ِ رائٹر اکاؤنٹ بنائیے
  ِاپنی تحریر پوسٹ کیجئے
  مفت ناول ڈاؤن لوڈ کیجئے
ِ آن لائن شاپ / کتاب آرڈر کیجئے  
       
       
  قسط وار ناول پڑھئے
  بچوں کی کہانیاں پڑھئے
  بلاگ بنانا سیکھئے
ِدیگر اہم اصناف  
       

قارئین کی پسندیدہ کیٹگریز

              

والليل

Wal-Layel Urdu Novel by Alishma Nisa. The best Urdo Motivational Social Justice based novel with an interesting story.

والليل

مصنفہ:   علشمہ النساء

Wal Layel Urdu Novel by Alishma Nisa

Read Online PDF or Free Download


والليل

مصنفہ:   علشمہ النساء

باب 1 

وھیج وقت از حرف ھای مردم غمگین نشو
(اور کبھی بھی لوگوں کی باتوں سے غمزدہ نہ ہو )

زندگی  میں  بہت سے آدم زاد ملیں گے

تمھارے حوصلے پست کریں گے

مگر تم کبھی بھی سر خم مت کرنا

کبھی نہ رکنا، وہ ہر موڑ پر چال چلیں گے

کیونکہ تم کامیاب ہونے والے ہوگے

اس لیے ہر سیڑھی پر سوچ کر قدم رکھنا

لوگوں کی باتوں سے دل کو نادار مت کرنا

کیونکہ تمھاری حقیقت سب سے بہتر ہے

شبنم کی طرح چمکو ،اور خورشید کی طرح بنو

اپنے نور سے سب کی نظریں جھکاؤ

خود سے محبت کی شمع جلائے رکھنا

کہ خودی کی محبت منزل دلاتی ہے

بھروسہ رکھنا اپنی ذات پر کہ

وہ کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے

وقت کی دھار سب کچھ بدل دیتی ہے

غم کو خوشیوں میں ڈھال دیتی ہے

لہذا حرف ہائے مردم سے دل نہ دکھاؤ

اپنی راہ پر چلو، کامیابی کے دیے جلاو

(از خود)

جنوری کہ صبح تھی۔سورج کی سنہری کرنوں سے آسمان سرمئی رنگ کی چادر اوڑھنے کو تیار تھا۔صحن میں موجود دائیں طرف کیاریوں میں لگے گل بہارا کے پھول ٹھنڈی ہوا سے رقص کر رہے تھے۔بائیں طرف کیچن سے برتنوں کے مانجنھےکی آوازیں آرہی تھی جو کیچن میں صبیحہ خانم کی موجودگی کا پتا دے رہی تھی۔وہ برآمدے میں شیشیے کے سامنے کھڑا بالوں میں گنگی کر رہا تھا۔شاید وہ کہی جانے کی تیاری میں تھا۔وائٹ ٹی شرٹ کے اوپر براؤن ہڈی جس کا زیب کھلا تھا اس کے ساتھ ہی بلیک پینٹ اور وائٹ جوگرز جسے وہ اب جھک کر باندھ رہا تھا۔

مما لیٹ ہو رہا ہوں جلدی کرے ۔ وہ دائیں پیر کا جوتا باندھ رہا تھا۔جب اسکی امی کیچن سے ایک کپ ہاتھ میں پکڑے باہر آئی ۔

کتنی دفہ کہا ہے آدم کے پہلے لوگ دائیں پیر کا جوتا بند کرتے ہے ۔ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی اسے بائیں جوتا پہلے بند کرتا دیکھ کر شروع ہوئی تھی۔ان کے مطابق پہلے بائیں پیر کا جوتا باندھنے سے غلط ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔وہ ہلکا سا مسکرایا تھا۔

میری پیاری مما ہمیشہ سے میں پہلے دائیں پیر کا جوتا پہلے باندھتے آیا ہوں کیا آج تک کچھ ہوا ہے مجھے ۔وہ اب سے کے ساتھ دائیں طرف بیٹھی تھی۔

اللہ نا کرے آدم صبح صبح کیسے باتیں کرے رہے ہوں۔اب ایک تم ہی تو ہو میری زندگی میں۔وہ روہانسی ہوئی تھی ۔

اور میں آپ کے لیے کافی بھی ہوں۔اس نے چائے کا پیالہ لبوں سے لگا کر ان کی بات مکمل کی تھی جبکہ وہ اب اسکے کمرے میں پھیلے کپڑے سمیٹ رہی تھی۔وہ چائے کا کپ وہی رکھ کر اپنے کمرے کے دروازے میں کھڑا ہوگیا اس کے ہاتھ میں ایک فائل اور دوسرے ہاتھ میں بیگ پکڑا تھا۔

مما میں جارہا ہوں شاید آج لیٹ ہو جاؤں گا ۔اسکی امی اب بیڈ شیٹ ٹھیک کر رہی تھی۔

تمہاری کلاسسز تو دو بجے ختم ہونی تھی۔وہ کمرہ ٹھیک کر چکی تھی اب اس کے کپڑے ہاتھ میں پکڑے اس کے پاس آئی۔

سلیم احمد کے بچوں کا کل سے میٹرک کا امتحان شروع ہونے والا ہے ان کو پڑھانے جانا ہے ۔
اسکے ساتھ ہی اس کے کندھے پر ایک تپڑ رسید ہوا تھا۔

آدم انہیں انکل بولا کرو بڑے ہے تم سے مگر میری بات ماننا تو جیسے تمہاری شان کے خلاف ہو۔

ہم کوئی غلام تھوڑی ہے کہ جو آپ کہیں گے ہم وہ کر لے۔شراتا کہا کیونکہ اپنی امی کی ساست دانوں سے محبت سے وہ بخوبی واقف تھا۔

لا حول ولا قوا …… یہ سیاست دان ایک نا ایک دن تمہیں ۔

اللہ حافظ مما ۔۔۔۔ابھی اسکی امی کچھ کہتی کہ وہ دروازے کے اوٹ سے غائب ہوچکا تھا ۔اسکی امی نفی میں سر ہلایا۔اور باہر آکر مشین لگانے لگی کیونکہ آج منگل کا دن تھا ان انکا ارادہ شاید گھر بھر کے کپڑوں کو دھونے کا تھا۔بقول آدم مما کا بس چلے تو منگل کو کپڑے دھونے کا عالمی دن بنادے۔

—————————-

پاکستان کی بنسبت اسکاٹلینڈ کا ٹیمپریچر بہت کم تھا ۔وہاں کی سرزمین برف کی چادر سے ڈھک چکی تھی۔ ناجانے کتنے دنوں بعد ان لوگوں نے سورج کو چمکتا دیکھا تھا ۔اج دھوپ تھی جس کی وجہ سے نیپئیر یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ آج باہر بیٹھے تھے ۔کچھ بینچز پر تو کچھ نیچھے گھاس پر لیٹے تھے۔وہ ان سب سے دور ایک بینچ پر بیٹھی تھی جس کے ساتھ ایک میز بھی پڑا تھا۔سورج کی کرنیں بلکل اسکے منھ پر پڑ رہی تھی۔

اسکا لیپ ٹاپ اور فائلز بھی وہی میز پر رکھی پڑی تھی۔ جبکہ وہ اپنے موبائل میں مصروف تھی۔ جب اچانک اس پر کسی کا سایہ ہوا اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو یہ وہی لڑکا تھا جیسے وہ کافی دنوں سے نوٹ کر رہی تھی ۔وہ جہاں بھی ہوتی یہ لڑکا بھی وہی اجاتا اور پھر جب تک وہ وہاں بیٹھی رہتی وہ بیٹھا رہتا مگر وہ کچھ بولتا نہیں تھا خاموش رہتا تھا ۔

جوناتھن ۔اس نے سوچتے ہوئے اسکا نام لیا کیونکہ وہ زیادہ تر کلاسسز نہیں لیتا تھا۔اس لڑکے کے دائیں ہاتھ پر ٹیٹوز بنے ہوئے تھے اس کے بائیں ہاتھ کے انگلیوں میں بہت سے عجیب قسم کے رنگز تھے۔اس کے گلے میں بھی چینوں کا ایک غنچہ تھا۔اس نے بلیک ہوڈی سر پر لی ہوئی تھی۔اس کے نام پکارنے پر بھی وہ خاموش رہا تھا۔

بیٹھو ۔اسکے لیے جگہ بنائی۔وہ بنا کچھ بولے بیٹھ گیا۔کافی دیر تک وہ خاموش بیٹھا رہا تو مجبوراً اس نے بات شروع کی۔

کسی لیکچر میں مسئلہ ہے تو بتاؤ میں اسے حل کر دیتی ہوں ۔
وہ نیپئیر یونیورسٹی میں accounting and finance کی پروفیسر تھی۔اس نے لانگ کریم رنگ سکرٹ کے ساتھ ریڈ رنگ جو تھوڑا تھوڑا سیاہ کی جھلک دے رہی تھی، ڈریس شرٹ پہنی تھی ۔اور سر پر سکرٹ کے ہم رنگ esarp پہنا تھا۔وہ ایک ٹانگ کو دوسرے ٹانگ پر جمائے بیٹھی تھی۔جبکہ وہ دونوں بازوؤں کو گھٹنوں پر جمائے آگے کو جھکا بیٹھا تھا۔

اس نے ایک خاموش نگاہ اس پر ڈالی تھی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔اور پھر اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگا۔

Chan eil ,tapadh leat (نہیں شکریہ )
اس نے بنا کسی تاثر کے اسکاٹش میں کہا۔وہ ایک نظر اس پر ڈال کر دوبارہ موبائل میں گم ہوگئی ۔جب کچھ دیر اس نے اسکی آواز سنی۔

مس رملہ۔رملہ نے اسکی طرف دیکھا ۔پوری یونیورسٹی اسے تمام سٹوڈنٹس اسے پروفیسر کہ کے بلاتے تھے یا پروفیسر نساء مگر صرف واحد جوناتھن تھا جو اسے مس رملہ کہتا تھا۔

بولو۔وہ پھر سے موبائل کو دیکھنے لگی۔اب کی بار وہ اسکی طرف گھوما تھا۔

کل آپ food haven میں بیٹھ کر کوئی پوئٹری سن رہی تھی۔نیپئیر یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس میں کین ٹین food haven کے نام سے مشہور تھا ۔رملہ نے آنکھیں چندھیا کر اسے دیکھا ۔جس پر وہ منھ موڑ گیا۔

تم نے کل پھر سے گلاس بنگ کی تھی۔اس نے نظریں چرائی تھی۔

لگتا ہے تمھاری والدین سے شکایت کرنی پڑی گی۔اس نے دھمکی دی۔مگر اسے پتا تھا جوناتھن کو اس سے بھی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔

گھر سے نکال دیا انہوں نے مجھے۔اس نے بہت پہ آرام سے دوبارہ سیدھے ہوکر کہا۔جبکہ رملہ منھ کھولے اسے دیکھنے لگی۔جسے کوئی فرق ہی نہیں پڑرہا تھا۔

کیوں۔
سلیب کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا۔وہ نیچھے دیکھ رہا تھا۔
مسلمان ہونا چاہتے ہو۔سوال رملہ کی طرف سے تھا۔
نہیں۔رملہ سیدھا ہوکر بیٹھ گئی۔
تم نے اس پوئٹری کے بارے میں نہیں بتایا۔سر اٹھا کر رملہ کو دیکھا تھا۔رملہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔
وہ پوئٹری نہیں تھی ہمارے ہولی بوک کے آیات تھے
اوو۔وہ شاید شرمندہ ہوا تھا
کون سی لائن تمھیں یہاں کھینچ لائے
پتہ نہیں۔وہ کنفیوز تھا
مام کہہ رہی تھی کہ میں ہل میں جانے والوں میں شامل ہوگیا ہوں۔اس نے نہایت آہستہ آواز میں کیا شاید یہ بات کرتے ہوئے وہ خود ڈر رہا تھا ۔
بلکل۔رملہ نے اسکے مام کی بات سے اتفاق کیا۔اس نے جھٹکے سے رملہ کو دیکھا ۔جو سامنے دیکھ رہی تھی۔اسے رملہ سے اس بات کو توقع نہیں تھی۔
اب تم کونسے مذہب کے پیروکار ہو
میں Atheist ہوں۔وہ پھر سے نیچھے دیکھنے لگا ۔رملہ بھی خاموش ہوئی ۔
تم لوگوں کا اور ہم مسلمانوں کا ایک ہی کلمہ ہوتا ہے کہ کوئی خدا نہیں مگر ۔۔۔۔کچھ دیر بعد وہ پھر سے بولی اور مڑ کر جوناتھن کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

تو کیا میں مسلمان ہوا۔اسکا چہرہ کسی بھی تاثر سے عاری تھا۔رملہ نے نفی میں سر ہلایا۔
مگر ابھی آپ نے کہا کہ ایک ہی کلمہ ہے ۔

تم لوگ صرف یہ مانتے ہو کہ خدا نہیں مگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کہ۔وہ یکتا اس کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔رملہ کی بات سے اسکا چہرہ بجھ سا گیا تھا ۔شاید اسے کسی دوسرے بات کی توقع تھی۔دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی تھی۔

کیا اللہ سے پہلے کوئی اور تھا۔کچھ دیر بعد وہ پھر سے بولا
نہیں ۔محتضر جواب آیا تھا۔
کوئی اور بھی تو ہوگا نا جس نے اللہ کو بنایا ہوگا یا اللہ سے پہلے کوئی اور ذات؟رملہ مسکرائی تھی ۔

اگر اللہ کو کسی نے بنایا ہے تو پھر وہ کرئیٹر تو نا ہوا اور اللہ کریئٹر ہے ۔۔۔اللہ سے پہلے اور اللہ کے بعد کوئی نہیں۔وہ زماں و مکان سے بے نیاز ذات ہے وہ وقت کے چکر سے باہر ہے وقت۔۔۔رملہ اس کے تاثرات کو دیکھنے کے لیے روکی۔وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ہمیشہ کی طرح ۔رملہ مسکرائی اور پھر سے شروع ہوئی۔

وقت کا وجود صرف اس کائنات میں ہیں ۔۔۔۔دن رات سب اسی کائنات کا حصہ ہے۔اس کائنات کے باہر نہ کوئی وقت ہے نا کوئی زمانہ۔
وہ شاید تھوڑا تھوڑا سمجھ رہا تھا ۔

میں نے تقریبا تین مذاہبِ تبدیل کئے ہے کوئی بھی مذہب ٹھیک نہیں ہے۔مایوسی اسکے چہرے پر چھاگی۔

چھوتا اسلام کو اپنانا چاہتے ہو۔
کوئی بھی مذہب ٹھیک نہیں ہے۔وہ اب بھی سیدھا جواب نہیں دیتا تھا۔رملہ مسکرائی۔
غلط۔۔۔۔برائی مذہب میں نہیں ہوتی برائی اس کے پیروکاروں میں ہوتی ہے ۔ہر مذہب ٹھیک ہے ۔چاہے وہ ہندوؤں کا مذہب ہو یا کرسچن کا ۔جوناتھن کو اس کے دماغی حالت پہ شعبہ ہوا۔

ہندوؤں اور کرسچن کا مذہب ٹھیک کیسے ہوا ہندوؤں بتوں کو پوجتے ہے جبکہ کرسچن کا عقیدہ ہے کہ یسوع مسیح خدا کا بیٹا ہے۔

اور انکی ہولی بکس کیا کہتی ہے؟وہ مسکرا رہی تھی جبکہ مقابل بلکل کنفیوز تھا۔اسے بلکل بھی اپنی پروفیسر کی بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔جو کہ تھی بھی مسلمان۔

مجھے نہیں معلوم
چلو بائبل تو پڑھا ہوگا نا
ہاں ایک دفہ پڑھا تھا ۔شرمندہ ہوکر کہا

ہندو کی ہولی بک کا لاسٹ سیکشن Upanishads میں لکھا ہے کہ ( نا تسیہ پرتیما استی) مطلب کہ اسکے جیسا کوئی خدا نہیں ہے ۔ایک اور جگہ لکھا ہے کہ (نا کیسہ کسج جنیتا نہ کیڈیپہ) مطلب کہ اس کے نہ ماں باپ ہیں نہ رب۔” یہ سب ہندو کہ ہولی بک میں لکھا ہے ۔۔۔۔اسی طرح کرسچن کے ہولی بک بائبل میں( Deuteronomy 6:4 ) میں لکھا ہے کہ “اے اسرائیل سن! رب ہمارا خدا ہے، رب ایک ہے . ہمارے ہولی بک قرآن پاک میں سورہ اخلاص میں ہے کہ ۔کہہ دو کہ تمھارا رب ایک ہے۔

۔۔وہ خاموش ہوئی تو جوناتھن نہایت ہی حیرانی کے عالم میں اسے دیکھ رہا تھا۔اسے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ انکے ہولی بک میں کیا لکھا ہے جبکہ اس کے سامنے بیٹھی لڑکی کو سب معلوم تھا نا کہ صرف اپنی مذہب کے بلکہ اسکے مذہب کے کتابوں کو بھی علم تھا اسے۔

ہر مذہب یہی کہتا ہے کہ اللہ ایک ہے بس لوگ اسے مختلف ناموں سے پکارتے ہے جیسے کہ مسلمان اللہ ،عیسائی گوڈ جبکہ ہندو بھگوان کہ کر پکارتے ہے۔رملہ نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔
میں کہا تھا نا کہ مذہب غلط نہیں ہوتا اس کے پیروکار اور سب سے بڑھ کر اس کے علما اسے غلط بنا کر پیش کرتے ہے۔وہ اب چیزیں سمٹنے لگی۔

اور تمہارا دین ۔۔۔بہت دیر بعد اس نے کوئی سوال پوچھا تھا۔رملہ اپنے بیگ اور لیپ ٹاپ اٹھانے لگی۔جوناتھن وہی بیٹھا تھا۔

میرے لیکچر کا ٹائم ہوگیا ۔۔۔۔اور یاد رکھنا میں بہت سٹریک ٹیچر ہوں ۔پہلے موبائل میں ٹائم دیکھا اور پھر اس کو دیکھا رملہ کی بات پر وہ ہلکا سا مسکرایا تھا تو چلو مسز رملہ کو پھر سے پتہ چل گیا۔

میں بھی جوناتھن ہوں ۔رملہ ہنس کر اسکی بائیں طرف سے نکل گئی۔سورج بادلوں کی اوٹ میں چھپ ساگیا تھا۔جوناتھن نے ایک خاموش نظر آسمان کو دیکھا۔اور پھر اٹھ کر جانے لگا ۔اج اس نے پھر سے کلاس بنگ کیا تھا۔اور ہمیشہ کی طرح رملہ کو پھر سے پتہ چل گیا۔

————————–

یہ منظر پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع راولپنڈی میں واقع اڈیالہ جیل کا ہے۔سب قیدی اپنے اپنے سیل سے باہر نکل گئے تھے۔انہیں جیل سے وابستہ ایک کھلے میدان میں لایا گیا تھا۔ان سب میں وہ بھی موجود تھا۔وہ سب سے لاغر ایک درخت کے نیچھے کھڑا تھا۔اسے جیل میں تقریبآ ایک سال ہونے کو تھا۔اس پر سو سے زائد کیسس بنے تھے۔وہ وہی کھڑا گہری سوچ میں تھا ۔جب دو اہلکار اس کے پاس آئے دونوں کے پاس لاٹی تھی۔

چلو تم سے کوئی ملنے آیا ہے۔دنوں میں سے ایک نے کہا۔لیکن وہ ویسے ہی کھڑا رہا کوئی تاثر نہیں دیا ۔جب ایک نے آگے بڑھ کر اسے کندھے سے ہلایا۔

بہرا ہوگیا تجھ سے کہہ رہا ہوں کوئی ملنے آیا ہے چلو۔اس نے دونوں کو دیکھا اور پھر کچھ بھی کہے بغیر ان کے پیچھے چلنے لگا۔وہ ان دونوں کے پیچھے تھا ۔اسے ہتکھڑی بھی پہنا دی گئی تھی۔

میں نے پچھلے کچھ دنوں سے نوٹ کیا کہ وہ رات کو ہمیشہ اسی میدان میں جاتا ہے۔ جب بھی اس سے پوچھتا ہوں، وہ کہتا ہے کہ اسے نیند میں چلنے کی بیماری ہے۔ ایک دن، کسی نے اسے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ان دونوں کی باتوں پر وہ صرف ہلکا سا مسکرایا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ وہ کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

پھر اسے لاکر جیلر افسر کے دفتر کے سامنے کھڑا کیا گیا اور ان دونوں میں سے ایک خود اندر چلا گیا، جبکہ دوسرا اس کے ساتھ کھڑا رہا۔ وہ بار بار اسے مڑ کر دیکھتا، اور وہ جواب میں صرف مسکراتا۔

“سچ بتاؤ، تمہیں واقعی نیند میں چلنے کی بیماری ہے؟” اسے ابھی بھی اس بات پر یقین نہیں تھا۔

“میری ماں نے کہا تھا,” اس نے کندھے اچکا کر کہا۔ مطلب صاف تھا کہ اسے خود بھی نہیں پتہ۔ وہ تو بس اسکی ماں اسے کہتی تھی۔ابھی وہ دوسرا سوال کرتا کہ اس کا دوسرا ساتھی آگیا۔

“چلو اندر۔” وہ اسے اندر لے گئے۔ افسر کے سامنے چئیر پر ایک آدمی بیٹھا تھا، وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا کیونکہ اس کی طرف اس کی پشت تھی۔ وہ دوسری کرسی کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ جب اس شخص نے سر اٹھا کر اسے دیکھا، دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ مقابل کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح وہی مسکراہٹ تھی، البتہ اس کے چہرے سے اب مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی۔

“ارے وجدان، کیسے ہو؟” وہ شخص اٹھ کر اس کی جانب آیا اور اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ وہ اب بھی سپاٹ نظروں سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔

“جہانگیر، میں اس سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔” اس نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

“ارے خان صاحب، اجازت کی بلا کیا ضرورت؟” مسکرا کر افسر کو دیکھا جو اب باہر جارہا تھا۔ افسر کے جانے کے بعد دونوں کے چہرے کے تاثرات یکدم تبدیل ہوگئے۔

“تم سے کہا تھا کہ پارٹی کی صدارت کے کاغذات پر سائن کرو۔ مگر تمہیں شاید اپنی بیوی کی ذرا بھی فکر نہیں ہے,” دبے دبے غصے میں کہا۔

“اپنی بیوی کی جان کی فکر ہے، تب ہی تو سائن نہیں کیے۔ جب مجھے لگے گا کہ میری بیوی اب مکمل حفاظت میں ہے، میں سائن کردوں گا,” کندھے اچکا کر کہا۔ وہ میز کے کونے پر بیٹھ چکا تھا۔

“اس کا باپ اس کی حفاظت کرسکتا ہے,” ضبط کے مارے ان کا چہرہ نہایت سرخ ہوچکا تھا۔ جبکہ وجدان اب مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔

“اور میں کم از کم اس کے باپ پر یقین نہیں کرسکتا۔ کیا پتہ، جو بڑی بیٹی کے ساتھ کیا ہے وہ اس کے ساتھ نہ کر دے,” تھوڑا سا اس کی طرف جھک کر کہا۔

“تمہیں کیا لگتا ہے، میں اپنی بیٹی کو ماروں گا؟ لگتا ہے جیل میں رہ کر تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے۔” سلطان صاحب نے منہ پر بندھ مٹھی رکھ کر خود کو کنٹرول کیا۔ وجدان نے کندھے اچکائے اور دائیں طرف دیوار کو دیکھنے لگا۔ کافی دیر تک وہ دیوار کو دیکھتا رہا۔

“تو یہ تمہارا اٹل فیصلہ ہے؟”

“ختمی۔” اس نے شاید ان کی غلطی درست کی۔

بچھاتاو گے وجدان بہت بچھاتاو گے۔یہ کہہ کر وہ تیزی سے باہر چلا گیا، جبکہ وجدان مسکرا کر نفی میں سر ہلانے لگا۔ سلطان صاحب کے باہر جاتے ہی وہی دو اہلکار اندر آئے اور اسے کھڑا کیا اور باہر لے گئے۔

————————–

آدم بھائی یہ نازی نے کل کے پیپر میں حصہ ج کا ایک سوال چھوڑ دیا تھا۔مسکان نے آج پھر سے نازی کی شکایت کی تھی اور وجہ یہ تھی کہ نازی اسے ڈائجسٹ نہیں دے رہی تھی۔سلیم احمد کے تین بچے تھے سب سے بڑی نازنین احمد اسکے بعد مسکان اور ان دونوں سے چھوٹا انکا بھائی صوفیان ۔نازنین اور مسکان دونوں ہی میٹرک کا امتحان دے رہی تھی جبکہ صوفیان کے ابھی امتحان نہیں تھے کیونکہ وہ ابھی ابھی ساتویں پاس کر چکا تھا سلیم احمد مطابق جب تک انکے دونوں بیٹیوں کے امتحانات ختم نا ہو جائے وہ انہیں پڑھاتا رہے ۔بدلے میں اسے ایک ماہ کی فیس دی جائے گی۔

ویسے تو آدم کے پاس انکو پڑھانے کا بلکل وقت نہیں تھا مگر وہ سلیم احمد کو انکار نا کرسکا کیونکہ جب وہ اس محلے میں آئے تھے تو سلیم احمد نے انکی کافی مدد کی تھی۔ائے روز کوئی نا کوئی ان کے گھر پہنچ کر انہیں برا بلا کہتا تب آدم کی عمر صرف سترہ سال تھی۔ااس تمام حالات میں انہیں بہت مدد کی تھی انکی۔اس کے علاؤ بھی کافی احسانات تھے سلیم احمد کے۔
ہاں وہ الگ بات تھی کہ سلیم احمد اور آدم کا جب بھی سامنا ہوتا تھا بات سلام سے شروع ہوکر بحث پر ختم ہوتی تھی۔اور بحث کی وجہ ایک ہی چیز ہوتی تھی آدم کہ ٹائی۔۔۔ایک دفہ آدم کی یونیورسٹی میں کسی دوسرے ملک کا ایک سٹاف آنے والا تھا جس کے لیے ایک پارٹی اورگنائز کی گئی تھی جس میں 7 اور 8 سمسٹر کے سٹوڈنٹس کا آنا لازمی تھی اور اس وقت آدم نے ڈریس سوٹ پہنا تھا ۔

راستے میں انہیں سلیم احمد ملے اور پھر آدم اور انکا بحث تقریبآ آدھا گھنٹہ جاری رہا وہ تو شکر نازی کا کہ وہ آگئی ورنہ وہ تو رات تک کا پروگرام بنائے ہوئے تھے۔

نازی نے ایک نظر آدم کو دیکھا اور پھر مسکان کو چٹکی کاٹی۔

اوچچ نازی چٹکی کیوں کاٹ رہی ہوں قسم کھاؤ شیر دل کی کہ تم نے نہیں چھوڑا تھا وہ سوال۔نازی کا چہرہ یکدم سرخ ہوا تھا۔وہ جلدی سے چہرہ نیچھے کر گئی وہ سوال لکھنے لگی۔

نازنین مسکان سچ کہہ رہی ہے۔ادم نے اس کے جھکے سر کو دیکھ کر کہا تو نازنین نے نا میں سر ہلایا۔ادم ہلکا سا مسکرایا۔

تمھیں شیر دل کی قسم نازی ۔یہ لقمہ دینے ولا کوئی اور نہیں صوفیان تھا جو ہاتھ میں بیٹ تھامے ابھی ابھی گھر آیا تھا۔نازنین کا سر اور بھی جھک گیا تھا۔وہ بس دو دینے کو تھی ۔کہ شمیم بیگم ہاتھ میں ٹرے لے کر آئی اور آتے ہی صفیان کو سنانے لگی ۔

تم تو رکھو شیر دل کے بچے کتنی دفہ کہا ہے کہ ان اوارہ لڑکوں کے ساتھ مت کھیلا کرو۔شمیم بیگم نے ٹرے آدم کے سامنے رکھی۔
ارے امی میں تو سلیم احمد کا بچہ ہوں ۔اسکی بات پر مسکان کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔
آنٹی اس تکلف کی کیا ضرورت تھی ۔ادم نے رسما کہا تھا۔صوفیان بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ کر کھانے لگا۔

بیٹا اتنا پڑھاتے ہو اور اب ایک کپ چائے بھی ہم نہ دے سکے ۔ادم نے مسکرانے پر اتفاق کیا.

اور تم ان اوارہ لڑکوں سے دوستی کیوں ختم نہیں کرلیتے ہاں تمہارے ابا کو شکایت لگاتی ہو صبر رکھو۔انگلی اٹھا کر اسے دھمکی دی۔

ارے امی وہ یار ہے میرے۔چائے کا کپ اور منھ میں ایک سمومہ پکڑے وہ بولا تھا۔کہ ایک چپت اسکی سر پر رسید ہوئی۔

آیا بڑا یار پالنے والا رکھو یہ سب اور دفع ہو نہا کر آؤ ۔ شمیم بیگم نے کیچن میں جاتے ہوئے کہا.صوفیاں نے ایک نظر نازنین کو دیکھا جو ہنس رہی تھی اور منہ بنا کر چیڑا ۔پھر ایک خفگی بھری نظر سموسو پر ڈال کر برے منھ بناتا ہوا چلا گیا۔

نازی اگر دوبارہ کوئی سوال بھی پیپر میں چھوڑا تو وہی سوال دس بار یہاں لکھوں گی۔نازنین نے ایک نظر اس کو دیکھا جو ابھی تک اسی بات میں اٹکا ہوا تھا۔

جی۔نہایت اہستہ آواز میں کہا۔

آدم بھائی اگر یہ ڈائجسٹ سے فارغ ہوئی تو یہ صبح پیپر پر دھیان دے سکی گی نا۔مسکان کو ابھی تک ناول کا ایک قسط نا پڑھنے کا دکھ تھا جو نازنین کی وجہ سے وہ نہ پڑھ سکی اور ڈائجسٹ امی کے ہاتھ لگ گئی جس کے بعد اسکا واپس ملنا ناممکن تھا۔

ڈائجسٹ پھر بھی پڑھ سکتی ہو مگر یہ وقت دوبارہ نہیں آئے گا۔اور آئی پرامس کہ اگر تم دونوں کے مارکس اچھے آئے تو میں دو ناول گفٹ دوں گا تم دونوں کو اور آنٹی سے بھی بات کروں گا وہ کبھی بھی نہیں لے گی تم دونوں سے ناول۔ادم کی بات پر مسکان اور نازی ایک دوسرے کو دیکھنے لگی۔

جو ناول ہم کہیں گے وہی دیں گے۔مسکان نے شرط رکھی۔جبکہ نازی چپ تھی ۔ادم نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔وہ دنوں کتابوں پر جھک گئی۔جیسے کل ہی وہ سارے پیپر دینے کا ارادہ ہو۔ادم چائے پینے لگا۔
نازنین غزالی آنکھوں والی سترہ سال کی ایک معصوم سی لڑکی تھی ۔اس کے بال کمر سے نیچھے تک آتے تھے ۔وہ ہمیشہ اونچی پونی ٹیل بناتی تھی جبکہ مسکان اس کے برعکس ایک شوخ اور چنچل لڑکی تھی۔ہر کسی کے بات کا جواب دینا جیسا اسکا فرض ہو۔نازنین کے مقابلے میں اسکے بال تھوڑے چھوٹے تھے امی کے لاکھ منع کرنے کے باوجود بھی وہ بال کھولے رکھتی تھی۔ آدم دو گھنٹے انہیں پڑھانے اتھا تھا اور ان دو گھنٹوں میں وہ ایک سیکنڈ بھی چپ نہیں رہتی وہ مسلسل بولتی تھی چاہے وہ لکھ رہی ہوں یا یا د کر رہی ہو وہ کوئی نا کوئی بات ضرور کرتی تھی۔

———————

اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول کر اندر آئی کوٹ اتار کر دروازے کے ساتھ ہینک کیا ۔جوتوں کو ریک میں رکھتے ہوئے اسے اندر سے اسے کسی کی آواز ائی۔وہ سیدھی ہوئی اور اپنا سامان وہی رکھ کر اندر اگئی۔

اسلام علیکم ۔۔اس لڑکی کی رملہ کی جانب پشت تھی۔رملہ کے سلام کرنے پر وہ اسکی جانب مڑی۔جو فون پر کسی سے بات کر رہی تھی۔رملہ کے سلام کرنے پر فون بند کر ریا۔

او آپ آج جلدی آگئی خیریت۔رملہ اپنا سامان اٹھانے واپس دروازے کی جانب گئی۔جبکہ وہ لڑکی صوفے پر ایک ٹانگ اوپر کے کے بیٹھ گئی۔

“ہاں، آج صرف ایک کلاس تھی۔” فون استعمال کرتے ہوئے وہ بتا دیا۔ رملہ سامان لے کر اس کے دائیں جانب کے کاوچ پر بیٹھ کر اسارپ کھولنے لگی۔ ڈراک براؤن بالوں کو جوڑنے میں بند کرنے لگی۔

تم بتاؤ وجدان کی کوئی خبر ہے۔۔۔رملہ نے کوئی جواب نہیں دیا خاموشی سے کچن کی طرف گئی۔اور فریج میں سامان رکھا اور چولھے پر پین میں پانی رکھا۔اور باہر اگئی۔فون کو چارچ میں لگانے کی غرض سے۔

وجدان کو جیل گئے ایک سال ہونے کو ہے رملہ ۔۔۔۔اس بار اس نے فون سائڈ پر رکھا جبکہ رملہ سویچ بورڈ کے ساتھ نیچھے بیٹھی فون کو چارچ پر لگانے لگی تھی۔وہ تو جیسے اسے سن ہی نہیں رہی تھی۔

میں کیا کرسکتی ہوں۔۔۔؟” تھوڑی دیر بعد رملہ نے کہا۔

تم بہت کچھ کرسکتی ہو، رملہ۔ تمہاری ایک گواہی سے وہ ایک دن میں جیل سے باہر ہوگا۔”ثنائل نے فوراً جواب دیا، “

تمہیں کچھ بھی نہیں معلوم، ثنائل۔”رملہ نے تلخی سے کہان فون ٹیبل وہی پر رکھ کر وہ کیچن میں چلی گئی۔

، “مجھے اس سب کا بھی پتہ ہے، رملہ، جس کے بارے میں تم کچھ نہیں جانتی۔”ثنائل پیچھے پیچھے کیچن میں آئی . رملہ ایک ایک کر کے کیبنٹ کھول رہی تھی لیکن شاید اپنی مطلوبہ چیز نہیں مل رہی تھی۔

رملہ، تمہیں اس کی مدد کرنی چاہئے۔ تم نے ضوفی سے جو وعدہ کیا ہے وہ تم اکیلے پورا نہیں کرسکتیں۔”ثنائل نے تاکید کی، “

، “چائے کی پتی کہاں ہے؟”رملہ نے بے نیازی سے پوچھا

، “تم ایسا کیوں ظاہر کر رہی ہو کہ میری باتوں پر تمہارا دھیان نہیں؟”ثنائل نے خفگی سے دیکھا اور دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا

مجھے اس انسان میں زرہ برابر بھی دلچسپی نہیں جو ایک قاتل ہو۔” رملہ نے چائے کی پتی کنٹینر سے نکالتے ہوئے کہا اور چائے کی پتی پین میں ڈالنے لگی۔

اسے تو اپنے بچے تک کا خیال نہیں تھا اگر وہ مجھے مارنا چاہتا تو ماردیتا مگر اس نے ۔۔وہ ثنائل کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔وہ قد میں اس سے تھوڑی سے چھوٹی تھی۔ مگر غضہ اسکے آنکھوں سے صاف جھلک رہا تھا۔

اس نے تو اپنے بچے تک کا نہیں سوچا وہ تو اللہ کی کرم نوازی ہے جس نے اسے ایک جان کا قاتل بنایا ورنہ تو اسکا ارادہ تو لوگوں کو قتل کرنا تھا۔۔۔۔۔وہ دانت پیستے ہوئے بولی۔
وہ قاتل نہیں ہے۔۔اور یہ بات کورٹ ثابت کر چکی ہے۔اس کی بات ہر وہ تلخی سے مسکرائی۔

وہ تو ضوفی کا بھی انتقام نہیں لے سکا۔

اس حالات میں سب نے اسے چھوڑ دیا تھا لیکن کم از کم تمہیں اسے نہیں چھوڑنا چاہئیے تھا۔دن بہ دن اس پر کیسسز بڑھتے جارہے ہیں۔پاکستان کا مستقبل غلط ہاتھوں میں جارہا ہے وزیراعلی سلطان دلاور نے وزیراعظم کے عہدے کے لیے کاغذات جمع کرا لیے۔۔۔
وہ میرا باپ ہے ثنائل۔اس نے جیسے ثنائل کو یاد کرایا۔

اور تم اپنے باپ کو اچھے سے جانتی ہوں بس مانے سے انکاری ہوں۔۔۔۔ثنائل ایک لمحے کے لیے چپ ہوکر رملہ کو دیکھا جو شیلف پر ہاتھ رکھی کھڑی تھی۔
رملہ تم پاکستان میں بہت کچھ ادھورا چھوڑ آئی ہوں۔۔۔تمھیں واپس پاکستان جانا چاہئیے۔
نہیں جانا مجھے پاکستان ۔۔نفرت ہے مجھے پاکستان سے ۔۔۔۔بہت دکھ دئیے ہیں بہت کچھ چھینا ہے پاکستان نے مجھ سے میری دوست کو چھین لیا اور تم کہہ رہی ہوں میں واپس پاکستان چلی جاؤ ہر گز نہیں۔وہ یکدم ہی نہایت تیز آواز میں چلائی تھی۔

ثنائل ایک قدم پیچھے ہوئی تھی۔جبکہ رملہ ایک ہاتھ چہرے پر رکھ کر بے آواز رو رہی تھی۔ثنائل نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا تھا.

———————

وجدان پرسوں پھر سے ٹرائل ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ اس بار یہ کیس جیت جائیں گے۔اس وقت اسکا وکیل اسکے سامنے بیٹھا کیس کے متعلق بتا رہا تھا۔جبکہ وہ صرف دیواروں کو دیکھ رہا تھا۔
تم سن رہے ہوں۔وکیل نے استفسار کیا۔
خود کو مت تھکاو میں خود نکل جاؤں گا یہاں سے ۔اس نے جیسے وکیل کی کارکردگی پر شک کیا۔
ہم یہاں سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں نا ۔
نہیں نکال پاؤ گے اس کیس میں بری ہو بھی گیا تو ہراسمنٹ والے کیس میں ہمیں رملہ کی ضرورت ہوگی اور ہم اچھے سے جانتے ہیں وہ واپس کبھی نہیں آئی گی۔وہ بخوبی رملہ کی ضد سے واقف تھا۔کیونکہ اس سے بہتر رملہ کو کون جانتا تھا۔
تم کیوں اسکے پیچھے پڑے ہو وہ کچھ نہیں جانتی۔تو گواہی کیسے دے گی اور ویسے بھی وہ تمھاری بیوی ہے اسکی گواہی کورٹ میں اکسپٹ نہیں ہوگی۔وکیل کو بالآخر اس پر غصہ نکال دیا جو ناجانے وہ کب سے اگنور کیے ہوئے تھا۔
وہ سب کچھ جانتی ہیں ہر چیز سے واقف ہیں اور پھر میں یہ تو نہیں کہہ رہا کہ وہ میرے حق میں گواہی دے تم اس کے باپ پر کیس کرو اور وہ ان کے خلاف گواہی دے۔کیوں وکیل صاحب مجرم کے خلاف گواہی تو اپنے بھی دے سکتے ہیں نا۔اس نے وکیل کی طرف جھکتے ہوئے کہا ۔
یہاں سے تمھیں نکالنا میری زمہ داری ہے اس لیے منھ بند کرو اور شریفوں کی طرح چھپ چھاپ بیٹھو اور خبر دار جو خود سے کچھ کرنے کی کوشش بھی کی تو ۔وکیل نے دانت پیستے ہوئے کہا۔جس پر وہ مسکرایا تھا۔
بقول تم لوگوں کہ میں ایک بغیرت آدمی ہوں تو کچھ بھی کر سکتا ہوں۔وکیل اپنا سامان اٹھانے لگا تو وہ مسکرایا۔وہ جیسے ہی دروازے سے نکلنے ولا تھا وجدان کی بات پر روک گیا۔
مجھے رملہ کی بہت یاد آرہی ہیں احمر بھائی۔اس کی آواز میں کچھ تھا جیسے احمر کوئی نام نہیں دسکا۔وہ سر جھٹک کر باہر چلاگیا ۔
اور وہ وہی رہ گیا!اسے پتہ تھا آسن سب سے کچھ نہیں ہوگا وہ خاموش تھا صرف اس کیس کے جتنے تک اگلے کیس کا اسے بخوبی اندازہ تھا کہ اس کیس اسے ہر گز بری نہیں کیا جائے گا۔کیونکہ اسکا جیل سے نکلنا باقی سب کا سیاست سے نکلنے کے مترادف تھا۔
———————–
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا راہداری میں سیدھا جا رہا تھا۔اگے جاکر وہ بائیں جانب کا دروازہ زور سے کھول کر اندر داخل ہوا اس کے پیچھے سلطان کی سکیٹری بھی اندر ائی۔
سر میں نے انہیں کافی منع کیا مگر۔سلطان نے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کا کہا وہ ہاتھ باندھ کر باہر چلی گئی۔جبکہ وہ وہی کھڑا تھا ۔تھوڑا آگے آکر میز پر دونوں ہاتھ رکھ کر تھوڑا سا جھکا ۔

تم اچھا نہیں کیا سلطان میرے بیٹے کو پھنسا کر۔وہ شیر کی طرح دھاڑا تھا۔سلطان آہستہ سے مسکرایا تھا ۔جو مقابل کو اور طیش دلاگیا تھا۔اور چئیر سے اٹھ کر اسکے مقابل کھڑا ہوا۔
وجدان کے پاس اب بھی ایک سنہرا موقع ہے جس سے وہ ایک دن میں جیل سے باہر ہوگا ہر کیس میں بری ہوکر ۔مگر اس میں جو اکڑ اور ضد ہے نا مجھے نہیں لگتا وہ کبھی باہر آپائے گا۔انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا۔

ک-کیسا سنہرا موقع ۔اس نے نا سمجھتے ہوئے کہا۔
پارٹی کی صدرات کے کاغذات پر سائن کر دے۔
ایسا بلکل بھی نہیں کرے گا وجدان ۔
تم باپ اور بیٹا دونوں پاگل ہوں اتنا اچھا موقع گنوا رہے ہوں۔اسے ان دونوں کے بے وقوفی پر ہنسی ائی۔
میں تم سے آخر بار کہہ رہا ہوں سلطان اگر مزید کسسز وجدان پر بنے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔دانت پیستے ہوئے کہا اور غصے سے آفس سے نکل گیا اپنے پیچھے دروازہے کو نہایت زور سے بند کیا تھا ۔جس پر سلطان مسکرا کر نفی میں سر ہلایا۔

——————–
دن اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔ہر طرف لگے سٹریٹ لائٹس آہستہ آہستہ روشن ہورہے تھے۔بہت سے لوگوں کام سے واپسی پر گھروں کو جارہے تھے۔اج اسکاٹ لینڈ معمول سے زیادہ برف باری ہوئی تھی۔ثیمپریچر مائنس 24 کو پہنچ چکا تھا۔جوکہ اسکاٹلینڈ کا سب سے کم ترین ٹیمپریچر تھا۔سب لوگوں نے خود کو کافی حد تک ڈھانپ رکھا تھا۔سوائے اسکے جو سائڈ پر رکھے بینچ پر سب سے لاغر سا بیٹھا تھا۔

وہ بس سے نیچھے اتری اس نے ادھر ادھر دیکھا پل بھر میں اس کی نظر بائیں جانب رکھے بینچ پر بیٹھے ستائیس اٹھائیس سالہ لڑکے پر پڑی جو اداس سا بیٹھا تھا جیسے جہان بھر کی ہر خوشی اس سے چھین لی گئی ہو۔اس نے اس جانب قدم اٹھائے۔اب وہ اسکے دائیں جانب کھڑی تھی۔اور تاسف سے اس اداس لڑکے کو دیکھنے لگی۔

بیٹھ سکتی ہوں یہاں۔کتنی ہی دیر وہ وہاں کھڑی خاموشی سے اسے تکتی رہی۔
جہاں تک مجھے علم ہے یہ جگہ میرے باپ کے جائیداد میں نہیں آتی۔تو بیٹھ سکتی ہو۔اسکا چہرہ کسی بھی تاثر سے آری تھا۔وہ مسکرا کر بیٹھ گئی۔چند ثانیے دونوں کے درمیان خاموشی رہی۔
کتنی عجیب لڑکی تھی نا وہ کچھ نہیں بولتی تھی پھر بھی اس کے جانے سے جیسے سارا اسکاٹ لینڈ خاموش ہوگیا ہو۔ایک یژمردہ سی مسکان اس کے لبوں پر آئی تھی۔
سائمن مرنے والوں کے ساتھ مرا تو نہیں جاتا۔وہ دھیرے سے بولی۔

اسی بات کا تو دکھ ہے۔وہ تلخی سے ہنسا۔تو وہ تاسف سے اسے دیکھنے لگی۔
ایسے ہی رہو گے تو اسکا خواب جو وہ ادھورا چھوڑ گئی ہے وہ کون پورا کرے گا اس سے محبت کرتے ہوں تو سنبھالوں اپنے آپ کو ۔۔۔۔۔۔خود کے لیے ہی نا سہی خود سے جڑے رشتوں کے لیے ہی نا سہی مگر صرف اس لڑکی کے جس کے جانے سے تمھارا اسکاٹ لینڈ خاموش ہوگیا،جس کے لیے تم نے sociological کی ڈگری چھوڑ کر اسکے فیلڈ کو جوئن کر لیا جس کے لیے تم نے روز کو چھوڑ کر ٹیولپ کو اپنا فیورٹ فلاور بنایا جس کے لیے تم اپنی ہر پسند چھوڑ سکتے ہوں اس لڑکی کے خواب کو پورا کرنے کے لیے تم جیوں ۔

تیز تیز بولنے سے اسکا سانس پھول چکا تھا وہ سانس لینے کو روکی جبکہ سائمن دونوں ہاتھوں میں سر گرائے رونے لگا تھا۔شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اور وہ وہاں خاموشی سے آنسو بہا رہا تھا۔ اُسے اُس کے جانے کا غم نہیں تھا، بلکہ اس بات کا دکھ تھا کہ وہ اس کے بغیر اب تک جی رہا تھا۔ اسکا اسکاٹ لینڈ، جس کی رونق اس خاموش لڑکی سے تھی، اُس کے جانے کے بعد ویران ہو گیا تھا۔ وہ اسے چھوڑ کر جا چکی تھی، اور وہ اپنے دل میں بس اس کے خیالوں کی روشنی لیے، تنہائی کی دھند میں کھو گیا تھا۔

اسکو ضوفیشان کے مرنے کی اطلاع رملہ کے اسکاٹ لینڈ آنے کے بعد چلی۔اور تب سے کے کر آج تک وہ پھر رملہ سے نہیں ملا تھا۔

