں ہوا تھا- اور بھائی کہہ رہے ہیں کہ امی کو دل کا دورہ پڑا تھا۔

“یا اللہ یہ کیا چکر ہے! میں نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے اپنا سر پکڑ لیا۔

لیکن دوسرے ہی لمحے میں چونک کر کھڑا ہو گیا۔

“یار بھائی بات سنیں امی نور جہاں آنٹی سے ملنے نہیں گئی تھیں کیا؟ میں نے بھائی سے پوچھا   ۔

“نہیں یار وہ کہاں جا سکی  تھیں- انہوں نے تو نور جہاں آنٹی کو گھر پہ انوائٹ کیا تھا -مگر موت نے ان کو موقع ہی نہیں دیا -اور ایک دن پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا “بھائی نے بجھے ہوئے لہجے میں کہا ۔

“ہاں بھائی چلیں میں واش روم سے آتا ہوں” یہ کہتے ہوئے میں اپنے کمرے میں واپس آگیا۔

اف میرے خدا یہ کیا چکر ہے ۔

کیا وہ خواب نہیں تھا ۔

میں حقیقت میں ماضی میں چلا گیا تھا- اور جو میں نے امی سے وعدہ لیا تھا وہ انہوں نے  پورا کیا تھا -اور نور جہاں آنٹی سے ملنے خود نہیں گئی تھی ان کے گھر- بلکہ ان کو اپنے ہاں مدعو کیا تھا ۔

یعنی امی کو اپنا وعدہ یاد تھا لیکن۰۰۰ لیکن پھر بھی ان کا انتقال اسی دن ہوا- 2 اگست کو- یعنی پہلے ان کا انتقال ایکسیڈنٹ میں ہوا تھا اور میرے اس خواب کے بعد یا یہ جو کچھ بھی تھا ان کا انتقال دل کے دورے کی وجہ سے ہوا تھا۔

“اے خدا یہ کیا معاملہ ہے ؟َ“

اور وہ بزرگ جنہیں میں نے لفٹ دی تھی !او خدایا ان کے وہ الفاظ کہ “چلو چلے جانا اپنے بچپن میں؟” 

نہیں تھا۔lucid dream مجھے اب سب کچھ سمجھ آنے لگا تھا-  ان بزرگ کا مجھ سے میری خواہش پوچھنا- میرا  اس کا اظہار کرنا -اور اس رات میں واقعی اپنے ماضی میں چلا گیا تھا- اور وہ میرا

اس واقعے کو گزرے کافی سال ہو چکے ہیں -میں یہ بات کسی کو بتا نہیں سکا- فائدہ بھی نہیں تھا کوئی میرا یقین نہیں کرتا- لیکن میں اللہ کا بہت شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ایک بار مجھے میری ماں سے پورے دن کے لیے ملوایا خواب میں نہیں بلکہ جاگتی حالت میں۔

اس بات کے بعد میں نے ان بزرگ کو بھی کافی ڈھونڈا لیکن پھر وہ مجھے کبھی نظر نہیں آئے ۔

میں نہیں جانتا یہ کیا ہوا تھا- کیسے ہوا تھا -لیکن ہاں میرے ساتھ ضرور ہوا تھا جس کو میں کبھی جھٹلا نہیں سکتا -اور دوسروں کو اس کا یقین نہیں دلا سکتا ۔

لیکن ایک بات مجھے سمجھ میں آگئی تھی- کہ اللہ تعالی نے جو تقدیر میں لکھا ہے- وہ ضرور ہو کر رہتا ہے اور جس کی موت کا وقت جو مقرر کیا گیا ہے -وہ اسی وقت پر زندگی کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے- جیسے میری امی کے انتقال کا دن 2 اگست تھا تو اسی وقت ان کی موت آئی چاہے گاڑی کے کسی حادثے میں یا پھر دل کے دورے سے۔

اللہ پاک میری امی کی مغفرت کرے اور ان کو کروٹ کروٹ جنتالفردوس  نصیب کرے آمین


وقت کا کھیل- تحریر: ریحان خان (کراچی)


 


اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز -   ڈاؤن لوڈ کیجئے

نمرہ احمد کے ناولز Nimra Ahmed Novels  عمیرہ احمد کے ناولز Umera Ahmed Novels  اشتیاق احمد کے ناولز Ishtiaq Ahmed Novels 
عمران سیریز Imran Series دیوتا سیریز Devta Series انسپکٹر جمشید سیریز Inspector Jamshed Series 
دیگر مصنفین کے ناولز شہزاد بشیر کے ناولز Shahzad Bashir Novels نسیم حجازی کے ناولز Naseem Hijazi Novels


ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟  We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff !   Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household ItemsBuy from Amazon

Rehan Khan

Entrepreneur, Traveler, Blogger, Logistician, Foodie & Bibliophile

One thought on “وقت کا کھیل (ٹائم ٹریول کہانی – دوئم انعام)

  1. ماشاءاللہ 💗
    ٹائم ٹریول پر ایک عمدہ کہانی، عمدہ کاوش اور میں جانتا ہوں کہ مصنف کی پہلی کاوش ہی ہے۔ جس طرح کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، کہیں سے اندازہ نہیں ہوتا کہ ہی موصوف کی پہلی کہانی ہے، تانے بانے اور کہانی پن کے حوالے سے۔ صرف املا اور رموز اوقاف ہی یہ راز عیاں کرتے ہیں کہ مصنف نے پہلی کوشش کی ہے اور کامیاب کوشش کی ہے۔ ریحان صاحب مزید لکھیں گے تو جو املا وغیرہ کی کوتاہیاں ہیں وہ نہایت عمدگی سے درست ہوتی جائیں گی۔
    اب اگر کہانی پر بات کروں تو کہنا چاہوں گا کہ اپنی دلی خواہش کو جس پلاٹ کے کینوس پر پھیلا کر لکھا گیا ہے وہ پلاٹ میرے لیے نیا ہرگز نہیں ہے۔ بقول ابن صفی پلاٹ آسمان سے نہیں ٹپکتے، تو ظاہر ہے ادھر ادھر نظر ضرور پھیرنی پڑتی ہے۔ میرے لیے اہم بات یہ ہے کہ اس کینوس پر ماں کی محبت کو جس طرح رنگوں کی صورت میں بکھیرا گیا ہے وہ مصنف کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔

    خیراندیش
    ڈاکٹر حامد حسن
    بہاول پور

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave the field below empty!

Next Post

سفر ظفر (ٹائم ٹریول کہانی - سوئم انعام)

Fri Nov 15 , 2024
سفر ظفر  مصنف۔   ڈاکٹر حامد حسن (ٹائم ٹریول کہانی -سوئم  انعام) کتاب دوست ادبی مقابلہ ستمبر 2024    سفرِ ظفر ڈاکٹر حامد حسن ایک خواہش جرم کیسے ہو سکتی ہے کہ جس کی سزا اچانک سے شروع ہو جائے؟ ہمارا دین ہر نیکی کے بدلے ثواب کی خوش خبری سناتا […]
amir ayar

ایسی مزید دلچسپ تحریریں پڑھئے

Chief Editor

Shahzad Bashir

Shahzad Bashir is a Pakistani Entrepreneur / Author / Blogger / Publisher since 2011.

Hunoot series = waqt ka taaqub