کافی دیر تک وہ خاموشی سے سائمن کو دیکھ رہی تھی۔اب وہ رو نہیں رہا تھا بس خاموش بیٹھا ایک غیر مری نقطے کو دیکھ رہا تھا۔اسکے بھورے بال ماتھے پر بکھرے پڑے تھے جس پر اب برف پڑ رہی تھی۔۔۔اس نے اسکی حالت کو دیکھا جس نے صرف بھورے رنگ کا ایک جیکٹ پہنا تھا۔اسکی بہت ٹوٹی پوٹی حالت میں تھی۔اسکی حالت سے ایک گہرا تاسف چھلک رہا تھا۔

ثنائل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے مجھے یہاں کیوں بلایا تھا۔کچھ دیر بعد وہ نہایت ہی آہستہ سے بولا جو بمشکل ہی ثنائل نے سنا ہوگا۔
رملہ واپس پاکستان جانے کو تیار نہیں ہے ۔بس اپارٹمنٹ سے یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے اپارٹمنٹ۔اور نا ہی تم کچھ کر رہے ہو۔وہ خاموش ہوگئی مگر جب سائمن کچھ نا بولا تو بھر سے بات شروع کی۔
ضوفیشان نے مرنے سے پہلے رملہ کو بتایا تھا کہ وہ فائل تمھارے پاس ہے جس میں چیف جسٹس افتخار چودھری کی بے گناہی کا ثبوت ہے۔

چند ثانیے بعد دونوں سائمن کی گاڑی میں بیٹھے تھے۔وہ بس خاموشی سے ڈرایو کر رہا تھا۔گاڑی ایک نہایت خوبصورت سے گھر کے سامنے رکی وہ گھر نہ بہت بڑا تھا اور نہیں ہی بہت چھوٹا مگر نہایت ہی خوبصورتی سے اسے تراشا گیا تھا ۔ثنائل اس آرکیٹیکٹس کو داد دیے بنا نا رہ سکی۔

ضوفی کے مطابق جج کو پھنسایا گیا ہے اور صرف اسی ایک فائل سے نا صرف جج بلکل وجدان بھی بچ سکتا ہے۔

وہ دونوں اب گھر کے مین ہال میں موجود تھے۔دائیں طرف لکڑی کی سیڑھیاں گول گول گھوم کر اوپر کی منزل کی طرف گئی تھی۔بائیں طرف اوپن کیچن تھا۔اور ان دونوں کے بلکل سامنے صوفوں کی پشت تھی اور صوفوں کے بلکل سامنے ایک بڑا ایل ای ڈی لگا ہوا تھا۔وہ گھر اپنے ظاہری صورت سے لکڑی کا بنا معلوم ہوتا تھا۔

سائمن نے گاڑی کی چابی ٹیبل پر رکھی اور اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔وہ سر ہلا کر اس کے پیچھے جانے لگی۔دونوں سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ثنائل پورا گھر دیکھ رہی تھی جو بہت ہی فرصت سے نہایت ہی پیارا سجایا گیا تھا۔

اوپر کی منزل میں دو کمرے تھے ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف البتہ وہاں صوفوں کی جگہ بڑے بڑے کشن رکھے ہوئے تھے اور دیواروں پر جابجا ہسٹورکل پینٹنگز لگی ہوئی تھی۔
سائمن نے بائیں جانب کے کمرے کا دروازہ کھولا اور مڑ کر ثنائل دیکھا جو پینٹنگز کو دیکھ رہی تھی۔

وہ ضوفی کی فیورٹ پینٹنگ تھی۔ اس نے پینٹنگ کو دیکھ کر دھیرے سے کہا اور کمرے کے اندر چلا گیا۔ وہ بھی ایک نظر پینٹنگ کو دیکھ کر اس کے پیچھے چلی گئی۔وہ ایک چھوٹی سی لائبریری تھی۔سامنے دیوار میں بنی کھڑکی کے ساتھ میز اور کرسی رکھی ہوئی تھی اور اسکی ساتھ رکھی الماری سے سائمن کچھ فائل نکال کر دیکھنے لگا۔اسکا چہرہ بلکل سپاٹ تھا۔

یہ رہی فائل۔۔فائل لے کر وہ اس کے پاس آیا۔ایک نظر اسے دیکھ کر ثنائل نے اسکے ہاتھ سے فائل لی اور دیکھنے لگی اور وہ اسے فائل تھما کر کمرے سے نکل چکا تھا۔ثنائل بھی ایک نظر اس کمرے پر ڈال کر اسکے پیچھے چلی گئی۔وہ نیچھے آئی تو سائمن گھر میں نہیں تھا اسکی نظر گلاس وال سے باہر گاڑی پر پڑی جس کے ساتھ وہ پشت ٹکائے کھڑا تھا۔یقینا وہ یہاں نہیں آتا ہوگا۔جبھی تو وہاں موجود ہر چیز پر گرد پڑی تھی۔

یہاں اسکی پسندیدہ عورت کی خوبصورت یادیں تھی۔اور کبھی کبھی خوبصورت یادیں برے یادوں سے زیادہ جان لیوا ہوتی ہے۔اور شاید سائمن کے لیے بھی اب ضوفی خوبصورت یادیں جان لیوا بن چکی تھی۔اس نے ایک اداس نظر اس گھر پر ڈالی اور خارجی دروازے کی جانب قدم بڑھائے۔

———————-
فائلز ٹیبل پر پھیلائے وہ دونوں اس وقت لاؤنج میں تھی۔رملہ فائل کے سامنے بیٹھی ناخن چھبا رہی تھی اور ساتھ میں ایک نظر اپنی سامنے پڑی فائل کو دیکھتی اور پھر ثنائل کو جو بالوں کا لائٹ جوڑا بناکر اوپن کیچن میں اپنی لیے کوفی بنا رہی تھی اور اب جھک کر فریج سے کریم کا ڈبہ نکال کر اپنی کوفی میں انڈیلنے لگی۔
تم سائمن سے ملنے گئی تھی۔اسنے فائل کے صفحات کو پلٹتے ہوئے کہا۔ثنائل کوفی مگ میں چمچ چلاتے ہوئے اس کے ساتھ والے کاوچ پر بیٹھ گئی۔
ہاں۔ کوفی کا گھونٹ بھرتے ہوئے۔
کیسا تھا وہ۔
جیسے کچھ عرصہ پہلے تم تھی بلکہ تم سے زیادہ بری حالت میں ہے وہ۔وہ دونوں پاؤں فولٹ کیئے ہوئی بیٹھی تھی۔اس نے ہلکے زرد رنگ کا نائٹ سوٹ پہنا تھا۔جبکہ رملہ نے ابھی تک چینچ نہیں کیا تھا وہ نیوے بلیو کلر کے سکرٹ اور وائٹ کلر کا ڈریس شرٹ پہنے ساتھ میں بالوں کو اونچی پونی ٹیل میں باندھا تھا۔

کیا تمھارے والد اس سے رہا ہو جائیں گے ۔رملہ نے فائل کی طرف اشارہ کیا۔
کیا تم اس آدمی کو جانتی ہو جس نے سارا کیس تمھارے والد پر ڈال دیا تھا۔اس نے پاؤں کو لمبے کر کے ٹیبل پر رکھے۔

ضوفیشان کو پتہ تھا اس نے خود اس آدمی کو وہ گناہ کرتے دیکھا تھا مگر اس نے مجھے اسکا نام نہیں بتایا سائمن کو پتہ ہوگا لیکن ابھی وہ اس حالت میں نہیں ہے کہ اس سے پوچھا جاسکے۔ ثنائل نے رملہ کو دیکھا جو گہری سوچ میں پڑگئی تھی۔
کیا تمھیں پتہ ہے۔رملہ کو گہری سوچ میں دیکھ کر کہا اور کے لبوں سے لگایا۔

میں نہیں پر شاید وجدان جانتا ہے اسے۔ثنائل نے آنکھیں چھوٹی کرکے اسے دیکھا۔
کیا ہے۔رملہ نے چڑ کر کہا۔
وہ نہیں بتائے گا۔کندھے آچکاکر کہا۔
کیوں۔
ظاہر سی بات تمھارے پاکستان آنے کی شرط رکھے گا۔رملہ نے گھور کر اسے دیکھا اور فائل دیکھنے لگی۔جبکہ ثنائل مسکرا کر اب کوفی کے گھونٹ بھر رہی تھی۔جبکہ رملہ فائلز لے کر کمرے میں جاچکی تھی۔
————————-

ناظرین اپکو بتاتے چلے کہ پاکستان کے ینگ پولیٹیشن وجدان نیازی کچھ وقت قبل ہی اڈیالہ جیل سے فرار ہوگئے ساتھ میں آپ کو یہ بھی بتاتے چلے کہ وجدان نیازی کے فرار ہونے میں وزیرا علیٰ سلطان دلاور خان کو بھی ملوث قرار دیا جا رہا ہے ۔مشہور و معروف پولیٹیشن وجدان نیازی کو پچھلے ہفتے منی لانڈرنگ کیس میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے باعزت بری کردیا تھا۔ ناظرین اپکو ایک بار پھر سے بتاتے چلے کہ پاکستان کہ مشہور و معروف
اینکر پرسن گلہ پھاڑ کر چیخ چیخ کر اس وقت اس میٹینگ روم میں موجود سب کے سروں پر بم پھوڑ رہا تھا۔سربراہی کی کرسی پر بیٹھے شخص کی چہرے کی ہوائیاں یہ خبر سن کر آڑی ہوئی تھی۔وہ جلدی سے اٹھ کر باہر جانے لگا۔جبکہ اس کے پیچھے موجود نفوس سرگوشیوں میں مگن تھے۔

وہ تیز تیز قدم اٹھا کر آفس سے باہر آیا۔تیز تیز سیڑھیاں اترتے ہوئے ڈرائیور کو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا ایک گارڈ نے آگے آکر انکے لیے دروازہ کھولا وہ اندر بیٹھا اور ڈرائیور گاڑی زن سے بھگا کر لے گیا۔

کچھ دیر وہ اپنے سٹڈی روم میں موجود کسی سے فون پر بات کررہا تھا ۔جب کوئی دروازہ کھول کر اندر اگیا۔اس نے ایک نظر اندر آنے والے کو دیکھا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ آدمی اسکے بائیں طرف بیٹھ گیا۔کچھ دیر بعد وہ کال سے فارغ ہوا۔تو دوسرا آدمی سیدھا ہوکر اسکی جانب مڑا

کاظم جلدی سے پتہ کرو کہ وہ اس وقت کہاں ہے سب سے پہلے اسکو ڈھونڈنا ہوگا اس کے بعد ہی ہم کچھ کرسکتے ہیں۔ منھ پر ہاتھ پھیر کر کہا۔
ٹھیک ہے ڈیڈ لیکن پہلے ہمیں اپن اوپر لگے اس الزام کو ہٹانا ہوگا۔
اس کی فکر مت کرو جیل کے کچھ لوگوں کو کل کانفرنس میں بلاکر اس کو کلیر کر دوں گا مگر اس وقت سب سے بڑا مسلہ وجدان کو ڈھونڈنا ہے ۔۔۔ںوہ چئیر سے اٹھ کر کھڑکی کے سامنے کھڑے ہوگئے۔کاظم سر ہلا کر کمرے سے نکل گیا

اس وقت وہ نیوے بلیو وسٹ اور سفید ڈریس شرٹ میں تھا۔ہمیشہ کی طرح شاندار پرسنیلٹی لیئے ہوئے۔اس کی نظر باہر لان میں بیٹھی اپنی شریک حیات پر پڑی۔جن کی اپنی پٹھانوں والی سرخ اور سفید رنگت کافی حد تک زائل ہوچکی تھی۔

وہ ایک غیر مری نقطے کو نظر میں لیے ہوئے وہاں تن تنہا بیٹھی گہری سوچ میں تھی۔چند ثانیے بعد وہ ان کے سامنے والی کرسی پر براجمان تھے۔اپنے محصوص انداز میں ایک ٹانگ دوسرے ٹانگ پر جمائے ہوئے۔

کب تک سوگ منانے کا ارادہ ہے۔دور پانی میں نہائے پودوں کو دیکھا جن کی ٹہنیاں کافی حد تک بڑی ہوچکی تھی۔کچھ ہر پتوں کا بھصیرا تھا جبکہ کچھ کے پتے جھڑ چکے تھے۔وہ ہوزوں خاموش تھی۔سلطان دلاور نے چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔

تمھاری بیٹی مری نہیں ہے جو یوں ماتم منا رہی ہوں۔تلخی سے کہا۔
کاش ژالے کے ساتھ وہ بھی قتل ہو جاتی یوں آپکی ہاتھوں کا کھلونا تو نہ بنتی۔دکھ سے کہا تھا۔
کافی ہمت در آئی ہے تم میں ۔نظریں اب بھی ان پر تھی۔ ہاں البتہ وہ انہیں نہیں دیکھ رہی تھی۔
کاش یہ ہمت پہلے کرلیتی تو آج اپنی اولاد سے محروم نہ ہوتی۔ان کی آواز میں لرزش واضح تھی۔جس پر سلطان نے مسکرا کر نا میں سر ہلایا اور اس کے جبڑے کو سختی سے ہاتھ میں دبوچھا۔
اگر آئیندہ کے بعد یہ بکواس کی تو پھر اس طرح کی بکواس کرنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔زور سے انکا چہرہ چھوڑا اور لمبے لمبے ڈھگ بھرتے ہوئے اندر چلے گئےاور وہ وہی رہ گئی ہمیشہ کی طرح تن تنہا آنسو بہانے کے لیے۔

———————-
اسے فرار ہوئے چار روز ہوچکے تھے مگر ابھی تک کسی کو اسکے جائے پناہ کے بارے میں معلوم نہ ہوسکا تھا۔وجدان نیازی کے فرار ہونے کی خبر پاکستانی نیوز چینلز کے علاؤہ بی بی سی نیوز اور سی این این پر بھی چل رہی تھی۔
اس نے بلکل بھی ٹھیک نہیں کیا یہ اس طرح تو وہ اور بھی پھنس سکتا ہے۔وہ کب سے لگاتار کالز کرتے ہوئے دائیں بائیں ٹہل رہی تھی جبکہ وہ صوفے پر بیٹھے ناخن چھباتے ہوئے اس دیکھ رہی تھی۔
و-وہ ٹھیک تو ہوگا نا۔اسے خود بھی پتہ نہیں چلا کہ وہ کیا کہہ گئی۔ثنائل نے روک کر اسے دیکھا۔
میں تو بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔کندھے آچکا کر خود کو لاپرواہ ظاہر کرنے لگی۔ثنائل نے بھی اسے اگنور کیا اور فون بند کرکے میز پر لیپ ٹاپ کھول کر نیچھے بیٹھ چکی تھی۔
چائے پیو گی۔کیچن کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ اسے ہاتھ سے انکار کرکے ثنائل دوبارہ فون کان سے لگا چکی تھی۔۔اس کے انکر پر وہ کندھے آچکا کر اپنے لیے چائیے بنانے لگی۔

رات کے تقریبآ ڈھائی بجھ رہے تھے۔ثنائل ابھی تک وہی بیٹھی لیپ ٹاپ پر کسی سے رابطے میں تھی۔جبکہ رملہ اپنے کمرے میں گدھے گھوڑے بلکہ پورا اسطبل بھیچ کر سو رہی تھی۔ان کے اپارٹمنٹ میں ثنائل کے لیپ ٹاپ پر چلتے انگلیوں کے علاوہ کسی دوسری چیز کی کوئی آواز نہیں تھی۔تھک ہار کر وہ اپنے لیے کوفی بنانے کے لیے کیچن میں جانے والی تھی کہ ان کی اپارٹمنٹ کی ڈور بیل بجھی اس نے پہلے اگنور کیا مگر جب مسلسل گھنٹی بجنے لگی تو وہ دروازے کی جانب گئی اور دروازے میں موجود پیک ہول سے باہر دیکھا تو دو آدمی بلیک ہوڈیز اور ماسک لگائے ان کے اپارٹمنٹ کے باہر کھڑے تھے۔
وہ ڈر کر پیچھے ہوئی اور جلدی سے ٹیبل پر سے اپنا فون اٹھا کر سائمن کر کال کرنے لگی مگر جب اس نے اپنے فون پر سائمن کے کالز اور میسیجز دیکھے تو پل بھر میں اسے ان دونوں آدمیوں کی پہچان ہوئی۔
فون ہاتھ میں پکڑے وہ تیزی سے دروازے کی جانب گئی اور جلدی سے دروازہ کھول کر انہیں اندر آنے دیا پھر راہداری میں دائیں بائیں نظریں دوڑائے اور دروازہ بند کر کے وہ لاؤنج میں آئی تو وہ دونوں ہوڈیز اور ماسک آتار رہے تھے جبکہ ثنائل جلدی سے لیپ ٹاپ ان کر کے کیمروں کے سسٹم کو ہیک کر کے ڈیٹا ڈیلیٹ کرنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں ریلکس صوفوں پر براجمان تھے۔جبکہ ثنائل کیچن میں کھڑی یقیناً ان کے لیے کافی ہی بنا رہی تھی۔
ویسے یہ بلکل بھی اچھا نہیں کیا تم نے وجدان مطلب فرار ہوکر خود کو اور بھی مشکوک بنادیا تم نے ۔ٹرے ان دونوں کے آگے کئے تو بارے بارے دونوں نے اپنے اپنے کپ اٹھائے اور ثنائل بھی اپنا کپ اٹھا کر ٹرے میز رکھی۔اور خود کاوچ پر بیٹھ گئی۔
تمھیں کیا لگتا ہے یہ لوگ مجھے جیل سے نکالنے دیتے ہرگز نہیں۔کافی کا مگ لبوں سے لگاتے ہوئے کہا۔اس وقت وہ وائٹ ٹی شرٹ اور بلیک جینز میں موجود تھا بال ہمیشہ کی طرح ماتھے پر بکھرے تھے جسے اس نے ہٹانے کی زحمت نہیں کی تھی۔اس کی بات پر ثنائل نے اثبات میں سر ہلایا۔
تو اب کیا کریں گے۔تھوڑی دیر بعد پوچھا۔
پہلے ہمیں جسٹس افتخار کو باہر نکالنا ہوگا اس کے بعد دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔
وہ فائل کہاں ہے۔یکدم یاد آنے پر سائمن کی طرف دیکھا جو کب سے خاموش بیٹھا بس اپنی کافی پی رہا تھا۔
میرے پاس ہے اس نے مجھے دے دی تھی۔سائمن سے پہلے ثنائل نے کہا تو وجدان نے اثبات کریں سر ہلایا۔اس کے بعد ان کے درمیان خاموشی چھا گئی۔
تھوڑی دیر بعد وہاں صرف وجدان اور ثنائل موجود تھے۔وجدان بار بار اپارٹمنٹ میں نظریں ڈوڑا رہا تھا جب اسکی نظر سائڈ پر رکھے تصویر پر پڑی ۔ثنائل کیچن میں کھڑی۔وہی مگز دھو رہی تھی جس میں تھوڑی دیر پہلے ان تینوں نے کافی نوش فرمائی تھی۔جبکہ سائمن اپارٹمنٹ موجود تیسرے کمرے میں سورہا تھا۔اسے فلو ہوا تھا۔اور وجہ اسکا سویٹر نہ پہننا تھا۔
لگتا ہے کافی مس کیا ہے اسے۔وہ ہاتھ میں تصویر کو پکڑے اسے دیکھنے میں مصروف تھا جب ثنائل کے کہنے پر مسکرانے لگا۔
بیوی ہے میری محترمہ کو مس کرنے کا حق تو رکھتا ہوں۔رملہ کہ تصویر کو واپس رکھتے ہوئے مسکرا کر کہا اور کھڑا ہوا۔
ویسے کس روم میں ہے محترمہ۔
وہ سو رہی ہے۔ثنائل نے رملہ کے روم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔تو وہ مسکرایا اور کندھے آچکا کر اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔
——————————
کمرے میں مدہم سے اندھیرے نے اسکا استقبال کیا تھا۔وہ بیڈ پر سوئے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔اسکے بال جو پچھلے سالوں کی بنسبت کافی لمبے ہوگئے تھے۔اور اب اس کے چہرے کو ڈھانپئے ہوئے تھے۔اس کو دیکھ کر نرم سی مسکراہٹ اسکے لبوں پر ابھر ائی۔وہ بھی اسکے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھ گیا رملہ کی اسکی جانب پشت تھی۔اس نے جھک کر بالوں کا آبشار اسکے چہرے سے ہٹایا تو اسکا چہرہ معصوم سا چہرہ رونما ہوا۔
تمھیں کچھ اندازا بھی ہے کہ پچھلے ایک سال میں تمھیں دیکھنے کے لے کتنا تڑپا ہوں مگر تم تو ظالم حسینہ بنی ہوئی تھی ایک بار بھی مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔اس نے شکوہ کیا۔
جھک کر اس کے گال پر اپنی محبت کی مہر لگائی تھی۔جس پر وہ تھوڑا سا گمسائی۔اسے اپنے حصار میں قید کر کے وہ بھی دھیرے دھیرے سونے کی وادی میں جانے لگا۔جبکہ دوسرے جانب موجود کمرے میں سائمن کی نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ایک بازوں سر کے نیچھے رکھا ہوا چھت کو دیکھ رہا تھا۔نجانے کب وہ ضوفی کو بھولے گا۔ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کروٹ بدلی اور سونے کی کوشش کرنے لگا جبکہ اسے پتہ تھا کہ نیند سے اسکا رشتہ بہت ہی پہلے ٹوٹ چکا ہے۔
———————-
صبح اس کی آنکھ کسی کی آواز سے کھلی۔ یقینا باہر لاؤنج میں ثنائل کے علاوہ کوئی اور موجود تھا۔ وہ جلدی سے بغیر چپلوں کے ننگے پاؤں کمرے سے باہر نکلی۔ اس کے بھورے رنگ کے ریشمی بال اس کی کمر پر جھول رہے تھے۔ وہ باہر آئی تو اوپن کچن کے شیلف کے پاس رکھی اونچی کرسیوں پر دو افراد بیٹھے نظر آئے۔ ان میں سے ایک ثنائل سے بات کر رہا تھا جبکہ دوسرا خاموشی سے لیپ ٹاپ پر ٹائپنگ کرنے میں مصروف تھا اور ساتھ ساتھ کافی کے گھونٹ بھی بھر رہا تھا۔ جبکہ دوسرا شخص مسلسل ثنائل سے بات کر رہا تھا جبکہ کافی کے مگ میں کافی ہنوزو پڑی تھی جس کا مطلب تھا کہ اس نے پینے کی زحمت نہیں کی تھی۔ رملہ ان دونوں کے چہرے نہیں دیکھ سکی کیونکہ اسکی جانب ان دونوں کی پشت تھی۔
ثنائل شاید اسے کسی بات کا جواب دے رہی تھی جب اس کی نظر رملہ پر پڑی، تو وہ خاموش ہو گئی۔
ارے، آؤ رملہ۔۔ثنائل کے کہنے پر سامنے بیٹھے شخص نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اسے دیکھ کر رملہ کی آنکھیں حیرت سے پوری کھل گئیں اور اس کے چہرے پر حیرت و تجسس کے ملے جلے تاثرات ابھر آئے۔ جبکہ اس شخص کے لبوں پر ایک نرم سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ اٹھ کر نرم قدموں سے چلتا ہوا رملہ کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
ت-تم یہاں ک-کیا کر رہے ہو؟ رملہ نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔
اپنی ناراض محبوبہ کو منانے آیا ہوں۔اسکے چہرے پر آئے بالوں کے لٹ کو پیچھے کرتے ہوئے مسکرایا۔
مگ-مگر مجھے اپ سے ملنے یا اپ سے مزید کوئی رشتہ رکھنے کا کوئی شوق نہیں ہیں۔وہ تقریباً چیخی تھی۔جبکہ کی آواز میں واضح لرزش تھی جسے وجدان نے باآسانی محسوس کیا۔اس نے سمجھ نہ آنے والے انداز میں اسے دیکھا تو رملہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔اس نے مڑ کر سوالیہ نظروں سے ثنائل کی طرف دیکھا۔جس پر ثنائل نے کندھے آچکا کر لاعلمی کا اظہار کیا۔
جبکہ رملہ اپنے روم میں سائڈ ٹیبل کے دراز کھول کھول کر چیک کر رہی تھی۔اخر میں اسے اپنی مطلوبہ چیز اسے لاکر میں ملی۔ایک نظر اسے دیکھ کر وہ جلدی سے باہر ائی۔وجدان ہنوزو اسی انداز میں کھڑا تھا۔
میں نے سائن کر لیے ہیں اچھا ہوگا تم بھی کرلو۔اسکی طرف خاکی رنگ کا انویلپ بڑھاتے ہوئے کہا۔وجدان نے ایک نظر اسے دیکھا اور انویلپ اس کے ہاتھ سے لیا اور کھول کر دیکھا۔اس میں موجود کاغذات اور اسکے دستخط دیکھ کر اسکا سر گھوم گیا۔
کیا بکواس ہے یہ سب ہاں۔اسکا دائیاں بازوں پکڑ کر دانت پیستے ہوئے دبے دبے غصے میں کہا۔
تمھارا یہ خواب تو ہی خواب ہی رہنے والا ہے مس رملہ وجدان۔تلخی سے مسکرا کر کہا۔جبکہ اسکا یہ انداز ہی رملہ کو اور طیش دلاگیا۔
اپ۔ابھی وہ کچھ کہنے والی تھی کہ وجدان اسے بازوں سے پکڑ کر کمرے میں لے گیا۔ انکی آواز اتنی بلند ہوگئی تھی کہ اس بار سائمن نے بھی پیچھے مڑکر انہیں دیکھا۔
انکا کوئی جھگڑا ہوا ہے؟مڑکر ثنائل سے پوچھا۔تو اس نے مخض کندھے آچکا نے پر اتفاق کیا۔
تم جلدی سے یہ کام کر لوں میں ذرا مارکیٹ تک ہو آئی۔کوٹ پہنتے ہوئے کہا تو سائمن نے سر اثبات میں سر ہالایا۔اس نے جوتے پہنتے ہوئے ایک نظر رملہ کے کمرے پر ڈالی اور باہر چلی گئی۔
وجدان اسے کمرے میں لاکر زور سے چھوڑا اور ٹاہ کی آواز سے دروازہ بند کردیا۔اور رملہ کی طرف مڑا۔جو اپنا بازو سہلا رہی تھی۔
اب وجہ بتانا پسند کروگی اس سب بکواس کی۔وجدان نے کاغذات کو اس کے سامنے بلند کرتے ہوئے دبے دبے غصے میں کہا۔
مجھے مزید نہیں رہنا تمھارے ساتھ مجھے طلاق۔۔۔۔۔ اس کے باقی کے آلفاظ اسکے منہ میں رہ گئیے۔کیونکہ اس بار وجدان کا ہاتھ اٹھا تھا اور رملہ کے چہرے پر اپنا نشان چھوڑ گیا۔رملہ لڑکھڑا کر بیڈ پر گر گئی۔جبکہ وجدان بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے خود کو کنٹرول کرنے لگا ۔رملہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
مج-مجھے نہیں ر-رہنا تمھارے ساتھ۔وہ ہچکیوں سے رونے لگی ساتھ میں چیخ بھی رہی تھی۔
رملہ میری جان ریلیکس دیکھو میری بات سنو۔
نہیں سنی مجھے آپکی کوئی بات۔۔۔۔۔پہلے میرے بچے کو مارا اب آپ مجھے بھی مینٹلی ٹارچر کرنا چاہتے ہے۔۔۔۔۔مجھے طلاق چاہئیے آپ سے سنا آپ نے۔وہ ہزیانی انداز میں چیخی۔لیکن وجدان تو بچے کے لفظ پر ہی اٹک گیا۔
ب-چہ۔۔۔۔۔۔اس بار ہکلانے کی باری وجدان کی تھی۔رملہ چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر رو رہی تھی۔وجدان مرے ہوئے قدم اٹھاتا اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔
ہ-ہمارا بچہ۔۔۔۔۔۔اسے لگا کہ شاید اس نے سننے میں کوئی غلطی کی ہے۔
نہیں تھا وہ آپکا بچہ وہ صرف اور صرف میرا بچہ تھا جیسے آپ نے مار ڈالا۔وہ کھڑے ہوکر چیخی۔اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جس کی آنکھیں رونے کی شدت سے سرخ ہو چکی تھی۔وجدان اس کے مقابل اکر کھڑا ہوا۔
رملہ۔
میں نے کہا نا get lost from here Mr wajdan۔۔۔۔۔
لیکن میری۔۔
خدا کے لیے چلے جائیں یہاں۔۔۔وہ روتے ہوئے نیچھے بیٹھ چکی تھی۔وجدان ایک بے بس نظر اس پر ڈال کر کاٹے قدم لیتے ہوئے وہاں سے جانے لگا۔جبکہ وہ وہاں تیز تیز رونے لگی۔ہر بار آکر وہ اس کے رونے کا سبب بنتا تھا۔اس نے تو سب سے زیادہ چاہا تھا اسے پھر وہ کیوں اسے ہر بار تکلیف دینے کا باعث بنتا تھا۔سنا تھا کہ پیار کرنے والا تکلیف نہیں دیتا بلکہ وہ تو ساری تکلیف خود میں سمیٹ لیتا ہے۔لیکن شاید وجدان اس سے محبت ہی نہیں کرتا تھا۔جو ہر بار اسے تکلیف دینے اجاتا اس کے زخموں کو مندمل کرنے ہی نہیں دیتا جب جب اسے لگتا تھا کہ اس کے زحم بھرنے لگے ہیں وہ آکر اسے نئے زحم دے جاتا۔اس بار بھی اس نے ایسا ہی کیا تھا وہ ہر چیز بھلانے لگی تھی۔حتی کہ اپنے باپ کے بار بار کہنے پر اس نے طلاق کے کاغذات پر صرف سائن کر لیے تھے مگر اسکا ارادہ ہر گز وجدان سے طلاق لینا نہیں تھا بلکہ وجدان سے دور ہونے کی سوچ ہی اس کے لیے جان لیوا تھی۔مگر وجدان کی بے ہسی دیکھ کر رملہ وہ سب کرنے لگی جسے کرنے کا اسکا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
ایک بیٹی کو دنیا میں سب سے زیادہ یقین اپنے والد پر ہوتا ہے، جس پر اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ کبھی اسے گرنے نہیں دے گا اگر دنیا اسکی دشمن بن جائے تب بھی وہ اسکا ساتھ نہیں چھوڑے گا ۔اور اپنے والد کے بعد اگر بیٹی کو کسی پر یقین ہوتا ہے تو وہ اسکا شریک حیات ہوتا ہے جس پر اپنے والد کے بعد وہ آنکھ بند کر کے یقین کرتی ہے، اور پتہ ہے ایک لڑکی کا دل کب ٹوٹتا ہے جب اسکا ہمسفر بے کس نکلے۔تب وہ ٹوٹ جاتی ہے پھر وہ زندگی جینے ہی بلکہ صرف گزارنے لگتی ہے۔
باہر آکر وہ صوفے پر سے اپنی ہڈی اٹھا کر پہننے لگا سائمن نے اسے دیکھا تو مائیکروفون نکال کر اس کے پاس ایا۔
کہاں جارہے ہو۔اسکو ہڈی بند کرتے دیکھ کر پوچھا۔
حد پار کردی اس نے زلیل انسان چھوڑوں گا نہیں اسے میں۔غصے سے کہتے وہ دروازے تک آیا اور جوتے پہنے لگا سائمن بھی اپنی ہڈی پہننے لگا۔دونوں اپارٹمنٹ سے باہر نکلے سائمن نے بیلڈنگ کا کیمرہ سسٹم بند ہیک کر کے ڈیمج کردیا تھا۔وہ دونوں بیلڈنگ سے باہر نکلے انکا ارادہ بیلڈنگ کے پیچھے سے جانے کا تھا وہ جیسے ہی وہاں تنگ گلی میں مڑنے والے تھے ۔کہ کسی نے انکا راستہ روکا۔
دماغ خراب ہوگیا تم دونوں کا کہاں جارہے ہو۔۔۔۔۔۔رات ہونے سے پہلے باہر نکلے کا منع کیا تھا نا۔۔۔۔۔
میرا دماغ پہلے ہی خراب ہوا ہے مزید خراب مت کرو۔اسے نے خود کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا جبکہ ثنائل ہنوزو کھڑی رہی۔سائمن گلی کی نکڑ پر کھڑا لوگوں کو دیکھنے لگا۔وجدان بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے خود کو کنٹرول کرنے لگا۔
اسے پھر سے چھوڑ کر جارہے ہو۔تھوڑی دیر بعد وہ دونوں ثنائل کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے تھے جب ثنائل نے آہستہ اواز میں پوچھا۔وہ اسکے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا سیٹ سے پیشت ٹکائے آنکھیں موندے ہوئے تھا جبکہ سائمن پیچھے۔
اسکا جواب تمھیں اچھی طرح سے معلوم ہے۔یژمردہ مسکراہٹ لیے ہوئے کہا۔البتہ اسکی آنکھیں اب بھی بند تھی۔
کتنی محبت کرتے ہو اس سے۔ڈرایونگ کے دوران بولی۔
اندازہ نہیں۔ایک نرم سی مسکان نے اسکے لبوں کا احاطہ کیا۔
پھر بھی۔
اتنا کہ اسکے دیدار کے لیے اڈیالہ سے اسکاٹ لینڈ تک آسکتا ہوں۔ارام سے گویا ہوا جبکہ اسکے اس جواب پر ثنائل نے ایک جھٹکے سے گاڑی روک دی تو وہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔
ڈونٹ ٹیل می وجدان کہ تم نے صرف اسکے ایک دیدار کے لیے انتا بڑا خطرہ مول لے لیا اور مائے گوڈ۔۔۔۔۔وہ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر ایش ایش کر بیٹھی۔جبکہ وہ ڈھیٹوں کی طرح مسکرا رہا تھا۔
وجدان تم۔۔۔۔۔۔
او نو اس سے آگے نہیں جاسکتے۔۔۔۔۔دونوں نے مل کر پیچھے مڑ کر اسے دیکھا جس نے لیپ ٹاپ ان دونوں کے آگے کیا۔
اب یہ یہاں کیا کررہے ہے۔وجدان نے کوفت سے کہا۔
کل ہی یہاں کسی کا مرڈر ہوا ہے اس کی تفتیش جاری ہیں۔سائمن نے دونوں بازوں انکی سیٹ پر ٹکراتے ہوئے کہا۔
دوسرے راستے سے جانا پڑے گا۔ثنائل نے گاڑی ریورس کرتے ہوئے کہا ابھی وہ ریورس کررہی تھی جب وجدان نے اسےروکا۔
نہیں سائمن اور میں یہاں سے جاسکتے ہے تم رملہ کے پاس جاؤ وہ اکیلی ہے وہاں۔اس نے سیٹ بیلٹ کھولتے ہوئے کہا تو ثنائل مسکرا دی۔سائمن اپنا لیپ ٹاپ اور کیپ اٹھا کر باہر کو نکلا ساتھ میں وجدان بھی۔۔۔۔ثنائل گاڑی سٹارٹ کرنے والی تھی جب وجدان نے آواز دے کر اسے روکنے کا کہا۔وجدان اسکے پاس آیا اور گاڑی کے دروازے سے تھوڑا جھک کر کہا اسکے ہاتھ میں اسکا مفلر بھی تھا۔
رملہ سے کہنا کہ جو محبت کرتے ہے وہ دکھ نہیں دیتے اور وجدان اپنی رملہ کو کبھی دکھ نہیں دے سکتا۔یہ کہتے ساتھ وہ جانے کے لیے مڑا جبکہ ثنائل مسکرا کر نفی میں سر ہلانے لگی!اور گاڑی ریورس کی اسکا رخ اب وہاں تھا جہاں اسے کب کا پہلے جانا چاہئیے تھا۔

——————-

اتنا بورنگ سبجیکٹ لینے کی کیا ضرورت تھی یار۔۔۔اسکاٹ لینڈ کے گلاس گلو کالج میں اس وقت ضرورت سے زیادہ گہما گہمی تھی کیونکہ ہر طرف سٹوڈنٹس ایڈمیشن کے لیے بھاگے جارہے تھے۔ان سب میں وہ دونوں بھی شامل تھی۔اپنی دوست کو یوں چھڑتے ہوئے دیکھ کر وہ ہنسنے لگی۔ان دونوں کا ایڈمیشن دو مہینے پہلے ہی ہوچکا تھا۔
یار ضوفی اب تم میرا مذاق اڑا رہی ہو۔۔۔۔۔اس نے بیچارہ سی شکل بنائی۔
میں کب مزاق اڑا رہی ہوں میں تو بس اس پہ ہنس رہی ہوں۔۔۔۔اس نے سامنے اشارہ کیا رملہ چہرہ موڑ کر دیکھا جہاں ایک لڑکا کھڑا رملہ کو ہی گھور رہا تھا۔۔۔۔۔اور ساتھ میں بیگ بھی پکڑے ہوئے تھا۔وہ انیس بیس سالہ ایک دبلا پتلا لڑکا تھا۔اسکے بھورے بال آدھے گلابی ہوئے پڑے تھے اسکے بیگ سے پانی کے ساتھ ساتھ گاس بھی بہہ رہے تھے۔رملہ نے تھوک نگل کر ضوفی کو دیکھا۔
لگتا ہے پھر سے پکڑی گئی پلیز ضوفی اس بار بچھاؤ تمھارے سر کی قسم آئندہ کچھ بھی نہیں کروں گی۔۔۔۔وہ وہی نیچھے بیٹھ کر اسکے آگے ہاتھ جوڑنے لگی۔جبکہ ضوفی ہنس ہنس کر پاگل ہورہی تھی۔ضوفی نے سیدھے ہوکر آنکھوں کے کونے صاف کئیے جو ہنسنے کی وجہ سے بھیگ گئیے تھے۔
یار ضوفی تم ہنس رہی ہو اور وہ میراثی مجھے جان سے مار دے گا یار۔۔۔۔رملہ نے بازوں لمبا کر کے اپنے پیچھے کھڑے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔جو اسی کی طرف بڑھ رہا تھا۔
دیکھو رملہ میں تمھیں بچا تو لوں گی لیکن۔۔۔ضوفی کے کہنے پر اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو سامنے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔مطلب صاف تھا کہ وہ اس تک پہنچ چکا ہے۔
مس رملہ سلطان کیا مجھے دیکھنے کی زحمت کریں گی اپ۔۔۔اسے اپنے پیچھے کھڑے پاکر وہ بھی آنکھیں میچ کر کھڑی ہوئی اور اس کی جانب مڑی۔
او سائمن تم کیسے ہو۔۔ اس نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔۔۔جبکہ وہ خونخوار نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا رملہ نے ضوفی کو مدد طلب نظروں سے دیکھا اور ہاتھ پیچھے کیا۔
دیکھوں سائمن تم تو میرے دوست ہو نا اچھے والے صرف آخری بار اپنی اس معصوم سی دوست کو معاف نہیں کرسکتے ہاں۔اس کے لہجے میں میٹھاس ہی میٹھاس تھا۔ضوفی منھ پر ہاتھ رکھے ہوئے اپنی ہنسی کنٹرول کر رہی تھی۔وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے قریب آرہا تھا جبکہ رملہ کے قدم پیچھے کی طرف بڑھ رہے تھے۔
بھاگ جا رملہ آج کوئی نہیں بچھانے والا تجھے ۔۔۔۔۔۔۔اور ایک چیخ کے ساتھ ہی وہ پیچھے کو دوڑی۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ کیا وہ دو قدم ہی دوڑی تھی کہ وہی پر گر پڑی۔اور رملہ کو آج کالج آنے پر ہی بچھتاو ہونے لگا۔اگر دنیا میں کسی دن کو عالمی سطح پر بد ترین دن کا خطاب ملتا تو رملہ سلطان 16 نومبر کے دن کو ہی یہ خطاب خوشی خوشی دے دیتی۔
چلو رملہ پڑھ لے کلمہ شہادت ایسا نا ہو یہ انگریز کا بچہ مارتے وقت کلمہ پڑھنے کی بھی مہلت نا دے ۔۔۔۔۔دل ہی دل میں کہا جبکہ آنکھیں اب بھی بند تھی۔
سائمن اسکے سامنےاکر کھڑا ہوا اور ایک معنی خیز مسکراہٹ لیے ہوئے اسے دیکھنے لگا۔اس نے سر اٹھا اسے دیکھا۔جب سائمن اپنا بیگ والا ہاتھ ہوا میں اٹھایا۔
دیکھو سائمن اگر تم نے ایسا ویسا کچھ کیا تو ضوفی کی قسم اگر آج کے بعد تمھیں کچھ دیا نا تو میرا نام رملہ سلطان نہیں اور تمھاری اس دو نمبر بیکری کو سیل نا کروایا نا تو پھر کہنا۔۔وہ دھمکی دینے پر اتر ائی۔مطلب رملہ نے اسی بات کو اپنایا(دشمن کے سامنے پینک نہیں ہونا)۔۔۔جب اس کی بات ہر سائمن کا قہقہہ بلند ہوا۔
ٹھیک ہے پھر تمھارا نام رملہ سے شملہ اور ہاں جب تک ضوفیشان ابراہیم ہے سائمن فین لے کبھی بھوکا نہیں مرے گا۔۔۔۔اور کہتے ساتھ ہی اپنا بیگ اس کے اوپر انڈیل دیا۔اور ساری کی ساری گھاس ،پانی اور ایک دو مردہ مچھلی اس کے اوپر گر گئی اور مچھلی کو اپنے اوپر محسوس کرکے اسکی چیخ پورے کالج میں گونج اٹھی۔
سائمن اور ضوفی دونوں کا مشترکہ قہقہہ آسمانوں کو چھونے لگا۔
میں تمھیں چھوڑوں گی نہیں فین لے کے بچے۔وہ اٹھ کر خونخوار نظروں سے اسکے جانب دوڑی۔
او نو۔اور پھر سائمن آگے اور رملہ پیچھے۔۔۔اور پھر رملہ نے سائمن کو پورے کالج کی سیر کروائی۔وہ دونوں ایک جگہ روک کر سانس بحال کرنے لگے کیونکہ دونوں پورا ساڑھے ایک گھنٹہ بھاگے تھے۔اب دونوں کالج کے بیک سائٹ پر گھنٹوں پر ہاتھ رکھے سانسں بحال کر رہے تھے۔
ر-رملہ قسم سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتنا تو میں نے اس کالج کو پورے ایک سال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک سال میں نہیں گھوما جتنا تم نے آج اس کی سیر کروالی۔۔۔۔۔۔۔۔اسکا سانس کافی پھول چکا تھا۔۔رمملہ اسکی بات پر ہنسنے لگی۔رملہ کی سکائی بلیو شرٹ ابھی تک گیلی تھی۔
سائمن اٹھا اور وہاں لگے واٹر ڈسپنسر سے دو گلاس پانی بھرا اور اکر ایک رملہ کو دیا اور دوسرا خود بیٹھ کر پینے لگا۔
آج رات فٹ بال میچ ہے ضوفی کو ضرور ساتھ لانا ورنہ آنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔اس نے بے شرمی کی ہر حد پار کر دی ۔رملہ نے بد مزہ ہوکر اسے دیکھا۔
زلیل آدمی۔۔۔۔۔۔ خدا قسم تم جیسا بے شرم انسان آج تک نہیں دیکھا میں نے ،ضوفی کو ساتھ نہیں لانی والی میں۔۔۔دانت پیستے ہوئے کہا۔۔۔۔اور سائمن نے اس داد کو کندھے آچکا کر قبول کیا۔
تمھاری مرضی ویسے آج میں اپنا وعدہ پورا کرنے کا سوچ رہا تھا اور خدا قسم وہ اور بھی زیادہ ہنڈسم ہوگیا ہے ان چھٹیوں میں تو۔۔سائمن نے آخر میں اسکی نقل کرتے ہوئے نہایت ہی اوور ایکٹنگ کرکے کہا۔
ارے یار بس اتنی سی بات چلو شام کو ضوفی کے ساتھ ملتی ہوں۔سائمن کی بات پر اسکی آنکھیں چمکی تھی۔سائمن اسکو بخوبی جانتا تھا۔وہ نفی میں سر ہلانے لگا۔ اگر کوئی ان دونوں کو اب دیکھتا تو کبھی بھی یقین نہ کرے کہ یہ دونوں کچھ وقت پہلے ایک دوسرے کے جان لینے کے درپے تھے۔

——————
آج اسلام آباد کے سب سے بڑے کالج ایف -8/4 میں ٹاپرز کو انکی کارکردگی پر ایک گرینڈ ڈنر دیا جارہا تھا ۔اس کالج میں ملک کے سب سے بڑے بڑے شخصیات کے بچے پڑھتے تھے۔وپ بھی تو ملک کے سب سے بڑی عدالت عدالت عالیہ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بیٹی تھی۔پورے کالج میں اسکا سب سے شاندار رزلٹ آیا تھا ۔وہ وہاں اپنی مما ،باباجان اور پندرہ سالہ بھائی کے ساتھ بیٹھی تھی۔اسکی چہرے پر وہی مسکراہٹ برقرار تھی جو تقریبا پچھلے دو دنوں سے اسکے چہرے کی زینت بنی ہوئی تھی۔
اسکے بابا جان وہاں موجود لوگوں سے محو گفتگو تھے۔اسکی مما کو بھی شاید کوئی دوست مل گئی تھی۔وہ بلیک کلر کے گاون میں ملبوس تھی۔وہ اس وقت کسی دوست سے فون پر بات کر رہی تھی۔جب اچانک کالج کے باہر پولیس کے گاڑیوں کے سائرن کی آوازیں گونجی۔اس نے کوئی دھیان نہیں دیا وہ مسلسل فون پر بات کر رہی تھی جب اس نے اپنے بھائی کو روتے دیکھا۔اسکے اوسان تو تب خطا ہوئے جب اس نے پولیس کو اپنے بابا جان کے ساتھ بات کرتے دیکھا پولیس والے مسلسل چیخ رہے تھے اسکی مما اور اسکا بھائی وہی کھڑے روپے تھے۔وہ فون بند کرکے انکی طرف ائی۔
کیا ہوا باباجان یہ لوگ۔۔۔وہ سیدھا اپنے بابا جان کے پاس ائی۔جس کے ساتھ پولیس بھی ہتکھڑی ہاتھ میں پکڑی وہی کھڑی تھی۔
کچھ نہیں ہوا بیٹا انکو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔انہوں نے اسے دلاسا دیا اور اسے لیے اپنی شریک حیات کے پاس آئی جو مسلسل اپنی آنسو پونچھ رہی تھی۔
تم بچوں کو لے کر گھر جاؤ میں بعد میں آتا ہوں۔۔۔۔۔
لیکن افتحار صاحب۔۔
کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے تم بس بچوں کو گھر لے کر جاؤ۔۔۔۔انہوں نے اسکی مما کا ماتھا چوم کر کہا اور انہیں لے کر گاڑی تک آئے اور دروازہ کھول کر انہیں اندر بٹایا۔
بچوں کا خیال رکھنا اور فکر کی کوئی بات نہیں انکو صرف غلط فہمی ہوئی ہے وہ دور کرکے میں آجاؤں گا۔گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے کہا اور ڈرائیور کو جانے کا اشارہ کیا۔تو ڈرائیور گاڑی بگا لے گیا۔
——————–
رملہ مسلسل ایک ہی پلیئر کو دیکھ رہی تھی۔وہ کوئی بائیس تئیس سالہ ایک خوبرو نوجوان تھا۔یہ میچ انکے کالج کے فٹ بال ٹیم اور ایک دوسرے کالج کے فٹ بال ٹیم کے درمیان تھا۔
ویسے ایک بات تو بتاؤ رملہ کیا تمھیں فٹ بال گیم کی سمجھ اتی ہیں۔ضوفی رملہ کو دیکھ کر کہا جو پاپ کارن کھانے میں بزی تھی ا۔اسکے سوال پر رملہ کا ایک الگ شگاف قہقہہ بلند ہوا۔
جس پر ضوفی نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
میں تو اپنی کالج ٹیم کو بھی سائمن کی وجہ سے جانتی ہوں۔اس نے سائمن کی یونیفارم کی طرف اشارہ کیا۔مطلب جس ٹیم کا یونیفارم سائمن نے پہنا ہوتا ہے وہی ہماری ٹیم ہوتی ہے۔اور صوفی کو واقعی میں یقین ہوگیا کہ سائمن اور رملہ جیسا اس سارے اسکاٹلینڈ میں کوئی نہیں۔
تو تم کیوں اتنی باقاعدگی سے میچ دیکھنے آتی ہوں فضول میں میرا بھی وقت ضائع کرتی ہو۔
ارے میں یہاں میچ دیکھنے تھوڑی آتی ہوں۔
تو۔۔۔ضوفی نے حیرت سے پوچھا۔
میں تو کچھ اور دیکھنے آتی ہوں۔۔۔۔انکھوں میں چمک لیے کہا۔اسکا اشارہ پلیئرز کی طرف تھا۔
او کم ان رملہ کرکٹ کے پلیئرز بھی تو اتنے ہنڈسم ہوتے ہے۔
اوف ضوفی میں پورے ٹیم کو دیکھنے تھوڑی آتی ہوں ۔۔وہ سخت بدمزہ ہوئی تھی۔وہ تو صرف اسے دیکھنے آتی تھی ۔جس کے مخالف ٹیم میں ہونے کے باوجود بھی وہ اسکی فین تھی۔
ویسے رملہ تم نے تو مخالف ٹیم کی شرٹ پہنی ہے۔۔ضوفی نے اسکے شرٹ کو دیکھا جو مخلف ٹیم کا تھا یقینا۔
کیونکہ میں اسکی فین ہوں۔ مخالف ٹیم کے پلئیر کی طرف اشارہ کیا جو آخری گول کرنے والا تھا۔اور اخری گول کے ساتھ ہی رملہ کا نعرہ پورے سٹیڈیم میں گونجا کیونکہ اسکا ٹیم میچ وہ جیت چکا تھا جس کی وہ فین تھی۔اور ضوفی سمیت سائمن اور تمام پلیئرز بلکہ اسکے کالج کے سٹوڈنٹس نے بھی اسے دیکھا جو ہر ایک سے بے پرواہ انکی جیت سلیبرٹ کررہی تھی۔سائمن نے ضوفی کو اشارہ کیا اسے بیٹھانے جس پر ضوفی نے کندھے آچکا ہے جس کا مطلب تھا وہ کبھی نہیں بیٹھی گی۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں سائمن کے ساتھ کھڑی تھی۔کیونکہ رملہ نے اپنا وعدہ پورا کیا تھا ضوفی کو لانے کا اور ابھی سائمن کی باری تھی اسے اس سے ملوا کر اپنا وعدہ پورا کرنے کی۔
اچھا یار اب منھ تو نہ لٹکاو نا قسم کی خدا کی میں کنٹرول نہیں کرپائی۔
کنٹرول نہیں کرپائی ہنہ….. سائمن نے اسکی نقل اتارتے ہوئے کہا جس پر اسنے برا منھ بنایا۔
اور یہ،یہ کیا ہے، تم یہاں میچ دیکھنے آئی تھی یا مووی۔۔۔سائمن نے اس سے پوپکورن لیتے ہوئے کہا۔ تو رملہ نے آنکھیں دیکھائی۔ابھی سائمن اسے مزید کچھ کہنے والا تھا کہ وہ ان کی طرف آتے ہوئے دیکھائی دیا۔تو دونوں خاموش ہوئے۔وہ سائمن سے گلے ملا جبکہ ان دونوں کو دیکھتے ہوئے اس نے صرف ہائے کہا۔
ویسے بہت اچھا کھیلے ہو تم آج ۔اس نے سائمن کی تعریف کی۔جس پر وہ صرف مسکرایا۔اور ایک نظر سائمن کے ساتھ کھڑی دو لڑکیوں پر ڈالی جس میں ایک اسے دیکھ رہی تھی نہیں بلکہ گھور رہی تھی۔جبکہ دوسری سب سے انجان بس اپنے فون میں بزی تھی۔اور پھر سوالیہ نظروں سے سائمن ڈالی۔
او ہاں یہ رملہ سلطان اور یہ ضوفیشان ابراہیم میری ہی کالج میں ہیں دونوں ۔سائمن نے رملہ کا نام چباتے ہوئے کہا جبکہ ضوفیشان کا نام نہایت ہی پیار سے لیا تھا۔اپنے نام اتنے نفرت سے کہنے والے کو گھور کر ضرور دیکھا تھا۔
اور ضوفی یہ وجدان ۔۔۔۔وجدان نیازی ٹاپ فٹ بالر۔۔۔۔سائمن کے تعریف پر وجدان صرف ہلکا سا مسکرایا تھا جبکہ سائمن نے رملہ کو جلانے کے لیے جان بوجھ کر صرف ضوفی کا نام لیا۔تھوڑی دیر وہ سب وہاں بیٹھے باتیں کرتے رہے جب وجدان کو اپنی ٹیم سے بلاوا آیا تو وہ تینوں بھی گھر جانے لگے۔رملہ،ضوفی اور سائمن ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔رملہ اور ضوفی ایک ہی گھر میں رہتے تھے جبکہ سائمن اپنی پوری فیملی کے ساتھ۔
————————-

تو ناظرین جیسا کے آپ سب نے دیکھا کہ پچھلی رات کو جسٹس افتخار چوہدری کو دس سالہ معصوم بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے کیس میں ایف -8/4 کالج سے گرفتار کیا گیا تھا۔جیسے جسٹس نے میڈیا سے گفتگو کی مخض ایک غلط فہمی قرار دی تھی جبکہ آج ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے واضح دلیلوں کے ساتھ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس افتخار چوہدری کو مجرم قرار دیا۔
نیوز اینکر کورٹ کے سامنے کھڑے ہوکرا بآواز بلند کیمرے کے سامنے کھڑا چیخ رہا تھا جبکہ جسٹس افتخار چودھری کو ہتکھڑی ہاتھوں میں ڈالے پولیس کے احاطے میں باہر لایا جا رہا تھا۔کورٹ کے باہر پولیس کی گاڑیاں کھڑی تھی ۔رات کے اندھیرے میں صرف پولیس کے گاڑیوں کے لائیٹس چمک رہے تھے۔اسکی بیٹی،بیوی اور اسکا پندرہ سالہ بیٹا وہاں کھڑے تھے۔انکھوں میں آنسو لیے بے بسی سے اپنے باباجان کو دیکھ رہے تھے۔وہ رو نہیں رہی تھی بلکہ اسے اپنی بے بسی پر رونا آرہا تھا کیا وہاں کوئی ایسا نہیں تھا جو لوگوں سے کہتا کہ اصل مجرم تو حکمران بن کر بیٹھا ہے جسٹس افتخار چوہدری کے جیل جانے سے وہ محفوظ نہیں ہونے والے بلکہ وہ مزید خطرے میں پڑ گئے تھے۔کیونکہ آج ہاں آج ہی اسے یقین ہوگیا کہ انکی ملک کی عدالتیں انکے ملک کا وہ ادارہ جیسے دیکھ کر لوگ مطمئین ہو جاتے ہے کہ انکا حق ہر حال میں انکا دلایا جائے گا۔وہ ادراہ آج بک گیا تھا۔اسکا باباجان پولیس والوں سے کچھ کہا جس پر پولیس والے نے ہاں میں سر ہلایا تو اسکے باباجان ان کی طرف ائے۔جہاں اسکی ماما کھڑی بےبسی سے بے آواز رو رہی تھی۔
میں یہ نہیں کہوں گا کہ مجھ پر یقین رکھو کیونکہ اس وقت کوئی مجھ پر یقین نہیں کرے گا کیونکہ ثبوت ہی اس انداز میں پیش کئیے گئے ہیں کہ ہر کوئی مجھے مؤجب الزام ٹہرا رہا ہے۔۔۔لیکن میں صرف تم سے اتنا کہوں گا کہ ایک بیٹی کا باپ ایسا ہر گز نہیں کرسکتا۔اسکے باباجان اور اسکی مما،دونوں کے آنکھیں نم تھی۔اسکی ماما نے نفی میں سر ہلایا۔اور رونے لگی۔اسکے باباجان اسکے بھائی کے سامنے کھڑے ہوئے۔نم آنکھوں سے مسکرا کر اپنے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ درا کیونکہ اسکا بیٹا اسکے برابر آچکا تھا۔
تمھیں پتہ ہے اپنی گرفتاری کا مجھے دکھ کیوں نہیں ہے لوگوں کے گالیوں سے میں نے اپنا سینہ کیوں تنگ نہیں کیا۔اس نے سر اٹھا کر نم آنکھوں سے اپنے بابا جان کے مسکراتے ہوئی آنکھوں کو دیکھا۔ہاں اسکے بابا جان کے چہرے پر دکھ نہیں تھا۔وہ مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔اس نے نفی میں سر ہلایا۔
جب انسان برا ہو اور لوگ اسے اچھا کہے تو انکا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے وہ ہر برے القابات سے ہر گالی سے بچھ تو جاتا ہے مگر اسکے راتوں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہے۔
(اس وقت وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹا کروٹیں بدل رہا تھا اس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی,اس نے اپنے دائیں طرف لیٹی اپنی بیوی کو دیکھا جو آرام سے سو رہی تھی۔وہ اٹھا اور سائڈ ٹیبل کی دراز سے نیند کی گولیاں نکالی۔کیونکہ پچھلے ایک سال سے وہ انہیں نیند کی گولیوں سے بمشکل سو پاتا)
اسکا ضمیر اسے ملامت کرنے لگتا ہے ۔چاہے وہ لاکھ اچھے کام کیوں نا کرلے اسکا ضمیر اسے اس ایک گناہ پر ملامت کرتا رہتا ہے۔
(اس نے دو گولیاں ایک گلاس پانی کی مدد سے اپنے منھ میں انڈیل دیا ۔۔۔ اسے پتہ تھا ایک گھنٹے سے پہلے اسے پھر بھی نیند نہیں آنے والی۔وہ اٹھا اور اپنے کمرے سے نکل گیا اسکا ارادہ اپنے محسوس کمرے میں جانے کا تھا۔اسکا گزر اپنی بیٹی کے کمرے سے ہوا وہ نظر انداز کرکے جانے لگا لیکن پھر اسکے قدم روک گئے۔)
اسے ڈر لگنا شروع ہوتا ہے ایک انجان سا ڈر جیسے اس سے کر چیز کھو جائے گی۔اور آخر میں ،آخر میں وہ ایک درندہ بن جاتا ہے۔
(اسنے دھیرے سے کمرے کا دروازہ کھولا جہاں اسکی بیٹھی معصوم چہرہ لیے سو رہی تھی،وہ کافی دیر تک اسے دیکھتا رہا اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے محصوص کمرے میں چلا گیا اور اپنی ایک بوتل نکال کر بغیر گلاس میں ڈالے پینے لگا وہ کسی جانور کی طرح پی رہا تھا وہ جانور بن رہا تھا)
اور جب آپ ایک سچ کی راہ پر گامزن ہو اور لوگ اپکو برا بلا کہے گالیاں دے تب اپکو خوشی ہوتی ہے آپ لوگوں کی گالیاں تو سن لیتے ہیں ان کے بےہودہ القابات سے بچ تو نہیں جاتے لیکن اپکو ان سے دکھ بھی نہیں ہوتا کیونکہ تب اپکو یقین ہوجاتا ہے کہ آپ حق پر کے کیونکہ ہمیشہ سے برا بلا انہیں کہا گیا ہے جو راہ حق پر ہو ہمارے رسول اللہ صلی کو بھی برا بلا کہا گیا تھا حلانکہ مشرکین مکہ کو خود بھی علم تھا انکے سچا نبی ہونے پر ۔۔۔۔۔۔اور میں بھی آج خوش ہوں ضمیر کے ہر بوجھ سے آزاد کیونکہ مجھے آج لوگوں کے رویے سے علم ہوگیا کہ میں راہ حق پر ہوں۔تم بھی ہمیشہ حق کا راستہ چننا چاہے تمھیں ہر چیز ہی کیوں نا کھونا پڑے شہرت دولت رشتے ہر چیز نے فنا ہوجانا ہے اگر کسی چیز کو فنا نہیں ہونا تو وہ ہے انسان کے اچھے اعمال۔اس نے جھٹ سر سر اثبات میں ہلایا جس پر اسکا باپ مسکرایا اور اسے گلے لگایا۔اس سے الگ کرکےاسکا کندھا تھپتھپایا ۔اسکے باباجان اب اس کی طرف آئے۔جو مسلسل رو رہی تھی۔اسے تو اپنے بابا جان کو جتوانا تھا لیکن وہ نہیں جتوا سکی وہ ہار گئی تھی وہ اپنے بابا جان کی مضبوط بیٹی نا بن سکی وہ اپنے بابا جان کی مدد نا کرسکی۔وہ مسلسل رو رہی تھی۔
مجھے معاف کر دے بابا جان۔روتے ہوئے بولی جب اسکے بابا جان نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔
میں نے اپنی ثنائل کو باقی لڑکیوں کی طرح بننا نہیں سکھایا جو ایک تتلی کے چھوٹنے پر رونے لگے۔میری ثنائل کمزور تو نہیں تھی۔وہ تو ہمیشہ کہتی تھی بابا جان میں آپکی طرح بنو گی اور اس ملک کی ہر بیٹی کو انصاف دلاوں گی۔کیا میری بیٹی میری طرح نہیں بننا چاہتی کیا وہ وقت کے فرعون کے سامنے حضرت موسیٰ کی طرح نہیں ڈٹے گی۔
خود سے الگ کرکے اسے دیکھا جو رونے میں مصروف تھی۔
بیٹا ہم ایک ایسے زمانے میں کی رہے ہے جہاں فرعون،نمرود اور یزید ایک ساتھ موجود ہے اور ان سب کے سامنے ہم نے حضرت موسیٰ ،حضرت حسین ،حضرت ابراہیم کی طرح کھڑے ہونا ہے اللہ پر یقین کرکے اپنے ایمان کے ساتھ ان سب کا مقابلہ کرنا ہے۔
اسنے جلدی سے اپنے آنسو پونچھے۔جس پر اسکے بابا مسکرائے۔
آپکی ثنائل آپکی طرح بن کر دیکھائیں باباجان آپکی ثنائل ایک دن سپریم کورٹ میں کھڑے ہوکر ضرور کہے گی کہ میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بیٹی اس ملک کے یزید، فرعون اور نمرود کے ہر قانون اور ہر ظلم کو اپنے پیروں تلے روند کر اس ملک کے ہر مظلوم کو انصاف دلاؤں گی ۔اور تب آپ دیکھیں گے بابا اس ملک کے ہر فرعون ،یزید اور نمرود کا انجام۔اسکی بات ہر اسکے بابا جان مسکرائے جب پولیس والے آکر اسے اپنے ساتھ لے گئے اس کی آنکھ سے ایک موتی ٹوٹ کر گال ر گر گیا جسے اس نے جلدی سے صاف کیا اسے تو اپنے بابا جان کی طرح مضبوط بننا تھا ۔اسکی نظروں نے دور تک اپنے باباجان کا پیچھا کیا ۔اس کے بائیں طرف اسکی ماں اسکے بھائی کے ساتھ لگ کر رو رہی تھی۔ایک بیٹی کو سب سے زیادہ محبت اپنی والد سے ہوتی ہے کیونکہ ایک بیٹی کے لیے باپ کیا ہوتا ہے وہ صرف بیٹی ہی سمجھ سکتی ہیں ،ممکن ہوتا اگر کسی کو عمر لگانا تو میں پانی ہر سانس اپنے بابا کی نام لکھتی.
——————-
آج اسکاٹ لینڈ پر پھر سے برف باری ہورہی تھی۔نیپئر یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس نے آج مین حال کا رخ کیا تھا اور مین حال کا رخ کرنے کی وجہ وہاں ہیٹرز کا ہونا تھا۔پورا مین حال سٹوڈنٹس سے بھرا ہوا تھا کیونکہ آج انکا لاسٹ ایگزامز تھا۔۔۔۔۔وہ تقریباً دو مہینے بعد یونیورسٹی آئی تھی۔مین حال تقریبآ شام کے چار بجھے جاکے تھوڑا تھوڑا خالی ہوا۔کیونکہ کچھ سٹوڈنٹس کے کلاسس ختم ہوئے اور وہ گھر کو چلے گئے جبکہ کچھ کا آخری کلاس جس کے بعد انہوں نے گھر جانا تھا.وہ اپنا لیکچر دے کر food heaven,جا رہی تھی۔جب اسے کسی نے پیچھے سے پکارا اور پکارنے والے کو وہ بخوبی جانتی تھی وہ روک کر پیچھے مڑی۔اور سامنے والے کو دیکھ کر اسے ایک زبردست جھٹکا لگا۔اسکے گلے میں چینز،انگلیوں میں ہمیشہ سے موجود رہنے والے عجیب شکلوں والی انگھوٹیاں۔اور ہمیشہ سے اسکی شخصیت کا حصہ رہنے والے ایک سائڈ سے لمبے بال۔۔۔کچھ بھی اب اس لڑکے کی شخصیت سے جدا ہوگئے تھے۔وہ مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔اس نے ہائنیک والا سویٹر،جینز اور وائٹ جوگرز پہنے ہوئے تھا۔اسکے بھورے رنگ کے بال جو اب سائڈ سے اور آگے سے چھوٹے تھے مگر ہمیشہ کی طرح ماتھے پر بکھرے تھے۔شاید وہ جان بوجھ کر ایسا کرتا تھا۔وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے مقابل کھڑا ہوا اسکا قد رملہ سے لمبا تھا۔اس لے رملہ چند قدم پیچھے ہوئے تاکہ اسے سر اٹھانا نا پڑے۔
وجہ جان سکتی ہوں۔اسکے نئے لک کو دیکھ کر پوچھا۔تو وہ سر جھکا کر مسکرایا۔اسکے دائیں ہاتھ میں اسکا اوور کوٹ تھا جو اس نے یقینا ہیٹرز کی گرمائش کی وجہ سے اترا دیا تھا۔
آپ نے کہا تھا کہ atheist اور مسلم دونوں کا کلمہ تقریبا ایک جیسا ہوتا ہے۔رملہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
میں دبئی گیا ہوا تھا پیلچھے ماہ۔۔۔۔۔اور اپکو پتہ ہے۔۔۔۔رملہ اسے ہی دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر ایک عجیب سی چمک ائی تھی۔
میں وہاں ایک ایسے انسان سے ملا جس نے میری زندگی بدل دی وہ آپکی طرح باتیں کرتا تھا۔میں نے ان سے وہی سوال پوچھے جو چند ماہ پہلے آپ سے پوچھے تھے۔اور کمال کی بات یہ ہے کہ انہوں نے بھی وہی جواب دئیے جو آپ نے دیے تھے۔
وہ مسکرا کر اسے کہیے جا رہا تھا جبکہ رملہ منھ پر ہاتھ رکھے اپنی ہچکیاں کنٹرول کر رہی تھی اس کے آنکھوں سے متواتر آنسو بہے جارہے تھے۔جبکہ اسکی آنکھیں بھی نم تھی۔
میں ڈاکٹر زاکر نائک سے ملا اور انہیں نے مجھے جوناتھن سے عمر بننے تک کا سفر کروایا۔
اسنے رملہ کو دیکھا جو رو رہی تھی۔
میں،میں آپ لوگوں میں شامل ہوگیا مس رملہ میں مسلمان بن گیا۔اس نے اپنے آنسو صاف کئیے اور مسکرا کر رملہ سے کہا۔
ویلکم عمر ۔رملہ نے آنسو صاف کئیےتھے اور نم آنکھوں سے مسکرا کر اسے خوش آمدید کہا۔تو وہ مسکرایا۔تھوڑی دیر بعد وہ دونوں وہی فوڈ ہیون میں بیٹھے تھے۔جہاں شیلف کے دوسرے سائڈ پر کھڑا آدمی اپنے کام میں مگن تھا۔
تمھارے گھر والوں کا کیا ری ایکشن تھا۔رملہ کے سوال پر اسکا چہرہ بجھ گیا۔
رشتہ نہیں رکھنا چاہتے خاندان سے نکال دیا۔اسے شاید دکھ تھا جیسے بھی تھے وہ اسکے اپنےتھے۔ اپنوں کی بے رخی انسان کو مار دیا کرتی ہے۔
اور لوگوں کی باتوں سے ہرگز غمزدہ نہ ہو۔عمر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو اس کی طرف دیکھے بولی تھی۔
تمھیں پتہ ہے ہمارے رسول اللہ صلی جب اپنی قوم کے رویے سے مایوس ہونے لگے۔وہ دونوں اب چیئرز پر بیٹھے ہوئے تھے۔عمر دائیں طرف دیکھ رہا تھا جبکہ رملہ کی نظریں جھکی ہوئی تھی۔
تو اللہ نے انہیں دلاسا دیتے ہوئے کہا کہ اور لوگوں کی باتوں سے غمزدہ نہ ہو۔۔۔اس وقت یہ دلاسا صرف رسول اللہ صلی کے لیے تھا جبکہ آج کل قرآن کریم کی ہر آیت اس دنیا میں موجود ہر انسان کے لیے ہیں ۔جو کوئی بھی قران پڑھتا ہے اسے ایسا لگتا ہے جیسے یہ قرآن صرف اور صرف اس سے محو گفتگو ہے۔رملہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
اس لیے جب اللہ ہی تم سے کہہ رہا ہے کہ لوگوں کی باتوں سے ہرگز غمزدہ نہ ہو تو پھر انسان کو کوئی کوئی حق نہیں کہ وہ مایوس ہونے لگے۔تم بس اللہ سے ان کی ہدایت کی دعا کرتے رہنا وہ دلوں کو بدلنے پر قادر ہے۔عمر مسکرایا۔اور اس کی طرف دیکھا۔
ویسے یہ تو بتاؤ عمر نام کیوں اپنایا جبکہ تمھارے نام کے ساتھ تو جواد بنتا تھا۔رملہ نے چائے کے کپ میں چمچ چلاتے ہوئے کہا۔
Im fan of omer.رازداری سے کہا اور اٹھ کر چلا گیا
رملہ کو اسی دن اندازا تھا کہ وہ اسلام میں دلچسپی رکھتا ہے جس دن اس نے کہا تھا کہ مجھے تمام مذہب میں صرف اسلام ایک غیرت مند مذہب لگتا ہے کیونکہ اسلام کے پیروکاروں کا خدا بہت طاقتور ہے اسکا تو کوئی پاٹنر بھی نہیں ہے جو اس کے ساتھ سسٹم کو ہینڈل کرے بلکہ وہ خود ہر چیز ہینڈل کئیے ہوئے ہے اسے نیند بھی نہیں آتی کیونکہ نیند ایک کمزوری ہے اور تم لوگوں کا خدا ہر کمزور چیز سے دور ہے وہ طاقتور ہے کیونکہ اسے دیکھے بنا ہی تم لوگ اس سے اتنا ڈرتے ہو یقیناً وہ بہت طاقتور ہے اور میں صرف طاقت کا فین ہوں
اس لیے میں کسی سلیبرٹی کا فین نہیں بلکہ میں تم لوگوں کے گاڈ کا فین ہوں۔اور اسکی اسی بات سے رملہ کو اندازا ہوا تھا کہ جو اسکا فین بن جاتا ہے وہ پھر اسی کا ہو کر رہتا ہے۔رملہ نے سر اٹھا کر اوپر اسے دیکھا جو دلوں کو بدلنے پر قدرت رکھتا تھا اس نے آج اسکے پسندیدہ سٹوڈنٹس کا دل بھی اپنی جانب موڑا تھا اس نے مسکرا کر آہستہ سے الحمدللہ کہا۔
———————-

باب : 2   –

 

عکس در آئینہ

اخبار میں اک دلخراش خبر پڑھ کر

کہ کس میں میری ہم جنس پر

ظلم زیادتی کا پہاڑ توڑا گیا

میری آنکھوں کی حدت لو دینے لگی

حلق میں یوں جیسے کسی نے

زہر انڈیل دیا ہو

دل کو میرے پاش پاش کردیا

تصور نے اس شدت سے آللہ کو پکارا

کہ زمین پر آسمان کو بلا لیا

کہاں ہے تو ؟ اور تیرا انصاف!؟

دیکھنے والے جب دیکھتا ہے

تو روکھتا کیو نہیں ؟؟؟

قریب تھا کہ یہ سوال

گمراہی کی طرف لے جاتا مجھے

رب کی صفت “صبور ” یاد آگئی

جیسے اس کی جانب سے جواب آگیا

اور میرا شکوہ مجھ ہی سے ہو گیا

تو نے ہماری کتنی خرابیوں پر

صبر کیا ہے

اگر انصاف کرتا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!

ابھی میں تیرا انصاف مانگ رہی تھی

اور ابھی پھر سے اپنی مغفرت مانگ رہی ہوں

(از بشری سعید)

رات کے دو بج رہے تھے۔جب وہ دونوں کیچن سے نکلی انکا ارادہ اپنے کمرے میں جانے کا تھا۔پورے گھر میں اندھیرے کا راج تھا ۔ سوائے لاؤنج کے وہاں مدھم سے روشنی تھی۔
شش۔۔۔۔۔۔۔۔یار آہستہ چلو نا اگر کوئی جھاگ گیا نا تو خیر نہیں ہماری۔اس کی دوست کافی ڈر رہی تھی اس لیے وہ تیز تیز چل رہی تھی۔جس کی وجہ سے ان کے قدموں کی چھاپ سننے لگے۔
مجھے کافی ڈر لگ رہا ہے اگر جن آگیا تو۔۔ابھی وہ سامنے دیوار کو دیکھ کر چیخنے والی تھی کہ اس نے اسکی چیخ روکنے کے لیے اسکے منھ پر ہاتھ رکھا۔
دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا۔وہ اسے ٹوکنے لگی جب اس کی دوست نے دیوار کی طرف اشارہ کیا جہاں کسی کا سایہ بنا ہوا تھا ایک خوفناک سایہ اس نے پلٹ کر دیکھا۔

یار وہ کوئی جن ون نہیں ہے وہ تو اس گلدان کا سایہ ہے۔اس نے لاونج میں پڑے گلدان کی طرف اشارہ کیا ۔لیمپ کہ وجہ سے جسکا سایہ دیوار پر خوفناک شکل کی مانند بنا ہوا تھا۔

دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ہوئی وہ دونوں لاونج سے کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔جب ان دونوں کو بیسمنٹ کے سٹور روم سے کسی چھوٹی بچی کی چلانے کی آواز ائی۔سٹور روم بیسمنٹ میں ہونے کی وجہ سے وہ آوازوں کو واضح انداز میں نہ سن سکی۔ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
چلو یار مجھے تو کافی ڈر لگ رہا ہے۔اس کی دوست نے اسکا بازوں زور سے پکڑا اور ڈرتے ہوئے کہا جبکہ دوسری نہایت ہی سنجیدہ تاثرات لیے اس آواز کو سننے کی کوشش کرنے لگی۔
شاید ہمیں اس کی مدد کرنی چاہئیے۔
پاگل ہوگئی ہو وہاں کوئی نہیں ہے تمھیں پتہ ہے یہاں جنات بھی ہے شاید وہ جنات کی ہی آوازیں ہو۔۔اسکی دوست نے ادھر ادھر دیکھتے رازداری سے کہا۔لیکن شاید اس نے جان لینے کی ٹھان لی تھی۔وہ قدم بیسمنٹ کی جانب بڑھانے لگی ۔لیکن انکے قدم کسی باروب آواز پر وہی روکی۔اور پیچھی کو مڑی۔
اس وقت تم دونوں یہاں کیا کر رہی ہو۔نہایت ہی سپاٹ لہجے میں پوچھا گیا تھا۔دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔اس میں سے ایک اب بھی کانپ رہی تھی جبکہ دوسری شاید نڈر تھی۔جو نہایت سنجیدہ چہرہ لیے اس شخص کو دیکھ رہی تھی۔
خالو یہاں کسی لڑکی کی درد سے کراہنے کی آوازیں آرہی تھی ہم بس اسے۔
بند کرو اپنی زبان اور دفع ہو اپنے اپنے کمروں میں آئندہ کے بعد میں تمھیں رات دیر تک جاگتا ہوا نہ دیکھو۔انہوں نے نہایت طیش میں آکر کہا۔دوسری کی ٹانگیں اب بھی کانپ رہی تھی البتہ وہ ویسی کی ویسی تھی۔
جی خالو۔بے تاثر کہہ کر اپنے کمرے میں جانے لگے۔لیکن اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنا ضروری سمجھا۔پیچھے مڑ کر جو اس نے دیکھا تو اسے کچھ نا کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔وہ تیزی سے چہرہ موڑ کر کمرے میں جانے لگی۔
صبح وہ تینوں لاونج میں بیٹھی تھی۔ تینوں لڑکیاں دس سے پندرہ سال کے درمیان تھی۔اس میں سے ایک نے دو پونی ٹیل بنائی تھی۔اسکے موٹے موٹے گلابی گال تھے۔جبکہ باقی دو اس سے شاید ایک ایک سال بڑی تھی۔انہوں نے بالوں کو یوں ہی کھلا چھوڑا تھا۔دو پونی ٹیل والی لڑکی اپنی گڑیاں کی بال بھی بنارہی تھی جبکہ ان دونوں میں سے ایک اسے کل رات کا واقعہ بڑھ چڑھ کر سنا رہی تھی۔
یہ پاگل تو وہاں جانے ہی والی تھی میں نے منع بھی کیا تھا مگر یہ پھر بھی نا مانی اور آخر میں تمھارے پاپا سے ڈانٹ بھی پڑگئی۔اسنے پہلے اپنی تعریف کرتے ہوئے گردن اکڑائی اور آخر میں خفگی سے کہا۔
وہ آوازیں جنات کی تھی کیونکہ میں نے بھی ایک دفہ سنی تھی اور پاپا سے بھی کہا مگر پھر پاپا نے کہا کہ ہمارے گھر میں جنات کا بسیرا ہے۔اس لیے میں رات دیر تک اپنے روم سے نہ نکلو اور نا ہی بیسمنٹ میں جاؤ اس لیے تم دونوں بھی وہاں نا جایا کرو.۔۔ اس نے بڑوں کی طرح انہیں بھی سمجھایا۔ان دونوں میں سے ایک نے تو سرزور سے اثبات میں ہلایا جبکہ دوسری اب بھی شاید جنات کی بات پر یقین نہیں کر رہی تھی۔وہ تینوں وہاں بیٹھ کر باتیں کررہی تھی جب ایک پیاری سی عورت جس نے مہرون رنگ کی ساڑھی پہنی ہوئی نہایت نفاست سے تیار ہوئی تھی۔بلاشبہ وہ ایک حیسن عورت تھی کالے بولوں کو ہلکے سے جھوٹے میں باندھے،گلے میں ڈائمنٹ نیکلس پہنے تھے جو اسکے حسن کو اور بھی بڑھا رہے تھے۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے ان پاس تک ائی۔
ماما۔دو پونی ٹیل والی لڑکی بھاگ کر ان سے لپٹی۔جس وہ مسکرا کر اس کے سامنے بیٹھ گئی۔
میری جان،اسکے گال کو چھوما اور مسکرا کر ان دونوں کی طرف دیکھا۔لیکن ان میں ایک اب بھی نہایت گہری سوچ میں تھی۔
تم تینوں تیار ہو نا چلو ایسا نا ہو کہ ہم لیٹ ہو جائیں اور تم لوگوں کی دوست کی برتھ ڈے سے ہی رہ جائے۔کھڑی ہوکر اپنی بیٹی کی انگلی تھامی۔۔اسکی بیٹی ان دونوں سے چھوٹی دس سال کی تھی۔
خالہ میرا دل نہیں کر رہا میں روک جاتی ہوں۔
میری جان طبعیت تو ٹھیک نا بخار تو نہیں ہو رہا۔وہ ایک دم ہی بہت فکرمند نظر آنے لگی جبکہ انکی بیٹی بھی بھاگ کر اپنی کزن کے چئیر کے پاس کھڑی ہوئی۔
نہیں خالہ مجھے ہوم ورک کرنا ہے اور پتہ نہیں ہم کتنا لیٹ ہو جائیں۔۔
لیکن بیٹا ہم جلدی آجائیں گے۔۔اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر پیاری سے کہا۔جب اپنی ماما کی بات ہر اس نے بھی زور سے ہاں میں سر ہلایا۔
خالہ مجھے سچ میں بہت سارا ہوم ورک ملا ہے۔۔۔جیسا اسکا ہوم ورک سچ میں بہت زیادہ تھا۔اسنے ایک بے بس نظر اپنی گڑیا سی بیٹی پر ڈالی جو اپنی موٹی موٹی آنکھیں سے اپنی کزن کو دیکھ رہی تھی۔
ماما یہ نہیں جائیں تو میں بھی نہیں جاؤں گی۔۔۔اپنی ماما کو کھڑے ہوتے دیکھ کر ضد سے کہا۔اس نے ایک نظر اپنی بھانجھی ہر ڈالی۔تو وہ انکی بیٹی کی طرف متوجہ ہوئی۔
دیکھو وہ تمھاری بیسٹ فرینڈ ہے اگر تم اسکی برتھ ڈے میں نا گئی تو وہ کتنا ناراض ہوگی اور پھر خالہ بھی تو ریڈیو ہوگئی ہے نا پلیز خالہ کے ساتھ چلی جاو۔اس نے ایک نظر اپنی کزن کو دیکھا اور پھر اپنی ماما کو جو تیار سی کھڑی اسکی منتظر تھی۔
پلیز۔۔۔اسنے التجا کرنے کے انداز میں کہا۔
ٹھیک ہے لیکن پھر یہ تمھاری ساتھ یہی روکے گی کیونکہ یہاں جنات ہے ۔۔۔۔ماما یہ بھی اسکے ساتھ روک جائے آپ انکی مما کا کال کر کے بتادیں نا۔اس نے وہاں موجود اپنی تسری دوست کی طرف اشارہ کیا۔
ٹھیک ہے بیٹا آپ اس کے ساتھ ہی روک جائیں ہمم میں آپکی مما کو کال کرکے بتادوں گی۔۔۔اسکی دوست نے اسے دیکھا تو اسے آنکھ سے روک جانے کا کہا۔اس نے اسکی خالہ کو طرف دیکھ کر ہاں میں سر ہلایا تو ہو مسکرا دی۔
ٹھیک ہے میں خانساماں سے کہہ دوں گی تم لوگوں کو جو بھی کھانا ہوگا ان سے کہہ دو وہ دے دے گا ہمم۔۔یہ کہہ کر وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام کر گاڑی کی طرف گئی جہاں ڈرائیور انکا منتظر کھڑا تھا۔انکو آتا دیکھ وہ جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر کھڑا ہوا وہ دونوں اندر بیٹھ گئی۔ڈرائیور دروازہ بند کر کے ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھ گیا ۔اس نے گاڑی سے سر نکال کر لان میں بیٹھی ان دونوں کو دیکھا اور ہاتھ ہلایا وہ دونوں بھی ہاتھ ہلانے کے گئی

——————-

وہ تینوں ہمیشہ کی طرح آج بھی سائمن کے بیکری پر موجود تھے۔یہ بیکری انکے محلے میں موجود واحد بیکری تھی ۔یہ بیکری سائمن کے دادا جی کی تھی۔جنہوں نے مرتے وقت بیکری اس کے والد کے نام کی تھی۔سائمن کا والد جب وہ 9 گریڈ میں تھا تب انکی ڈیتھ ہوئی تھی۔تب سے بیکری اسکی ماں چلا رہی تھی۔رملہ اور ضوفی ہر شام وہاں موجود ہوتی تھی۔لیکن آج شام فرق صرف اتنا تھا کہ سائمن کی ماں اپنے بھائی گریز سے ملنے دوسرے شہر گئی تھی۔اور اسی موقع کا دائرہ اٹھا کر آج وہ لوگ سائمن کی برتھ ڈے سلیبرٹ کررہے تھے۔
ضوفی کیا تمھیں نہیں لگتا کہ میری برتھ ڈے اس سال ہم دو دفہ منا رہے ہیں۔
دعا کرو سائمن کہ تمھیں تیسری دفہ نا منانا پڑے ۔ضوفی نے رملہ کی طرف دیکھ کر کہا جو دروازے میں کھڑی بے چینی سے کسی کا انتظار کر رہی تھی۔
کیا ۔سائمن نے صدمے سے دل پر ہاتھ رکھا۔تو ضوفی کا قہقہہ بلند ہوا۔
یار سائمن یہ کب آئے گا۔رملہ انکی طرف آئے جو وہاں چیئرز پر بیٹھے ہنس رہے تھے۔رملہ سائمن کے دائیں طرف بیٹھ گئی۔
ویسے بر شرمی کی ہر حد پار کر دی تم نے رملہ۔سائمن کا ارادہ اسے تھوڑا شرم دلانے کا تھا ۔ایک تو اس نے دو دفہ اسکی برتھ ڈے منا کر وقت سے پہلے بوڑھا کرنے پی تلی تھی اور دوسرا وہ بے شرموں کی طرح اسے سے کسی لڑکے کے آنے کا بے صبری سے پوچھ رہی تھی۔
اچھا بے شرمی میں کر رہی ہوں اور جو تم ہر دفہ مجھے ضوفی کو ساتھ لانے کا کہتے ہوں وہ۔سائمن نے جلدی سے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا جبکہ ضوفی نے ناسمجھی ان دونوں کو دیکھا!سائمن کا رنگ اڑ چکا تھا۔
کیا مجھے کون۔۔۔۔۔
ارے ضوفی یہ بکواس کر رہی ہے۔۔۔رملہ دیکھوں اگرمزید کوئی بکواس کی نا تو پھر دیکھنا۔۔اس نے پہلے مسکرا کر ضوفی سے کہا پھر دانت پیس کر رملہ کے کان کی طرف جھکا۔جب دروازے سے وہ اندر آتا دیکھائی دیا وہ دونوں سیدھا ہوکر کھڑے ہوئے۔وہ وائٹ ٹی شرٹ بلیک جینز اور وائٹ جوگرز پہنے اپنی اعلی پرسنیلٹی کے ساتھ وہاں کھڑا مسکرا رہا تھا۔
اسلام علیکم یقیناً مسلمان ہی ہوں گے آپ ہے نا۔سب سے پہلے سلام رملہ نے کیا جبکہ سائمن اس سے گلے ملا۔
جی الحمدللہ مسلمان ہی ہوں۔مسکرا کرکہا۔
وجدان او نا بیٹھو ویسے آج میری دوسری دفہ برتھ ڈے سلیبرٹ ہو رہی ہے۔۔۔۔رملہ نے زور سے اپنا پاوں سائمن کے پاؤں پر دے مارا تو ہو کراہتا رہ گیا۔
وہ اسکی برتھ ڈے میں ،میں نہیں تھی نا تو اس لیے آج ہم پھر سے سلیبرٹ کر رہے ہیں کیوں سائمن ایسا ہی ہے نا۔دانت پیستے ہوئے مسکرا کر کہا تو ضوفی کی ہنسی چھوٹ گئی۔
تھوڑی دیر بعد وہ تینوں اپنی اپنی پیلٹ میں کیک ڈالے کیفے کے باہر چیئرز پر بیٹھے تھے۔
ویسے رملہ شاید تم وجدان کو پہچان نا سکی۔ضوفی نے کیک منہ میں ڈالتے ہوئے کہا جب رملہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔سائمن اور وجدان بھی ان کی طرف متوجہ ہوئے۔
ارے یہ عاطف انکل کے بیٹے ہے وجدان۔اور رملہ کا تو پورا کا پورا منھ ہی کھل گیا۔وجدان کو اسکی حالت پر ہنسی ائی۔
کیا سچ میں آپ عاطف انکل کے بیٹے ہوں اور مائے گوڈ۔۔۔۔وجدان ہلکا سا مسکرایا۔۔۔
کیا اپ مجھے جانتے تھے۔وجدان نے ہاں میں سر ہلایا
خدا قسم آپ جیسا برا انسان اس اسکاٹلینڈ میں نہیں۔اور ان سب کا مشترکہ قہقہہ اسکی حالت پر بلند ہوا۔
——————-
جیسے ہی اسکی خالہ اور کزن کی گاڑی گیٹ سے باہر نکلی ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور تاکی ماری مطلب انکا پلین کامیاب ہوچکا تھا۔وہ تیزی سے اندر کی جانب دوڑی لیکن یہ کیا اندر تو اسکا کزن موجود تھا وہ 21 سال کا تھا۔کندھے پر ایک بھاری بیگ ڈالا ہوا تھا جس میں یقیناً اسکے ہاکی کا سامان تھا۔وہ دونوں وہی روک گئی۔وہ چلتا ہوا اسکے پاس ایا۔
مما کہاں ہے۔۔۔وہ نہایت مغرور تھا۔اسکی دوست کو ہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا کیونکہ وہ ہر وقت خود کی بڑھائی کرتا تھا۔اس نے ایک نظر اپنے ساتھ کھڑی دوست پر ڈالی۔
خالہ تو پارٹی میں گئی ہے اور خالو کا مجھے نہیں پتہ۔
ہنہ۔اس نے صرف اتنا کہا اور ایک نظر دونوں کو سر تا پیر دیکھ کر باہر چلا گیا ۔تو اس نے گہر سانس لیا کیونکہ انکو اپنا پلین خراب ہوتا نظر آرہا تھا۔جیسے ہی وہ باہر چلا گیا ان دونوں کے قدم بیسمنٹ کی طرف بڑھے۔دونوں ہاتھ میں ٹارچ پکڑے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے نیچھے جارہے تھے۔ہر طرف نہایت ہی اندھیرا تھا۔اسکی دوست کافی ڈر رہی تھی۔
تمھیں ڈر نہیں لگ رہا!اسکی دوست نے سرگوشی کی۔
ششش۔۔۔۔۔۔کوئی آرہا ہے۔۔۔۔وہ دونوں وہاں موجود کاٹ کباڑ کے پیچھے چھپ گئے۔جب ایک آدمی نیچھے آیا ۔اندھیرے کی وجہ سے وہ اسکا چہرہ نا دیکھ سکے۔وہ ایک کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔وہ اپنی دوست وہاں روکنے کا کہہ کر خود دھیرے دھیرے اس کمرے تک آئی اور دروازے سے جھانک کر اندر دیکھا اور اندر کا منظر دیکھ کر تو اس کے پیر کانپنے لگے۔اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا مشکل لگ رہا تھا۔وہاں ایک تیرہ سالہ لڑکی بے ہوش پڑی تھی جس کے بدن پر کپڑے نا ہونے کے برابر تھے اور اسکے ساتھ کھڑے تین افراد کو دیکھ کر اسکے اوسان خطا ہوئے ان میں موجود ایک ڈاکٹر تھا۔
وہ لرزتے قدموں کے ساتھ اپنی دوست کی طرف آئی اور اسکی حالت دیکھ کر اسکی دوست نے اپنی منھ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ کا گلا گھونٹا۔
چلو جلدی کرو ہمیں یہاں سے جانا ہوگا جلدی کرو۔وہ اپنی دوست کو ہاتھ سے پکڑ کر اوپر تیز تیز چلنے لگی۔کہ سیڑھیوں کی رکھا ایک پرانا پائپ اسکی دوست کے پیر سے لگ کر نیچھے گر گیا تو اندر کمرے میں موجود نفوس نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
میں دیکھ کر آتا ہوں۔ان میں سے ایک باہر نکلا اور سیڑھیوں کی طرف ایا۔مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔اس نے ہر جگہ تلاشی مگر کوئی تھا وہ جانے لگے تو وہ دونوں سیڑھیوں کے اوپر بنے روم میں کھڑی اپنی منھ پر ہاتھ رکھے ہوئی تھی۔وہ چلا گیا تو جلدی سے باہر نکل کر اوپر کو دوڑی۔
کون تھا۔وہ واپس کمرے میں آیا تو ڈاکٹر نے پوچھا
کوئی نہیں تھا شاید ہوا سے گر گیا ہو۔اسکی بات ہر وہ دونوں نے سر جھٹکا۔
اوپر آکر وہ دونوں اپنے کمرے میں گئے اور تیز تیز سانس لینے لگی۔وہ بیڈ پر بیٹھ گئی اسکے پیر اور ہاتھ اب بھی کانپ رہے تھے۔اسکی دوست اسکی پاس ائی۔
و-وہاں کیا تھا۔۔۔۔
وہ جو بھی تھی وہ نہایت بری حالت میں تھی۔۔۔ہمیں اسکی مدد کرنی ہوگی۔اس نے لرزتے ہونٹوں سے کہا۔تو اسکی دوست نے نا سمجھیں سے اسے دیکھا۔
ہم کیسے اسے بچھائیں گے۔اس نے سب کچھ اپنی دوست کو بتایا جتنا اسے وہ سب دیکھ کر سمجھ آیا تھا۔اب وہ دونوں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ کس کہ مدد لی جائے۔
تمھارے بابا جان۔اس نے اپنی دوست کی طرف دیکھا۔
بابا جان۔۔ ہم انکو کیا بتائیں گے۔
ہم کچھ نہیں بتائیں گے ہم انہیں یہ سب کچھ دیکھائیں گے۔۔۔۔۔اس نے سوچتے ہوئے کہا۔اس کی دوست اسکا چہرہ غور سے دیکھنے لگی۔
وہاں کون تھا۔تھوڑی دیر بعد اسکی دوست نے اس سے پوچھا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہے کہ تم دنیا میں جس کے گناہوں کا پردہ رکھو گے بروز قیامت میں تمھارے پردہ رکھو گا۔ اس کے دوست نے خفگی سے اسے دیکھا اسکا مطلب تھا کہ وہ نام نہیں بتانے والی۔
اسکی خالہ اور کزن بھی آگئے تھے۔وہ سب ڈائنگ روم میں بیھٹے ڈنر کر رہے تھے۔وہ بار بار اپنے خالو کو دیکھتی۔جو بہت مصروف انداز میں کھانا کھا رہے تھے۔انکے ماتھے پر بے شمار شکنیں تھے۔
خالہ جان مجھے کل سکول سے واپسی پر اپنی دوست کے ہاں جانا ہے کیا میں چلی جاؤ۔اس نے اپنی ساتھ بیٹھی اپنی خالہ سے پوچھا۔جس پر اسکی کزن نے مسکرا کر اسے دیکھا جبکہ اسکے خالو نے دھیان ہی نہیں دیا شاید وہ مینٹلی یہاں موجود نہیں تھے۔
جی بیٹا چلی جانا مگر ڈرائیور خود تمھیں وہاں چھوڑے گا ہم اکیلی نہیں جانا۔اسکی خالہ نے مسکرا کر کہا ۔اسکی مما اور بابا دونوں ہی دو سال پہلے پلین کریش سے چل بسے تھے۔تب سے وہ اپنی خالہ کے پاس رہ رہی ہیں کیونکہ اسکے بابا اکلوتے تھے۔اور اسکے دادا جان اور دادی دونوں اسکی پیدائش سے پہلے ہی اس دنیا سے جا چکے تھے۔

اس نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا اور اٹھ کر اپنے روم میں گئی۔اور سٹڈی ٹیبل کے ساتھ رکھی کرسی کھینچ کر الماری تک لائی اور اس پر کھڑی ہوئی اور کوئی چیز ڈھونڈنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد ہاتھ میں کیمرہ پکڑے وہ اپنی بیڈ پر بیٹھی تھی جب کوئی اسکی روم میں داخل ہوا تو اس نے جلدی سے کیمرہ تکیے کے نیچھے چھپا دیا۔اسکا کزن اندر ایا۔اور سینے پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے سامنے کھڑا ہوا تو اس نے سر اٹھایا۔
کیا مجھے تمھارا آئی پیڈ مل سکتا ہے دو گھنٹے کے لیے۔وہی مغرور انداز۔ اسے نے سر ہلایا اور اپنی سٹڈی ٹیبل کی طرف اشارہ کیا۔اسکا کزن آئی پیڈ اٹھا کر ایک نظر اسے دیکھا اور باہر نکل گیا۔اس نے جلدی سے کیمرہ سیٹ کیا اور سونے لگی۔
اگلے دن وہ اپنی اسی دوست کے گھر موجود تھی جو اس کے ساتھ بیسمنٹ میں گئی تھی۔وہ اور اسکی دوست سڈی میں انکا انتظار کر رہی تھی۔جب وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے۔
مجھے تھوڑا بہت اس نے بتایا تھا مگر میں سب کچھ تم سے سننا چاہتا ہوں کیونکہ تم نے ہر چیز خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔اس کے دوست کے والد نے نہایت ہی نرم آواز میں کہا اس نے ایک نظر اپنی دوست کو دیکھا اور پھر ایک اپنا آئی پیڈ اسکی جانب بڑھایا۔جسے وہ ناسمجھی سے دیکھنے لگے۔
اس میں ریکارڈنگ ہے۔اس نے آئی پیڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔تو اسکی دوست کے والد نے وہ ویڈیو دیکھی اور پھر اپنے سامنے موجود تیرہ سالہ لڑکی کو جو سر جھکائے پیر ہلا رہی تھی۔انہیں یقین نہیں آیا کہ تیرہ سال کی یہ لڑکی اتنی بہادر ہوسکتی ہے۔
کیا آپ کو ڈر نہیں لگا۔ان کے پوچھنے پر اس نے فنی میں سر ہلایا۔وہ بہت گم گو تھی۔وہ صرف دو لوگوں سے تفصیل سے بات کرتی اور وہ اسکی دوست اور اسکی جان سے عزیز کزن ۔
ہمم تو اب آپ کیا چاہتی ہے کہ میں کیا کروں۔انہوں نے آئی پیڈ سائیڈ پر رکھا۔وہ میز کے دوسرے طرف بیٹھے تھے جبکہ وہ اور اسکی دوست انکے میز کے آگے رکھی کرسیوں پر۔
اس لڑکی کے والد کیس کرنا چاہتے ہیں۔
کیا آپ ان سے ملی تھی۔اسنے ہاں میں سر ہلایا ۔انہیں تو اس چھوٹی سی بچی پر حیرانی ہوئی جو اتنی سی عمر اتنی بہادر تھی۔جس عمر میں لڑکیاں اپنی بے وقوفیوں کی تاریخی رقم کرتی ہیں۔
ٹھیک ہے میں تیار ہوں اس کیس کا جج میں ہوں اور یہ۔۔۔انہوں نے ایک چیٹ پر کچھ لکھ کر اس کی طرف بڑھایا۔
یہ وکیل بہت اچھا ہے اچھی خاصی دوستی ہے میری اس سے تم اسکا پتہ اس لڑکی کے والد کو دے دینا کہ وہ اس وکیل کو ہائیر کرے۔۔۔۔۔اس نے وہ چیٹ پکڑ لی اور اپنی دوست کی طرف دیکھا۔
انکل آپکی کی بیٹی کی مدد چاہئیے مجھے۔اسکی بات پر وہ مسکرائے۔اور ہاں میں سر ہلایا مطلب سمجھ کر وہ مسکرائی اور چیٹ کو دیکھا

——————-
ضوفی اپنے کلاس میں بیٹھی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔چند ایک دو سٹوڈنٹس اور بھی وہاں بیٹھے شاید انتظار کر رہے تھے کہ کلاس کب شروع ہوگئی کیونکہ ان کی ٹیچر شاید آج لیٹ ہوگئی تھی۔باقی سب تو تھک ہار کر چکے گئے جبکہ ضوفی سمیت کچھ سٹوڈنٹس وہاں بیٹھے تھے۔
کہ ایک لڑکا بھاگتا ہوا آکر ضوفی کے ساتھ بیٹھ گیا۔ضوفی ایک نظر اس پر ڈال کر دوبارہ سے کتاب پر اپنی نظریں مزکور کی۔
کہ اس لڑکے نے اسکے سامنے سے کتاب ہٹالی۔
تو وہ سینے پر دونوں ہاتھ باندھ پر کرسی کے پشت سے ٹیک لگائی۔

اتنی ناراضگی؟مصنوئی دکھ سے کہا۔تو ضوفی اس پر ایک سخت نظر ڈالنا نا بھولی۔
کیا کر رہے ہو تم یہاں تمھاری تو کلاس تھی نا ؟
نہیں تو میری تھرڈ کلاس یہاں ہوتی ہیں۔اس نے سوچ کر کہا۔جبکہ ضوفی نے آنکھیں چندھیا کر اسے دیکھا۔

میں شکل سے بے وقوف دیکھتی ہوں۔ضوفی بات پر اس نے زور سے نفی میں سر ہلایا۔
تم شکل سے بہت پیاری لگتی ہوں۔اسکی طرف تھوڑا سا جھک کر کہا۔جبکہ ضوفی نے اس کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر اسے دور کیا تو وہ ہسنے لگا۔

اچھا نا اب بتاؤ تو ناراض کیوں ہو۔لڑکی نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔تو ہو خفگی سے اسے دیکھنے لگی۔
کل وہ بکے تم لائے تھے نا؟
ہاں میرا مطلب میں بت۔۔۔۔۔اس نے کان کی لو کجاتے ہوئے اپنی بات مکمل کر رہا تھا کہ ضوفی نے اسکی بات کاٹی۔
اف سائمن اور تمھاری وجہ سے میں نے اس بچارے بٹلر کو اتنا سنایا۔ضوفی نے دکھ سے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔

بچارا کتنا کہہ رہا تھا کہ اس نے نہیں دیا افففف سائمن اللہ کرے تم۔۔۔
بدعا تو نا دو یار۔
اب کہاں جارہی ہو.ضوفی کو دیکھا جو کتابیں اٹھا کر باہر جا رہی تھی۔
میں تمھاری طرح سنگ دل تھوڑی ہوں بٹلر کو سوری کرنے جارہی ہوں۔بنا مڑے ہی جواب دیا تو سائمن بھی ٹیبل پر سے چھلانگ لگا کر اسکے پیچھے چلا گیا۔

ضوفی ایک ٹیولپ اور کتابیں ہاتھ میں پکڑے آڈیٹوریم میں اپنے گروپ کے ساتھ کھڑے بٹلر کی طرف گئی۔ضوفی کو اپنی جانب آتا دیکھ کر وہ اپنی گروپ سے ازکیوز کرتے اس کی طرف ایا۔

وہ کل کے لیے ام سو سوری مجھے سچ میں پتہ نہیں تھا کہ وہ بکے سائمن لایا ہیں۔وہ سچ میں شرمندہ تھی۔اسکی بات پر بٹلر نے دور کھڑے سائمن کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

کیا تم نے مجھے معاف کردیا۔۔۔دیکھو بٹلر سچ میں مجھے نہیں پتہ تھا۔
ارے کوئی بات نہیں،تمھاری غلطی نہیں ہیں سائمن کو ہی پہلے بتادینا چاہئیے تھا۔بٹلر نے دور کھڑے سائمن۔ کو دیکھا جو اسے ہی گھورنے میں مصروف تھا۔
ضوفی نے اس کی نظروں کی تعاقب میں دیکھا تو سائمن جلدی سے منھ موڑ گیا۔

ایک دفہ پھر سے سوری بٹلر اور یہ تمھارے لیے۔
ضوفی نے ٹیولپ اسکے جانب بڑھایا ،کیسے بٹلر نے پہلے ہی فرصت میں پکڑا اور یہ منظر دیکھ کر سائمن کو مانو اگ سی لگ گئی۔

معاف کیا نا۔ضوفی کی استفسار کرنے پر وہ مسکرایا
او تھینک یو۔یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔جبکہ سائمن اور بٹلر دونوں ایک دوسرے کو گھورنے لگے

——————
ضوفی کیا کچھ ہوا ہے تم کافی دنوں سے کچھ پریشان دکھ رہی ہوں۔وو صوفے پر لیٹی کب سے ضوفی جو گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ رہی تھی۔
ضوفی۔وہ چلائی۔
کیا ہوا۔اس کے اس قدر چلانے پر وہ ہوش میں ائی۔
میں پوچھ رہی ہو کہ کیا کوئی مسلہ ہے تو مجھے بتا سکتی ہو۔
ہاں۔۔۔۔میرا مطلب نہیں تو۔۔۔۔وہ اتنا کہہ کر اپنے روم میں چلی گئی۔جبکہ رملہ کندھے آچکا کر دوبارہ فون میں بزی ہوئی۔
وہ چاروں مووی دیکھنے آئے تھے۔مووی دیکھنے کے بعد وہ سب اب ایک میلے میں آئے تھے وہاں ہر سال یہی میلہ لگتا تھا۔ضوفی اور سائمن ان دونوں سے دور نشانہ بازی والے کے پاس کھڑے تھے۔جبکہ رملہ اور وجدان ایسے ہی چل رہے تھے۔رملہ تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔کیونکہ یہاں آتے ہوئے بہت سے لوگوں نے اسکی تعریف کی تھی کیونکہ اس نے آج گھٹنوں سے تھوڑا نیچھے تک آتا وائیٹ فراک پہنا تھا اور اسکے ساتھ ہی اونچی پونی ٹیل اور ڈراک رنگ کی ریڈ لیپ سٹک جس میں وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی۔
خدا قسم وجدان آج اتنی خوشی ہو رہی ہے کہ کیا بتاؤ ۔اس نے چہکتے ہوئے کہا جبکہ وجدان منھ میں چنے ڈالتے ہوئے مخض ہنسا۔
تم ہنس رہے ہو۔اسے اچھا نہیں لگا اس کا یوں ہنسنا۔
میں تو بس ویسے ہی۔
کیا میں اچھی نہیں لگ رہی۔
سچ پوچھو تو ہاں۔اس نے ایک نظر سر تا پیر اسے دیکھتے ہوئے کہا رملہ کا تو منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔اس نے خود کو دیکھا وہ سہی تو لگ رہی تھی۔
لیکن ابھی جو میری اتنی تعریف ہوئی ہے وہ ۔سکے پیچھے ڈوڑی تھی۔اسکی بات پر مخض کندھے اچکائے۔
میں نے یہ کب کہا کہ تم پیاری نہیں لگ رہی میرا مطلب یہ تھا کہ تم مجھے اس لک میں اچھی نہیں لگتی اور نہ ہی یہ کہ ہر کوئی تمھاری تعریف کرے۔وہ روکا تو اس کے قدم بھی روکے۔
تمھیں ایسے کپڑے نہیں چاہئیے رملہ۔۔۔۔۔۔اس قدر خوبصورت انداز میں کہنے سے رملہ کا دل چاہا کہ وہ اپنے ہر ایسے کپڑوں کو آگ لگائے۔اور وہ اپنی بات کہتا پھر سے چلنے لگا تھا۔
رملہ بھی بھاگ کر اس کے ساتھ قدم سے قدم چلنے کی کوشش کرنے لگی جبکہ اسکی رفتار تیز ہونے کی وجہ سے رملہ کو اسکے ساتھ قدم ملانے کے لیے تقریبآ بھاگنا تھا۔
وہ دونوں بھی سائمن اور ضوفی تک آپہنچے۔سائمن دو فلاور بجے جیت چکا تھا اور وہ دونوں روز کے تھے۔
چلو یہ وہاں چینچ کر کے آتے ہے۔وہ ضوفی کا ہاتھ پکڑ کر وہاں لگے فلاور شاہ تک لایا!
مگر سائمن تمھیں روز پسند ہے نا تو چینچ کیو کررہے ہوں۔
روز نہیں تو مجھے تو ٹیولپ پسند ہے۔اس کی بات پر ضوفی نے مسکرا کر نفی میں سر ہلایا۔جبکہ سائمن روز کی جگہ ٹ
ٹیولپ لے چکا تھا اور اب ضوفی کی طرف بڑھا چکا تھا۔ضوفی نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تو سائمن ہنس پڑا۔
پروپوز نہیں کر رہا لڑکوں کی بنسبت لڑکیوں کو فلاور زیادہ پسند ہوتے ہے نا ۔ضوفی نے مسکرا کر اس نے دونوں بکے کے لیے۔بکے کے کر وہ رملہ کی جانب جارہی تھی کہ سائمن نے اسے روکا۔
ارے چھوڑو اسکو تھوڑا بہت اب اسے وجدان کا دماغ بھی کھانا چاہئیے نا ہم وہاں چلتے ہیں۔وہ ضوفی کو ہاتھ سے پکڑ کر لے جانے لگا۔
————————-
اس دن جب وہ گھر آئی تو اسکے خالو سامنے کی کھڑے شاید اسکا انتظار کر رہے تھے۔لیکن وہ نظر انداز کرکے آگے جانے لگی ۔رات کے کھانے پر بھی اسکا خالو اسے مسلسل دیکھے جا رہا تھا ۔مگر وہ اپنا کھانا کھانے میں مصروف تھی۔اسے کچھ غلط ہونے کا اندیشہ ہوا۔اقر اصل جھٹکا تو اسے تب لگا جب خالو نے کھانے کے بعد اسے اپنے سٹڈی میں آنے کا کہا۔
وہ انکی سٹڈی ہے باہر کھڑی تھی۔نوک کر کے وہ اندر گئی تو اپنے خالو کے ساتھ اپنے کزن کو کھڑے پاکر اسے لمحہ بھی نہیں لگا تھا سب کچھ سمجھنے میں۔اس کے اندر آنے پر ان دونوں نے اسکی طرف دیکھا۔وہ وہاں کھڑی ہوئی جب اسکے خالو نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔وہ ایک نظر اپنے کزن پر ڈال کر بیٹھ گئی۔کچھ دیر بعد اسکی خالہ اور کزن بھی اگئی۔
میں تھماری بھانجی اور اپنی بیٹی دونوں کو باہر کے بورڈنگ سکول بھیجنا چاہتا ہوں۔اس نے اپنے بیگم کی طرف دیکھ کر کہا۔تو اس کی خالہ نے اسے دیکھا اسنے اپنی خالہ کو نہیں کا اشارہ کیا۔
اپکو نہیں لگتا کہ یہ دونوں ابھی بہت چھوٹی ہیں اور پھر یہ۔
میں پوچھ نہیں رہا بتا رہا ہوں پرسوں ہی یہ دونوں جارہی ہے اور یہ میرا ختمی فیصلہ ہے۔۔۔۔۔اس نے اپنے کزن کو دیکھا جو وہاں بس خاموش کھڑا تھا۔مطلب اس نے اسکا کیمرہ نہیں دیکھا۔اسکی خالہ نے ایک بے بس نظر اس پر ڈالی اور باہر چلی گئی چارونا چار اسے بھی باہر جانا پڑا۔
———————-
انکا گھر سیل ہوچکا تھا۔انکا سارا بزنس جو اسکی مما کا تھا انہیں بھی سرکار اپنی تحویل میں لے چکا تھا اب وہ ایک چھوٹے سے گھر میں رہ رہے تھے۔اس نے جیسے تیسے کر کے یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔اس کے بابا جان کو جیل گئے دو سال ہونے کو تھے۔مگر کوئی راستہ نہیں بن رہا تھا۔اب اس نے ٹھان لیا تھا کہ وہ پہلے اپنی تعلیم مکمل کرے گی اس کے بعد وہ اپنے بابا جان کو جیل سے رہا کرے گی۔
ابھی ابھی وہ یونیورسٹی سے آئی تھی جب اپنی ماما کو روتے دیکھا۔وہ باہر برآمدے میں چارپائی پر بیٹھی رو رہی تھی!وہ تیزی سے اپنی مما کے پاس ائی۔
کیا ہوا مما آپ رو کیو رہی ہیں۔اس نے فکرمندی سے کہا تو اسکی مما نے کمرے کی طرف اشارہ کیا یقیناً آج پھر سے وہ سب ہوا تھا اسکا بھائی اپنے پیچھے کمرہ بند کر چکا تھا اس نے ایک بے بس نظر اپنی مما پر ڈالی۔
آپ فکر نا کریں اپ یہ پانی پئیے۔اسے میں سمجھاتی ہوں۔وہ پانی کا گلاس اپنی مما کو دیا اور خود جاکر دروازہ پیٹھنے لگی۔لیکن وہ نہیں کھول رہا تھا۔وہ بھی ضد کہ پکی تھی۔جب تک دروازہ کھولا نہیں تھا وہ مسلسل بجھاتی رہی ۔اخر تنگ آکر اس نے دروازہ کھولا اسکے بال بکھرے ہوئے ماتھے پر پڑے ڈھیلی ٹائی سرخ آنکھیں یقیناً وہ رو رہا تھا۔وہ دروازہ کھول کر واپس سے بیڈ پر دراز ہوا۔وہ بیڈ کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔
بابا جان بے گناہ تھے۔اس نے بات شروع کی۔وہ ہنوزو خاموش رہا۔سر اٹھا کر اسے دیکھا جو سیدھا لیٹا چت کو گھور رہا تھا۔
مجھے بابا سے کوئی شکوہ نہیں۔۔۔۔۔۔بس لوگوں کی باتوں سے تنگ آگیا ہوں۔۔۔۔تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔۔اس نے ایک مظلوم نگاہ اپنے بھائی پر ڈالی۔
نظر انداز کیا کرو۔۔۔۔اواز بہت گہرائی سے آئی تھی۔جس پر وہ تلخی سے ہنسا تھا۔
جتنا بھی آپ کوشش کرلوں کچھ باتیں نظر انداز نہیں ہوسکتی۔
مما بہت ہرٹ ہوتی ہیں تمھاری اس حرکت سے۔اس نے بات بدلی۔
میں بھی ہرٹ ہوتا ہوں
تم جوان ہو خود کو سنبھال سکتے ہو مگر وہ نہیں سنبھال سکتی خود کو۔اس کی بات پر وہ منھ موڑ گیا۔مطلب تھا آپ جاسکتی ہیں۔وہ بھی مرے ہوئے قدم اٹھاتی باہر ائی۔جہاں اسکی مما اسکی منتظر کھڑی تھی۔
وہ ٹھیک ہے بس تھوڑا سا۔
ہاں آپکی بیٹی بس مجھے بیمار کرنے پر تلی ہوتی ہیں۔۔۔۔وہ باہر آیا ثنائل نے پلٹ کر اپنے بھائی کو دیکھا جو مسکراتا ہوا مما کے گلے لگ چکا تھا۔اسکی مما نے مسکرا کر اپنے بیٹے کا ماتھا چوما۔جس پر وہ مسکرائی۔اسکا بھائی بڑا ہوچکا تھا۔
—————
اب کیس کا کیا بنے گا ۔وہ دونوں اپنے سکول گراؤنڈ میں موجود تھی۔سامنے ٹینس میچ ہورہا تھا۔اس نے ساری بات اپنی دوست کو بتائی۔اس نے صرف کندھے اچکائے۔
تمھارے بابا گھر پر ہیں۔
ہاں کیوں۔
کیا تم میرے گھر آسکتی ہو۔اس نے مڑ کر اپنی دوست سے پوچھا۔تو اس نے جلدی سے ہاں میں سر ہلایا۔اور پھر سامنے دیکھنے لگی جہاں پلیئرز چیخ رہے تھے شاید انکا جھگڑا ہوا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں اسکے کمرے میں موجود تھی۔اج اسکا خالو اور کزن دونوں باہر تھے ۔جبکہ اسکی خالہ کی کوئی دوست آئی تھی۔وہ ان کے ساتھ لان میں بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔

تم یہ سب اپنے بابا کو دو گی اور یہ اپنے بابا کو دینا اور کہنا کہ اسکا اپنی جان سے زیادہ خیال رکھے۔وہ ایک ایک بوکس بلال رہی تھی اپنی الماری سے اور کچھ سامان نکال کر اپنی دوست کے سکول بیگ میں رکھتے ہوئے بولی۔
کیا تم سچ میں جا رہی ہو۔اپنی دوست کی بات پر اسکے ہاتھ رکھ گئے۔اور اسکی طرف مڑی۔جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
میں واپس ضرور آؤں گی اپنے ملک کے لیے۔۔۔۔اس کی دوست کا چہرہ یکدم مرجھا گیا یعنی وہ صرف اپنے ملک کے لیے آئی گی۔اس نے دل میں سوچا اور سر ہلایا۔جبکہ وہ اپنے کام میں بزی ہوگئی۔

خالہ جان کیا میں اس کے گھر جاسکتی ہوں مجھے اس کی مما کو خدا خافظ کہنا ہے۔
کچھ دیر بعد وہ لان میں اپنی خالہ کے سامنے کھڑی تھی ۔اجازت ملتے ہی وہ دونوں ڈرائیور انکل کے ساتھ چلی گئی۔صد شکر کہ وہ جلدی پہنچ گئے کیونکہ اسکے دوست کے والد کہی جارہے تھے جب اسے اپنی بیٹی کے ساتھ دیکھ کر انہوں نے کہی جانے کا ارادہ ترک کیا۔
تم یہ چاہتی ہو کہ یہ کیس ہم ہینڈل کرے۔اس نے ہاں میں سر ہلایا ۔
اچھا۔۔۔۔اگر ایسا ہے تو ہمیں اس بات کو کچھ عرصے تک چھپانی پڑے گی۔جب تک تم بڑی میں ہو جاتی ہم اس کیس کو بند کرتے ہیں۔اس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا
——————-
وقت گزرتا گیا اور انکی ڈگری بھی یہاں اسکاٹ لینڈ میں کمپلیٹ ہوئی۔رملہ کو پاکستان آنے کا کہا گیا جبکہ ضوفی کو ابھی اسکاٹ لینڈ میں ہی رکنا تھا۔رملہ کب سے اسے منا رہی تھی کہ وہ بھی اسکے ساتھ پاکستان جائے مگر وہ تھی کہ مان ہی نہیں رہی تھی۔اج رات اسکی فالئٹ تھی۔سائمن ،ضوفی اور وجدان اسے ائیر پورٹ چھوڑنے آئے تھے۔وہ پورے دس سال بعد پاکستان جارہی تھی ۔جتنا اسے واپس پاکستان جانے کی خوشی تھی اتنا ہی اسے دکھ بھی تھا کیونکہ اسکے سب تو یہاں تھے سائمن ،ضوفی اور ،اور وجدان بھی اسکا پاکستان میں ان کے بغیر دل نہیں لگنے والا تھا۔
وجدان ،ضوفی اور سائمن کی ڈگری پچھلے سال کی کمپلیٹ ہوچکی تھی البتہ اسکی ڈگری اس سال کمپلیٹ ہوئی تھی۔وہ ائیرپورٹ میں موجود اسکی فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے۔
تم لوگ مجھے مس نہیں کرنے والے ہے نا پر جانے دو میں تو مس کروں گی نا تم لوگ بے وفا ہوگے میں نہیں ہوں ۔وہ کب سے یہی کہے جارہی تھی۔جبکہ سائمن تو دو بار اسے ٹوک بھی چکا تھا البتہ وجدان اور ضوفی خاموش تھے۔
اسکی فلائٹ کی اناوسمنٹ ہوچکی تھی وہ ضوفی کے گلے لگ گئی۔اسکے آنکھیں نم تھی وہ تو رہی تھی۔سائمن بھی اداس تھا یہ سچ تھا کہ وہ اسے بہت مس کرنے والا تھا ۔جںکہ وجدان بلکل خاموش تھا وہ سب سے ملی سوائے وجدان کے وہ خاموش کھڑا تھا بس۔وہ جانے کے لیے مڑی کہ وجدان نے اسے آواز دے تو وہ رہی رک گئی۔وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا اسکے پاس آیا۔چند منٹ تو وہ خاموش رہا پھر جب بولا تو صرف اتنا۔
اللہ خافظ۔اس نے صرف اتنا کہا جبکہ اسے اس طرح رکنے پر رملہ اس سے کسی اور جملے کی توقع کر رہی تھی۔جبکی اسکے صرف اللہ خافظ بولنے پر اسکا خون کھلو اٹھا۔
اللہ حافظ ۔وہ بھی سپاٹ لہجے میں کہ کر مڑنے لگی لیکن وجدان نے اسے کلائی پکڑ کر اسے روکا۔
مت جاؤ ۔وجدان کو خود بھی اندازا نا ہوا کہ وہ کیا کہہ گیا ہے جبکہ رملہ مخض مسکرا دی۔
اور مڑ کر چلی گئی۔وجدان کی نظروں نے اسکا کافی دور تک پیچھا کیا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نا ہوئی۔پھر وہ مرے ہوئے قدموں سے واپس مڑا جہاں سائمن اور ضوفی اسکا انتظار کر رہے تھے۔
—————
خالو کی مرضی سے واپسی ہوگی میری۔کچھ دیر بعد وہ اپنی دوست کے گھر موجود تھی۔ میں چاہتی ہوں کہ ہمارے 20 سال کے ہونے کے بعد اسے شروع کرنا چاہے میں ہوں یا نا ہوں پلیززز۔اور آج پہلی بار انہوں اس بچی کو اتنی لمبی بات کرتے ہوئے سنا ۔تو انہوں نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا۔تو دونوں نے مسکرا دیکھ دوسرے کو دیکھا۔
آج اسکی روانگی تھی۔ائیر پورٹ پر اسکی کزن اپنی مما سے لگی کافی رو رہی تھی جبکہ وہ مسلسل اپنے خالو کو دیکھ رہی تھی۔کیا واقعی اسکا خالو اسکا کر سکتا ہے۔ابھی وہ مزید کچھ سوچتی کہ ایک چوبیس سالہ لڑکی ان کی طرف آئی اور اپنے ساتھ اندر کے گئی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں اسکی خالہ کھڑی نم آنکھوں سے انہیں جاتا دیکھ رہی تھی۔اور پھر وہ کہی غائب ہوگئی۔اس نے آگے دیکھا جہاں زندگی کا ایک نیا موڑ ان دونوں کا منتظر تھا۔
——————–

باب : 3

پرش

اپنے اعمال کی
تمام تر سیاہ کاری کے ساتھ
وہ خدا کے روبرو حاضر تھا
گناہ کی بدبو
اس کے سارے بدن سے
پھوٹ رہی تھی
اب اس کے سامنے
دوزخ تھی
یاپھر اپنے کئے کا پچھتاوا
قریب تھا کہ
دیوہیکل فرشتے
اسےنارمی جھونک دیتے
یکدم
اس کی ندامت بول اٹھی
خدایا!
میں نے اپنی جاں پہ ظلم کیا
مگر تو ،تو مجھ پہ ظلم نہ کر
تیریذات نے گر
توبہ کا وجود ہے رکھا
تو میری معافی کی درخواست
رد نہ کر
بس اک بار
آخری بار
زندگی لوٹا
اور مجھے آزماء
میرا عہد ہے
میرا سر
تیرے چوکھٹ سے
کبھی نہ اٹھے گا
میں ہر وہ کام کروں گا
جس کا تو نے حکم دیا ہے
بس اک بار
آخری بار
زندگی لوٹا
اور مجھے آزماء
سن کر اس کی فریاد
خدا ہنس دیا
فرشتوں کو حکم ہوا
جاؤ
اس کی میت میں
جان ڈال آؤ
پھر جب وہ ہوش میں آیا
متصل احباب کو روتا دیکھ کر کہنے لگا
نادانو!تم کیوں روتے ہو
میں تو بس گہری نیند سویا تھا
سو جاگ گیا
اف!
کیسا ڈراؤنا خواب تھامیرا
پھر سر جھٹک کر کہنے لگا
ارے ہم بھی کتنے پاگل ہیں
کتنے بےضرر خوابوں سے
ڈر جاتے ہیں
(از بشری سعید)

وہ اپنے والد کے سٹڈی میں موجود تھا ۔رملہ کے والد سلطان دلاور خان اور اسکا بھائی کاظم دلاور خان دونوں سیاست کو اپنا چکے تھے۔رملہ کی ایک بہن اور دو بھائی تھی ایک بھائی اور بہن بچپن سے باہر تھے بہن آج ہی واپس اچکی تھی مگر اسکا دوسرا بھائی ابھی تک نہیں آیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اسکا بڑا بھائی پاکستان میں ہی تھی۔
پاپا کیا عاطف نیازی ایسا کچھ کریں گے۔
اسکو اچھی طرح جانتا ہوں ضرور وہ ایسا ہی کرے گا رملہ کا ہاتھ اپنے دونوں بیٹوں میں سے ایک کے لیے ضرور مانگے گے۔مسکرا کر کہا
کیا اس میں ہمارا کوئی فائدہ ہوگا ۔
بلکل ہوگا۔فائل پر سائن کرتے ہوئے کہا۔وہ دونوں باتیں کر رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔انے کا کہا تو رملہ ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے اندر ائی۔
آسلام علیکم پاپا۔
وعلیکم السلام بیٹا۔وہ مسکرا کر کھڑے ہوئے اور اسے اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھنے کا کہا جبکہ کاظم سامان اٹھا کر باہر چلاگیا ۔رملہ نے ایک کپ پاپا کو دیا جبکہ دوسرا خود پکڑا ۔
پاپا آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔
ہا بولو۔انہوں نے چائے کا کپ لبوں سے لگایا جبکہ رملہ بات کرنے کے لے الفاظ ڈھونڈ رہی تھی کہ وہ بات کیسے کرے۔
کیا بات ہے بیٹا بولو۔
پاپا وہ ضوفی کب۔۔۔
ہاں میرا ایک ضروری کام ہے شام تک آجاؤں گا تب بات کریں کے ہممم ۔۔وہ اپنا کوٹ اٹھا کر پہنے لگے اور اسکے سر پر بوسا درے کر باہر نکل گئے جبکہ رملہ نے ایک گہرا سانس خارج کیا۔
اسے پاکستان آئے ہوئے ڈھائی سال ہونے کو تھا۔مگر ابھی تک اسکی بات ضوفی سائمن جا وجدان کسی سے بھی نہیں ہوئی تھی۔اس سارے عرصے میں وہ کافی بور ہوئی۔ڈگری اس کی اسکاٹ لینڈ میں کمپلیٹ ہوچکی تھی۔اب اسے یہاں کرنے کو کچھ نہیں تھا۔اس کے بابا کے پی کے کے وزیر اعلیٰ کا الیکشن جیت چکا تھا وہ دو ہفتے پہلے ہی کے پی پشاور منتقل ہوچکے تھے۔
اور آج رات ہی انکے گھر ایک بڑے ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں ملک کے نامور شخصیات اور پولیٹیشن مدعو تھے۔اسکی بہن ژالے سلطان بھی اچکی تھی البتہ اسکا دوسرا بھائی ابھی تک نہیں آیا تھا۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس میں اس وقت کافی گہما گہمی تھی۔ہر طرف اونچھے اونچھے میز رکھے گئے جبکہ کرسی نال کی کوئی بلا وہاں موجود نہیں تھی۔شاید یہ ایک نیا موڑ آیا تھا اس صدی میں۔وہ اپنی ایک کزن آئمہ رحمن کے ساتھ اپنے کمرے میں تھی۔ائمہ اسکے پاپا کی کزن کی بیٹی تھی۔وہ ایک دیندار لڑکی تھی۔شاید کیونکہ وہ ہر وقت سکارف اوڑھے رکھتی تھی۔اب بھی وہ اسکارف میں موجود تھی جبکہ رملہ نے لائٹ مہرون رنگ کی سلک کی میکسی میں تھی۔بالوں جو سٹریٹ کرکے کھلا چھوڑا ہوا تھا۔اس کے بال پچھلے سالوں کے بنسبت کافی لمبے ہوچکے تھے۔
اسکا بلکل بھی دل نہیں کررہا تھا نیچھے جانے کا مگر اسکے پاپا کا حکم تھا کہ آج اس نے دعوت میں ضرور شرکت کرنی ہوگی۔اس لیے وہ بد دلی سے نیچھے ائی۔جہاں کا ماحول دیکھ کر اس نے سوالیہ نظروں سے آئمہ کو دیکھا۔
اب شاید مسلم اور نون مسلم کے سوسائٹی میں کوئی فرق نہیں رہا۔۔۔۔۔۔ائمہ نے کندھے آچکا کر کہا۔کیونکہ وہاں موجود عورتوں کا لباس دیکھ کر اسے یقین نہیں رہا تھا کہ یہ مسلمان عورتیں ہے۔وہاں شراب ایسی نوش کی جارہی تھی جیسے وہ ایک عام مشروب ہو جھٹکا تو اسے تب لگا جب اس نے اسی مشروب کا گلاس اپنے پاپا کے ہاتھ میں دیکھا ۔
البتہ اسکی مما کے ہاتھ میں کوئی گلاس نہیں باقی عورتوں کہ طرح ۔اس نے شکر ادا کیا اور اپنی ماما کے پاس گئی اس کے ساتھ ائمہ بھی تھی۔
ماما ژالے آپی کہاں ہے۔
اس نے اپنی ماں کے نزدیک جا کر کہا۔
شاید اپنی دوست کے ہاں گئی ہے۔۔اسے جواب دے کر اسکی ماں پھر سے باتوں میں بزی ہوگئی۔اسے اس ماحول سے کوفت ہونے لگی۔وہ دور بیٹھے پچاس ساٹھ سالہ بڈھے کو دیکھنے لگی۔جسکا وزن تقریبآ سو سے زیادہ تو ہوگا۔اسکے بال درمیاں سے غائب تھے۔اسے نہیں پتہ کہ وہ کون ہے شاہد وہ کوئی بہت نامور شخصیات میں سے ہوگا جو اسکے پاپا اسے سے اتنا باتیں کر ہیں ہیں۔
آئمہ وہ کون جو پاپا کے ساتھ کھڑے ہیں۔۔۔تنگ آکر اسے نے آئمہ سے پوچھا۔
وہ وہ تو وزیراعظم ہے کیوں۔
نہیں کچھ نہیں ۔۔۔۔اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کے لیے منھ پر ہاتھ رکھا کیونکہ آئمہ اسکے ساتھ کھڑی ایک خوبصورت سی دبلی پتلی عورت کی طرف اشارہ کیا وہ ایک ہاتھ سینے پر باندھے جبکہ دوسرے ہاتھ میں اسی مشروب کا گلاس پکڑے اپنی ازلی مسکراہٹ لی اسکی طرف ائی۔
اس عورت نے گھٹنوں سے تھوڑا نیچھے تک آتا ڈریس پہنا تھا۔جبکہ بالوں کو اس نے کھلا چھوڑ کر دائیں کندھے پر گرائے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ حیا اور پردہ کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے۔جیسے دل اور دھڑکن کا،روح اور جسم کا۔
اگر ایک انسان میں حیا ہو تو پردہ خود بخود غالب اجاتا ہے۔پردہ صرف عورت پر فرض تھوڑی ہے پردہ کرنا تو مرد پر بھی اتنا ہی فرض ہے جتنا کہ عورت پر۔
پردے کے بارے میں اجکل ہر ایک نے اپنی اپنی رائے قائم کی ہوئی ہے ۔بہت سے لبرلز تو یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ قرآن میں موجود پردہ کی آیات اس وقت کے لوگوں کے لیے نازل ہوئی۔۔۔یا پردہ کرنے سے ہمارے عورتوں کی پہچان چھپ جائیں گی جبکہ قرآن خود کہتا ہے کہ۔
اے نبی!اپنی بیویوں سے اپنی صاحب زادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادر لٹکایا کریں اس سے بہت جلد انکی شناخت ہوائی گی اور پھر وہ ستائی نہیں جائی گی۔
اس آیات میں خدا خود کہہ رہا ہے کہ اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو،ساتھ یہ بھی فرمایا جارہا ہے کہ اور بہت جلد انکی شناخت ہو جائی گی۔
یہ آیات نازل تب ہوئی تھی جب مشرکین مکہ مسلمانوں کی عورتوں کو ستانے لگے اور پکڑ جانے پر کہتے کہ ہم تو انہیں اپنی لونڈیوں سمجھ رہے تھے۔
یہاں اندازا یہ لگایا جاسکتا ہے کہ پردہ کے بغیر عورت کی مثال ہی مشرکین مکہ کی لونڈیوں کی سی ہے۔
اگر پردہ اتنی معمولی اور حقیر چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ دنیا کے اس عظیم کتاب میں اسکا تذکرہ ہرگز نہ کرتا۔
پردہ عورت کی پہچان چھپاتا نہیں بلکہ عیاں کرتا ہے کہ آپ دنیا کے ایک عظیم اور باعزت دین اور گھر سے تعلق رکھتی ہیں۔
جبکہ اس علم سے ریاست پاکستان یہ عورتیں بلکل انجان مردوں میں ایک شان سی کھڑی تھی۔
ہیلو رملہ ڈئیر۔رملہ نے چونکہ کر اسے دیکھا جو مسکرا اسکی طرف آئی تھی۔
اپ کون؟
افسوس کہ تم مجھے نہیں جانتی۔اس نے مسکراتی آنکھوں سے سر تا پاؤ اسکا جائزہ لیا۔
چلو کوئی بات نہیں میں بتاتی ہوں ۔رملہ نے کچھ بیزاریت سے اسے دیکھا کیونکہ اسے نا تو سیاست کا کوئی شوق تھا اور اس کے متعلق کچھ جاننے کا۔
میں پاکستان کی خاتون اول رمشا کاظمی ہوں۔رملہ نے ایک نظر دور کھڑے اس موٹے سانڈ کو دیکھا پھر اپنے سامنے کھڑی اس خوبصورت دوشیزہ کو۔اور آج رملہ کو واقعی میں یقین ہوگیا کہ محبت اندھی ہوتی ہے۔
بہت اچھی قسمت ہے انکی۔۔اس نے بہت ہی مشکلوں سے اپنی ہنسی دبائی تھی ساتھ کھڑی ائمہ بھی اسی کوشش میں تھی جبکہ وہ ان دونوں پر ایک ناپسندیدہ نگاہ ڈال کر وہاں سے چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد رملہ آئمہ کے ساتھ کھڑی باتیں کر رہی تھی جب وہ بات کرتے کرتے پیچھے کو مڑی۔اسکی نظر سامنے سلطان دلاور خان کے ساتھ کھڑے اس شخص پر پڑی۔اس کو دیکھ کر مسکراہٹ نے خود بخود اسکے لبوں کو چھولیا۔یکدم ہی اس ماحول میں اسکی دلچسپی بڑھی۔وہ کتنے عرصے بعد اسے دیکھ رہی تھی۔
وہ بلکل بدل چکا تھا ان دو سالوں میں وہ ڈریس شرٹ پینٹ میں ملبوس تھا البتہ اس نے ٹائی پہننے کی زحمت نہیں کی تھی۔اسکے ہمیشہ ماتھے پر بکھرے بال آج سلیکھے سے جمے تھے۔
وہ آئمہ سے معذرت کرکے ان تک ائی۔وہ سلطان صاحب سے مسلسل بات کر رہا تھا۔وہ قدم اٹھاتی ان کے پاس پہنچ گئی۔
ہیلو،امید ہے آپ لوگوں ڈسٹرب نہیں کیا ہوگا میں۔وجدان نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔جو مسکرا کر صرف اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
ارے وجدان اس سے ملو یہ میری بیٹی رملہ کچھ عرصہ پہلے ہی اسکاٹ لینڈ سے آئی ہے۔سلطان کے تعارف پر وجدان نے مسکرا کر سر ہلایا۔
رملہ یہ عاطف۔
جی پاپا میں جانتی ہوں انہیں اسکاٹ لینڈ میں ہم ایک ساتھ پڑھتے تھے میرا مطلب یہ سائمن اور ضوفی کا دوست تھا تو وہاں ملاقات ہوئی تھی میری۔ان سے پہلے ہی رملہ نے پورا قصہ سنا دیا۔
سلطان نے مسکرا کر دونوں کو دیکھا ۔ایک ویٹر نے ان کو آکر اطلاع دی کہ انہیں وزیر اعظم چلارہے ہیں تو وہ چلے گئے پیچھے صرف وجدان اور رملہ رہ گئیے۔وجدان کے چہرے سے لگ نہیں رہا تھا کہ وہ اس سے مل کر خوش ہے البتہ رملہ کی خوشی دیکھنے کی لائق تھی۔تھوڑی دیر بعدوہ دونوں وہی رکھے گئے میز کے گرد کھڑے تھے۔وجدان کے ہاتھ میں گلاس تھا جبکہ رملہ کے ہاتھ خالی تھے۔وجدان سامنے رکھے صوفوں پر بیٹھے سلطان اور وزیراعظم کو دیکھ رہے تھے۔
پاکستان کب آئے اور ضوفی کہاں ہیں وہ انہیں ائی۔جب کافی دیر بعد وہ کچھ نہیں بولا تو بات اس نے شروع کی۔وجدان کا چہرہ بے تاثر تھا۔بات تو وہ اسکاٹ لینڈ میں بھی نہیں کرتا تھا بس کبھی کبھی وہ ایک دو باتیں کر لیتا عموماً وہ خاموش رہتا تھا لیکن یہاں تو سلام کے بعد اس نے تو اسکی خیریت تک نہیں پوچھی تھی۔
تمھارے پاکستان آنے کے ایک ہفتہ بعد میں آیا تھا۔
کیا لیکن تم مجھ سے ملے کیوں نہیں۔
تم نیوز نہیں دیکھتی۔وہ اب بھی سامنے ہی دیکھ رہا تھا جبکہ رملہ اسکی طرف منھ کر کے کھڑی تھی۔اسکی بات پر رملہ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔
تمھاری باتوں کو سمجھنے کے لیے مجھے آئن سٹائن کا دماغ چاہئیے ہوگا۔
اسکا دماغ کسی کام کا نہیں تھا۔رملہ اسکے بات ہر ہنسی تھی۔
بہت سے ایجادات کئے تھے اس نے۔
مگر وہ کسی کی باتوں کو پرک نہیں سکتا تھا بہت بیوقوف تھا وہ۔اس بار وہ اس نے رملہ کو دیکھنے کی غلطی کی تھی۔
شاید تمھیں کسی مسلم ایمپائرز کی دماغ کی ضرورت ہوگی۔۔۔
ہنہ مجھے انکا دماغ نہیں چاہئیے ہر وقت ان کے دماغ میں لڑائی جھگڑا کی باتیں ہوتی تھی۔رملہ کے اس طرح کہنے پر وجدان سر جھکا کر ہنسا تھا۔اس کو ہنستے دیکھ کر وہ بھی ہنسی تھی۔
اچھا ضوفی اور سائمن کی کوئی خبر ہے۔اسے اب جاکے اسکا خیال آیا تھا۔وہ دونوں بازوؤں کو میز پر ٹکائے کھڑی تھی جبکہ وجدان پاؤں کی کھینچی بنائے ہوئے کھڑا تھا جبکہ ایک بازوں میز پر تھا۔
اس نے نفی میں سر ہلا کر اس کے سوال کا جواب دیا تھا۔تو رملہ نے او کے انداز میں ہونٹوں کو کھولا۔عاطف صاحب سلطان کے ساتھ کھڑے سب کو متوجہ ہونے کا کہہ رہے تھے وہ دونوں بھی انہیں دیکھنے لگے۔
ہماری دوستی سالوں پرانی ہے اور یہ دوستی رشتہ داری سے بہت مضبوط ہے مگر ہم پھر بھی اسے رشتہِ داری میں بدلنا چاہتے ہیں۔عاظف صاحب نے اپنے ساتھ کھڑے اپنے بڑے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مسکرا کر اسے دیکھا۔
اپنے بیٹے احمر کے لیے سلطان کی بیٹی۔ کا مانگنا چاہتا ہوں ۔عاطف صاحب کی بات پر وجدان نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔جبکہ رملہ تو مسکرا کر سامنے کھڑے ان کو دیکھ رہی تھی۔
کی تمھیں پتہ تھا اس بارے میں۔اسکی بات پر وجدان نے گردن موڑ کر خالی نظروں سے اسے دیکھا۔جو بہت خوش دیکھائی دے رہی تھی۔یقینا وہ بڑوں کے اس فیصلے سے خوش تھی۔وجدان نے کچھ نہیں کہا اور پھر سے سامنے دیکھنے لگا۔
میں اپنے بیٹے احمر کے لیے سلطان کی بیٹی رملہ کا ہاتھ مانگتا ہوں۔رملہ نے مڑ کر وجدان کو دیکھا جو مرکزی دروازے سے باہر جا رہا تھا رملہ اسکی پشت کو دیکھتی رہ گئی۔وہ اسے چھوڑ کر چلا گیا۔جبکہ رملہ ایک بار پھر سامنے کھڑے اپنے باپ کو عاطف نیازی سے گلے ملتے دیکھ رہی تھی۔
وہ اپنی میکسی کو ہاتھوں سے تھامے تیز تیز قدم اٹھاتی اندر جا رہی تھی۔اسکی ماما نے ایک نظر اس کی پشت کو دیکھا۔یقینا وہ خوش نہیں تھی اسکی ماما اسکے آنسو کو دیکھ چکی تھی۔

رات کا جانے کونسا پہر تھا جب وہ رملہ کے کمرے میں ائی۔جیسے ہی وہ اسکے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔اسے تو زور کا جھٹکا لگا کمرے کا سارا سامان اپنی جگہ سے ہل چلا تھا۔سب کچھ کمرے میں بکھرا پڑا تھا۔گلدان ٹوٹ کر زمین پر پڑے اپنی حالت پر رو رہے تھے۔بیڈ کی چادر آدھی بیڈ پر پڑی تھی جبکہ آدھی زمین کو سلامی دے رہی تھی۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اسکے پاس آئی (اسکا بیڈ کمرے میں گلاس وال کے ساتھ رکھا تھا)جو بیڈ کے دوسری طرف نیچھے بیٹھی تھی۔اسکے سینڈلز اس کے ساتھ پڑے تھے۔جبکہ وہ گلاس وال سے باہر خالی خالی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
آج پاپا پھر سے وہی کر رہے ہیں جو انہوں نے تیرہ سال پہلے کیا تھا۔میری مرضی کے خلاف انہوں نے مجھے صرف دس سال کی عمر میں بورڈنگ بیجھا، اس کے لیے میں نے پاپا کو بلیم نہیں کیا ماما لیکن اس بار وہ بہت غلط کر رہے ہیں۔پلیز ماما پاپا سے بات کرے نا مجھے احمر بھائی سے شادی نہیں کرنی۔اس نے اپنی ماں کے ہاتھ پکڑے وہ رو رہی تھی اپنی ماما سے یہ سب روکنے کا کہہ رہی تھی۔تیرہ سالہ پہلے کی طرح ۔۔وہ اپنی ماما سے لپٹی انہیں کہہ رہی تھی کہ پلیز پاپا کو کہے کہ وہ کہیں نہیں جانا چاہتی۔وہ آپ سب کے پاس رہنا چاہتی ہیں۔لیکن اسکی ماما بے بس تھی۔
تم اچھی طرح جانتی ہو اپنے پاپا کو جو فیصلہ وہ کر لیتے ہے پھر ان کے فیصلے کو کوئی نہیں بدل سکتا۔بے بسی سے اپنی بیٹی کو دیکھا جو سرخ آنکھیں لیے انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔
لیکن ماما میں وجدان کو پسند کرتی ہوں اسکے بھائی سے میں شادی کیسے کر سکتی ہوں۔
وجدان وہاں موجود تھا۔اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
اس نے کچھ نہیں کہا۔اس بار اس نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔اسکا سر دھیرے دھیرے نفی میں ہلنے لگا۔وہ اٹھ کر میز پر سے ٹشو بوکس سے ٹشو نکالا اور واپس آکر اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔اسکے بال ٹھیک کرکے اسکے آنسو صاف کرنے لگی۔

ماما وہ وہاں تھا جب عاطف انکل نے کہا کہ وہ اپنے دوست کی بیٹی کا ہاتھ اپنے بیٹے کے لیے مانگ رہے ہیں ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ ژالے آپی کا ہاتھ مانگ رہے ہیں۔
اسکی ماما نے بے بسی سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔وہ پہلے ایسے نہیں تھی۔کوئی جئیے یا مرے اسکی زندگی صرف تین لوگوں تک محدود تھی،ماما،پاپا اور اسکی ضوفی۔۔اسکے لیے تو بس یہ تین لوگ تھے۔کب انکی بیٹی کی زندگی میں چوتا آیا انہیں پتہ ہی نہیں چلا۔

ماما کیا سچ میں اسے پسند نہیں ہوں گی۔
رات بہت ہوگئی ہیں۔تمھیں سوجانا چاہئیے۔وہ اٹھی اور چلی گئی جبکہ رملہ تو ابھی تک اپنی ماما کی باتوں کو سوچ رہی تھی۔وہ بیڈ پر سر کر زور زور سے رونے لگی۔اسے وجدان پر بہت غصہ آیا تھا۔جو خاموشی سے وہاں سے چلا گیا تھا۔اسے تن تنہا چھوڑ کر۔جب آپکا پسندیدہ شحض اپکو کو نظر انداز کرے تو انسان کو اپنا آپ بہت بے مول لگتا ہیں۔اج رملہ کو بھی اپنا آپ بے مول لگ رہا تھا۔
——————–
اس وقت رینیسانس انٹرنیشل سکول میں ریسیس کا وقت تھا اور اسکول کے گراؤنڈ میں ہائی گریڈ گے دو لڑکے ایک دوسرے کو بہت بری طرح مار رہے تھے۔باقی تمام سٹوڈنٹس ان دونوں کے گرد دائرہ بناکر کسی رسلنگ میچ کے تماشائی کی طرح چیخ رہے تھے۔جبکہ ان دونوں کا وائیٹ یونیفارم دھول مٹی کی وجہ سے خاکی رنگ میں تبدیل ہوچکا تھا۔6 گریڈ کا بچہ ان کو دیکھ کر اندر سکول کی طرف بھاگا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ واپس ارہا تھا ۔ اسکے دائیں طرف سکول کی وائیس پرنسپل اپنی ازلی شان سے ان کی طرف آرہی تھی۔
وہ ٹیچر جسامت کے لحاظ سے نہایت دبلی پتلی جبکہ اسکا قد حضرت آدم علیہ کے زمانے کا تھا۔انکے کالے بالوں جن میں اب چاندی اتر آئی تھی،کندھے تک آرہے تھے۔جبکہ کیٹ آئی عینک آنکھوں پر چھڑائے تھے۔
انکا گھورا رنگ انکے انگریز ہونے کا ثبوت تھا۔انہوں نے گھٹنوں سے تھوڑا نیچھے تک آتا ڈراک نیوے بلیو رنگ کا سکرٹ اور سلک کا سلور رنگ کی ڈریس شرٹ پہنی تھی۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ان تک آپہنچی۔
کیا ہو رہا ہے یہاں۔انکی بال سے بھی باریک آواز وہاں سٹوڈنٹس کے سماعتوں سے ٹکرائی تو سٹوڈنٹس دو حصوں میں بٹ گئیے وہ انکو ایک نظر دیکھ کر ان دو لڑکوں کے پاس آئی جو اب تک لڑ رہے تھے۔
بند کرو یہ سب۔چیخ کر کہا تو دونوں لڑکے روک گئے۔جب ابھی بھی وہ دونوں ایک دوسرے کو خونی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔سب سٹوڈنٹس اس تورکوائس بلیو آنکھوں والے لڑکے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔سوائے اس ایک لڑکی کے جو منھ میں لولی پوپ دبائے کبھی ٹیچر کو دیکھتی تو کبھی ان دو لڑکوں کو۔

تھوڑی دیر بعد وہ دونوں لڑکے پرنسپل کے افس میں موجود تھے۔تورکوائس بلیو آنکھوں والا لڑکا ہاتھ باندھے کھڑا تھا جبکہ دوسرا بڑے اہتمام سے چئیر پر بیٹھا تھا۔پرنسپل اس پر کافی برہم ہو رہے تھے جبکہ چئیر پر بیٹھا لڑکا کمینگی سے ہنس رہا تھا۔

ہم تمھاری انہی حرکتوں سے تنگ آگئے ہیں آئے روز تم کسی نا کسی سے جھگڑ رہے ہوتے ہو۔اگر دوبارہ کچھ کیا نا تو اس بار تمھاری ماں کی بھی نہیں مانوں گا۔

پرنسپل نہایت نفرت سے اس پر کسی بھوکے شیر کی طرح دھاڑ رہے تھے۔جبکہ مقابل کھڑے لڑکے کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔وہ بس سر جھکائے کھڑا تھا جیسے وہ وہاں ہو ہی نا۔

ارے سر اس کو کیا سمجھانا اسکے باپ نے تو ہوس پوری کرتے وقت یہ تک نہیں دیکھا کہ وہ عورت ہے یا چھوٹی بچی۔۔ویسے سر میں نے کہی سنا تھا کہ۔۔۔۔وہ لڑکا اب اپنے پرنسپل کو دیکھ رہا تھا۔جبکہ اس نے اپنی مُٹھی اس قدر زور سے بند کی تھی کہ ناخن اسکے ہتھیلی میں گھسنے کی وجہ خون رسنے لگا تھا۔
سر میں سنا ہے کہ باپ کی غلطیوں کا انجام اس کی بیٹیاں بگھتی ہیں اور اسکی بھی ایک بہن ہے۔۔۔۔۔۔اس لیے میری نصیحت ہے کہ اپنی بہن کا خود سے زیادہ خیال رکھنا تمھارے ہی باپ کی طرح انسانی درندے اب بھی اس معاشرے میں گھوم رہے ہیں۔
اس نے آخر میں اسے نصیحت کی۔جبکہ اسکا پرنسپل اور سامنے بیٹا لڑکا اب ہنس رہے تھے۔ضبط کے مارے اسکا چہرہ لال آنگاہ ہوچکا تھا۔وہ بے بسی کی مثال بنا وہی کھڑا تھا۔ایک غیرت مند مرد اپنی سے کڑی کسی بھی عورت کی بےعزتی کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتا ۔لیکن وہ برداشت کر رہا تھا شاید وہ بیغیرت بن رہا تھا جس کے سامنے اسکی بہن کے بارے اسے الفاظ استعمال ہو رہے تھے اور وہ خاموش کھڑا تھا۔
ایک موتی اس کے آنکھوں سے گرا تھا جو اسکی شرٹ کے کولر میں جذب ہوگیا تھا۔لوگ کہتے ہیں کہ الفاظ سے کچھ نہیں ہوتا حالانکہ سارا کھیل تو الفاظ رچاتے ہیں۔الفاظ قائل کرتے ہیں،الفاظ مائک کرتے ہیں اور الفاظ ہی ہیں جو لوگوں کو آپس میں جڑے رکھتے ہیں اور توڑتے ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہیں کہ لہجے کا شیرین ہونا ضروری ہیں الفاظ کی اتنی اہمیت نہیں کیونکہ سخت لہجے لوگوں کو توڑ دیتے ہیں مگر حقیقتاً لہجے اور الفاظ دونوں کا خوبصورت ہونا کمپلسری ہیں۔
خوبصورت الفاظ اور رویے سے مل کر ایک خوبصورت شخصیت جنم لیتی ہیں اور نہیں خیال کہ اگر شخصیت ہی سنورا ہوا ہو تو مزید کسی چیز کو سنوارنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
ابھی وہ دونوں فرعون بن کر اسکی بےبسی کا مذاق اڑا رہے تھے کہ دروازے پر کسی کی دستک ہوئی۔وہ دونوں خاموش ہوئے تو ایک لڑکی اندر آئی۔اسکء ہاتھ میں کچھ فائلز تھے۔
اس لڑکی نے ایک نظر اس پر ڈالی اور پھر پرنسپل کے پاس گئی۔
ہاں یہ فائلز اس الماری میں رکھ دو۔پرنسپل وہ فائلز دیکھ کر اسے رکھنے کا کہا تو وہ اسے الماری میں رکھنے لگی۔
جبکہ وہ دونوں پھر سے شروع ہوچکے تھے۔
ویسے شیراز صاحب جو لوگ دوسروں کے گھر کے عورتوں کا مذاق اڑاتے ہیں انکی خود کی عورتیں بھی ایک نا ایک دن مذاق بن جاتی ہیں۔
اس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔وہ انہی کی کلاس کی لڑکی تھی۔اور پورے سکول میں ایک وہی تھی جیسے شیراز درانی کبھی بھی کہنے کی ہمت نہیں کر پاتا تھا۔اب بھی وہ وہی کھڑی تھی۔جبکہ پرنسپل اور شیراز دونوں بس غصے سے اسے دیکھ رہے تھے۔
اور جو اپنی عورتوں کی بے عزتی برداشت کرے ہو نا وہ مرد ،مرد کہنے کے لائق بھی نہیں ہوتے۔
اب کی بار وہ اس کو سنا رہی تھی اس کی بات پر وہ سر جھکا گیا۔وہ سب پر ایک نظر ڈال کر وہاں سے چلی گئی۔وہ لڑکی ہوکر کتنی بہادر تھی۔اور ایک وہ تھا جو مرد ہوکر بھی بزدل تھا۔وہ چلی گئی تو پرنسپل نے اسے ہاتھ سے جانے کا کہا تو وہ چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ سکول کی چھت پر بیٹھا تھا۔وہاں کی چار دیواری بہت چھوٹی تھی جس سے پورا آسلام آباد دیکھائی دے رہا تھا۔سکول کی چھت پر کافی کاٹ کباڑ پڑا تھا۔جس میں سے وہ ایک ٹوٹی ہوئی چئیر نکال کر اس پر بیٹھا تھا۔

وہ چئیر کے ٹوٹے ہوئے ہینڈل سے چھوٹی چھوٹی لکڑی تھوڑ کر پھینک رہا تھا۔جب اسے بائیں طرف رکھے کاٹ کباڑ سے آواز آنے لگی۔اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک بلی کا بچہ جسکی ٹانگ زخمی تھی وہ تھوڑا سا اوپر کو اٹھائے باہر آئی۔اور آکر اس کے پاؤں کے ساتھ اپنا چہرہ رگڑتے ہوئے میاو میاو کرنے لگی۔

دیکھو بھئی میں خود بہت تکلیف میں ہوں تمھاری تکلیف دور نہیں کرسکتا لہذا کسی اور کے پاس جاؤ۔بلی کو پاؤں سے دور کیا تو وہ بھی میاو میاو کرتے ہوئے دیوار کے ساتھ بیٹھ گئی۔جبکہ وہ دوبارہ سے سامنے دیکھنے لگا۔اسے کوفت ہونے لگی ہر انسان سے۔ناجانے کیوں یہاں ہر ایک خود کو پارسا سمجھ بیٹھا ہے۔

اسے اپنے قریب سے ایک نسوانی آواز سنائی دی۔مڑ کر دیکھا تو تو ایک لڑکی زمین پر بیٹھی۔بلی کے پاؤں پر بنڈیج کر رہی تھی۔جبکہ بلی آرام سے دوں پی رہی تھی۔یقینا وہ دودھ وہ لڑکی اس کے لیے لائی تھی۔
اس نے دھیان نہیں دیا اور واپس سے چہرہ سامنے کی طرف موڑا۔کچھ دیر بعد اسے وہ لڑکی بلی سے ہمکلام نظر ائی۔
تمھیں کیا لگتا ہے کہ وہ تمھاری باتوں کو سمجھ رہی ہیں۔وہ شاید اسکی بے وقوفی پر ہنسی رہا تھا۔اس لڑکی نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ جھٹکے سے سیدھا ہوا یہ وہی لڑکی تھی جو اس کچھ دیر پہلے آفس میں آئی تھی اور ان دونوں کی بولتی بند کی تھی۔اس کے منہ میں لولی پوپ بھی تھا۔
اسکی طرف دیکھ کر وہ مسکرائی۔مسکرانے کی وجہ سے اسکے ایک گال پر ڈمپل نمودار ہوا تھا۔اسکے ربی ریڈیش رنگ کے بال اونچی پونی ٹیل میں بند تھے۔مسکرا کر اسکے پاس آکر اسکے سامنے کھڑی ہوئی جس کی وجہ سے اس پر سایہ ہوا۔وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اسکی طرف جھکی۔
بلکل کیونکہ بلیوں میں ایموشنز ہوتے ہیں وہ انسان کے جذبات کو سمجھ سکتے ہیں اور میرے خیال سے جذبات کو سمجھنے کے بعد الفاظ کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
یقینا اسے اس لڑکی کی کسی لفظ کی سمجھ نہیں آئی تھی۔وہ لڑکی مسکرا کر اس کے سامنے سے ہٹی تو سورج کی کرنیں پھر سے اس پر پڑنے لگی۔اس نے گردن موڑ کر اسے دیکھا شاید وہ کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔
کاٹ کباڑ کی طرف گئی اور ایک کرسی جس کی پشت نہیں تھی وہ کھینچ کر اس کی طرف ائی۔اور اسکے ساتھ رکھ کر اس پر بیٹھ گئی۔اور مسکرا کر بلی کو دیکھا۔جبکہ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
تمھیں پتہ ہے بلی وفادار ہوتی ہیں۔اس نے نا سمجھیں سے اسے دیکھا۔اسے لگا شاید اس نے سننے میں غلطی کی۔
بلی بے وفا جانور ہیں۔ جیسے اسکی بات درست کی۔
بلی وفادار ہوتی ہیں کیونکہ ان میں ایموشنز ہوتے ہیں اور جو ایموشنز کو محسوس کرتے ہیں میرے خیال سے وہ بے وفا نہیں ہوتے۔
اسکا سر بے ساختہ ہاں میں ہلا کیونکہ اس نے اس قدر سنجیدگی سے کہا تھا کہ اس لگا اگر اس نے انکار کیا تو شاید اسکی حالت اس چئیر سے بھی بد تر ہوتی جس پر وہ بیٹھا تھا۔وہ لڑکی مسکرا کر بلی کو ہی دیکھ رہی تھی۔اس نے اس لڑکی پر ایک نظر ڈالی کاش کہ کوئی اسے لڑکی کو بتا سکتا کہ یہ باتیں صرف اسکے خیال تک ہی صحیح ہے۔حقیقت میں بلی ہی بے وفا جانور ہے۔
میں نے سنا تھا کہ بلی بے وفا ہوتی ہیں۔اسے جیسی اس لڑکی کی بات ہضم نہیں ہوئی۔اس کی بات پر لڑکی نے اسے دیکھا۔
تمھیں کس نے کہا۔
انگریزوں نے تحقیق کی ہیں۔
ثبوت ہیں۔اس نے ہاتھ آگے کرتے ہوئے کہا۔پہلے اس لڑکی کے ہاتھ کو دیکھا پھر اسے۔
ثبوت؟سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
نہیں ہیں نا۔۔۔۔۔۔مجھے پتہ تھا یہ انگریز صرف تحقیقات کرتے ہیں ثبوت ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا لیب کے اندر گھس جاتے ہیں اور پھر باہر آکر اعلان کرتے ہیں کہ تحقیق کے مطابق فلاں فلاں بات ثابت ہوئی ہنہ۔اس نے ہاتھ اٹھا اٹھا کر کہا۔تو وہ تھوڑا سا ہنسا۔
ہنسے کیوں۔اسے شاید اسکا یوں ہنسنا برا لگا۔اس نے نفی میں سر ہلایا۔تو اس نے کن اکیوں سے دیکھا۔
اچھا یہ بتاؤ یہاں کیوں بیٹھے ہو اکیلے۔
اکیلا تو نہیں ہوں۔اسکا اشارہ وہ اچھے سے سمجھ گئی۔
میرا مطلب جب میں نہیں آئی تھی اس سے پہلے۔اس کی بات پر اسکا چہرہ پھر سے مرجھاگیا۔پھر سے لوگوں کے طعنے اسکے سماعتوں میں گونجنے لگے۔
روز کی ان طعنوں سے تنگ آگیا ہوں پتہ نہیں کونسا سکون ملتا ہے انکو۔افسردہ ہوکر کہا

لوگوں کی باتوں کو دلوں سے لگاؤ گے انکے سامنے خاموش رہوگے تو ان سب میں صرف اور صرف تمھارا اپنا ہی نقصان ہے۔تمھیں پتہ ہے اللہ نے مرد کو مضبوط بنایا ہے،اللہ چاہتا ہے کہ مرد صرف اسی کی ذات سے ڈرے باقی دنیا کے ہر انسان کا منھ توڑ جواب دے،جب تک مرد دوسروں سے شرمائے گا تب تک وہ بزدل ہی رہے گا جس دن مرد نے خود سے شرمانا شروع کیا یقین مانو دنیا میں بزدل مرد پیدا نہیں ہوں گے۔
وہ خاموش ہوئی تو وہ چہرہ موڑ کر اسے دیکھا۔وہ ہر سوال کا جواب جانتی تھی چاہیے وہ باتیں صرف اسکے خیال ہی درست کیوں نا ہو وہ جواب ضرور دیتی تھی۔وہ تو لڑکی تھی پھر بھی وہ بہادر تھی اور وہ ایک مرد ہوکر بھی بزدل تھا۔اس نے وہ باتیں اسی کے لیے کہی تھی وہ جانتا تھا۔
تم نے شیراز کے ساتھ جھگڑا کیوں کیا۔اس نے اپنی پوکٹ سے لولی پوپ نکالی ایک اسے تھمائی جبکہ دوسرے لولی پوپ کا ریپر کھولنے لگی۔
تم نے خود انکی باتیں سن لی تھی۔اس نے مڑ کر حیرانی سے اپنے سامنے لڑکی کو دیکھا جو منھ میں لولی پوپ دبائے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
تم میرے بابا جان کے بارے میں جانتی ہو۔اس نے سر اثبات میں ہلایا۔
تم نے کچھ کہا نہیں میرے بابا کے بارے میں میرا مطلب جو مجھ سے ملا بابا جان کے جانے کے بعد کچھ نا کچھ ضرور کہتا ہیں۔
میرے بھائی کہتے ہیں کہ دوسروں پر تبصرے کرنے سے بہتر ہیں کہ ہم اپنے آپ پر توجہ دے خود کے اعمال سنوارے ناکہ دوسروں کے کردار پر باتیں بنائیں۔کہتے ساتھ ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
اور ہاں تمھیں بھی ایک نصیحت کروں گی،کبھی بھی کسی کے معاملے میں قاضی نہ بنو کیونکہ ہر ولی کا ایک ماضی ہوتا ہیں اور ہر گناہگار کا ایک مستقبل ضرور ہوتا ہیں۔
وہ سیدھی ہوئی اور ہاتھ کے اشارے سے بائے کہا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اسکی نظروں سے اوجھل ہوئی۔وہ ایک ساحرہ تھی اپنی باتوں سے لوگوں کو جھکڑ لیتی تھی۔چاہے وہ باتیں خود سے ہی کیوں نا فرض کر لیتی ۔اس نے مڑ کر بلی کے بچے کو دیکھا جو دودھ ختم کرکے اب خود کو چاٹ رہا تھا۔پھر ایک ٹھنڈی آپ بھر کر قدم نیچھے کی جانب بڑھائے۔

——————-

یہ منظر پاکستان کے قومی اسمبلی کا تھا۔جہاں حکومت کا باشندہ کھڑے ہوکر کسی قانون کے فوائد بتا رہا۔جبکہ اپوزیشن جماعتیں مسلسل شور شرابا،احتجاج کر رہے بار بار تقریر کرنے والا خاموش ہوجاتا تھا۔جبکہ وہ وہی اپوزیشن کے رو میں بیٹھا منھ پر دو انگلیاں رکھ کر صرف یہ منظر دیکھ رہا تھا۔
اسکے دائیں طرف کے سیٹوں پر وفاق کے لوگ براجمان تھیں جن میں وزیراعظم سمیت سلطان دلاور خان ،عاطف نیازی بیٹھیں تھے۔اسپیکر بار بار انہیں بیٹھنے کا کہہ رہیں تھے جبکہ وہ لوگ قابو میں ہی نہیں آرہے تھے۔
دیکھیں اگر آپ لوگ یہ سب جاری رکھیں گے تو مجبوراً ہمیں اجلاس کو ملتوی کرنا پڑے گا اور یقینا آپ لوگ ایسا نہیں چاہیں گے۔اسپیکر مسلسل چیخ رہا تھا۔جب کہ ان پر اثر ہیں نہیں ہورہا تھا۔مجبورا اسپیکر کو وہاں سے اٹھنا پڑا۔
اور پھر پاکستان کے قومی اسمبلی کا حال میدان کربلا سے کم نہیں تھا۔سب ایک دوسروں پر چڑھ دوڑے تھے۔چاہیں وہ خواتین تھیں یا مرد سب جھگڑ رہے تھے۔جبکہ وہ لوگ صرف خاموش بیٹھیں تھے۔
تقریبآ دو گھنٹے بعد وہ لوگ خاموش ہوکر بیٹھ چکے تھے۔اور تب جاکر اسپیکر واپس آکر بیٹھ گیا۔
دیکھیں آگر پھر سے آپ نے ماحول خراب کرنے کی کوشش کی تو مجبورا سب کی رائے جاننے کے بغیر بل پاس کر لیا جائے گا۔۔۔۔۔طاہر ملک صاحب آپ اپنی تقریر جاری رکھیں۔اسپیکر نے وفاق کے ممبر کو دعوت دی تو وہ کھڑا ہوا۔تقریبا بیس منٹ وہ تقریر کرتا رہا۔اور بلاآخر دو گھنٹے بعد جاکے اسپیکر نے اسے اپنے رائے کے اظہار کا موقع دیا۔وہ اپنی جگہ پر کھڑا ہوا۔
اسکے کھڑے ہوتے دیکھ کر سلطان کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔
آغاز اس پاک ذات کے نناوے ناموں سے جس کے لیے ہر بڑائی اور بادشاہی ہیں۔یہ کہہ کر وہ خاموش ہوا۔
ویسے میرے پاس کچھ کہنے کو ہے تو نہیں اسپیکر صاحب کیونکہ ہم ان قانون دانوں کو کہہ ہی کیا سکتے ہیں،جو اپنی مرضی کا قانون نافذ کررہے حالانکہ ایسے قانون کو نافذ کرنے سے قرآن نے منع کیا ہیں۔
اسپیکر صاحب میں یا میرے پارٹی کا کوئی بھی نمائندہ اس بل کے قانون بننے کے حق میں نہیں ہیں،ایسا کوئی قانون پاس ہونا ہی نہیں چاہئیے جو ہمارے دین ہمارے مذہب کے خلاف ہو،اس ملک کے بننے وقت ہی یہ کہا گیا تھا کہ ایسا کوئی قانون پاس نہیں ہوگا جو اسلام کے منافی ہو۔اس کے ایسا بولتے ساتھ ہی حکومت کے اراکین چیخنا چلانا شروع ہوئے۔تو وہ خاموش ہوا۔
پلیز آپ سب بیٹھے ہر کسی کو اپنے رائے دینے کا اختیار ہیں۔۔۔۔پلیز بیٹھ جائے سب غفور غلام صاحب تشریف رکھیں۔۔۔۔۔اسپیکر مسلسل انہیں خاموش ہونے کا کہہ رہے تھے۔جب سب خاموش ہوئے تو وہ پھر سے بولنا شروع ہوا۔
تمھیں اپنے بیٹے کو سمجھانا ہونا عاطف ورنہ مجبوراً ہمیں ہی کچھ کرنا پڑے گا اور تم اچھے سے جانتے ہو ہمارے کوئی بھی قدم اٹھانے سے تمھیں ٹیس ضرور پہنچے گی۔۔۔۔۔وزیراعظم نے مائی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔اس نے مڑ کر اپنے نوجوان بیٹے کو دیکھا جو پاکستان کے سیاست میں ایک نیا موڑ رقم کرنے جارہا تھا۔
وہ پچھلے بہت تھوڑے عرصے میں عوام پاکستان کا بہت بھروسہ جیت چکا تھا۔پچھلے ماہ ہی اسکی پارٹی کافی عروج پر پہنچ چکی تھی۔اور ایسے میں بہت سو کو اپنا عہدہ خطرے میں محسوس ہورہا تھا۔
میں تو حیران ہو اسپیکر صاحب کے سب اہل ایمان ہوکر بھی بلکہ سب کو چھوڑے آپ اور یہ ویز قانون دونوں ماشاءاللہ مسلمان ہیں ،اپ لوگوں نے کیسے اس بل کو منظور کر لیا ۔اس نے دائیں طرف بیٹھے وزیر قانون کی طرف اشارہ کیا۔
اس ملک میں ایسے کام کہ ! منظوری ہی کیسے دی جاسکتی ہیں جس نے منع ہمارے رب نے کیا ہیں ،جس پر ہمارے رسول نے لعنت بھیجی ہے،اس کام کو اسلامی نظریہ کی بنیاد پر اذاد ہونے والے اس ریاست میں اجازت کیسے ملی۔وہ پاکستان کے نیشنل اسمبلی میں کھڑے ہوکر چینچ رہا تھا جبکہ وہاں موجود کسی بھی ابن آدم کو فرق نہیں پڑ رہا تھا۔
سب لوگ گونگے اور بہرے بن چکے تھے۔
قرآن کریم میں سورہ انفال میں ایک لفظ ہے”شرالدواب”یعنی بد ترین قسم کے جانور،یہاں جانوروں سے مراد پولتو یا جنگلی جانور نہیں ہیں،بلکہ یہاں جانوروں سے مراد منافق مسلمان تھے جو بظاہر تو اسلام کے ماننے والے ہیں کہتے ہیں کہ ہم نے اسلامی احکامات کو سن لیا ہے مگر حقیقت میں وہ نہیں سنتے۔وہ گونگے اور بہرے بن چکے تھے۔اور ان کو نصیحت کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہیں۔
اور وہ بھی تو یہی کر رہا تھا،وہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قومی اسمبلی میں بیٹھے ان شرالدواب کو اسلامی کے حوالے دے رہا تھا مگر افسوس وہ صرف کلمے کے مسلمان تھے۔انہیں اسلام وراثت میں ملا تھا ورنہ شاید وہ مسلمان ہونے سے بھی انکار کر دیتے۔
اس نے ایک افسوس بھری نگاہ ان شرالدواب پر ڈالی اور پھر اسپیکر سے مخاطب ہوا۔
اسپیکر صاحب اس بل سے نا صرف انہیں کرپشن کا موقع ملے گا بلکہ اس قانون سے معاشرہ بدحالی اور بے حیائی عام ہو جائے گی۔
بہت ہوگیا کب سے تم کرپشن اور فائدے کے رٹ لگائے ہوئے ہو،اسپیکر صاحب یہ سراسر ہماری توہین کر رہا ہے۔غفور غلام صاحب نے کھڑے ہوکر باآواز بلند کہا۔
پلیز آپ بیٹھ جائے۔اسپیکر نے انہیں کہا تو وہ ایک سخت نظر اس پر ڈال کر بیٹھ گیا۔
غفور غلام صاحب بنا ثبوت کے الزام لگانا میں اپنی مردانگی کےخلاف سمجھتا ہوں!اس نے کچھ کاغذات ہوا میں بلند کرے کے ان کی طرف دیکھا۔جس سے سب حکومتی اراکین نے اسے دیکھا۔تو وہ مسکرا کر اسپیکر سے مخاطب ہوا۔
اس کاغذات کے مطابق کراچی میں دو جین بینک جو 1999 کو رانیہ انجم کے دور میں بند کردیا تھا۔وہ دونوں جین بینک وزیراعظم عبدالخواجہ کاظمی کے نام پر ہیں،اسی طرح ۔۔۔۔اس نے دوسرا کاغذ بلند کیا۔
اسی طرح لاہور اور اسلام آباد کے سیول ہاسپیٹل میں ایک ایک جین بینک غفور غلام کے نام جبکہ کے پی کے ہاسپٹل میں تین جین بینک۔۔اس نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر اسپیکر کو دیکھا۔
تین تین جین بینک سلطان دلاور خان کے ہیں۔جو رانیہ انجم اپنے دور میں بند کر چکی تھی جبکہ 2019 میں کاظمی صاحب کے حکومت کے آتے ہی پہلے ہی فرصت میں ان کو دوبارہ سے بحال کردیا گیا تھا۔اس نے تمام کاغذات واپس سے رکھ دیئے اور دونوں ہاتھ پیچھے باندھ کر کھڑا ہوا۔اسکی آواز میں تحمل تھا۔
آپ سب کے انفارمیشن کے لیے کہ ایک جین سرجری کم از کم ،کم از کم ایک کروڑ تک ہیں۔اور ان جین بینک کو تو کھول دیا گیا تھا مگر اس میں باقاعدہ کام اب شروع ہوگا۔کچھ دیر پہلے ہی بل پاس ہوکر پاکستان کے قانون کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔
وزیراعظم سمیت انکے کسی بھی پیروکار کو ان ثبوتوں سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا ، وہ تو اجلاس کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔انہیں کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا کیونکہ وہ یہ بات جانتے تھے کہ روم پاکستان شعور کے ش تک سے واقف نہیں۔
اور ایسا ہی تھا عوام اس قانون پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کررہے تھے۔ااور ایسا صرف اور صرف ان حکمرانوں کی وجہ سے تھا کیونکہ انہوں نے عوام کے ذہن کو ایک غلام کا ذہن بنایا ہوا تھا۔ہم اذاد تو ہیں مگر ذہن میں اب بھی وہی غلامی پل رہی ہیں جیسے کبھی ہمارے حکمرانوں نے ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔
اور جو ان میں شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں منظر عام سے ہٹایا جاتا ہیں۔اس کی عزت نفس کو پاؤں تلے روند دیتے ہیں۔
اور ایسا کچھ شاید اس کے ساتھ بھی ہونے والا تھا۔تھوڑی دیر بعد وزیراعظم اور سلطان دلاور خان اسکو مسکراہٹ لیے دیکھ رہے تھے کیونکہ وہ اپنا مقصد پورا کر چکے تھے۔۔
گورنمنٹ والے ایک دوسرے کے گلے مل کر مبارک باد دے رہے تھے۔جبکہ وہ ایک افسوس بھری نظر ان پر ڈال کر قومی اسمبلی سے باہر جاچکے تھے۔
اسمبلی سے باہر آکر میڈیا والوں نے اس کو گھیر رکھا تھا۔اور سوال پر سوال کیے جارہے تھے جہاں ان میڈیا کی ضرورت ہوتی ہیں وہاں وہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے لیکن جہاں انکی ضروت نہیں ہوتی وہاں یہ اتنا سارے کھڑے ہوتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔
سنا کہ آپ کے لاکھ کوشش کے باوجود بھی اس بل کو پاس کر لیا گیا ہیں۔اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہیں۔ایک نے مائک آگے کرتے ہوئے کہا۔جبکہ وہ صرف مسکرایا۔
میرا کام صرف اتنا تھا کہ عوام کو اس سب کے پس منظر سے آگاہ کرو سو وہ میں نے کر دیا باقی اس سے زیادہ اتھارٹی عوام کے پاس ہیں میرے پاس نہیں۔اگر عوام چاہے تو وہ اس قانون کو راتوں رات ختم کرسکتے ہیں۔
عوام کا کہنا ہیں کہ اس بل کو پاس کرنے سے روکنے میں آپکا ذاتی فائدہ ہونے والا تھا۔رپوٹر کے سوال پر وہ مخض مسکرایا تھا۔
یہ سوال جن کا ہیں انکو کہوں گا کہ جو کرسکتے ہو کر لو، بہر حال اپکو آگے کرنے مجھے نہایت افسوس ہوا۔
رپوٹرز مزید کوئی سوال کرتا گارڈ انہیں انہیں اپنے احاطے میں گاڑی تک لائے۔ٹی وی کے سامنے بیٹھی وہ حیرانی سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔وجدان ٹھیک کہتا تھا وہ نیوز نہیں دیکھتی تھی۔ورنہ اسے پتہ چلتا کہ وجدان تو اسکے آتے ہی پاکستان آچکا تھا۔وہ تو اچھا ہوا کہ آج وہ مما کے ساتھ لاونج میں بیٹھ کر چائے پی رہی تھی ورنہ تو وہ آج بھی وجدان کے اس جملے کو سمجھ نا پاتی اور نا ہی اس کے پروفیشن سے واقف ہوتی۔

—————
وہ آئمہ کے آسلام آباد کے ریسٹورنٹ میں بیٹھی چائے پی رہی تھی۔جبکہ آئمہ کافی آرڈر کر کی تھی۔وہ مسلسل فون میں بزی تھی جبکہ رملہ ایک گہری سوچ میں تھی۔باہر سردی کی پہلی بارش نے دستک دے دی تھی۔فضا میں ہلکی ہلکی سی ٹھنڈک آگئی تھی۔ان دونوں کے کپ سے پاپ اٹھ رہا تھا۔ان کے میز پر کپ کے ساتھ نرم نان چرائی بھی پلیٹ میں پڑی تھی۔
آئمہ ایک بات تو بتاؤ۔
ہمم پوچھوں۔
یہ پچھلے ماہ جو بل پاس ہوا ہیں کیا اس میں کچھ غلط تھا میرا مطلب کیا وہ بل اسلام کے احکامات کے منافی ہیں۔ائمہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔پھر فون سائڈ پر رکھا اور سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔
تمھیں اس بل کے بارے میں کتنا پتہ ہیں۔سوال آئمہ نے کیا تھا۔
زیادہ نہیں بس اتنا کہ وہ ٹرانسجنڈر کے حق میں بہتر ہیں اور اسلامی لحاظ سے پتہ نہیں۔اخر کی کہتے ہوئے اسے اچھی خاصی شرمندگی ہوئی۔کیونکہ وہ آج تک اپنے دین سے دور تھی۔ائمہ آہستہ سے مسکرائی۔
دیکھو ہمارے معاشرے میں دو طرح کے لوگ ہیں،مرد اور عورت ۔آئمہ نے اسکی چائے کا کپ اور اپنی کافی کا مگ ایک ساتھ رکھے۔چائے کے کپ کو اس نے عورت جبکہ کافی کے مگ کو اس نے مرد سے تشبیہ دی۔
پھر اس نے پانی کے گلاس میں دونوں مکا کر کے ڈالے۔اور رملہ کو دیکھا جو حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
اب بتاؤ یہ کون ہوا۔اشارہ پانی کے گلاس کی طرف تھا۔رملہ نے کنفیوز ہوکر اسے دیکھا۔
یہ ٹرانسجنڈر ہیں۔رملی نے ایک جھٹکے سے اسے دیکھا
عورت جب پیدا ہوتی ہیں تو ہمیں پیدائش کے وقت ہی معلوم ہوجاتا ہیں کہ یہ عورت ہے کہ مرد ،اسی طرح مرد کا معاملہ بھی اسی طرح ہیں لیکن۔اس تیسرے کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہوتا کہ یہ مرد ہے یا عورت کیونکہ اس میل اور فی میل دونوں کا ری پروڈکشن سسٹم ہوتے ہیں۔ائمہ نے سب کو سائٹ پر رکھا اور اسکی جانب متوجہ ہوئی۔
اگر پیدائش کے وقت ڈاکٹر اور پیرینٹس کے مشورے سے انکو میل یا فی میل بنادے تو ٹھیک ورنہ اگر یہ اسی طرح بڑے ہوئے تو تم اچھی طرح جانتی ہو ہمارے معاشرے میں ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہیں۔
تو اسکا مطلب یہ بل اسلامی لحاظ سے ٹھیک ہیں کیونکہ اسلام ہی تو لوگوں کو بنیادی حقوق دینے کا کہتا ہیں نا تو پھر وجدان کیوں ایسا کہہ رہا تھا کہ یہ اسلامی لحاظ سے ٹھیک نہیں۔رملہ کی بات پر ائممہ نے نفی میں سر ہلایا۔
میری بات مکمل نہیں ہوئی۔رملہ نے اسکی طرف دیکھا
اس بل کے دو پہلو ہے ایک اچھا اور دوسرا برا ۔۔۔۔۔۔اچھا پہلو یہ ہے کہ ٹرانسجنڈر کو فائدہ ہوگا اور برا پہلو یہ ہے کہ اس بل میں ہر انسان صرف ٹرانسپجنڈر نہیں بلکہ ہر نارمل انسان اس بل کے ذریعے اپنا جینڈر تبدیل کرسکتا ہیں۔ائمہ کی بار پر آملہ نے دونو ہاتھ منہ پر رکھے۔
اور اپنا جینڈر تبدیل کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہے کیونکہ جنڈر کو تبدیل کرنا اللہ کی تخلیق میں ردوبدل کرنا ہے۔ائمہ روکی نہیں بلکہ وہ بولے جارہی تھی۔
ااس سے معاشرے میں ایک بے حیائی کا نظام جنم لے سکتا ہے اگر یہ بل صرف ٹرانسجنڈر کے حد تک ہوتا تو وجدان نیازی اکسا حامی ہوتا مجھے یقین ہیں مگر یہ بل اس حد تک نہیں ہیں۔اس نے افسوس سے کہا۔اور موبائل دوبارہ اٹھا لیا جبکہ مگ میں بچھی کافی کے گھونٹ بھرنے لگی۔
رملہ کو نہایت افسوس ہونے لگا کیونکہ اسکا باپ بھی انہی لوگوں میں شامل تھا جس نے اس بل کو پاس کرانے میں حصہ لیا تھا۔اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر سر ہاتھوں میں گرا لیا۔
پاکستان کا ہر حکمران کی ایک ہی خواہش ہوتی ہیں کہ پاکستان کی عوام کبھی بھی روٹی مکان کے علاؤہ اور کچھ نا سوچے۔
——————–
آج اکتوبر کا آخری دن تھا۔کل سے ان کے فائنل ائیر کے ایگزامز شروع ہونے والے تھے۔اس لیے انکا سکول اج کراچی پکنک کے لے لائے آیا تھا جن میں انکے سکول کے سینئیر ٹیچرز اور سٹوڈنٹس تھے۔ساحل سمندر پر تمام سٹوڈنٹس اپنے اپنے گروپ بنا کر مستیوں میں مگن تھے جبکہ وہ سب سے دور سمندر کے کنارے چل رہا تھا ۔اس نے پینٹ ٹہنوں سے اوپر کو اٹھایا ہوا تھا۔بال ہوا کی وجہ سے اڑ رہے تھے۔
وہ مرے مرے قدم اٹھا رہا تھا۔جب اس نے اپنے قدموں کے ساتھ کسی دوسرے انسان کے چلنے کو محسوس کیا اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ ہمیشہ کی طرح مسکراہٹ لیے اسے دیکھ رہی تھی۔جوابا وہ بھی مسکرایا اور پھر سے آگے دیکھنے لگا۔اس بار وہ دوڑ کر اس کے برابر تک اگئی۔
اکیلے اکیلے چل رہے ہو۔اس نے اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کو باندھے ہوئے تھے۔اج وہ سب سکول یونیفارم میں نہیں تھے۔اس نے ٹہنوں سے اوپر تک آتا سفید فراک پہنا تھا ۔جس پر چھوٹے چھوٹے ٹیولپ پرینٹ ہوئے تھے۔ساتھ میں گھول ہیٹ بھی پہنی ہوتھی۔اس کے ربی ریڈیش رنگ کے بال ہوا سے جھول رہے تھے۔وہ دونوں ہی ننگے پیر تھے۔

اور اکیلے چلنے کی وجہ بھی تم جانتی ہو۔اس نے تاسف سے کہا۔اس کے پاس اسے بولنے کے لیے کچھ نہیں تھا اس لیے وہ بھی خاموشی سے اس کے ساتھ چلنے لگی۔تھوڑا دور جاکر وہ چھٹانوں پر بیٹھ گئے جب اسے کچھ سیپیاں نظر ائی۔وہ ان تک آئی اور اس میں سے کچھ سیپیاں اٹھا کر اس کے پاس آئی جو وہی بیٹھا تھا۔
تم جانتے ہوں۔اسکو خود کی طرف متوجہ پاکر اسے دیکھا ۔تو وہ سیپیاں ہتھیلی پر رکھ کر اس کے آگے کی۔
کچھ سیپیاں دیکھنے میں بہت ہی حسین ہوتی ہیں مگر ان میں موتی نہیں ہوتا،ان میں صرف اور صرف ریت ہوتی ہیں۔بلکل اسی طرح کچھ لوگ بظاہر بہت ہی حسین ہوتے ہیں مگر ان کے الفاظ ریت ہوتے ہیں بد صورت ریت۔۔۔۔وہ جانتا تھا کہ اسکا اشارہ کس طرف ہے،وہ سیپی کھولنے لگی۔
اقراء یہ کراچی کی سیپی ہے اس میں موتی نہیں ہوتے۔اس نے ہنس کر کہا تو اقرا نے خفگی سے اسے گھورا۔
اگر یقین کامل ہو تو معجزوں کا ہونا یقینی ہے۔۔۔اس کی بات پر وہ سر جھکا کر ہنسنے لگا،جبکہ سیپی کے کھولتے ہی آرا کی ایک چیخ نکلی۔اس نے فوراً سے پہلے سر اٹھایا۔
کیا ہوا۔پریشانی سے پوچھا۔جبکہ وہ مسکرائی۔
موتی۔وہ کھولیں ہوئی سیپیی اس کے آگے کی۔جس میں ایک سفید موتی چمکے رہا تھا۔اس نے حیرانی سے اقرا کو دیکھا۔جو مسکرا کر اپنے موتی کو دیکھ رہی تھی۔وہ سیپیی سے گند پھینک چکی تھی۔جبکہ خود کنارے بیٹھ کر اسے صاف کرنے لگی۔سیپیی کو صاف کرکے اس میں موتی رکھا اور سیپیی کو اپنے پوکٹ میں۔اور واپس اسکی طرف ائی۔
وہ خاموشی سے اس کے پاس بیٹھ گئی اور لولی پوپ نکال کر اسکا ریپر کھولنے لگی۔جبکہ ایک لولی پوپ وہ اسے بھی دے چکی تھی۔
تم کچھ زیادہ ہی میٹھا نہیں کھاتی؟اس نے اقرا کی طرف دیکھا جو لولی پوپ مینھ میں رکھے سمندر کو دیکھ رہی تھی۔

مجھے reactive hypoglycemia ہے اس لیے کھاتی ہوں۔اسکی بات پر اسکے ہونٹ او کے انداز میں کھولے۔البتہ اسنے اپنا لولی پوپ اپنی پینٹ کے جیب میں رکھا۔سورج آہستہ آہستہ ڈوب رہا تھا۔اس نے اپنے بائیں طرف بیٹھی اقرا کو دیکھا جو دیوانہ وار سورج کو ڈوبتے دیکھ رہی تھی۔اس کی آنکھیں یکدم چمکی تھی۔جیسے اسکا آئی بول شیشے کا ہو۔

—————-
تقریبآ دو مہینے ہوچکے تھے کہ وہ وجدان سے نہیں ملی تھی۔اس وقت وہ اپنے کمرے میں موجود تھی۔اسکی ماما اور ژالے آپی دونوں نیچھے لاونج میں عاطف نیازی اور انکی اہلیہ کے ساتھ بیٹھی تھی۔جبکہ انکا ایک فرزند نے بھی ان کے ساتھ آنے کی زحمت نہیں کی تھی۔وہ لوگ ایک گھنٹہ پہلے آئے ہوئے تھے۔

وہ مسلسل وجدان کو کال کر رہی تھی۔مگر اسکا نمبر آف آرہا تھا۔اسے آج شدت سے ضوفی کی یاد آئی تھی۔کیونکہ اگر آج وہ ہوتی تو یہ سب لوگ اس کے ساتھ زبردستی نہ کرتے کیونکہ بقول رملہ کہ اسکی ضوفی بہت بہادر ہے۔وہ کچھ بھی کرسکتی ہیں۔
وہ بیڈ پر بیٹھی یہ سب کچھ سوچ ہی رہی تھی کہ دروازے پر دستک نے اسکے سوچ میں خلل ڈالی۔
اجاو۔ایک خوبصورت سی لڑکی اندر ائی۔پچھلے ہی ہفتے یوگنڈا سے ایک اینجیو آیا تھا۔جس میں یہ لڑکی بھی شامل تھی۔اس نے گھٹنوں تک آتا بلیک سکرٹ اور وائٹ ڈریس شرٹ پہنا تھا۔بالوں کو اونچی جھوڑے میں باندھا تھا۔
ہاتھ باندھے اور سر جھکا کر وہ کمرے میں داخل ہوئی۔اسکی ہیل کی ٹک ٹک اسکے کمرے میں گونجی تھی۔وہ اس کے پاس آکر دائیں طرف کھڑی ہوئی۔
میم سر اپکو نیچھے بلا رہے ہیں۔اسکا سر ابھی بھی جھکا ہوا تھا۔
پاپا آگئے ہیں۔اس لڑکی نے سر ہلایا
ٹھیک ہے تم جاو۔وہ کھڑی ہوئی اسے جانے کا کہا تو ہو سر کو خم دے کر چلی گئی۔وہ اپنے ناخن کترانے لگی۔
جانا ہی پڑے گا ۔وہ جلدی سے خود کو ایک نظر آئنیہ میں دیکھا اور پھر ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کر نیچھے چلی گئی۔
اس نے وائٹ لوز سلک کے ٹراؤزر کے ساتھ براؤن رنگ کا سلک کی شرٹ پہنی تھی بالوں کو ہنوزو سٹرٹ کر کے پیچھے کو ڈالے تھے۔ لاونج میں آئی سب کو مشترکہ سلام کیا اور اپنی آپی کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گئی۔
عاطف نیازی اسے مسکرا کر دیکھا جبکہ انکی اہلیہ کی مسکراہٹ سے لگ رہا تھا کہ انہیں مسکرانے کے لیے کسی نے فورس کیا ہو۔اس نے ایک نظر اپنے ساتھ بیٹھی ژالے کو دیکھا وہ پٹھانوں جیسی تھی سرخ سفید رملہ کی بنسبت اسکی آنکھیں کافی بڑی تھی انکا رنگ نارنجی اور بھورا تھا یا پھر شاید ان دونوں کو مکسچر تھا۔
سلطان اگلے مہینے کی دس تاریخ کو نکاح سمیت رخصتی۔۔کیا خیال ہیں۔اسکی بات پر سلطان مسکرائے ۔جبکہ انکی بیگم نے انہیں دیکھا کہ شاید وہ ان سے کہے کہ ازرہ تم بتاؤ مگر نہیں۔وہ تو عورت سے مشورہ کرنا اپنی مردانگی کی توہین سمجھ رہا تھا۔
جیسے تمھاری مرضی عاطف ویسے بھی اس کے بعد الیکشن ہے ٹائم نہیں ملے گا۔تو ہمیشہ کی طرح آج بھی انہوں نے اپنی شریک حیات سے مشورہ کرنا مناسب نا سمجھا۔
رملہ نے ایک نظر اپنی ماما کو دیکھا جس بے بسی کی مورت بنی اپنے مجازی خدا کو دیکھ رہی تھی۔
بیٹا اگلے مہینے کی دس تاریخ کو نکاح ہیں، اس سے پہلے اپنی ہر تیاری مکمل کرو۔رملہ نے ایک نظر اپنے پاپا کو دیکھا اور دل میں کہا کیا صرف یہ کہنے کے لیے مجھے بلایا تھا،حالانکہ وہ تو یہ سوچ رہی تھی کہ شاید اسکا باپ اس سے اسکی مرضی پوچھیں گے۔اور پھر وہ جھٹ سے انکار کر دے گی۔اس نے افسوس سے اپنے باپ کو دیکھا۔
جی پاپا۔کہتے ساتھ ہی اٹھ گئی۔اور کمرے میں چلی گئی۔
—————-
وہ چینجگ روم سے باہر نکلی،تو نظر سامنے اپنے مجازی خدا پر پڑی۔جو اپنی ازلی شان کے ساتھ صوفے پر بیٹھا کف کے بٹن کھول رہا تھا۔اسے نظر انداز کرکے وہ بالوں میں برش کرنے لگی۔
بات سنے۔وہ اپنا کوٹ بازوں پر ڈالے چینجنگ روم جارہا تھا کہ اس کی آواز پر رکھا اور پیچھے مڑا جو اس کے سامنے کھڑی تھی۔
بولو۔
ہمیں رملہ کی شادی کرنے میں اتنی جلدی نہیں کرنی چاہئیے۔انہوں نے تھوک نگل کر کہا،تو وہ قدم اٹھاتا اس تک پہنچھا۔
کیا کبھی کسی بھی معاملے میں،میں نے تم سے مشورہ لیا ہے یا تمھارے کسی مشورے پر چلا ہوں؟سپاٹ لہجے میں کہا جبکہ ازرہ سلطان تھوڑا سا پیچھے ہوئی۔
لیکن اس کی ماں ہوں تھوڑا بہت حق میرا بھی بنتا ہے۔۔ااپنی بیگم کی بات ہر شاید اسی ہنسی آئی جو سر جھکایا۔
مرد عورت سے ایک فرجہ اوپر ہوتا ہے اور اس لحاظ سے وہ گھر کا سر براہ ہوتا ہے اور اس لیے ہر فیصلہ کرنا اسکے اختیار میں ہیں عورت کو اس معاملے میں خاموش رہنا چاہئیے۔
ہمیشہ کی طرح اس نے آج بھی عورت کو خود سے حقیر سمجھا۔جبکہ عورت تو شاید مرد سے افضل ہے،عورت نے ہی تو ولیوں کو جنا ہے،وہ عورت ہی تو تھی جس نے پیغمبروں کو جنا ہے،دنیا کے ہر مرد کو اسی نے ولی بننا سکھایا ہے،عورت ہی تو ہے جو ہر قربانی دیتی ہیں جبکہ مرد تو اتنا بزدل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی چیز کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتا جبکہ عورت شادی کرتے ساتھ ہی اپنی ہر خواہش ہر خواب کی قربانی دے دیتی ہیں ،اپنی ہر پسند کو سولی پر چڑھا کر اسکو قربان کرتی ہیں۔
یہ سب ہے کہ مرد کو اللہ نے ایک درجہ اوپر رکھا کے مگر اس لیے کہ وہ عورت کہ حفاظت کرسکے اس لیے نہیں کہ وہ عورت کی ہر سانس پر حکمرانی کرے۔مگر ہر بار مرد یہ بھول جاتا ہے۔
اسکی بات پر وہ ہنسا تھا شاہد وہ حقیر ذات خود کو اسکے برابر سمجھ رہی تھی۔یکدم ہی اسکے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوئے اور اسکا چہرہ اپنے ہاتھ سے زور سے دباتے ہوئے کہا۔
جس کی شادی ہورہی ہے جب اس سے میں نہیں پوچھا تو تم کون ہوتی ہو اپنی حق کی بات کرنے والی آئندہ میں تمھارے منہ سے کوئی بکواس نا سنو۔ایک جھٹکے سے انکا چہرہ چھوڑا اور چلے گئے جبکہ وہ وہی کھڑی آنسو بہانے لگی۔
——————-
کسی چیز کے گرنے کی آواز پر وہ باہر آئی تھی۔اندھیرے کہ وجہ سے اسے کچھ دیکھائے نہیں دے رہا تھا۔اس نے لائیٹس جلانے کی کوشش کی مگر اسے سویچ بورڈ مل نہیں رہا تھا۔مجبورا اسے اپنے موبائل کا ٹارچ آن کیا۔ اس نے ارد گرد دیکھا لیکن وہاں کچھ نہیں تھا کہ اچانک اسے صوفے کے پیچھے زمین پر کسی کا ہاتھ دیکھائی دیا۔
اس نے جلدی سویچ بورڈ ڈھونڈا اور لائیٹس آن کر کے جلدی سے صوفے کے پاس آئی مگر سامنے گرےوجود کو دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہوئے اسے اپنے پیروں سے زمین نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔اسکے منھ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔
وہ خود کو گھسیٹتے ہوئے اپنے ماں باپ کے کمرے تک آئی اور زور زور سے دروازہ پیٹنے لگی ۔جب اسکے پاپا نے دروازہ کھولا۔
کیا ہوا۔نیند سے بوجھل آواز میں کہا۔
پا-پاپا وہ ژالے آپی ۔۔۔۔۔ژالے آپی وہاں گری ہوئی ہیں اور ان کے سر سے خون بھی بہہ رہا ہیں۔اس نے روتے ہوئے کہا جبکہ سامنے کھڑے وجود کی تو نیند بھاگ گئی وہ جلدی سے رملہ کو ہٹا کر چلاگیا ۔ان کہ آواز سن کر اسکی ماما بھی باہر آئی اور اسے روتا دیکھ کر وہ بھی سلطان کے پیچھے بھاگی۔
تھوڑی دیر بعد رملہ،سلطان،ازرہ سلطان ،کاظم اور ژالے تینوں لاونج میں بیٹھے تھے۔سب رات کے کپڑوں میں تھے۔جبکہ ژالے لال رنگ کی سلیو لیس میکسی جس کا گلا اور بیک دونوں کافی حد تک گہرے تھے۔سر پر پٹی باندھے اپنی ماما کے پاس بیٹھی تھی۔اسکا سارا میک آپ چہرے پر بہہ چکا تھا اسکی حالت نہایت ہی غیر تھی۔
جبکہ رملہ اکیلے صوفے پر بیٹھی اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی جو تھوڑی دیر پہلے پریشان تھے ابھی غصے میں نیچھے کارپٹ کو دیکھ رہے تھے۔
تم نے نا سدھرنے کی قسم کھائی ہیں ژالے۔دانت پیستے ہوئے سامنے بیٹھی اپنی نافرمان بیٹھی کو دیکھ کر کہا جبکہ ژالے بے آواز رو رہی تھی ۔اسکے بھائی کی حالت بھی باپ سے کم نا تھی۔
کاظم۔کتے ساتھ ہی وہ کھڑے ہوئے تو کاظم نے بھی اپنا بیٹھنا گستاخی سمجھا وہ بھی اٹھ کر کھڑا ہوا۔
کل کی ساری پارٹیوں سے ہونے والے میٹنگز کو تم ہینڈل کرلو مجھے ،تھماری ماں اور ژالے کو کہی جانا ہیں۔کاظم نے سر ہلایا جبکہ ژالے اٹھ کر ان کے پاس آئی۔اسکے چلنے میں لڑکھڑاہٹ تھی۔
پاپا پلیز معاف کر دے آئندہ گھر تک سے باہر نہیں نکلوں گی پلیز پاپا۔وہ ہاتھ جھوڑ کر ان کے سامنے کھڑی ہوئی جبکہ انہوں نے اسے ہٹاکر اپنے قدم کمرے کے طرف بڑھائے رملہ ناسمجھی سے سب کو دیکھنے لگی!اور اٹھ کر اپنی ژالے آپی کے پاس ائی۔جو فرش پر بیٹھی مسلسل رو رہی تھی۔
—————–
دیکھتے ہی دیکھتے اکتوبر کا مہینہ گزر چکا تھا اور اب پلک جھپکتے ہی نومبر بھی اختتام کو آگیا تھا۔ لگا تار بارشوں کی وجہ سے درجہ حرارت کافی حد تک نیچھے آچکا تھا۔انکے فائنل بھی ختم ہوگئے تھے،اج انکا لاسٹ ڈے تھا۔تمام سٹوڈنٹس ایک دوسرے کے بے داغ شرٹس پر گڈ بائے ویششز لکھ رہے تھے۔رینیانس انٹرنیشنل اولیول سکول کے سٹوڈنٹس کا وائٹ یونیفارم رنگوں کا گومبو لگ رہا تھا۔انکے چہروں کا حال بھی مختلف نہیں تھا۔سب ایک دوسرے پر رنگ کی بارش کر رہے تھے۔سب کی چہروں پر کھل کھلا ہٹ تھی۔
البتہ وہاں ایک ایسا سٹوڈنٹ بھی تھا جس کی حالت سے مختلف تھی۔اسکے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔
اسکا یونیفارم ویسے کا ویسا ہی تھا جس میں وہ صبح تھا اسکے سفید شرٹ پر کوئی داغ نہیں تھا۔اسکے بال ہمیشہ کی طرح بکھرے حالت میں۔وہ سب سے جدا دور درخت کے نیچھے رکھے بینچ پر بیٹھا سامنے کھڑا لڑکیوں کی گروپ میں صرف ایک ہی لڑکی کو دیکھے جا رہا تھا۔جس کے دائیں گال پر ہرے رنگ کا پینٹ لگا ہوا تھا،اکے ہاتھ بھی پینٹ سے رنگے تھے،اسکے یونیفارم پر بہت سے جملے لکھیں گئے تھے،اب وہ ہنستے ہوئے ایک لڑکی کے بازوں پر کچھ لکھ رہی تھی۔
جملہ لکھنے کے بعد اس نے اپنے ساتھ کھڑی لڑکیوں کو دیکھایا تو سب ہنسی لگی جبکہ جس لڑکی کی قمیض پر لکھا تھا وہ اس جملے کو دیکھ کر خفگی سے سب کو دیکھنے لگی اور دیکھتے ساتھ ہی ہاتھ میں پکڑے اینک کی بوتل کو ان سب پر انڈیل دیا اب ہنسنے کہ باری اس کی تھی۔
وہ اس لڑکی کو گھورنے لگی جس نے اس پر اینک پھینکا تھا اور پھر اپنا بیگ اٹھا کر جانے والی تھی کہ اسکی نظر بیج پر بیٹھے لڑکے پر پڑی۔تو مسکرا کر اس کی جانب ائی۔
یعنی وہ کونسا دن ہوگا جب تم مسکراؤ گے اور یوں بور سا چہرہ بنانے کے بجائے ان سب کی طرح موج مستی کرو گے۔اس نے پیچھے لڑکوں کی طرف اشارہ کیا۔
مجھے کوئی شوق نہیں ہے یہ فضول حرکتیں کرنے کا۔وہ اسکے ساتھ بیٹھ گئی تھی۔اور بیگ سے ٹشوز نکال کر اپنا چہرہ صاف کرنے لگی۔
تم نے کسی سے گڈ بائے وش نہیں لیا۔اقرا کے پوچھنے پر اس نے ایک آئی بھرو بلند کیا اور اسے دیکھا مطلب تمھیں سچ میں نہیں پتہ۔جس پر اقرا نے زبان دانتوں تلے دبائی۔
اچھا یار اب یہ منھ تو نہ لٹکاو چلو میں لکھتی ہوں ویسے بھی تمھاری ایکلوتی دوست ہوں کیا یاد کرو گے کہ اس نے آخری وقت میں مجھے ایک گڈ وش تک نہیں دی۔اس کے انداز پر وہ ہلکا سا مسکرایا۔
جب تک لوگ بابا جان کو بھول نہیں جاتے تب تک جو بھی مجھ سے دوستی کرے گا ان سب کی نظروں میں خود کو گرا دے گا۔اس نے اقرا کی آنکھوں میں جھانک کر کہا۔اور پہلی بار اقرا کو اسکی تورکوائس بلیو آنکھوں میں اپنا آپ ڈوبتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
اسکی آنکھیں گہری تھی بہت گہری ،جس میں بہت دکھ تھے،انسو جمع تھے اس میں جسے اس نے کبھی باہر آنے کی اجازت نہیں دی،
تمھاری انکھیں۔اقرا نے کسی ٹرانس میں کہا۔تو اس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔لیکن اقرا تو یہ کہہ کر خاموش ہوئی بس اسکی آنکھوں کو دیکھے جا رہی تھی۔
ویسے اقرا بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔اقرا کے یوں دیکھنے پر اس نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔تو اقرا ہوش میں آئی۔
پہلے بولتے نہیں اور جب بولتے ہو تو بکواس ہی کرتے ہو۔اسکے کندھے پر بہت رسید کی۔
اور یہ کیا فضول باتیں کر رہیں ہو ہاں ۔۔۔۔تمھیں پتہ ہے کہ تمھارے بابا نے کچھ نہیں کیا پھر کیوں ایسا بول رہے ہوں۔۔۔۔ویسے مایوسی کفر ہے۔اس نے پھر سے لولی پوپ نکالی اور منھ میں ڈالا۔
جتنے لولی پوپ تم کھاتی ہو نا اس حساب ایک نا ایک دن تمھارا شوگر لیول آسمانوں کو چھونے لگے گا۔اقرا نے ایک خفگی نظر اس ڈالی اور اسکے ٹائی کو پکڑ کر کچھ لکھا اور ساتھ میں پینٹ لگے ہاتھ کو اس کی شرٹ پر رکھا۔
وہ جھٹکے سے کھڑا ہوا اور ایک دکھ بھری نظر اپنی شرٹ پر ڈالی کتنی مشکلوں سے آج اس نے اپنی محبوب شرٹ کو بچھایا تھا،جیسے اس لڑکی نے منٹوں میں اپنی کارناموں کے نظر کیا۔
سوری—–سوری مجھے۔۔ہاتھ میں لولی پوپ پکڑے وہ ہنس ہنس کر پاگل ہورہی تھی۔جبکہ اس نے اپنی سب سے حسین محبوبہ کو دیکھا۔ کتنی محنت کی تھی اس نے اسے بچانے میں۔

اللہ کرے تم گنجی ہو جاؤ اقرا۔۔۔۔
میرے بالوں نے کیا،کیا ہے۔اقرا نے پیار سے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
ہاں میرے شرٹ نے تو جیسے تمھیں لوٹا تھا نا۔اسکی بات پر اقرا کا ایک بار پھر سے قہقہہ گونجا۔اسے یو ہستا دیکھ کر اسکی بھی ہنسی چھوٹی۔اور اسکے ساتھ واپس بیٹھ گیا۔
پتہ نہیں دوبارہ زندگی میں کبھی ملاقات ہو بھی پائی گی یا نہیں۔تھوڑی دیر بعد وہ دونوں سر جھکائے بیٹھے تھے۔تھوڑی دیر سکول میں گونجنے والی قہقہہوں کی آواز اب رونے میں بدل چکی تھی۔
تمام سٹوڈنٹس گلے مل کر رو رہے تھے۔لڑکیاں تو لڑکیاں لڑکے بھی رو رہے تھے،اور وہ دونوں وہی بیٹھے تھے۔اقرا کے آنکھوں کے کونے بھیگ چکے تھے،جبکہ تورکائس آنکھیں خشک تھی۔

تم جارہی ہو۔سوال پوچھا تو اقرا نے اثبات میں سر ہلایا اگر وہ بولتی تو شاید رونے لگ جاتی۔اپنی شرٹ کو وہ بھول چکا تھا۔

سب؟اقرا نے اس بار بھی صرف سر ہلایا۔تو ہو بھی چپ ہوکر سر جھکا گیا۔شاید وہ اور بولنا نہیں چاہتی تھی۔اج انکی زندگی کا ایک خوبصورت چیپٹر کلوز ہوگیا، جو کسی بھی حال میں واپسی کی راہ پر نہیں آسکتا۔

نانا جان واپس گاؤں جارہے ہیں اور بھائی ،بھائی شاید بھابھی کو لے کر لاہور شفٹ ہوجائیں۔انکھوں کے کونے انگلی سے صاف کئیے۔

تو تم وہاں اکیلی رہوگی۔چہرہ مڑ کر اقرا کو دیکھا تھا۔اسکے ہاتھ میں لولی پوپ ہنوزو حالت میں تھا۔
نہیں،ما موں کی بیٹی ہے وہاں اس کے ساتھ رہوں گی،اور ویسے بھی چند سالوں کی بات ہے شاید واپس اجاو۔۔۔وہ مسکرائی ۔شاید وہ خود کو تسلی دے رہی تھی۔ان کی ایک ایسی زندگی شروع ہونے والی تھی،جو ہر خوشی کو پیکا کر دیتی ہیں۔خاموشی پھر ان کے درمیان زائل ہوئی۔
تمھاری سب سے بڑی خواہش کیا ہے۔اقرا نے خاموشی کو ختم کیا۔اس نے صرف کندھے اچکائے۔
میری کوئی خواہش نہیں ہیں۔
کتنے بےذوق ہو نا تم۔۔۔۔اقرا کی بات پر وہ ہلکا سا مسکرایا۔
لیکن میری تو ہے۔اس نے چہک کر کہا۔تو وہ منھ مڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
کیسی خواہش؟اقرا نے نچلا ہونٹ دبا کر اسے دیکھا۔
میری سب سے بڑی خواہش ،جو مجھے معلوم بھی ہے کہ کبھی بھی اور کسی بھی حال میں اسکا پورا ہونا نا ممکن ہے،کسی بھی صورت اسکا وجود ممکن نہیں،مگر پھر بھی میری یہ خواہش ہے۔۔۔۔وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
میری یہ خواہش ہے کہ ایک دفہ صرف ایک دفہ۔اس نے انگلی سے اشارہ کیا۔

کہ ایک دفہ میں پھر سے اپنی اسکول لائف جیوں،وہی مستیاں پھر سے کرو،یہی دوست یہی ٹیچرز اگرچہ پسند تو نہیں تھے یہ ٹیچرز لیکن پھر بھی،ان سب کے ساتھ کچھ سال اور گزاراناچاہتی ہوں،کاش کاش یہ وقت ایک بار پھر سے پیچھے چلا جائے،اس لائف کو پھر سے جی سکوں جس لائف میں ہمیں لگتا ہے کہ وقت روکا ہوا ہے،ہمیں نہیں لگتا کہ ہم ان دوستوں سے پچھڑیں گے،بس یہ لائف ایسی ہی رہے گی جیسی ہے،یہ لائف تو وہ لائف ہوتی ہیں جہاں ہمیں ہر چیز اچھی لگتی ہیں،مگر افسوس کچھ لوگ اس کی قدر نہیں کرتے ،اور شاید میں بھی انہی لوگوں میں شامل تھی،میں بھی یہی چاہتی تھی کہ یہ سکول جلد از جلد ختم ہو جان چھوٹ جائے لیکن اب جب ختم ہوگیا تو بہت درد ہو رہا ہیں۔

آخر میں اسکی آواز بھر آئی تو وہ خاموش ہوئی۔اور نیچھے دیکھنے لگی شاید وہ اپنی آنسو چھپا رہی تھی۔وہ خاموش ہوگئی تھی۔تھوڑی دیر بعد اسے رونے کی آواز آئی۔
اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا ہچکیوں کر رو رہی تھی۔عجیب تھی وہ لڑکی کبھی کبھی اسے دیکھ کہ لگتا ہے کہ اسے کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں پھر اگلے پل اسے دیکھ کر لگتا ہے جیسے اسے سب کی فکر ہے،وہ تو شاید دشمن کے بھی مرہم رکھتی ہیں۔
اقرا کیا ہوا تو کیو رہی ہو۔اس نے اقرا کے دونوں ہاتھوں کو ہٹاتے ہوئے فکر مندی سے کہا۔جبںکہ اسکے رونے میں اور بھی شدت آگئی تھی۔جس کی وجہ سے وہ اور بھی پریشان ہوا۔
اقرا پلیز چپ کرو اور بتاؤ کیا ہوا ہے ،میری کوئی بات بری لگی ہیں،اچھا سوری۔وہ چہرے سے ہاتھ ہٹاکر آستین سے ناک پونچھنے لگی۔
وق-وقت کیوں گزرنے لگتا ہیں کیا وقت روک نہیں سکتا۔۔۔وہ ہچکیوں کے درمیان بولی۔اسکی ناک رونے کی وجہ سے لال ہوچکی تھی۔اس وقت اسے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔

اگر وقت روک گیا تو پھر اچھی یادیں کیسے بنے گی۔۔اسکے بیگ سے ٹشو نکال کر اقرا کو تھمایا۔
تمھیں دکھ نہیں ہورہا۔انسو صاف کرتے ہوئے بولی اسکی ہچکیاں اب بھی روک نہیں رہی تھی۔
مجھے تو دکھ تب ہوتا جب مجھے اس ذات پر یقین نا ہوتا جو زماں و مکاں سے بے نیاز ہے۔مجھے اس ہر یقین ہے جو معجزے کرتا ہے اور ایک نا ایک دن وہ ان دو دوستوں کو ضرور ملائے گا کبھی نا بچھڑنے کے لیے۔اس نے مڑ کر اقرا کو دیکھا تو وہ مسکرائی۔اج اقرا کی مسکراہٹ اسے کافی پیاری لگ رہی تھی۔اتنی پیاری کہ اسکی مسکراہٹ کے آگے تو اسکی تورکوائیس بلیو آنکھوں کا حسن مانند پڑتا ہے۔

ایک بچہ بھاگتا ہوا ان کے پاس آیا اور دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ کر سانس بحال کرنے لگا۔
اقرا–تمھارا بھائی آیا ہوا ہے۔اپنی بات کہہ کر وہ چلا گیا ۔جبکہ اسنے مڑ کر اقرا کو دیکھا جس کی آنکھیں ایک بار پھر سے بھیگنے لگی۔
جسے گال پر بہنے سے پہلے کی وہ اپنے ہاتھ سے صاف کر گیا۔
ہم ضرور ملیں گے کیونکہ مجھے تم سے اپنی محبوبہ کا انتقام لینا ہے۔اسکی بات پر وہ نم آنکھوں سے ہنسی۔اور اپنا بیگ اٹھایا اور کھڑی ہوئی۔تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ پیچھے مڑ کر اسے دیکھا جو کھڑا اپنا بیگ پیک کر رہا تھا۔اسکی اقرا کی جانب پشت تھی۔

سنو۔اقرا کی پکار پر اس نے مڑ کر اسے دیکھا ،سورج کی کرنیں اس پر پڑنے کی وجہ سے اقرا نے اپنا ہاتھ آنکھوں پر رکھا تھا۔
تھماری آنکھوں کو دیکھنے کے بعد مجھے میری آنکھوں سے عشق ہوگیا۔یہ کہتے ساتھ ہی وہ بھاگ گئی۔جبکہ وہ اسکی بات پر اسے ناسمجھی سے اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگا ۔پھر سر جھٹک کر واپس اپنے کام میں مگن ہوا۔
رینیسانس انٹرنیشل او لیول سکول کے فائنل ائیر کے سٹوڈنٹس کی ایک خوبصورت زندگی اختتام کو پہنچ چکی تھی۔سورج بھی ان بچوں کو دیکھ رہا تھا۔جو ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے۔
سکول کی زندگی،بچپن،اور ماں کی گود ان تین جگوں پر ایک جیسا ہی ماحول ہوتا ہے۔زمانے کے ہر گرمی سردی سے بچ کر ہم اپنی زندگی آرام سے جی رہے ہوتی ہیں۔
سکول کے ختم ہوتے ہی بچپن بھی ختم ہوجاتا ہے۔
—————-
اچانک ہی رملہ اور احمر کی شادی کو ڈیلے کر کے اکتوبر کے بجائے دسمبر میں منتقل کردی کی گئی تھی۔شام کے سات بج رہے تھے۔دونوں خاندان شادی میں شرکت کے لیے کراچی میں موجود تھے۔ہال کے داخلی دروازے کے ساتھ ایک بڑا بورڈ رکھا ہوا تھا جس پر رملہ اینڈ احمرز ویڈنگ۔
یہ منظر کراچی کے شادی ہال کا تھا جہاں سب لوگ ادھر سے ادھر جارہے تھے،بچے اپنی مستیوں میں مگن بھاگے جارہے تھے۔جبکہ رملہ اور احمر گروم اور برائڈ کے روم میں تیار ہورہے تھے۔سلطان دلاور خان نیوے بلیو رنگ کے شلوار قمیض کے اوپر بلیک وسکوٹ پہنے ہمیشہ کی طرح اپنی پرکشش پرسنیلٹی برقرار رکھے وہاں عاطف کے ساتھ باتوں میں مصروف کھڑا تھا۔
اس شادی میں بہت سے نامور سیاست دانوں نے شرکت کی تھی۔
ازرہ سلطان نارنجی رنگ کی ساڑھی کے ساتھ بلیک شال کندھے پر ڈالے خاموشی سے مسسز عاطف کے ساتھ کھڑی تھی۔
آج اس شادی حال کے برائڈل روم کی ہر چیز خود پر نازاں تھی،وہ سجھی سنوری وہاں دلہن بنے بیٹھی تھی۔وہ تو تھی بھی اتنی حسین مگر دلہن بننے جو نکھار اس پر آیا تھا وہ تو جیسے اس کے خود کے حسن کو کہیں دور چھپایا ہوا تھا۔
وہ سیاہ رنگ کے لہنگے کس کے کناروں پر سنہرے رنگ کا کام ہوا تھا،اس کے ساتھ ہی بھورے اور سرخ رنگ کا شال کندھوں پر ڈالا ہوا تھا۔
وہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی۔
وہ مسلسل فون کو دیکھے جارہی تھی،اس دن کے بعد سے اسکا وجدان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا،کیا اسکا یوں رملہ کی پسند کو اہمیت دینا،اس پر تھوڑی سختی کرنا کیا وہ سب کے ساتھ ایسا کرتا تھا کیا وہ سب اسکی فطرت تھی وہ سب رملہ کے لیے نہیں تھا کیا وہ اسکی دوستی کو محبت سمجھ بیٹھی تھی۔کیا یہ اسکی غلطی تھی۔
جو اسکی ذرا سے توجہ کو محبت کا رنگ دے بیٹھی۔
ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ آئمہ کے ساتھ ازرہ سلطان ساڑھی کا ایک پہلو ہاتھ میں تھامے اندر ائی۔رملہ نے چہرہ موڑ کر اپنے آنسو صاف کئیے۔
وہ دونوں چلتی ہوئی رملہ کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ائمہ اسکے دائیں جانب جبکہ ازرہ سلطان بائیں طرف۔رملہ دیوار میں لگے بڑے سے آئینے کے سامنے بیٹھی تھی۔

ازرہ سلطان نے آئینے میں اپنی حور سی بیٹھی کو دیکھا۔جو ایک آس سے انہیں کو دیکھ رہی تھی۔تو ازرہ سلطان نظریں جھکا گئی۔
ماما پلیز پاپا سے بات کریں نا ابھی تو نکاح بھی نہیں ہوا شاید پاپا مان جائے۔اس نے ازرہ سلطان کے ہاتھ پکڑ کر کہا۔
بیٹا احمر بہت پیارا لڑکا ہے۔رملہ کے چہرے کو اپنے ایک ہاتھ سے تھاما اور مسکرا کر کہا۔
لیکن وہ وجدان تو نہیں ہوگا نا۔
وہ تمھیں بہت خوش رکھے گا۔

یقینا وہ مجھے خوش رکھا گا ماما مگر میں اس دل کا کیا کرو،یہ ۔اس نے اپنے دل کے مقام پر اپنی شہادت کی انگلی رکھی
یہ کبھی بھی اسکا ساتھ قبول نہیں کرے گا ، پاپا دو لوگوں کی زندگی تباہ کر رہیں۔آنسو اپنا راستہ تلاش کرکے فرار ہوچکے تھے۔
تمھارے پاپا کا فیصلہ کوئی تبدیل نہیں کر سکتا،اور اسکا فیصلہ نا مانے والوں کا انجام بہت بھیانک ہوتا ہے بیٹا،ائمہ ذرا رملہ کا میک اپ ٹھیک کرو بیٹا۔ازرہ سلطان اپنے ساڑھی کا ایک پلو پکڑ کر مڑی،کہ رملہ کی آواز پر اسکے قدم وہی روک گئے۔

ماما ژالے آپی کہاں ہے؟وہ مڑی نہیں تھی بلکہ وہی پر جم گئی تھی جبکہ رملہ کھڑے ہوکرا ان کے جواب کی منتظر تھی۔
و-وہ واپس چلی گئی۔کہہ کر وہ رکی نہیں تیزی سے روم سے باہر نکل گئی۔تو رملہ نے پیچھے مڑ کر آئمہ کو دیکھا جو ہاتھ میں چیزیں پکڑے کندھے آچکائے۔جںکہ رملہ دوبارہ سے فون پر لگ گئی۔
—————
احمر ہاک کے داخلی دروازے کے ساتھ کھڑا کسی سے فون پر بات کر رہا تھا۔وہ ابھی تک سادہ سے حلے میں تھا۔لوگ آتے ہوئے اسے سلام کرتے جسکا وہ سر خم کے کے جواب دیتا ،وہ مسلسل کسی سے بات کر رہتا،جب پیچھے سے کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا،وہ مڑا تو اسکی ماں آخرت سے پوچھا کہ کون ہے۔
ٹھیک ہے میں آتا ہوں ۔۔ہا ٹھیک ہے اوکے بائے۔اس نے جلدی سے فون بند کرتے ہوئے کہا اور اپنی ماں کی طرف مڑا۔
جی ممی۔
وجدان کا کچھ پتہ چلا کہاں ہے وہ،ابھی سلطان صاحب نکاح پڑھوانے جا کہہ رہے تھے۔
اسد کے ساتھ ہے وہ بغیرت،بس ممی میں اسے ہی لینے جارہا ہوں آپ ذرا سا سنبھال لیجئے۔
ٹھیک ہے بیٹا تم جاو۔مسکرا کر کہا تو احمر بھی مسکرایا اور انکا ہاتھ چوم کر چلا گیا۔مسسز عاطف نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور اندر ہال کی طرف چلی گئی اسے اب ان سب کو بھی سنبھالنا تھا۔
————–
گاڑی کی لائٹس سیدھا سمندر کے لہروں کے اوپر پڑ رہی تھی۔اور گاڑی کے بائیں جانب رکھے بینچ پر وہ دونوں بیٹھے تھے۔ایک ہاتھ میں پکڑے کپ میں گھونٹ بھر رہا تھا،ہوا کی وجہ اسکے ماتھے پر بکھرے بال اڑرہے تھے۔دسمبر کا مہینہ تھا کراچی کا درجہ حرارت کافی حد تک کم ہوا تھا،اسکا دوست سویٹر پہنے بیٹھا تھا جبکہ وہ بغیر کسی سویٹر ہے صبح کی پہنی کریم رنگ کی ڈریس شرٹ میں تھا جس کے اوپر کے تین بٹن کھولے ہوئے تھے۔
بازوؤں کو گھٹنوں پر رکھے اپنے ہاتھوں کو باہم چھوڑے ہوئے تھا۔
اسکی شادی ہورہی ہے۔اواز کافی گہرائی سے آئی تھی۔
نا کرو ،کیسے مطلب تم نے بلکل کچھ نہیں کیا۔اس نے نا میں سر ہلایا۔

پھر اچھا ہوا جو اس کی شادی ہورہی ہے،کم از کم تم جیسے بزدل انسان سے تو اسکی جان چھوٹی۔اسد نے سمندر پر ایک نظر ڈالی،تو اس نے ایک گھوری سے اسے نوازا، وجدان پینٹ کے جیبوں میں ہاتھ اسے کھڑا ہوا اسکی پشت سمندر کی جانب تھی۔کہ سامنے سے آتے شخص نے ایک زور دارا مکہ اسکے جبڑے پر رسید کیا۔
احمر بھائی آپ۔اسد نے پیچھے دیکھا جہاں احمر کھڑا اس بغیرت کو دیکھ رہا تھا۔وجدان اپنے چہرے کو ایک ہاتھ سے سہلا رہا تھا جبکہ اسد باری باری دونوں کو دیکھ رہا تھا۔

پوچھو اس کمینے سے کیوں بغیرتوں کی طرح یہاں بیٹھا ہوا جبکہ وہاں اسکی شادی اس بغیرت کے بھائی سے ہورہی ہے۔احمر دانت پیستے ہوئے دبے دبے غصے میں کہا۔
ایک منٹ ایک منٹ کیا رملہ کی شادی احمر بھائی سے ہورہی ہیں،او مائے گاڈ۔اسد اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
قسم سے وجدان کب سے تم اتنے بغیرت بن گئے ہاں،یعنی وہ تمھاری بھابھی بننے والی تھی اور تم ،تک اسے بھابھی بھابھی کہہہ کہ پکارتے۔اسد کو ایک صدمہ سا ہوا تھا۔
قسم یار میں جان تو دیتا مگر اپنی محبت کو اپنی بھابھی بننے نہ دیتا۔اسد نے افسوس سے کہا۔
ابھی تک بنی نہیں وہ اسکی بھابھی ،اس بغیرت کو لینے آیا ہوں۔ھاڑی میں بیٹھاو اسے۔احمر نے مڑ کر اسد سے کہا اسکا ایک ہاتھ کمر پر تھا۔
کب سے مجھے ہی تم دونوں بغیرت بولے جا رہے ہوں ہاں تم دونوں نے کونسا غیرت کی تاریخیں رقم کی ہے۔شاید اسے خود کے لیے بغیرت کا لفظ اچھا نا لگا۔
اسے دیکھو۔احمر اس کی طرف بڑھنے لگا کہ اسد نے اسے روکا۔

ارے میری غیرت کا پیمانہ تو یہ ہے کہ اس تم جیسے بغیرت کی محبت کو اپنی بیوی نہیں بنایا ،جتنے یہ تمھارے ووٹرز ہے نا اس ملک میں جو تمھیں اپنا ہیرو مانتے ہیں اگر آج وہ تمھاری اس بغیرتی سے واقف ہو جائے نا افسوس تمھیں اس بار الیکشن میں شاید عائیشہ گلالئی کی طرح وہ لو لیٹر والا ووٹ بھی نا ملے۔
احمر کی بات پر اسد کا ایک زوردار قہقہہ بلند ہوا اگرچہ اس نے بہت کنٹرول کرنے کی کوشش کی مگر احمر نے جس انداز میں کہا تھا
شاید ہی کوئی اپنا قہقہ روکتا۔تھوڑی دیر بعد وہ وہاں بینچ پر بیٹھا تھاجبکہ احمر اور اسد گاڑی کے ساتھ کھڑے تھے۔
اب فیصلہ تمھارے ہاتھ میں ہیں وجدان نو تیس تک قاضی آجائے گا،یا تو اسے اپنا بناؤ یا پھر اسے اپنی بھابھی بنتے دیکھو،اس نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا اور پھر اسے دیکھا۔
چلو اسد اس بغیرت کو یہاں بغیرتی کے جھنڈے گاڑنے دو۔

احمرگاڑی میں ساتھ میں اسد کو بھی آنے کا کہا تو وہ ایک نظر اس پر ڈال کر احمر کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا اور انکی گاڑی زن سے وہاں سے چلی گئی۔
جبکہ وہ ہاتھوں کو باہم ملائے سوچ میں غلطاں تھا۔اس کے دماغ میں نو بجے قاضی ،رملہ ،بابھی احمر یہ سب الفاظ گونج رہے تھے۔
کہ اچانک وہ اٹھا۔اور گاڑی میں بیٹھ کر اسکی گاڑی بھی چند منٹ بعد وہاں سے غائب ہوئی۔
————————-
ہو نا آیا تو کیا کریں پھر ہم۔اسد اور وہ دونوں گورم کے روم میں صوفوں پر براجمان تھے۔احمر اپنے دونوں ہاتھ صوفے کی پشت پر ٹکائے بیٹھا مسکرا رہا تھا جبکہ اسد آگے کو ہوکر بیٹھا تھا،اسے شاید وجدان سے کچھ بھی کرنے کی بعید تھی۔
اور یہ سچ تھا کہ وجدان کا بھروسہ کرنا نہایت رزکی تھا۔کیونکہ ان سب معاملوں میں اسکا یقین کرنا بیوقوفوں میں اعلی قسم کے ہونے کی علامت تھا۔

وہ آئے گا ضرور آئے گا جب وہ رملہ کے لیے پاکستان کے بجائے اسکاٹ لینڈ پڑھنے جاسکتا ہے کہا وہ اسے اتنی آسانی سے کسی اپنی بھابھی بننے دیے گا۔اسکی بات پر اسد نے اسے دیکھا ابھی وہ کچھ کہنے والا تھا کہ دروازہ کھول کر بغیرتوں کا سردار نے اس کمرے کو رونق بخشی۔
اسد نے حیرانی سے پہلے اسے دیکھا اور پھر اپنے دائیں طرف بیٹھے احمر کو جو مسکرا کر اپنے سامنے کھڑے بھائی کو دیکھ رہا تھا۔
وہ مرے قدم اٹھاتا اسد کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔
وہ رہی شیروانی جاؤ جاکے پہن لو۔
اس سب کی توقع مجھ سے کرنا بیکار ہے کہ میں یہ سب پہنوں گا۔احمر مسکرایا وہ اسے بخوبی جانتا تھا اگر وہ ایک دفہ نا کہہ دے تو پھر آگر سورج مشرق کے بجائے مغرب سے نکلے چاند تارے زمین پر آکر گرے، کوئی اس سے وہ کام نہیں کرواسکتا۔

ابکی بار دروازہ کھول کر سلطان،عاطف اور کاظم اندر داخل ہوئے،عاطف تو خونخوار نظروں سے اپنے بغیرت بیٹے کو دیکھ رہا تھا۔جو آرام سے ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر ٹکائے اپنا ایک ہاتھ صوفے کے پشت پر جمائے اپنے ہونے والے سسر کو دیکھ رہا تھا۔

وجدان آج تک مجھے یہی لگ رہا تھا کہ شاید میں تمھارا باپ ہوں۔عاطف نیازی کی بات پر وہ ہلکا سا مسکرایا تھا۔جو کہ انہیں اور طیش دلاگیا۔
بابا اپنے رملہ کو اپنی بہو بنانی ہے نا تو چاہے وہ احمر بھائی کی بیوی بنے یا پھر میری بہو تواپکی بنے گی نا۔
بغیرت ادمی۔عاطف نیازی ہاتھ کمر پر باندھے مسلسل کمرے میں ٹہل رہے تھے۔
سلطان اسے میرے گھر کی بہو بننا ہے تو پھر وجدان کی سہی۔عاطف کے کہنے پر سلطان نے ایک نظر وجدان کو دیکھا جو مسکرا رہا تھا۔

ہر گز نہیں رملہ کی شادی احمر سے طے ہوئی ہے اور اسے سے رملہ کی شادی ہوگی۔سلطان نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا۔جبکہ وجدان تھوڑا آگے کو جھکا۔
دیکھیں سسر جی میں تو بس شریف داماد بننے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہاں آپ سب کے سامنے شادی کرکے اس کو لے جاؤ گا لیکن اپکو عزت راس نہیں آتی،اب آپکی مرضی اگر اپنی عزت عزیز ہے تو خاموشی سے یہاں ہمارا نکاح کروائے ورنہ بصورتِ دیگر مجھے اپنا طریقہ اپنانا ہوگا۔
اپنی بات کہہ کر وہ اپنی پرانے انداز میں بیٹھ گیا۔جبکہ اسکی اس قدر جراءت پر سلطان اور کاظم کا پارہ ہائی ہوا۔

ٹھیک ہے۔سلطان نے سوچ کر کہا کیونکہ وجدان سے کوئی اچھے کی امید کی بھی نہیں جاسکتی۔ان کی ہاں کرنے پر وجدان مسکرایا۔سب سے اپنی بات منوانا وہ اچھے سے جانتا تھا۔
پاپا اپ غلط کر رہے ہیں،وجدان کو آپ اچھے سے جانتے ہیں کہ وہ۔
لگتا ہے کہ کاظم صاحب راضی نہیں ہے۔۔ کاظم کو بولتے دیکھ کر کہا تو سلطان نے اسے چھپ ہونے کا کہا۔

کاظم جاؤ جاکر اپنی ماں سے کہو کہ رملہ کو باہر لائے۔سلطان نے کاظم کو جانے کا کہا تو بدلے میں وجدان کو گھورا۔جس پر اس نے مسکرا کر کندھے اچکائے۔
وہ ہاتھوں کی میٹھی بناکر باہر چلا گیا۔
عاطف تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔یہ کہہ کر وہ باہر چلا گیا۔جب وجدان سمیت سب باہر جانے لگے۔
آخر میں وجدان اور عاطف جانے والے تھے کہ عاطف نے وجدان کو روکا۔تو ہو انہیں دیکھ کر روک گیا۔

اگر اتنے ہی اوتاولے ہورہے تھے اس سے شادی کرنے کے لے تو اس دن نہیں کہہ سکتے تھے جب ہم احمر کا رشتہ اس کے لیے کے کر جانے والے تھے وہی بیٹھے تھا نا تم۔اپنے اس بھگڑی ہوئی اولاد کو دیکھا جو ان کی بات پر ڈھیٹوں کی طرح مسکرا رہا تھا۔
بابا اس وقت یہ دل اس پر فدا نہیں تھا اب جب اسے دیکھا تو اب اس کے بغیر رہا نہیں جاتا۔یہ دل اسکا ساتھ مانگنے کے لے تڑپ رہا ہے۔اس کی اس طرح بےشرمی سے اظہار محبت پر انکا پارہ آسمان کو چھونے لگا

لا حول ولا قوا۔۔۔۔۔تمھیں شرم نہیں آتی اپنے باپ سے اس طرح کی بات کرتے ہوئے۔دانت پیستے ہوئے کہا۔تو اسکا قہقہہ ابھرا۔
باپ ہی یہی چاہتا تھا کہ میں یہ کہوں۔

بکو مت اب جاؤ ورنہ کہی اس قدر تڑپ سے مر ہی نا جاو۔اسے اسی کی انداز میں کہہ کر باہر نکالا تو وجدان مسکرا کر نفی میں سر ہلانے لگا اور انکے قدم ناپتے ہوئے باہر چلا گیا۔

—————-
کچھ دیر بعد دونوں کا نکاح ہوگیا تھا۔رملہ تو ابھی تک شاکڈ میں تھی اسے لگ رہا تھا کہ شایدنیہ سب ایک خواب ہے۔وہ تو بار بار مڑ کر اسے دیکھ رہی تھی ۔جو مسکرا کر سلطان دلاور سے گلے مل رہا تھا۔
آئمہ یہ سب خوا تو نہیں ہیں نا ۔اس نے پاس کھڑی ائمہ سے پوچھا جو آنکھوں میں چمک لیے وجدان کو دیکھ رہی تھی۔
نہیں یار یہ بلکل حقیقت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ وجدان نیازی ہی ہے یار پلزیززززز اس سے ایک آٹوگراف دلوا دینا پلیززز۔
اسنے آئمہ کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔مطلب اسکی بھی ایک عزت نفس ہے وہ ایسے کیسے اس نے آٹوگراف مانگ سکتی ہیں۔دوسری طرف وجدان نے سلطان کو گلے لگایا تھا۔

سلطان صاحب ایک بات اپنے ذہن سے نکال دے کہ میری بیوی کو آپ استعمال کریں گے کیونکہ اب وہ رملہ سلطان نہیں ،رملہ وجدان بن چکی ہے اور اپنی بیوی کو سیاست کے لیے استعمال کرنے والوں کو میں انکی پیدائش کے دن پر افسوس کرنے پر مجبور کر دوں گا۔
ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکی دے کر ان سے مسکرا کر الگ ہوا۔اور واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
جبکہ سلطان ابھی تک حیرانی کی عالم میں اسے دیکھ رہا تھا اسے نا اسکی باتیں کچھ سمجھ میں آئی اور نا ہی اسکا رویہ۔
شاید وہ سب جان چکا تھا یا پھر جاننے کی وہ کوشش کر رہا تھا۔
تقریبا ساڑھے گیارہ بجے وہ سب کراچی سے لاہور کے لیے نکل گئے۔احمر،عاطف ،رملہ اور وجدان کی ممی سب ایک ہی گاڑی میں اسلام آباد کے لیے نکل چکے تھے
جبکہ ہال سے نکلنے کے بعد انکا وجدان سے سامنا نہیں ہوا تھا۔

کوئی کسر نہیں چھوڑی اس بغیرت نے مجھے پاگل کرنے میں۔وہ کب سے وجدان کو کال کر رہے تھے مگر وہ تھا کہ فون اٹھا ہی نہیں رہا تھا۔اسکی ممی نے مڑ کر رملہ کو دیکھا جو باہر دیکھ رہی تھی۔
——————–
سوری بیٹا سب کچھ اتنا بلدی ہوگیا کہ ہم کمرہ ڈیکور نا کرسکے،جانتی ہو کہ پر لڑکی کے شادی کو لے کر بہت سے خواہشات ہوتے ہے مگر شاید قسمت کو یہی منظور تھا۔وجدان کی ممی رملہ کو وجدان کے روم میں بٹھا چکی تھی۔
انہوں نے احمر کا روم ڈیکور کیا تھا۔
میری سب سے بڑی خواہش پوری ہوگئی ہے تو ان سب خواہشات کی میرے سامنے کوئی اہمیت نہیں۔انکے ہاتھ پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا ئی۔

اچھا تم آرام کرو میں وجدان کو دیکھتی ہوں پتہ نہیں کہاں رہ گیا،وہ مسکرا کر کمرے سے نکل گئی اور پانے پیچھے دروازہ بند کرنا نا بھولی۔
ان کے جاتے ہی رملہ نے ایک نظر پورے کمرے پر ڈالی اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔اسے وہاں بیٹھے ماننے کتنا وقت ہوگیا تھا لیکن وجدان ابھی تک نہیں آیا،اس نے دیورا پر لگی گھڑی کو دیکھا جو رات کے دو بجے دیکھا رہی تھی۔

یعنی اسکا آنے کا کوئی ارادہ ہی نہیں تھا۔رملہ کا تو پارہ ہائی ہوگیا یعنی وہ اتنا بھاری جھوٹا پہنے اسکا انتظار کر رہی تھی لیکن وہ تھا کے آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔اس نے غصے سے کیلوری اتارنی شروع کی۔
صبح دس بجے کے قریب اسکی آنکھ کھلی۔رات کو اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب سو گئی تھی۔
وہ اٹھی تو سر میں ہلکا سا درد ہونے لگا تھا۔اسے خیال آیا کہ اس نے تو کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔وہ اٹھی اور اپنا جیسے ہی وہ واش روم میں جانے والی تھی۔
وائٹ ڈریس شرٹ پینٹ میں۔ ملبوس وجدان ٹاول سے بال رگڑتا ہوا باہر آیا اور اسے اپنے سامنے دیکھ کر ٹٹکا۔

گ-گوڈ مورنگ ۔بمشکل مسکرا کر کہا جبکہ رملہ اسے گھور کر اپنا لہنگا ہاتھوں میں تھام کر واش روم میں بند ہوگئی۔وجدان نے ٹاول وہی بیڈ پر پھینک دیا اور سنگار میز کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
چل بیٹا وجدان اٹھا اب بیوی کے نخرے۔بالوں میں برش کرتے ہوئے بڑبڑایا۔صبح کے چار بجے وجدان گھر لوٹا تھا۔اور باہر سے سیدھا کمرے میں آیا تھا مگر کمرے کا دروازہ کھول کر اسے لگا۔
کہ اس نے کمرے میں آکر غلطی کی کیونکہ کمرے کی ہر چیز اپنی حالت پر رو رہی تھی۔صودے کے کشنز زمین پر پڑے سجدے کر رہے تھے،بیڈ شیٹ آدھی زمین پر اور آدھی بیڈ پر تھی۔
رملہ کی ساری جیولری زمین پر پڑی تھی جبکہ اسکا دوپٹہ بیڈ کے پائینی پر پڑا تھا۔اقر وہ خود آرام سے بیڈ پر لیٹی سو رہی تھی۔
مجبوراً ممی یا ملازموں کے کمرے میں آنے سے پہلے وجدان کو ہی سب سمیٹا پڑا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ اگر ممی یہ سب دیکھتی تو ضرور اسے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا اور ویکٹم ہوکر بھی اسے سزا سنائی جاتی۔
———————–
ایک کام دیا تھا تمھیں وہ بھی ڈھنگ سے نا کرسکے،لعنت ہے تم ہر کاظم۔۔۔۔۔وہ اپنے باپ کے سامنے سر جھکا کر کھڑا تھا۔جبکہ وہ بھوکے شیر کی طرح ادھر اسے ادھر ٹہل رہا تھا۔
سوری ڈیڈ۔
واٹ سوری ہاں واٹ سوری ،کیا تمھاری اس دو ٹکے کی سوری سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا تمھیں اندازا بھی نہیں ہیں کہ تمھاری اس غفلت کہ وجہ سے ہم کتنی بڑی مصیبت میں پھنس سکتے ہیں۔وہ بھوکے شیر کی طرح پھنکارے تھے۔

ڈیڈ اب کیا کرنا ہے اگر وہ سامنے آگئی اور سب کچھ سچ سچ بتا دیا تو۔
بکواس کرنے سے بہتر ہے کہ اسے ڈھونڈوں۔۔۔۔۔۔۔اہ کاظم اہ اگر تم اسے وہی اسکاٹ لینڈ میں ہی مار دیتے تو نوبت آج یہاں تک نا آتی،اب میرا منھ کیا دیکھ رہے ہوں اسے ڈھونڈوں۔وہ جانے کے لیے مڑا تھا کہ آواز دے کر اسے روکا۔

مجھے وہ دونوں چاہئیے ہر حال میں۔تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔تو کاظم سر جھکا کر باہر نکل گیا۔جبکہ وہ کھڑکی کے سامنے جاکر کھڑا ہوا۔
——————

ان کی شادی کو تین مہینے ہوچکے تھے مگر رملہ نے آج تک وجدان کو مخاطب تک نہیں کیا۔اج جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو
وہ شیشیے کے سامنے کھڑی بال برش کر رہی تھی جب وہ اس کے پیچھے اکر کھڑا ہوا۔رملہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور اپنے
کام میں مشغول ہوئی۔
کب تک نظر انداز کرنے کا عہد لیا ہوا ہے۔ا سکے ہاتھ سے برش لے کر سنگار میز پر رکھا اور خود اسکے ہاتھ پکڑ کر اسے پیچھے
سے اپنے حصار میں لیا۔رملہ نے اسکے ہاتھوں کو ہٹھایا۔
وہ جانے والی تھی کہ اسے کالئی سے پکڑ کر روکا۔
اچھا یہ تو بتاتی جاؤ اس عہد کا  ایکسپائر ڈیٹ کب ہے مناہل تم سے ملنا چاہتی ہے۔رملہ نے گھور کر اسے دیکھا۔
دوست کی بیوی ہے۔ہاتھوں کو سرینڈر والے انداز میں اٹھائے۔وہ اسکے سامنے آکر کھڑا ہوا۔
ویسے پہلی بیوی سے بھی ملوا لوں گا اور اس سے مل کر یقینا دعائیں ہی دو گی مجھے۔یہ کہتے ساتھ ہی وہ باہر نکل گیا۔
بغیرت ادمی۔رملہ بھی پیر پٹختی ہوئی اسکے پیچھے نکل گئی۔
۔وہ باہر لان میں آئی تو مسز نیازی کسی سے فون پر بات کر رہی تھی ۔رملہ آکر لان میں رکھے چئیرز پر بیٹھ گئی۔کں ایک ملازمہ چائے کہ ٹرالی گھسیٹتے ہوئی ائی۔
اور میز پر رکھنے لگی۔
مسسز نیازی بھی فون بند کرکے بیٹھ گئی وہ بہت تیار سی تھی شاید انہوں نے کہی جانا تھا ۔خیر رملہ نے چہرہ موڑ کر سورج کی کرنوں میں چمکتے ٹیولپ کو دیکھا۔

ملازمہ نے دونوں کو چائے کا کپ دیا اور چلی گئی۔رملہ لان میں لگے ٹیولپ کو دیکھنے لگی۔
یہ میرے لیے بہت خاص ہیں۔۔اسکی نظروں کی تعاقب میں مسسز نیازی نے ٹیولپ کو دیکھا جسے مالی ابھی ابھی پانی دے کر چکا گیا تھا اور سورج کی کرنوں کی وجہ سے پانی کے قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔
۔رملہ نے چہرہ موڑ کر انہیں دیکھا ان کی آنکھ میں کچھ چمکا تھا شاید انسو۔
میری دوست کو بھی بہت پسند ہیں ٹیولپ۔
اسے بھی بہت پسند تھے۔بلکہ وہ تو اسکی دیوانی تھی ہر وقت وہ انہیں کے پاس بیٹھی رہتی۔اپنی آنکھ کا کونا شہادت کی انگلی سے صاف کر کے مسکرا کر کہا

وہ پھر ایک دن وہ کہی چلی گئی۔اور واپس نہیں ائی۔اس دن مسسز نیازی جتنا روئی تھی شاید وہ اتنا کبھی اپنے بیٹوں کے غم پر روئے۔
۔
کیا اپکو وہ بہت یاد آتی ہیں؟
وہ کبھی بھولی ہی نہیں کہ وہ یاد ائے۔انسو کے درمیان مسکرائی تھی۔پھر دونوں کے درمیاں بہت خاموشی چھا گئی۔
وہ مسلسل ٹیولپ کو ہی دیکھے جارہی تھی
۔
انار کلی کو جانتی ہو۔ان کے پوچھنے پر رملہ نے زور سے ہاں میں سر ہالیا شکر ہے کہ اسے یہ تو پتہ تھا۔ورنہ تو وہ ایشیا کے
کسی بھی  سٹوری سے انجان تھی۔
اسے سلطان نے دیوار میں زندہ چھبوا دیا تھا نا۔رملہ کی انفارمیشن پر انہوں نے نا میں سر ہلایا تو وہ ناسمجھی سے اسے
دیکھنے لگی۔شاید وہ کسی دوسری ر انار کلی کی بات کر رہی تھی۔
اسے اپنے باپ نے دیوار میں چبھوایا تھا۔
لیکن اسکا باپ سلطان تھا نا۔رملہ نے ایک نظر انہیں دیکھا مطلب ایک ہی بات ہوئی نا۔
بلکل لیکن انارکلی کو  انہوں نے سلطان بن کر نہیں بلکہ باپ بن کر سزا دی تھی،اگر وہ سلطان بن کر سزا دیتے تو شاہد وہ
صرف قید کی جاتی  لیکن جس معاملے کی وجہ اسے دیوار میں چبھوایا گیا تھا اس میں ضد شامل تھی اسکے باپ کی ضد
کہ وہ سلیم سے شادی نہیں کرے گی اور یہ انکار انکی ضد بن چکی تھی۔
اس بار انہوں نے رملہ کو دیکھا جو انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔سورج کی کرنیں ٹیولپ پر سے ہٹ چکی تھی۔شام ہورہی تھی۔
مالی پانی کا پائپ بند کرکے وہاں سے جا چکا تھا۔
ضد کی وجہ سے انہوں نے اپنی گھر کی رونق کو اپنے ہاتھوں سے چھینا تھا۔کہتے ساتھ ہی وہ کھڑی ہوئی۔اور میز پر رکھا اپنا
کلچ اٹھایا۔
ضد کو چھوڑ دو بیٹا ایسا نا ہو کہ تم اپنا سب سے خوبصورت رشتہ کھو دو۔اتنا کہا اور داخلی دروازے کی جانب گئی جہاں
ڈرائیور گاڑی کے ساتھ کھڑا انکا انتظار کر رہا تھا۔وہ دیکھتے دیکھتے انکی گاڑی وہاں سے غائب ہوئی۔
تو رملہ بھی ہوش میں آئی۔اس نے تو قصے  کو کسی اور رو سے پڑھا تھا۔۔اسے آج یقین ہوگیا تھا کہ ایک سطر کو دو انسان
ایک ہی طرح سے نہیں پڑھ سکتے۔
اس نے انار کلی اور شہزادہ سلیم کے قصے کو صرف ایک سیڈ سٹوری کی بنا پر پڑھی تھی۔مگر انہوں نے،انہوں نے تو اس میں
کچھ اور پرکھا تھا انہوں نے تو بہت پیارا سبق اخذ کیا تھا اس قصے سے۔
وہ تو اپنے لک انداز سے ایک بہت الپرواہ سی ماں معلوم ہوتی تھی مگر وہ ایسی نہیں تھی،رملہ نے محسوس کیا تھا اسے اپنا
خاندان بہت عزیز تھا۔وہ اپنے بیٹوں اور شوہر کا ہر کام خود کرتی تھی۔
وہ تو کھانا بھی خود بناتی تھی۔انکا خاندان محتلف تھا رملہ کے خاندان سے،اس کے خاندان میں تو ایک دوسرے کی کسی بات
کی پرواہ تک نہ تھا ان کے گھر میں تو کوئی گھر آتے ایک دوسرے کو سالم تک نہ کرتا۔
اس نے تو اپنے بھائی علی سے شاید ایک دو دفہ بات کی تھی،جب وہ پانچ سال کہ تھی تب علی بورڈنگ گیا تھا اور پھر شاید
وہ اپنے گریجویشن کے بعد صرف ایک دفہ آیا تھا اور اس وقت وہ اسکاٹ لینڈ میں تھی۔
اس لیے صرف فون پر ہی اس سے بات کرسکی۔اس نے تو سب سے زیادہ وقت ضوفی کے ساتھ گزارا تھا۔
اسے تو رشتے کے نام پر صرف ضوفی کا رشتہ مال تھا۔جو اسکے لیے سب کچھ تھی۔وہ تو ہر وہ بات جو وہ اپنی ماں سے نہیں
کہتی تھی ضوفی سے کہہ دیتی تھی مگر شاید اب تو اسکی ضوفی بھی اسے بھول گئی ہیں۔
اس نے ایک نظر اپنے فون پر ڈالی۔ابھی تک ضوفی نے کال نہیں کی تھی اسے،اور پھر ایک نظر دروازے پر ڈالی اسے اپنے یہ
خوبصورت رشتے نہیں کھونے تھے ،مگر شاید وہ یہ بھول گئی تھی رشتوں کی محبت تو اسکے قسمت میں ہی نہیں لکھے گئ۔
اس نے ایک مایوس کن نظر آسمان پر ڈالی ،مگر وہ انجان تھی کہ دعا بھی اللہ کی ایک نعمت ہے جو پر چیز حتٰی کہ تقدیر
بھی بدل دیتی ہے۔
اگر دعا سے کچھ نا ہوتا تو اللہ کبھی بھی انسان کو دعا کرنا ہی نا سیکھاتا۔
—————-
وہ لمبے لمبے ڈھگ بھرتا لاونج میں داخل ہوا۔اسکے ہاتھ میں ایک فائل بھی تھا۔رملہ وہی لاونج میں بیٹھی بے مقصد ٹی وی پر چیلنز بدلنے میں مصروف تھی۔
الینہ الینہ۔وہ ملازمہ کو آواز دینے لگا تو وہ بھاگ کر آئی اور دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوئی۔
یہ فائل میرے سٹڈی میں رکھ آؤ ۔۔۔۔۔اور ہاں سنو ممی بابا کہاں ہیں۔صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔اور شرٹ کے آستین موڑنے لگا۔
انٹی اور انکل پارٹی میں گئے ہیں اور احمر بھائی ابھی تک نہیں ائے۔
الینہ کے بجائے رملہ نے چہرہ موڑ کر جواب دیا اور دوبارہ سامنے دیکھنے لگی۔اس نے الینہ کو ہاتھ سے جانے کا اشارہ کیا تو وہ سر کو خم دے کر چلی گئی۔
جبکہ وہ خود چل کر رملہ کے سامنے میز کے کونے پر بیٹھا۔اور اسکا ہاتھ ہاتھوں میں بھر کر نرم آواز میں پوچھا۔
ناراض ہو؟
میں ناراض نہیں ہوں۔اسکے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکال لیا۔
یقینا تم اس رات کی وجہ سے ہرٹ ہو ۔مجھے معاف کر دو مجھے جلدی آجانا چاہئیے تھا مگر۔ابھی وہ مزید کچھ کہتا کہ وہ کھڑی ہوئی۔

مجھے ہرٹ آپ نے اس رات کیا تھا جس رات آپ مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے،اور عین نکاح کے وقت اکر ثابت کیا کہ مجھے تو تم سے محبت ہے،اس سے پہلے کس کرب سے گزری تھی میں اپکو اندازا تک نہیں آپکی بھائی کی بیوی بننا یہ سوچ ہی مجھے مارے جارہا تھا اور آپ اپکو تو شاید میں یاد تک نہیں تھی نا ۔وہ ہزیانی انداز میں چیخی تھی،انسو انکھوں سے بہہ چکے تھے۔اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اس کے پاس ایا۔
وہ im sorry۔اسکے آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

اگر -اگر نکاح کے وقت آپ نا آتے ت-تو احمر بھائی سے میری شادی ہو جاتی لیکن اپکو اپکو تو ذرا برابر بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔اپکو کسی کی فیلنگز کی کوئی پرواہ تک نہیں ہوتی۔ان دو مہینوں میں ،دو مہینوں میں آپ نے یہ تک نہیں کہا تھا کہ رملہ میرا انتظار مت کرو نہیں کرتا میں تم سے محبت اور آپ جانتے تھے میری فیلنگز کو لیکن نہیں اپکو تو مزہ آتا ہے نا لوگوں کو تکلیف دیتے ہوئے۔
وہ روتے ہوئے نیچھے بیٹھ گئی۔اور وجدان پر تو آج دوسرا انکشاف ہوا تھا۔وہ اسکے سامنے دونازوں ہوکر بیٹھ گیا۔

میں کم از کم تمھیں تکلیف نہیں دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا رملہ۔اسکے گال کو اپنے ہاتھ سے سہلانے لگا۔تو وہ سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اس کے گلے میں بازوں ڈال کر تیز تیز رونے لگی۔
میں–میں آپ آپ سے بہت محبت کرتی ہوں وجدان،اتنا کہ —– آپ کے بغیر خود کو کرتا ہوا تصور کرتی ہوں۔وہ ہچکی لیتے ہوئی بولی۔اس سر پھری لڑکی کی اس قدر دیوانگی دیکھ کر اسے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا وہ اس سے کیسے غافل ہوسکتا ہے۔
مگر قصور اسکا بھی نہیں تھا وہ تو اسے خود سے دور رکھ بچا رہا تھا اسے استعمال ہونے سے بچا رہا تھا اسے ہاتھ کا کھلونا بننے سے بچا رہا تھا۔
!گر شاید وہ خود بھی اس سے دور نہیں رہ سکتا تھا،وہ تو اسکی ہر سانس میں شامل ہوگئی تھی اور اسکا اندازہ اسے اس رات ہوا تھا جب احمر اسے اپنی بیوی کہہ رہا تھا۔
وجدان آہستہ آہستہ سے اسکے بال سہلانے لگا،اسکی ہچکیاں اب کم ہوگئی تھی،وہ آہستہ سے اس سے الگ ہوئی۔
وجدان نے میز پر سے ٹشو اٹھایا اور خود اسکے آنسو صاف کرنے لگا۔رونے کی شدت سے اسکی ناک لال ہوچکی تھی۔
اسکی سرخ ناک دیکھ کر وجدان کی ہنسی چھوٹی تو رملہ نے گھور کر اسے دیکھا۔تو کو معذرت کرنے لگا۔
بیغیرت ادمی۔
جیسا بھی ہو تمھارا ہوں۔ہنس کر کہا
بہت پرانا ڈائلوگ تھا ویسے یہ۔ٹشو سے ناک صاف کرتے ہوئے کہا تو وہ کھڑا ہوا۔
اچھا اب جلدی سے تیار ہوکر آو لیٹ ہوکر میں مناہل کو ناراض نہیں کرسکتا۔باہر جاتے ہوئے کہا۔تو رملہ نے بغیرت آدمی کہنا نا بولی،جس ہر وہ قہقہہ لگاتا باہر نکل گیا یقینا اس نے سن لیا تھا۔
—————–
تھوڑی دیر بعد انکی گاڑی ایک بہت پیاری سے گھر کے سامنے کھڑی تھی۔وجدان گاڑی کو گھر کے اندر لایا کیونکہ دروازہ کھولا ہوا تھا یقینا اسکا دوست اسکے ساتھ ہی آیا تھا۔گاڑی سے اتر کر وہ رملہ کہ طرف آیا اور اسکے جناب کر دروازہ کھولا تو وہ بھی باہر آئی۔
گھر کے دروازے پر ہی اسے اسکا دوست ملا جو دروازہ کھولنے کا انتظار کر رہا تھا۔اسکا چار سال کا بیٹا بھی اسکے ساتھ جو مسلسل اسے سے باتیں کر رہا تھا۔
اپنے پیچھے کسی کی قدموں کی آہٹ کو محسوس کرکے اسد پیچھے مڑا تو وجدان مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔
ارے کمینے انسان اتنی جلدی آنے کی کیا ضرورت تھی۔وجدان کے گلے لگتے ہوئے کہا۔تو دونوں کو مشترکہ قہقہہ بلند ہوا۔
کیسی ہے آپ بھابھی،مناہل کب سے آپکا انتظار کر رہی ہیں۔اسکی بات ہر رملہ صرف مسکرائی تھی۔جبکہ اسکی بیوی دروازہ کھول چکی تھی۔

اور اب وہ رملہ سے گلے مل رہی تھی۔کچھ دیر بعد وہ سب ڈنر کر رہے تھے،جبکہ مناہل اپنے چار سالہ بیٹے ہو کھلا رہی تھی۔
بیت زکر کرتا تھا وجدان تمھارا۔مناہل کی بات ہر اس نے وجدان کو دیکھا جو مسکرا کر کھا رہا تھا۔
تم ہماری شادی پر نہیں آئی تھی۔رملہ نے پانی کا گلاس لیتے ہوئے کہا۔
ہاں اس دن میں امی کے ہاں تھی دراصل میری بھابھی کی ڈیلیوری تھی۔انکا بیٹا ہوا ہیں۔
مناہل نے مسکرا کر بتایا ساتھ میں وہ اپنے بیٹے کو کھانا بھی کھلارہی تھی۔

او مبارک ہو۔رملہ کی مبارکباد پر مناہل نے خیر مبارک کہا۔
تمھیں اندازا بھی نہیں رملہ کہ جس دن احمر اور تمھاری شادی کی بات ہوئی تھی اسکی کیا حالت تھی۔
کاش اس دن میں یہاں پناہ ہی نا لیتا۔سب کا مشترکہ قہقہہ بلند ہوا۔
————

باب :4

 

تم سمجھ سکتے ہو

اور جب تم

اسکی آنکھوں سے

دل کا بھید پالو

اور اس کے لب و لہجے سے

روح کی باریکیوں کو سمجھ سکو

اور جب تم

اپنے سارے تصورات بھالا کر

ساری خواہشات اور ارادے مٹاکر

نگاہیں اس کے حسن پر جمالو

اسکے خیال کی قوس قزح سے

زندگی سجالو

اور جب تم

اپنی خوابگاہ میں

آنکھیں بند کرکے

اس مقناطیسی قوت کی طرف کھچ سکو

جو صرف اسی کے بدن میں پوشیدہ ہے

اور جب تم اس کے بے گناہ قیدی کی مثل ہو چکا

جسے عمر کی زنجیروں میں جکڑ کر

نامعلوم مقام پر لے جایا جارہا ہو

اور جب تم اپنے رگ و پے میں

زہر سی تلخی محسوس کر لو

اور مشرق سے مغرب تک

تنہا چکر کاٹ کر

اس دوراہے پر پہنچ چکا

جہاں موت

زندگی سے ہم کنار ہوتی ہے

تم سمجھ سکتے ہو

ہستی کے ان مخفی اسرار و رموز کو

کہ جن کو جاننے کے لیے

اس ہاتھ کو بوسہ دینا ضروری ہے

جنہوں نے تمھارے چہرے کو

نمکین پانی سے غسل دیا!

(از بشری سعید)

مئی کا مہینہ شروع ہوچکا تھا۔دس دن بعد پہلا روزہ ہونے والا تھا۔ایسے میں انکا گھر مہمانوں سے بھر ا ہوا تھا،مہمان زیادہ تو نہیں تھے مگر آنا گھر ہی اتنا چھوٹا تھا کہ مہمانوں کی تعداد کافی زیادہ لگ رہی تھی۔
اس وقت وہ اپنی بہن کے ساتھ اسکے کمرے میں بیٹھا تھا۔وہ لال جوڑے میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔مگر وہ خاموش تھی۔اسکے چہرے ہر وہ رونق نہیں تھی جو شادی کے وقت ہر لڑکی کے چہرے پر ہوتی ہیں۔
وہ اپنی بہن کے سامنے چئیر پر بیٹھا تھا جبکہ وہ کرسی پر۔
آپی اگر آپ خوش نہیں ہیں تو انکار کردے مما سے میں بات کر لوں گا اور ویسے بھی انکی ناراضگی دو دن بعد خود ہی ختم ہو جاتی ہیں۔اس نے مسکرا کر اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھا جو اب بڑا ہوچکا۔اپنی بہن کی ڈھال بن رہا تھا۔

میں خوش ہوں بس تم وعدہ کرو کہ مما کا بہت خیال رکھو گے انہیں کبھی بھی کسی کے لیے بھی اکیلا نہیں چھوڑو گے۔اس نے سرا اٹھا کر اسے دیکھا اور مسکرا کر گویا ہوا۔
کیا میں اپکو انکار کر سکتا ہوں۔اسکی بات پر وہ مسکرائی اور نفی میں سر ہلایا کہا کچھ بھی نہیں کہ شاید آنسو بہنے کو بےتاب تھے۔

کچھ دیر بعد اسے قرآن مجید کے سایے میں رخصت کر دیا گیا وہ ثنائل چوہدری سے ثنائل ضمران بن چکی تھی۔تھوڑی دیر پہلے ان کے گھر میں موجود چہل پہل ختم تھی۔وہ اپنی ماں کے ساتھ باہر صحن میں بیٹھا تھا۔اج آسلام آباد کا درجہ حرارت بھی 29 تک پہنچ چکا تھا۔
اسکی ماں کب سے روئے جارہی تھی مجال ہو جو چھپ ہوتی۔
مما خود ہی تو آپ اسے شادی کرنے پر فورس کر رہی تھی اور اب نجانے کب سے روئی جارہی ہیں اپ۔
بیٹیوں کو رخصت کرنا فرض ہوتا ہے میں اپنا فرض پورا کیا مگر دکھ بھی ہے اسے بچن سے جوانی تک پالا میں نے اور کے گئے اسے پرائے لوگ۔اپنے دوپٹہ سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔

مما وہ پرائے تو نہیں ہیں اب آپی کے سسرال والے بن گئے اور آپ ہی تو کہتی ہیں کہ لڑکی کا سسرال ہی اسکا اپنا گھر ہوتا اب وہ اپنی گھر گئی ہیں پرائے گھر تھوڑی گئی ہیں۔اس بات پر اسکی ماں نے اسے گھورا۔
بہت ہی باتیں بنانی آگئی ہیں تمھیں یہ سب اس اقرا کی کارستانی ہے نا خود بھی اتنا بولتی تھی اور اب تم بھی اسی کی طرح بن گئے۔وہ تو اسے سنانے لگ گئی اور کیچن میں چلی گئی۔
جبکہ وہ مسکرا کر سر ہلانے لگا۔
——————-
تیرہ رمضان تھا۔اور ریاست پاکستان میں آج ووٹوں کا دن تھا۔تمام سرکاری سکول میں پولنگ سٹیشن بنائے گئے تھے۔ووٹ تقریباً صبح آٹھ بجے شروع ہوئے تھے۔اور شام پانچ بجے تک ووٹنگ کا عمل جاری رہنے کا امکان تھا۔
دن کے دو بج رہے تھے۔پاکستان یوتھ لیگ سے وجدان نیازی،پی پی ایل سے سلطان دلاور خان اور جماعت علماء سے مولانا سید ابو الحسن سب سے آگے تھے۔
وجدان ،سلطان اور باقی تمام پولیٹیشن اپنے اپنے دفاتر میں بیٹھے پل پل کی خبروں باخبر رہنے کے لیے ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے۔

وجدان اپنے آفس میں بیٹھا کسی سے فون پر بات کر رہا تھا کہ رملہ اندر ائی۔تو مسکرا کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
لگتا ہے اپنا ووٹ کاسٹ کر چکی ہو۔جب وہ فون سے فارغ ہوا تو اس کے سامنے والی کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔
اور اپنے شوہر کو تو شاید بلکل بھی نہیں دیا۔اسکی بات پر وہ سر جھکا کر ہنسا۔
اچھا یہ تو بتاؤ کس کی پارٹی آگے ہے۔اس نے وجدان کے آفس میں لگے سکرین کی طرف اشارہ کیا جس پر تقریبا ہر پارٹی کا موجودہ ووٹ سٹیٹیس شو ہوریا تھا۔

ابھی تک تو کسی کا شوہر آگے تھا مگر اسکی بیوی نے غداری کرکے اسکے مخالفین کو ووٹ دے کر اسے پیچھے کر لیا۔اپنے کان کی لو کجاتے ہوئے کہا تو وہ سر پیچھے کو پھینک کر ہنسنے لگی۔

اور یقیناً اسکی بیوی نے ایک بہادری والا کام کیا ہیں۔
بغیرتوں والا۔
نہیں وہ کام اسکا شوہر کرتا ہے اس لیے اسکی بیوی نے اسے ووٹ نہیں دیا۔اسکی اس قدر خاضر جوابی پر وہ ہنسا تھا۔جب اسکا سکیٹری اندر ایا۔

سر جماعت علماء والے آئے ہیں۔اسکا سکیٹری کہہ کر باہر چلا گیا جبکہ رملہ کھڑی ہوئی۔
میں بھی چلتی ہوں۔
بس اپنی غداری کا بتانے آئی تھی نا۔وہ بھی ساتھ میں کھڑا ہوا تھا۔اسکی بات پر وہ ہنسی تھی۔
رملہ وجدان کبھی بھی اپنے بغیرت شوہر سے غداری نہیں کرسکتی ۔کہتے ساتھ ہی وہ تیزی سے نکلی جبکہ بغیرت والے نے لفظ اسکا سارا کا سارا موڈ خراب کر دیا مطلب یہ کہنا ضروری تھا۔
مسکرا کر سر جھٹکا اور باہر نکل گیا۔
شام کے آٹھ بجے رہے تھے۔افطاری کے بعد سب ووٹنگ کی گنتی شروع ہوچکی تھی۔ابھی تک ووٹنگ سے جماعت علماء کی پارٹی آگے تھی۔
وہ دو انگلیاں منھ پر رکھے یک ٹک سکرین کو دیکھ رہا تھا،اسے ابھی بھی جیتنے کی امید تھی۔
رات کے ساڑھے نو بج گئے تھے مگر ووٹ کی گنتی شروع تھی۔اسکی پارٹی اور پی پی ایل میں کانٹ کا مقابلہ تھا۔
ایک ایک حلقے کے نتیجے سے دونوں پارٹیاں آگے پیچھے ہو رہی تھی۔وہ اٹھ کر تروایح پڑھنے گیا۔
ابھی اس نے اخری رکعات کے بعد سلام پھیرا ہی تھا کہ اسکے پارٹی اک سینیٹر اس کے پاس آیا۔اسے دعا کرتے دیکھ وہ وہی کھڑا ہوا ۔دعا کرکے وہ جائے نماز اور ٹوپی میز پر رکھتا اس کے پاس آیا۔
انشاء اللہ اگلے بار جیت ہماری ہوگی۔اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
سر ہم جیت رہے تھے لیکن آخر ہی منٹوں میں نتیجہ تبدیل کر دیا گیا اور سلطان کی پارٹی اکثریت لے گئی۔اس نے مسکرا کر اسے دیکھا جس کی شکل رودینے کو تھی۔

ہر چیز اللہ میں اللہ کی حکمت ہوتی ہیں اور ہمیں اللہ کے فیصلوں پر سر خم کرنا چاہئیے۔
وہ جوتے پہن کر باہر جانے لگا اسکے ساتھ اسکا سیکٹری بھی تھا۔
گھر آکر رملہ سمیت سب باہر لان میں بیٹھے اسکا انتظار کر رہے تھے۔وہ اندر ہی جانے والا تھا کہ عاطف نیازی نے اسے آواز دے کر روکا۔تو وہ ان کے پاس ایا۔
رملہ نے اسے پانی کا گلاس تھمایا۔جسے مسکرا کر اس نے پکڑا اور پینے لگا۔

اب کیا کرنا ہے۔سوال ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے عاطف نیازی نے ہی کیا۔جس پر وہ مسکرایا۔
صبر۔۔سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔
مجھے اللہ پر کامل یقین ہیں وہ کبھی بھی باطل کو غالب نہیں آنے دے گا۔اتنا کہہ کر وہ اندر چلا گیا۔رملہ بھی اسکے پیچھے ہی چلی گئی۔

رملہ کمرے میں آئی تو وہ بیڈ پر لیٹا تھا اسی کپڑوں میں۔اے سی کی ٹھنڈک کی وجہ سے وہ کمفرٹر اوڑھے رکھا تھا۔
وجدان میرا یقین کرو میں صرف مذاق کر رہی تھی میں ووٹ تمھاری ہی پارٹی کو کاسٹ کیا تھا۔وہ اسکے ساتھ بیڈ پر بیٹھتی ہوئی بولی۔تو وہ مسکرا کر اس کی طرف مڑا اور بیٹھ گیا۔
مجھے پتہ ہے کہ میرے سامنے بیٹھی یہ لڑکی دنیا کے ہر چیز پر مجھے فوقیت دے گی۔اس نے مسکرا کر رملہ کے ماتھے پر بوسا دیا۔
آپ دکھی ہیں؟
تھوڑا سا۔لیٹے ہی جواب دیا۔اسکے جواب پر رملہ کا چہرہ مرجھا گیا وہ اٹھنے لگی۔
رملہ زرا سحری سے تھوڑا پہلے اٹھا لینا مجھے۔رملہ نے سر ہلاکر جواب دیا اور چلی گئی۔
کیچن میں مسسز عاطف کھڑی سحری بنا رہی تھی۔جبکہ الینہ چیزیں رملہ کو دے رہی تھی اور وہ ڈائینگ ٹیبل پر رکھ رہی تھی۔وجدان کو وہ آدھا گھنٹہ پہلے ہی اٹھا چکی تھی۔جبکہ عاطف صاحب اور احمر اب تک سو رہے تھے۔
وجدان لاونج میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ یکدم وہ اٹھ کر باہر چلا گیا۔اسے کسی کا فون آیا تھا۔
رملہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور دوبارہ سے کام میں مگن ہوگئی۔عاطف اور احمر بھی اٹھ کر نیچھے آگئے تھے مگر وجدان ابھی تک نہیں آیا تھا۔

وہ سب بیٹھے سحری کر رہے تھے۔ساتھ میں ایک نظر ٹی وی کو بھی دیکھ رہے تھے کہ اچانک وجدان سمیت اسکے پارٹی کے سینئر رہنما کھڑے پریس کانفرنس کر رہے تھے سب کے چہروں پر خوشیوں کی انتہا تھی۔
وجدان نیازی زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے۔وجدان مسکرا کر وہاں کھڑا میڈیا سے گفتگو کر رہا تھا۔
وجدان کے پارٹی کے سندھ میں موجود ارکان کی ووٹنگ کی گنتی وہ لوگ ایڈ کرنا بھول گئے تھے۔جیسے ایڈ کرنے پر وجدان کی پارٹی بھاری اکثریت کے ساتھ الیکشن جیت چکی تھی۔اسکا اللہ پر کامل یقین رنگ لے آیا تھا۔
اس نے اپنے اللہ کو مایوس نہیں کیا تھا تو وہ مہربان ذات جو اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہیں وہ اپنے اس بندے کو جو ہر حال میں اس پر کامل یقین رکھے ہوئے تھا وہ کیوں اسے مایوس کرتا۔
اب وہ اپنے رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کررہا تھا۔

خوشی اسکے چہرے پر واضح دیکھائی دے رہی تھی۔رملہ کی تو خوشی کی انتہا نہیں تھی۔عاطف کو مسلسل فونز پر فونز آرہے تھے جس کی وجہ سے وہ کمرے میں چلے گئے جبکہ وہ سب لاونج میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے۔
——————–
وجدان کو وزیراعظم بنے ہوئے تین مہینے ہوچکے تھے۔اس نے وزیراعظم ہاؤس کو عوام کے لیے کھول دیا تھا۔جبکہ وہ خود اپنے باپ کے گھر رہ رہا تھا۔
اس نے پنجاب اور کے پی کے ٹیکسٹائل ملز جو کہ پیچھے حکومت نے بند کیے تھے۔مخض اس بنا پر کہ ملک کا خزانہ خالی ہوچکا تھا۔
وجدان نیازی نے سب سے پہلے گاڑیوں،گھڑیوں اور موبائلز فون پر پچاس پچاس فیصد ٹیکس بڑھا دیے جبکہ روز مرہ کے گھریلو سامان اٹا،دالیں وغیرہ کو سستی کرکے عوام کو ریلیف دی۔
وہ بڑا شاطر نکلا ۔۔۔۔۔۔ وہ جان چکا تھا کہ ہم رملہ کو سیاست میں اس کے خلاف استعمال کرنے والے ہیں اس لیے ڈائیریکٹ وہ وزیراعظم کے عہدے تک پہنچ گیا۔یہ منظر سلطان دلاور خان کے آفس کا تھا جہاں اسکے تمام اہم رہنما بیٹھے تھے۔
اس کے کام کو دیکھ کر عوام تو ہر بار ہی اسے ووٹ دے گی۔ان میں سےا یک سینئیر رہنما بولا جبکہ باقی سب نے اسکی تاکید کی۔
اب تو میں وہ سب کروں گا کہ یہ مرتے دم تک نہیں بھولے گا۔سلطان کی بات پر سب نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
——————–
گرمی اپنا چہرہ مڑ رہی تھی،ستمبر کے مہینے میں ہوا کافی ٹھنڈی ہوچکی تھی۔وجدان کی حکومت بہت اچھا رزلٹ شو کر رہی تھی۔وجدان نے بہت سے عوامی پروگرامز کا افتتاح کر چکا تھا۔
عوام اسے سے بہت خوش تھی۔آج وہ بہت دنوں بعد رملہ کے ساتھ باہر آیا تھا۔کیونکہ جب سے وہ وزیراعظم بنا تھا۔وہ مسلسل غیر ملکی دوروں پر ملک سے باہر رہتا۔
آج اتنی مہربانی ہم پر کیوں کی جارہی ہیں۔وہ دونوں مارگلہ ہلیلز پر پیدل جا رہے تھے۔اور دونوں کے ہاتھوں میں آئس کریم کے کپ تھے۔اسکی بات پر وہ ہمیشہ کی طرح صرف ہلکا سا مسکرایا تھا۔
کل سے پھر دو ہفتوں کا دورہ ایران ہیں۔رملہ اسکی بات پر روک گئی تو اس نے مڑ کر اسے دیکھا۔
تمھیں سیاست میں آنا ہی نہیں چاہئیے تھا یا مجھ سے شادی نہیں کرتے۔وہ ناراض ہوگئی تھی۔
یہ آخری غیر ملکی دورہ ہے۔امسکرا کر اسے کندھوں سے اپنے ساتھ لگایا اور چلنے لگا۔
ویسے اپکو ایک بات بتانی تھی۔رملہ نے وہاں بینچ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
ہاں بولو نا۔
وہ میں۔۔۔۔رملہ بولنے والی تھی کہ اسے کسی کی کال ائی۔تو وہ فون اٹینڈ کرنے کے غرض سے تھوڑا دور گیا۔
اسے کافی وقت ہوا فون پر بات کرتے جبکہ رملہ گاڑی میں آکر بیٹھ گئی تھی۔۔سعد ہواؤں کی وجہ سے فضا میں تھوڑی ٹھنڈ بڑھ گئی تھی۔
وہ تقریباً پینتیس منٹ تک فون پر بات کرتا رہا اب جاکر اس نے فون بند کیا تھا۔تو آکر رملہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔
ہاں تم کچھ بول رہی تھی۔۔۔بیک ویو مرر میں دیکھتے ہوئے وہ گاڑی ریورس کرنے لگا۔
نہیں کچھ خاص نہیں۔۔۔رملہ کی بات پر وجدان نے کندھے آچکا ہے مطلب تھا تمھاری مرضی ا،قور گاڑی بھگالے گیا۔وہ گھر جانے والے تھے۔
—————–
وجدان کو ایران کے دورے پر گئے پانچ دن ہوگئے تھے۔امیریکن ٹائم میں بھی ایران اور پاکستان کی دوستی سرخی بنی ہوئی تھی۔ایران اور پاکستان کے درمیان بہت سے معاہدے طے پائے،دونوں نے مشترکہ طور پر فلسطین اور کشمیر کی مدد اور ان کے مسلے کا پہلو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا عظم کیا۔
ہر اخبار کے فرنٹ پیج پر ایرانی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم وجدان نیازی کی تصوریر چپھی ہوئی تھی۔
ابھی بھی وہ تہران میں تھا اور ابھی ابھی وہ ایک میٹنگ سے فارغ ہوکر اپنے کمرے میں آرام کر رہا تھا کہ اسکا سکیٹری اندر آیا
سر ۔اسکے ہاتھ میں اسکا لیپ ٹاپ بھی تھا۔وہ اسکے سرہانے کھڑے ہوکر چیخ رہا تھا۔
ہمم کیا ہے۔وہ ابھی بھی نیند میں تھا۔تکیہ سر پر رکھا ہوا اس سے مخاطب ہوا۔
سر اٹھ کر سوشل میڈیا چیک کرے آپکی وارنٹ گرفتاری جاری کر دی گئی ہے۔ایک دم وہ بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
کیا بکواس ہے کسی گرفتاری۔سکیٹری نے لیپ ٹاپ آگئے کیا اور وہ خبر پڑھتے ہی اسکی آنکھیں پوری کی پوری کھل گئی۔نیند تو جیسے بھاگ ہی گئی تھی۔اس نے جلدی سے اپنا فون اٹھایا۔اور کال ملانے لگا۔
یہ کیا بکواس چل رہا ہے نیوز پر ہاں۔ایک دم وہ دھاڑا۔
سر ہمیں خود نہیں معلوم آج ہی آپکی وارنٹ گرفتاری جاری ہوئی ہیں اپکو جلد از جلد پاکستان آنا ہوگا۔دوسری طرف والے نے جیسے اسے مشورہ دیا ۔وجدان نے ڈائریکٹ فون بند کیا اور چپل میں پاؤں اڑسے۔

جلد از جلد تیار کرع ہم ابھی کے ابھی پاکستان جارہے ہیں۔اپنے سیکٹری سے کہا تو ہو سر کو خم دے کر باہر چلا گیا جبکہ وہ خود واشروم میں گھس گیا۔
ایرانی نیوز پر بھی وجدان نیازی کی گرفتاری کی خبریں چل رہی تھی۔ایرانہ صدر باہر بیٹھا اسکا انتظار کر رہا تھا۔جب وہ باہر نکلا۔

یہ سب کیا ہورہا ہیں ۔انہیں باہر بیٹھا دیکھ کر وجدان ان کی طرف گیا۔
مجھے پتہ ہے یہ کس نے کیا ہے بہرحال یہ سب بے بنیاد خبریں ہے ہمیں مجبورا واپس جانا ڑ رہا ہیں۔وہ ایرانی صدر سے ملا اور سن گلاسز آنکھوں پر چھڑا کر اپنے تمام عملے کے ساتھ باہر نکل گیا۔
رملہ شاکڈ سی ٹی وی کے سامنے بیٹھی تھی اسکے ساتھ مسسز عاطف بھی بیٹھی تھی۔انکا چہرہ بلکل سپاٹ تھا۔جبکہ رملہ کے چہرے پر حیرانی کی حیرانی تھی۔
نیوز ر وجدان نیازی اور ضوفیشان ابراہیم کی ناجائز تعلقات کی بولیٹن چل رہی تھی۔اگر یہ بات صرف ناجائز تعلقات تک ہوتی تو شاید وہ لوگ اسے غلط ثابت کر دیتے مگر جھٹکا تو ان سب کو تب لگا۔
جبکہ سب کو معلوم ہوا کہ ضوفیشان ابراہیم پچھلے چھے ماہ سے پریگننٹ ہیں۔رملہ کو وجدان کا یوں ضوفی کی بات اگنور کرنا اب سمجھ میں آگیا۔
بیٹا یہ سب۔مسسز عاطف اپنے بیٹے کی صفائی میں کچھ کہتی کہ وہ اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔
وجدان کو اسلام آباد ائیرپورٹ پر ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔اوع اب پچھلے ہفتے سے وہ جیل میں تھا۔احمر اس کی طرف سے کیس لڑ رہا تھا لیکن کورٹ تاریخ پر تاریخ دئیے جا رہا تھا۔
اور وہ اچھی تک جیل میں تھا۔
آج یکم نومبر تھا۔رملہ پینک کرتا جو اسکے گھٹنوں سے تھوڑا سا اوپر تک ارہا تھا اس کے ساتھ جینز پہنے اونچی پونی ٹیل بنائے اپنے کمرے سے باہر نکلی۔
براؤن ہینڈ بیگ کندھے پر ڈالے وہ سیڑھیاں اتر رہی تھی۔لاونج میں ہمیشہ کی طرح مسسز عاطف بیٹھی تھی۔بیت ٹائم ہوگیا تھا۔

ان کے گھر والوں نے ایک ساتھ کھانا نہیں کھایا تھا۔عاطف اور احمر وجدان کے معاملات میں دن بھر گھر سے باہر رہتے کبھی بھی تو وہ رات کو بھی نہیں آتے تھے۔
رملہ سارا دن کمرے میں بند رہتی۔اور یہی سب کچھ انکا دل دکھائے جا رہا تھا۔
بہت دونوں بعد اس نے رملہ کو کمرے سے باہر نکلتے دیکھا تو اٹھ کر اس کے پاس ائی۔

وجدان سے ملنے جارہی ہوں تھوڑی دیر تک آجاؤں گی۔رملہ نے دائیں طرف دیکھتے ہوئے کہا یقیناً وہ اپنی آنکھیں چھپا رہی تھی جو رونے کی وجہ سے لال تھی۔اس نے ایک دکھی نظر اپنی بہو ہر ڈالی۔
اس پر یقین ہوا چاہئیے تمھیں رملہ ایسا نا ہو تم کچھ غلط کر بیٹھو اور سچ سامنے آنے پر تمھیں اپنے فیصلے پر بچتھانا پڑے۔رملہ نے یکدم مڑکر انہیں دیکھا۔اور مسکرا کر انکی سائڈ سے نکل کر جانے لگی۔
انہوں نے مڑ کر تاسف بھری نگاہوں سے اسے دیکھا۔سورج آج اپنی شان سے جلوہ گر تھا۔اسکی کرنوں سے رملہ کے ڈراک براؤن بال چمک رہے تھے،ڈرائیور کے دروازہ کھولنے پر وہ اندر بیٹھی اور انکی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
—————-
وجدان سیل میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔جب دروازہ کھولنے پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو رملہ بیگ کی سٹریپ کو تھامے کھڑی تھی۔چند ثانیے تو وہ اسے یوں ہی دیکھے گیا۔پھر جب یقین آیا کہ وہ یہی کھڑی ہیں تو وہ بھی کھڑا ہوا۔

اسے گلے لگانے ہی والا تھا کہ رملہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا تو وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا۔مطلب وہ بھی اس ر یقین نہیں کر رہی۔
رملہ نے چہرہ موڑ کر اپنے آنسو صاف کئیے اور پھر چند قدم اس کے قریب ائی۔

مجھے یقین ہے کہ کم از کم آپ ایسا نہیں کرسکتے مگر جب جب آپ پر بھروسہ بڑھتا ہے ثبوت آکر میرے اس بھروسے کو کرچیوں میں بکھیر دیتے ہیں۔اسکے آنکھوں میں جھانک کر بولی تو وہ دوبارہ سے اسی بینچ پر بیٹھ گیا۔
وہ بھی اسکے ساتھ ہی تھوڑا سا فاصلہ قائم کرکے بیٹھ گئی۔دونوں کی آنکھیں نم تھی۔

لیکن شاید آپکی محبت اتنی ہے کہ وہ اس کرچیوں کو آنسو میں بہنے نہیں دیتی آپکی محبت آکر ان کرچیوں کو اکٹھا کرکے دوبارہ سے آپ پر بھروسہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
وجدان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو مسکرا کر سامنے دیکھے بولے جا رہی تھی۔

سکینڈ سے پہلے ہی وجدان اسے اپنے حصار میں لے چکا تھا۔پل بھر میں تو رملہ کو کچھ سمجھ نا آیا اور جب اسے معلوم ہوا کہ وہ اسے گلے لگا چکا ہے تو رملہ اس کے گردن میں بازوں ڈالے رونے لگی۔
رو تو وہ بھی رہا تھا مگر اسکے آنسو دکھ کے آنسو نہیں تھے،وہ رملہ کا اس پر بھروسہ کرنے کے آنسو تھے۔
یہ خبر سن کر مجھے کسی کی فکر نہیں تھی نا اپنے عہدے کی نا ماں باپ کی اور نہیں اپنی پارٹی کی ان چند دونوں میں اگر مجھے کسی کی فکر تھی، میں نے کسی کو یاد کیا تھا تو وہ تم تھی رملہ یہ سوچ ہی مجھے مارے جا رہی تھی کہ اگر تم نے میرا یقین نہیں کیا اگر تم باقی سب کہ طرح مجھے ہی بیلم کرتی رہی تو شاید ،شاید میں مرجاتا رملہ۔
رملہ کے بالوں میں منھ چھپائے وہ رو رہا تھا۔اج اسے یقین آگیا تھا کہ مرد بھی روتے ہیں ان کو بھی درد ہوتا ہے وہ بھی دل رکھتے ہیں،اسے ان لوگوں پر ہی غصہ ایا جو یہ کہتے ہیں کہ
مرد نہیں روتے،
کیا مرد کے سینے میں دل نہیں اور اگر ہیں بھی تو وہ پتھر کا نہیں ہوتا انکے سینے میں بھی عورتوں ہی کی طرح گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے۔
مگر فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ مرد عورت کی طرح ہر کسی کے سامنے نہیں روتا وہ اپنا دکھ اپنی تکلیف چیخ چیخ کر لوگوں کو نہیں بتاتا لوگوں کی ہمدردیاں نہیں بٹھورتا۔
مرد تو صرف اپنے رب اور اسکے بعد اس کے سامنے روتا ہے جس سے وہ حد سے زیادہ محبت کرتا ہے۔
تھوڑی دیر بعد اس سے الگ ہوکر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا،اور مسکرا کر اپنی سامنے بیٹھی رملہ کو دیکھا جو اپنے آنسو صاف کر رہی تھی۔
شکریہ رملہ۔اسکے ماتھے پر دیتے ہوئے کہا تو وہ مسکرائی۔
کیا میں ضوفی سے مل سکتی ہوں۔وجدان نے چند ثانیے اسے دیکھا اور پھر سر جھکا کر نفی میں ہلایا تو رملہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
—————-
چند مہینے پہلے اسکی آپا انکے گھر سے رخصت ہوئی تھی اور آج ،اج اسکی آپا انہیں چھوڑ کر اس دنیا سے ہی منھ موڑ گئی تھی اسکی آپا اس دنیا سے رخصت ہوچکی تھی۔اور اس غم اور دکھ میں بھی وہ اکیلے تھے۔
کوئی رشتہ دار کوئی ہمسایہ ان کے پاس نہیں آیا تھا۔اسکی ماں رات سے روئی جارہی تھی۔اسکی بہن اپنے شوہر کے ساتھ جرمنی جارہی تھی کہ انکا پلین کریش ہوگیا۔
اور موقع پر ہی پائلیٹ سمیت تمام مسافر اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے۔وہ کب سے اپنی ماں کو دلاسے دے رہا تھا۔مگر وہ تھی کہ چھپ ہی نہیں ہورہی تھی۔دکھ ہی اتنا بڑا تھا۔

دوسری جانب سلطان ، ازرہ سلطان عاطف نیازی کے گھر موجود تھے۔سلطان کب سے عاطف نیازی کو سنا رہے تھے مگر وہ چھپ چھاپ بیٹھے انہیں سن رہے تھے۔

میں اپنی بیٹی کو دیک لمحہ بھی یہاں نہیں چھوڑنے والا پہلے وہ سب کم جو اب وہ تمھارا بیٹا میری بیٹی کی جان کا دشمن بنا ہوا ہیں۔وہ تو شکر ہیں کہ اسے کچھ نہیں ہوا صرف اسکا بچہ نہیں رہا۔سلطان کے انکشاف پر عاطف اور مسسز عاطف نے جھٹکے سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
بچہ؟عاطف نیازی نے ناسمجھی سے کہا۔تو سلطان تلخی سے مسکرایا جبکہ رملہ اپنے ماں کے ساتھ سر جھکائے بیٹھی اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔
واہ عاطف صاحب واہ تو اپکو اپنے پوتے کے بارے میں بھی علم نہیں۔
پاپا میں انہیں بتانے والی تھی اور یہ سب وجدان نے نہیں کیا اسے تو پتہ بھی نہیں تھا۔
اسے پتہ تھا میں نے خود اسے بتایا تھا جسے سننے کے بعد اسکا پارہ ہائی ہوا کہ اسے یہ بچہ نہیں چاہئیے۔
آپ جھوٹ بھی تو بول سکتے ہیں نا۔رملہ کے اس قدر نڈر جواب پر سلطان کا ہاتھ اٹھا لیکن اسے عاطف نے ہوا میں ہی روک دیا۔
میرے ہی گھر پر میری ہی بہو پر ہاتھ اٹھانے کی غلطی مت کرنا سلطان۔۔۔۔عاطف نیازی غصے میں گویا ہوئے تھے۔جبکہ سلطان ایک نظر اسے دیکھ کر اپنا ہاتھ نیچھے کر چکے تھے۔

سلطان نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اپنے سکوٹ کے جیب سے ایک ریکارڈر نکال کر پلے کیا اور اس کے بعد جو کچھ ان سب نے سنا،تو ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔
وجدان ہنس کر اپنے بچے کو مارنے کا کہہ رہا تھا وہ اسکی ہی آواز تھی۔رملہ تو صدمے سے صوفے پر ہی گر گئی۔
اسے اپنی کانوں پر یقین نہیں رہا تھا۔
رملہ۔اسکی ماں نے اسے کندھوں سے تھاما۔
ماما وج-وجدان کیسے کرسکتے ہیں یہ سب ماما اسے ذرا بھی رحم نہیں آیا وہ اسکا اپنا بچہ تھا ۔وہ کیسے اپنے بچے کو مارسکتا ہیں۔اخر میں روتے ہوئے وہ اپنی ماں کے گلے لگ گئی۔

جبکہ مسسز نیازی میں تو اتنی ہمت بھی نہیں ہوئی کہ وہ اپنی بہو کو دلاسا دیتی،وہ کس منھ سے دلاسا دیتی اسے جب اسکے اپنے ہی بیٹے اسکا گھر اجاڑا تھا۔وہ اپنی ہی جگہ سن بیٹھی تھی۔
عاطف گم سا وہی کا وہی کھڑا رہا۔ازرہ سلطان روتے ہوئے اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ لگا یا تھا۔
میں اپنی بیٹی کو مزید یہاں نہیں چھوڑ سکتا۔سلطان رملہ کو لے جانے لگا جبکہ عاطف نیازی نے انہیں روکنے کی کوشش بھی نہیں کی وہ کس منھ سے انہیں روکتے۔
—————–
وجدان پر دن بہ دن کیسسز بڑھ رہے تھے۔ضوفی کے کیس میں اسے ساتھ سال کہ سزا ہوئی تھی۔جبکہ باقی اسے کرپشن کے کسسز میں ہیرنگ جاری تھی۔
اسکے جیل جانے کے چند ہی ہفتے بعد نگران وزیراعظم اپنا عہدہ سنبھال چکے تھے۔ملک میں بدحالی کا راج تھا۔
اس دن کے بعد رملہ اس سے ملنے نہیں آئی تھی۔نا ہی عاطف نیازی صرف احمر آتا تھا اس سے ملنے مگر اس نے بھی کسی بات کو کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔
سلطان رملہ کو اپنے ساتھ پشاور کے کر چلے گئے تھے۔وجدان کے جیل جانے کے بعد اسمبلیاں تحلیل ہوچکی تھی اور نئے ووٹنگ تک تمام صوبوں میں نگران وزیر اعلیٰ اپنے عہدے سنبھال چکے تھے۔
بطور کے پی نگران وزیرا علیٰ سلطان دلاور خان کو منتخب کیا گیا تھا۔رملہ سارا سارا دن کمرے میں بند رہتی،ژالے ابھی تک واپس نہیں آئی تھی۔
چند مہینے بعد کاظم کی شادی ہونے والی تھی۔ازرہ سلطان اسکی تیاریوں میں بزی تھی۔ اچانک ہی رملہ نے اسکاٹ لینڈ جانے کی ضد باندھ لی۔اور مجبورا سلطان کو اسے اسکاٹلینڈ بھیجنا پڑا۔
————–
اسکاٹ لینڈ کے ائیر پورٹ پر قدم رکھتے ہی اسے ڈیر ساری یادوں نے آن گھیرا۔اسے سولہ سال پہلے کا منظر یاد آیا۔
جب اچانک ہی اسکے پاپا نے اسے دس سال کی عمر میں اپنی کزن کے ساتھ گھر سے دور بھیجا ۔وہ دس سال کی عمر میں ضوفی کے ساتھ اسکاٹ لینڈ آئی تھی۔ ضوفیشان ابراہیم رملہ کی خالہ کی بیٹی تھی۔وہ کتنا روتی تھی اور ضوفی اسے چھپ کرنے کی کوشش کرتی تو وہ اور بھی رونے لگ جاتی۔
پھر دھیرے دھیرے رملہ وہاں ایڈجسٹ ہونے لگی۔
ضوفی اور رملہ دونوں وہاں بورڈنگ کی پڑھتے رہے اور جیسے ہی انہوں نے سکول مکمل کرلیا۔سلطان نے انہیں اسکاٹ لینڈ میں اپنا گھر خرید کر دیا۔

اسکے بعد انکی ملاقات سائمن سے ہوئی کیونکہ سائمن اور انکا گھر ایک ہی محلے میں تھا۔اور آئے روز سائمن کچھ نا کچھ مانگنے ضرور آجاتا،پہکے تو انہی لگا کہ وہ اکیلا رہتا ہیں اس لیے اس کے پاس چیزیں نہیں۔ ہوتی لیکن جس دن رملہ کو پتہ چلا کہ اسکی تو پوری فیملی اسکے ساتھ رہتی ہیں اور محلے کے نکڑ پر جو بیکری ہے وک اسکی تو اسے سمجھ میں ایا کہ وہ تو صرف اور صرف ضوفی سے ملنے اتا ہیں۔
اسکے بعد رملہ اور اسکا ہر روز جھگڑا ہونے لگا رملہ اسے گھر آنے نہیں دیتی اور وہ زبردستی اندر آنے کی کوشش کرتا۔
یوں سائمن انکے کالج میں بھی آگیا اور اس دن رملہ اور اسکی اچھی خاصی لڑائی ہوئی تھی رملہ اسے اس کالج سے مائیگریشن کا کہہ رہی تھی جبکہ وہ تو اسے سن ہی نہیں رہا تھا بس ضوفی سے باتیں ہی کر رہا تھا۔
جب رملہ کو غصہ ایا اور اس نے سائمن کے بیگ میں پورا کا پورا ائیکوریم انڈیل دیا۔ائیر پورٹ پر اسے لینے ثنائل آئی تھی۔
اسکی اور ضوفی کی بچپن کی دوست ثنائل۔وہ اسکے ساتھ اپارٹمنٹ گئی کیونکہ وہ اس گھر نہیں جانا چاہتی تھی جس میں اسکی اور ضوفی کی یادیں تھی۔
رملہ نے ثنائل سے کہا کہ وہ سائمن کو ضوفی کی ڈیتھ کے بارے میں بتائیں۔

وہ جیسے لوگوں کو سمجھ بیٹھی تھی لوگ ویسے نہیں تھے۔اور اسے تو پھر اپنوں نے اجاڑا تھا اسکے تو اپنے ہی درندے نکلے۔
اسکاٹ لینڈ آنے کے پہلے تین ماہ وہ شدید ڈیپریشن کا شکار رہی تھی۔رات کو وہ نیند میں بھی رونے اور ڈرنے لگے جاتی۔سولہ سال پہلے بھی اسکے ساتھ ایسا ہوا تھا اور آج پھر تب اسکے ساتھ صرف ایک ہی انسان تھا اور آج بھی تب وہ جلدی اس لیے ٹھیک ہوئی تھی کہ اس وقت اسکی ضوفی اسکے پاس تھی لیکن اس بار وہ نہیں تھی اس دفہ صرف ایک ثنائل تھی اسکے پاس ۔علی اور اسکی بیوی بھی اس سے ملنے اسکاٹلینڈ آئے تھے۔

مگر وہ بلکل بھی نہیں سنبھال رہی تھی۔اس لیے علی اسے اپنے ساتھ انگلینڈ لے گیا تھا۔اسکی بیوی سارا دن اسکے ساتھ رہتی اسے گھومنے کے جاتی مگر وہ بلکل بھی ٹھیک نہیں ہورہی تھی۔
پھر لیزا (علی کی بیوی)نے علی کو بتایا کہ اسکی ایک دوست ہے جو بہت اچھی سائکٹریسٹ ہے ہمیں رملہ کو اس سے سیشن دلوانے چاہئیے۔
پہلے علی نہیں مانا لیکن پھر رملہ کی روز بروز بڑھتی حالت کو دیکھ کر وہ اسے سائیکٹرسٹ کے پاس لے گیا۔
سیشن لینے کے بعد وہ کافی بہتر ہورہی تھی۔لیزا کی دوست ایک اسلامک سنٹر کی چیف بھی تھی۔
اس نے رملہ کو بہت اچھے سے ٹریٹ کیا تھا۔اس سارے عرصے میں رملہ کافی بدل چکی تھی،اسکا اوڑھنا سب کچھ اب وہ پہلے کہ طرح شرٹ پینٹس ،کیپری،اور میکسی نہیں پہنتی تھی،اس نے سکارف اوڑھنا شروع کیا تھا۔
تقریبآ آٹھ مہینے کے بعد وہ کافی بہتر ہوئی تو اس نے علی سے اسکاٹ لینڈ جانے کا کہا۔

لیکن تم وہاں جانا کیوں چاہتی ہو وہاں کچھ بھی تو نہیں ہیں نا ضوفی ہے وہاں اور تمھاری پڑھائی بھی تو کمپلیٹ ہوچکی ہے تو پھر وہاں جاکر کیا کرو گی۔شام کے وقت وہ لاونج میں بیٹھی مسلسل اسکاٹ لینڈ جانے کی ضد کر رہی تھی۔لیزا ٹرے میں چائے لائی اور ان دونوں کے سامنے میز پر رکھنے لگی۔

سچ کہہ رہا ہے علی رملہ تم وہاں پھر سے ڈیپریشن میں چلی جاؤ گی پہلی اتنی مشکلوں سے تم واپس زندگی کی طرف آئی ہو۔لیزا نے فکرمندی سے کہا۔انکا تین سالہ بیٹی نیچھے بیٹھی کھلونوں سے کھیل رہی تھی۔

مجھے کچھ نہیں پتہ بس مجھے جانا ہے واپس اسکاث لینڈ۔وہ کہہ کر اٹھی اور کمرے میں بند ہوئی۔جبکہ علی نے سر دونوں ہاتھوں میں گرایا۔
پریشان نا ہو اگر وہ جانا چاہتی ہیں تو بھیج دے اسے۔لیزا اٹھ کر علی کے پاتھ بیٹھ گئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

میں اسے اچھے سے جانتا ہوں وہ کیوں جانا چاہتی ہیں گڑے ہوئے مردے اکاڑنے جانا چاہتی ہے۔ اور اس بار اسے ایسی چھوٹ لگی گی نا کہ پھر کوئی اسے بچھا نہیں پائے گا۔علی نے پریشانی سے کہا۔
مجھے نہیں لگتا وہ پھر سے وہ سب دہرائے گئی۔
میری بہن ہے وہ وقت نہیں گزرا ساتھ میں لیکن اچھے سے جانتا ہوں اس کی ضد کو۔۔۔۔۔۔جق اسے کہوں کہ اپنی تیاری کرے کل وہ جارہی ہیں اسکاٹ لینڈ ۔کھڑے ہوکر کہا تو لیزا نے مسکرا کر اسے دیکھا جب سے اسکی شادی علی سے ہوئی تھی بس دو ہی انسانوں کا زکر اس نے علی سے سنا تھا ایک رملہ اور دوسری ازرہ سلطان۔
کل ہی وہ سب ائیرپورٹ میں موجود تھے۔علی اپنی بیٹی کو گود میں اٹھائے ہوئے رملہنسے باتیں کر رہا تھا۔
میں تمھیں بھیج تو رہا ہوں واپس لیکن جو میں سوچ رہا ہوں اگر ویسا کچھ کیا نا تو پھر مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔
انگلی اٹھا کر اسے وارنگ دی تو رملہ مسکرائی۔اسے اتنی محبت اور اسکی اتنی فکر تو کبھی بھی کاظم نے نہیں کی وہ تو اس سے بات بھی نہیں کرتا تھا۔

لیکن علی ،رملہ نے جتنا عرصہ اس کے ساتھ گزارا تھا اس سارے عرصے میں علی ہر وقت اس کے پاس ہوتا اسے باتیں کرتا تھا۔بلکہ جب تک رملہ نا آجاتی وہ کھانا تک نہیں کھاتا تھا۔عملہ نے دیکھا تھا کہ جب وہ ڈیپریشن میں تھی تو وہ رات کو بار بار اسکے کمرے کا چکر ضرور لگاتا تھا۔
اسے سائکٹریسٹ کے پاس خود لے کر جاتا اور واپس بھی خود کی لاتا۔
اچھا نا کچھ نہیں کرو گی پتہ نہیں پچھلے گھنٹے سے آپ کتنی دفہ مجھے یہ کہہ چکے اب تو شاید میں یہ سب نیند میں بڑبڑانے لگوں گی۔رملہ کو اتنے عرصے بعد یوں دیکھا تو مسکریا۔
اوہو رملہ تم اکیلی نہیں ہو ،یہ سب سننی والی مجھے بھی پریگنینسی میں کافی ٹارچر کرتا آیا ہیں۔لیزا کی بات پر رملہ کا قہقہ بلند کوا۔
استغفرُللہ تم عورتوں کو بھلا کوئی ٹارچر کرسکتا ہیں۔اور اس دفہ رملہ اور لیزا کا مشترکہ قہقہہ بلند ہوا تھا۔
اسکاٹ لینڈ واپس آکر اس نے نئیپر یونیورسٹی میں جوب کرنی شروع کی۔لیکن آج تک وہ سائمن سے نہیں ملی شاید اسکو بکھرے حالت میں وہ نہ دیکھ پائی۔
اس کے بعد سب کچھ یوں ہی چلتا رہا وہ تقریبآ سب کچھ بھولنے لگی تھی لیکن پھر ایک دن وجدان نیازی جیل سے فرار ہوکر اسکاٹ لینڈ آگیا۔
اور اسکے بھرے ہوئے زخم ایک بار پھر سے تازہ ہوگئے۔

—————-
وجدان اور سائمن کو چھوڑنے کے بعد ثنائل سیدھا انکے پرانے گھر گئی تھی۔اور وہاں سے سیدھا وہ اپارٹمنٹ آئی تھی۔وہ جیسی ہی اندر آئی اسے صوفے پر رملہ بیٹھی دیکھائی دی۔اسکے ہاتھ میں کچھ فائلز تھی۔
اسے اگنور کرکے وہ اپنے جوتے اتار کر ریک میں رکھنے لگی اور گاڑی کی چابی میز پر رکھ کر اپنا کوٹ اتارنے لگی۔

تمھیں پتہ ہے میں بہت خوش تھی اس دن جب مجھے پتہ چلا تھا کہ میں بھی اس دنیا کی سب سے عظیم عہدے پر فائز ہونے والی ہوں۔رملہ نے نم آنکھوں سے اپنے ہاتھ میں پکڑے اپنی الٹراساؤنڈ دیکھ رہی تھی۔
ثنائک کوٹ وہی کاوچ پر رکھ کر اس ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔

مجھے لگا تھا کہ وہ بھی اس خبر کو سن کر میری ہی طرح خوش ہوگا۔اخر میں وہ تلخی سے مسکرائی۔ثنائل نے تاسف سے اسے دیکھا وہ بہت ٹوٹی ہوئی لگ رہی تھی آج پھر سے اسکے زخم تازہ ہوئے تھے۔
تم بہت سی چیزوں سے انجان ہو رملہ اور اور ان چیزوں سے ناواقف رہنا تمھیں مزید دکھ دے گا۔اسکی بات کو نظر انداز کرکے وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔اور دروازہ بند کردیا۔
ثنائل کی نظر نے اسکا کمرے تک پیچھا کیا تھا آخر میں وہ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اپنا کوٹ اور بیگ اٹھانے لگی۔
جبکہ رملہ کمرے میں بیٹھی ایک دفہ پھر سے آنسو بہانے لگی تھی۔
—————-
ہاتھوں میں ٹارچ پکڑے وہ سارے گھر کو الٹ پلٹ کر چکے تھے۔لیکن پھر بھی وہ روکے نہیں تھے۔اب وہ کمروں کی تلاشی لے رہے تھے۔
مجھے لگا رملہ نے وہ سب چیزیں یہی رکھی ہوگی۔الماری کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے کہا۔جبکہ وجدان کمرے میں موجود صوفے پر بیٹھا تھا۔شاید وہ تھک چکا تھا۔اسکا مفلر اور ماسک بھی اسکے ساتھ ہی پڑا تھا۔
جبکہ ٹارچ کا منھ وہ اوپر چھت کی طرف کیا تھا جس سے سارے کمرے میں مدہم سی روشنی تھی۔
شاید تم اسے بیوقوف سمجھ بیٹھے ہو یا تم خود بے وقوف ہو۔سائمن نے خفگی سےا سے دیکھا۔
اتنی تعریف کے لیے شکریہ۔
میرا فرض تھا۔فرضی کالر جھاڑتے ہوئے کہا اور اسکا اپنی ہی بات پر قہقہہ ابھرا جبکہ سائمن نے ایک ناپسندیدگی نگاہ اس پر ڈالی۔
اچھا اب جلدی کرو اس سے پہلے کہ کوئی روشنی دیکھ کر پوچھنے جائے ہمیں یہاں سے جانا ہوگا۔وجدان نے ماسک اور مفلر اوڑھتے ہوئے کہا۔تو سائمن بھی اپنا ماسک اٹھانے لگا۔اور وجدان کے پیچھے باہر نکلا۔
وہ دونوں اسکاٹ لینڈ کے پرانی بوسیدہ گلیوں میں ماسک اور مفلر اوڑھے چوروں کی طرح چل رہے تھے،وہ اسکاٹلینڈ کے سالوں پرانی گلیاں تھیں۔ساتھ میں بار بار پیچھے مڑ کر بھی دیکھتے۔وجدان آگے جبکہ سائمن پیچھے تھا۔

ہمیں ضوفی کا وہ سامان نہیں ملا یقیناً وہ رملہ کے پاس ہی ہیں اور ہمیں اچھے سے اندازا بھی ہے کہ رملہ ہمیں وہ نہیں دینے والی ،تو اب ہم کیا کریں گے۔سائمن راستے میں بنے گڈے اور پانی سے خود کو بچھاتے ہوئے اسکے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔

بے شک مجھے نہیں دے گی لیکن ضوفی کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں۔سائمن نے صرف سر ہلایا۔وجدان نے روک کر اسکے تاثرات دیکھنے چاہے مگر اسکا چہرہ ماسک میں چھپا ہوا تھا۔
وہ اس سے آگے نکل گیا۔تو وجدان بھی سر جھٹک کر اس کے پیچھے چلنے لگا۔
شاید وہ ابھی تک ضوفیشان کو بھول نہیں پایا تھا یا پھر شاید وہ بھولنا ہی نہیں چاہتا تھا۔کہی نا کہہ اس خاموش سی لڑکی کی یادیں اس کے پاس تھی۔
آسمان پر چمکتے چاند سے شاید اس لڑکے کی اداسی دیکھی نہیں گئی اس لیے وہ بھی بادلوں میں چھپ گیا۔
——————–
آج اتوار کا دن تھا۔ کل ہی ان دونوں کا رزلٹ آؤٹ ہوا تھا نازنین نے ہمیشہ کی طرح سب سے بہتر مارکس لیے تھے جبکہ مسکان بھی اے پلس گریڈ سے پاس ہوئی تھی اور رزلٹ کے اوٹ ہوتے ساتھ ہی ان دونوں نے ابا سے گھومنے کی فرمائش کی تھی۔
ناچہاتء ہوئے بھی ہمیشہ کی طرح سلیم احمد کو ان دونوں کے سامنے ہارنا پڑا جب وہ گھومنے جا رہے تھے تو صوفیان نے بھی اکلوتا ہونے سے فایدہ اٹھایا اور ان کے ساتھ
چلا گیا۔
ویسے نازی اگر خدا نخواستہ شیر دل اچانک کسی بونے کے سامنے آنے پر ہارٹ فیل ہونے کی وجہ سے مر جاتا تو عکس اور شیر دل کی سچائی۔

تیرے منھ میں سارے کراچی کا کچرا ۔۔۔۔۔۔ کبھی اچھی بات نہیں کہہ سکتے ہاں۔نازی اور صوفیان ایک تنگ گلی میں پرانی کتابوں کی دکان کے سامنے کھڑے تھے جبکہ مسکان اور اباجان وہاں موجود سانپ کا ڈانس دیکھنے کھڑے تھے۔جب صوفیان کی بات پر اسکا پارہ ہائی ہوا۔

ارے بہنا میں تو بس ایسے ہی پوچھ رہا تھا تم خواہ مخواہ میں ہی چیخ رہی ہو۔صوفیان نے سرنڈر کی صورت میں ہاتھ بلند کئے تو نازی اسے گھور کر دوبارہ کتاب کے مطالعے میں مصروف ہوگئی۔
ارے آدم بھائی اپ۔صوفیان کے بولنے پر نازی نے پہلی ہی فرصت میں سر اٹھا کر دیکھا تو آدم کہی نہیں تھا بلکہ صوفیان کا ہنس ہنس کر برا حال تھا۔
تم آج مرو گے میرے ہاتھوں صوفیان۔وہ اپنا چپل اتار کر اسکے پیچھی بھاگی مگر وہ اتنا تیز بھاگا جارہا تھا کہ نازی بچاری اس تک پہنچ ہی نہیں رہی تھی۔
نازی نے روک کر بیچارگی سے اسے دیکھا اور اپنی چپل اسے مارنے کے غرض سے اسکی جانب پھینکی صوفیان سائڈ پر ہوکر بچ گیا جبکہ چپل اس کے پیچھے کھڑے لڑکے کو لگی۔
صوفیان نے آؤ دیکھا نا تاؤ اور پلک جھپکتے ہی منظر سے ہٹ گیا۔جبکہ نازی بیچارہ کے تو ہاتھ پیر کانپنے لگے۔
وہ لڑکا بیٹھ کر چپل اٹھا رہا جبکہ نازی منھ موڑ کر کھڑی ہوگئی۔
بات سنے بہن کیا یہ چپل آپکا ہے۔پیچھے سے آواز آئی تھی نازی نے زور سے آنکھیں میچھی۔
اور پلٹ کر اسے دیکھا۔مگر سامنے والے کو دیکھ کر اسکی جان میں جان ائی۔
تم ۔۔۔۔۔۔۔یہاں اکیلی کیا کررہی ہو نازی۔
سوری آدم بھائی وہ غلطی سے اپکو لگی قسم سے میں تو صوفیان کو مار رہی تھی مگر۔
آخر میں وہ سر جھاکر آہستہ آواز میں بولی۔تو آدم مسکرایا۔

کوئی بات نہیں وہ تو شکر کرو کہ تمھاری چپل آکر مجھے لگی ورنہ اگر اس دکاندار کو لگتی نا تو اس نے اچھی خاصی سنانی تھی تم کو۔اس نے چپل کو نازی کے پاؤں کے قریب رکھا اور سیدھا ہوا۔

ویسے یہ صوفیان کہاں پے۔ادم نے ادھر ادھر دیکھا تو سلیم احمد اسے کان سے پکڑے۔ وہاں لائے۔
کوئی اپنی بہن کو یوں اکیلے بھرے بازار میں تنہا چھوڑتا ہے بھلا ہاں ۔سلیم احمد اسے اچھی خاصی سنانے لگے تھے۔

معاف کر دے ابا ناجانے اس نے کس کو چپل دے ماری تھی۔صوفیان اپنے کان کو چھوڑوانے کے تھگ ودو میں تھا۔
ارے آدم تم یہاں کیسے۔ادم کو دیکھ کر سیلم احمد نے پوچھا۔جبکہ ایک ہاتھ سے ابھی تک صوفیان کا کام پکڑے ہوئے تھا۔

ہاں بس وہ کل ہمارا لاسٹ سمسٹر شروع ہونے والا ہیں تو اسکی کچھ کتابیں لینے آیا تھا۔ہمیشہ کی طرح مسکرا کر کہا۔
ارے ابا میرا کان تو چھوڑے۔
بغیرت تیرا کان تو میں اب کٹوا کر ہی رہوں گا۔
نا کریں ابا میرے اکلوتے دو کان ہیں۔اسکی بات پر مسکان کا قہقہ ابھرا تھا۔جبکہ آدم اور نازی کا بھی یہی حال تھا۔
———-
شام کو وہ صحن میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔کیونکہ مئی کے شروع ہوتے ہی گرمی اپنا اصل چہرہ دیکھانے کی تگ ودو میں تھی۔صبیحہ خانم اسکے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔
ماما ذرا پانی دے۔کھانا ختم کرکے اس نے صبیحہ خانم سے کہا۔

آدم جتنا پانی تم پیتے ہو نا اس حساب سے بہت ہی جلد پاکستان نے پانی کی قلت کا سامان کرنا ہے۔اپنی ماں کی بات پر مسکرایا۔
مما ڈاکٹر کہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ پانی پینا چاہئیے۔صبیحہ خانم سے پانے کا گلاس پکڑتے ہوئے کہا۔

ارے آدم بھائی ڈاکٹر کے کہنے کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ انسان اپنے پیٹ کو تربیلا ڈیم ہی سمجھ بیٹھے۔ہاتھ میں کھیروں کی ٹوکری پکڑے اندر آتی مسکان نے کہا تو صبیحہ خانم نے بھی اسکی تاکید کی ۔اور چیزیں اٹھاکر کیچن میں چلی گئی۔
مسکان آکر دھڑام سے اس کے سامنے رکھی چارپائی پر بیٹھ گئی جبکہ ٹوکری اس نے آدم کے سامنے رکھے میز پر رکھی۔
ویسے یہ اپنے ہم شکلوں کو کیوں لائی ہو۔ادم نے صحن میں بنے واش بیسن میں ہاتھ دھوتے ہوئے کہا اور واپس آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
اسکی بات پر مسکان نے منھ پھلا کر صبیحہ خانم کو دیکھا جو ہنستی ہو کیچن سے باہر آئی یقیناً وہ اپنی بیٹے کی بات سن چکی تھی۔

ویسے آنٹی نے کہا تھا کہ میرے بیٹے کو اپنی جیسی اس سبزی کا اچار بہت پسند ہے تو بس اس لیے کے کے ائی۔وہ مسکان ہی کیا جو اپنا انتقام نہ لے۔ادم کا ایک قہقہ ابھرا تھا۔

میں نے ہی سلیم بھائی سے کہا تھا کہ اگر سبزی منڈی کبھی جانا ہوا تو کھیرے لیتے آنا ساتھ میں۔صبیحہ خانم کھیروں کو کی ن کے ساتھ رکھی چارپائی پر بکھیر کر رکھنے لگی۔

ویسے آدم بھائی آپ نے میرا رزلٹ دیکھا میں نے کافی اچھے مارکس لیے ہیں۔ادم نے موبائل سے سر اٹھاکر اسے دیکھا۔
مبارک ہو۔
خیر مبارک ویسے آپ اگر بھولے نہیں تو آپ نے ہم سے کسی چیز کا وعدہ کیا تھا۔اس نے جھولتے پیروں کو دیکھ کر کہا۔ادم فون رکھ کر کچھ سوچنے لگا ۔
نہیں تو ۔
آدم بھائی آپ وعدے کیخلاف ورزی نہیں کرسکتے۔اس نے رونے والی شکل بناکر کہا تو آدم ہنسا۔
مذاق کر رہا تھا یاد ہے مجھے ویسے وہ دونوں ناولز میں نے نازی کو دی تھی اس نے تمھیں دی نہیں۔یہ سنتے ہی مسکان کا پارہ ہائی ہوا۔
نازی کی بچی کو تو میں چھوڑوں گی نہیں ،کتنی دھوکے باز ہوگئی ہیں یہ۔مسکان لڑاکا عورتوں کی طرح بولتے ساتھ ہی گھر جانے لگی تو آدم پاؤں کو دوسرے پاؤں پر جماتے ہوئے ہنس دیا اور موبائیل میں بزی ہوا۔
——————-
صبح رملہ کی آنکھ کھلی تو اسے پتہ چلا کہ وہ رات کو صوفے پر ہی سو گئی تھی۔مگر یہ کیا وہ صوفے پر تو نہیں اس نے اٹھ کر دیکھا تو ہو بیڈ پر سو رہی تھی۔اسکے ہاتھ میں اسکے الٹراساؤنڈ بھی نہیں تھا۔
وہ اسے ڈھونڈنے لگی۔جب واش روم کا دروازہ کھولا اور ٹاول سے بال رگڑتا ہوا وجدان باہر آیا۔اسے جاگتا ہوا دیکھ کر وہ اس کے پاس ایا۔

کیا ڈھونڈ رہی ہو۔رملہ نے اسے اگنور کیا اور دوبارہ سے ڈھونڈنے لگی۔تو وہ الماری تک گیا اور انویلپ نکال کر اسے پاس ایا۔
اسے ڈھونڈ رہی ہو۔
رملہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ اس کے ہاتھ میں تھے۔رملہ نے اسے لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ وجدان نے اپنا ہاتھ پیچھے کیا اس حرکت پر وہ ایک گھوری سے نوازا گیا ۔

پہلے مجھے سب کچھ سچ سچ بتاؤ یہ کس کے الٹراساؤنڈ ہے اور کل تم کیا کہہ رہی تھی۔رملہ بنا کچھ بولے دوبارہ اس سے انویلپ لینے لگی مگر وجدان نے اسے بازوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔
میرے صبر کو مت آزماؤ رملہ اور بتاؤ یہ سب کیا ہے۔اسے اپنے قریب اسکی آنکھوں میں جھانک کر کہا۔رملہ کا چہرہ مارے ضبط کے سرخ ہوچکا تھا۔
تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں جواب دو۔اسکی آواز ابھی خاصی بلند ہوچکی تھی جبکہ رملہ دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا کر رونے لگی تو وجدان نے اسے گلے لگایا۔
وہ کافی دیر تک اس کے گلے لگ کر روتی رہی۔
ادھر بیٹھو اور ریلکس کرو۔وجدان اسے خود سے الگ کرکے بیڈ پر بٹھایا اور اسے پانی کا گلاس تھمایا۔تو وہ پانی پینے لگی۔

اب بتاؤ شروع سے سب کچھ ،کچھ بھی مت چھپاؤ ۔پانی کا گلاس اسکے ہاتھ سے کے کر سائڈ میز پر رکھا اور خود اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ کر اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے پیار سے کہا تو رملہ اسکے سینے پر سر رکھ کر اس کے ساتھ لگی۔

پاپا کہہ رہے تھے کہ آپ نے میرے بچے کو مارا ہے۔اسکے بالوں کو سہلاتا وجدان کا ہاتھ پل بھر کے لیے روکا۔
اور تم نے یقین کر لیا
انہوں نے آپ کی وائیس ریکاڈنگ سنائی تھی
ٹیکنولوجی ایڈوانس ہوگئی ہیں رملہ

اسکی بات پر رملہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔اس نے یہ سوچا بھی نہیں کہ اسکے پاپا ایڈیڈنگ کر سکتے ہیں۔
مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا کہ میں—وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگیا۔تو رملہ نے اسے دیکھا۔اسکے چہرے پر کچھ تھا شاید درد ،وہی درد جس میں رملہ پیچھے چند سالوں سے تھی۔
میں باپ بننے والا ہوں تو میں کیسے۔وہ خاموش ہوا شاید اگلا جملہ اس سے بولا نہیں گیا۔
مگر پاپا تو کہہ رہے تھے کہ انہوں نے آپ کو بتایا تھا۔وجدان نے رملہ کو دیکھا تو اسے پل بھر میں سب کچھ سمجھ آیا۔
تم نے وہ سب چیزیں کہاں رکھی ہیں جو ضوفی نے تمھیں دی تھی۔
وہ تو پاکستان میں ہیں۔اور وجدان کو لگا کہ سب کچھ ختم ہوگیا۔کھڑے ہوکر وہ ٹہلنے لگا۔
وہ اتنی بڑی غلطی کیسے کر سکتا ہیں۔
وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکلا تو رملہ بھی اسکے پیچھے باہر نکلی۔لاونج میں بیٹھے سائمن اور ثنائل نے مڑکر اسے دیکھا۔

وہ آکر صوفے پر بیٹھ گیا اور لیپ ٹاپ سائمن کے آگے کیا۔سائمن نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
ضوفی کے پاس جو ڈیوائس تھا اسکے لوکیشن کا پتہ لگاؤ جلدی۔سائمن ہنوزو اسے دیکھ رہا تھا۔بلکہ سب اسے ناسمجھی سے دیکھنے لگے۔

سائمن جلدی کرو وقت نہیں ہیں ہمارے پاس۔ہوش میں آتے ہی سائمن جلدی سے لوکیشن ٹریس کرنے لگا۔
رملہ تو سائمن کو دیکھے جارہی تھی!ناجانے کتنے سال بعد وہ اسے دیکھ رہی تھی ۔یہ تو ہو سائمن نہیں تھا جو اسکے ساتھ جھگڑتا تھا۔جس کے ساتھ مل کر اس نے پورے محلے والوں کے سر میں دم کر رکھا تھا شرارت دونوں مل کر کتے اور ڈانٹ صرف سائمن
کو ہی پڑتی کیونکہ رملہ کی دھمکی کہ میں ضوفی کو بتاؤں گی اگر اس نے سارا الزام خود پر نہ لیا مجبورا سائمن کو ہی سارا الزام خود پر لینا پڑتا اور بیچارے کو ڈانٹ پڑتی مگر اب تو یہ کوئی اور تھا۔

اسکے چہرے کی رونق اور شرارتیں سب ختم ہوگئی تھی۔شاید وہ ضوفی کو بہت چاہتا تھا۔
وہ مرے ہوئے قدم اٹھا کر وجدان کے ساتھ بیٹھ گئی۔
جبکہ نظر اب بھی سائمن پر تھی۔
سائمن نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔دونوں میں سے کوئی نہیں مسکرایا تھا۔
اسکی لاسٹ لوکیشن اسلام آباد کی تھی۔اور اب شاید وہ آف ہیں لوکیشن شو نہیں ہورہی۔اس نے سیدھے ہوکر کہا،جبکہ وجدان نے زور سے صوفے کے ہینڈل پر ہاتھ مارا۔

لیکن وہ فائل تو اب بھی رملہ کے پاس ہیں جو ضوفی نے سائمن کو دی تھی۔ثنائل کی بات پر رملہ اسے دیکھ کر ہاں میں سر ہلایا۔
نہیں وہ کافی نہیں ہیں اس ویڈیو کا ہونا بہت ضروری ہیں۔وجدان بولنے کے بعد خاموش ہوگیا تو اس کے ساتھ باقی سب بھی خاموش ہوگئے۔
لیکن وہ سب چیزیں میں نے اپنے گھر نہیں رکھی تھی۔رملہ کی بات پر سب نے رملہ کی طرف دیکھا۔
سچ کہہ رہی ہوں وہ سب چیزیں میں نے اقرا کو دے تھی۔
اقرا؟ثنائل نے سوال پوچھا۔
ہاں ضوفی کی پھوپھو کی بیٹی اقرا یزدانی۔
(تھوڑی دیر بعد وہ سب گاڑی میں بیٹھے اقرا کے گھر جا رہے تھے)

پاکستان آتے وقت ضوفی نے مجھے کہا تھا کہ وہ سب چیزیں میں اسکی پھوپھو کی بیٹی کو دوں،تب وہ سکول میں تھی اسے وہی میں نے وہ تمام چیزیں دی تھی۔
(انکی گاڑی ایک بہت بڑے ہاسٹل کے سامنے رکی۔ثنائل اور رملہ گاڑی سے اتری ایک نظر اس بڑے بلڈنگ کو دیکھا اور پھر اندر چلی گئی۔)

مگر جب میں واپس اسکاٹ لینڈ آرہی تھی تو میں اس سے چیزیں لینے اسکے گھر گئی مگر انکا گھر بند تھا پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اسکا بھائی لاہور گیا ہوا ہیں اور دادا گاؤں جبکہ اقرا خود اسکاٹ لینڈ گئی ہیں۔
(وہ دونوں ریسپشن پر اقرا نام کی لڑکی سے ملنے کا کہہ رہی تھی تو ریسپشن والی لڑکی نے انہیں ویٹ کرنے کا کہا اور خود کمپیوٹر میں اسے چیک کرنے لگی)

کیا وہ واپس ہمارے ساتھ پاکستان جانے پر راضی ہوگی.وجدان نے پوچھا
بلکل اسی منتھ اسکی ڈگری مکمل ہو جائے گی تب وہ جائے گی ہمارے ساتھ۔
لڑکی نے انہیں ویڈنگ روم میں بیٹھے کا کہا اور خود اسے بلانے چلی گئی ،دونوں نے مسکرا آکر ایک دوسرے کو دیکھا۔

کچھ دیر بعد اقرا ان کے سامنے بیٹھی تھی۔اقرا ضوفی کی پھوپھو کی بیٹی تھی جبکہ ضوفی اقرا کی ماموں کی بیٹی تھی۔
لیکن رملہ آپی وہ سامان تو پاکستان میں۔اقرا نے فکر مندی سے کہا۔
ہمیں پتہ ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ۔رملہ نے روک کر ثنائل کو دیکھا اور پھر سے اقرا سے مخاطب ہوئی۔

ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمارے ساتھ پاکستان واپس چلی جاؤ۔اقرا خاموش ہوئی تو ثنایل نے فکرمندی سے رملہ کو دیکھا۔
تم نہیں چاہتی کہ تھماری ماموں کی بیٹی کو انصاف ملے ہمم۔اورا نے اسے دیکھا جو پُرامید نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔اسکی نظروں میں التجا تھی ۔

میں جاؤں گی مگر؟رملہ نے ثنائل کو دیکھا
مگر ؟رملہ سے پہلے ثنائل نے اس سے پوچھا
اگلے ہفتے میرا فائنل ہے اس سے پہلے میں نہیں جاسکتی۔اس نے ثنائل کو دیک کر کہا اسکی بات پر رملہ اور ثنایل نے سکھ کا سانس لیا۔
تم آرام سے اپنا فائنل دو ہمیں کوئی جلدی نہیں ہم اگلے مہینے جائیں گے۔اقرا نے اثبات میں سر ہلایا،رملہ اور ثنایل نے مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھا۔ان کو اپنا منزل قریب نظر آرہا تھا
————
اقرا کے فائنل ہوچکے تھے جس کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد وہ لوگ پاکستان آگئے تھے۔ان کو آئے ہوئے تقریبا ایک ہفتہ ہوچکا تھا۔
اس وقت رملہ،ثنائل اور اقرا تینوں لاہور میں وزیر اعلیٰ کی جانب سے منعقد ہونے والی تقریب میں موجود تھے۔
اس تقریب میں تمام شخصیات اور پولیٹیشن شامل تھے۔وزیر اعلی سلطان دلاور خان سمیت بہت سے نامور حکمران وہاں آئے ہوئے تھے۔
اف ہم تو وجدان کو یہ سب بتانا ہی بھول گئے۔اچانک رملہ کو خیال آیا کہ سب صورتحال وجدان سے شئیر کرنا بھول چکے تھے۔
تقریب کے ختم ہوتے ہی ان سے مل کر سب بتا دیں گے۔

ملاقات ہوپائی گی ہماری؟رملہ کو کچھ زیادہ یقین نہیں تھا کیونکہ جب سے وہ پاکستان آئے تھے ان کی صرف دو دفہ ان دونوں سے ملاقات ہوئی تھی۔
کیونکہ ان تینوں کے آنے کے ٹھیک دو ہفتے بعد وجدان ایل لیگل طریقے سے پاکستان آچکا تھا۔
جبکہ سائمن اب بھی اسکاٹ لینڈ میں تھا۔

وہ تینوں کھڑی ہوکر یہی سب ڈسکس کر رہی تھی کہ سلطان دلاور خان اپنے ساتھ ایک نوجوان کے ہمراہ ان کے پاس ایا۔
مجھے تم لوگوں کو نئے کمشنر سے ملوانا ہے، بہت جلد ہی اس نے کافی اچھے اچھے کام کئیے ہیں،کافی مقبول ہوچکا ہے یہ لوگوں میں۔

وہ اس کو ان تینوں سے انٹروڈیوس کر وارہا تھا جبکہ وہ نوجوان تو بس اسے ہی دیکھے جارہا تھا۔
اچھا تم لوگ اس سے باتیں کرو میں ذرا غزنفر سے مل کر آتا ہوں۔رملہ نے مسکرا کر سر ہلایا۔اور سلطان دلاور خان چلے گئے۔

ذرا احتیاط کے ساتھ اپنی وفاداری قائم رکھو ورنہ یہ ملک زیادہ وفاداری کو ہضم نہیں کر پاتا۔ثنائل نے اسے اختیاری تدابیر دئیے۔
آپا۔ثنائل کے جواب میں اس نوجوان نے صرف اتنا ہی کہا جبکہ ثنائل اور اقرا نے تیزی سے مڑ کر اسے دیکھا۔

جی؟ثنائل کو تعجب ہوا ایک اجنبی کے منہ سے یہ سن کر۔
میں آدم ہو آپا آپکا بھائی آدم چودہری۔نم آنکھوں سے مسکرا کر اسے دیکھا جبکہ ثنائل کو تو اب بھی یقین نہیں آرہا تھا۔اس نے اس لڑکے کو دیکھا۔
وہ اسکا بھائی تھا اسکا آدم ،کتنا بڑا ہوگیا تھا ثنائل تو بمشکل اس کے کندھے تک پہنچ رہی تھی۔
آدم میرے بھائی۔ثنائل تیزی سے اس کے گلی لگی۔کتنے سالوں بعد وہ کسی اپنے سے ملی تھی۔
اس کے آنسو زور وقطار بہنے لگے۔جبکہ رملہ نے حیرانی سے اقرا کو دیکھا،جو یک ٹک آدم کو دیکھ رہی تھی۔
کیا یہ اسکا بھائی ہیں۔رملہ نے رازداری سے پوچھا تو اقرا ہوش میں آئی اور آنکھوں کے کھونے صاف کئیے۔

ہاں انکا بھائی ہیں کمشنر آدم چودہری۔مسکرا کر آدم کو دیکھ کر کہا۔تو رملہ نے سر ہلایا۔
تم -تم کمشنر بن گئے اور مما کہاں ہے۔ثنائل نے اسکے پیچھے دیکھ کر کہا ،ثنائل کو کندھوں سے تھام کر کرسی پر بٹھایا۔
————
تھوڑی دیر بعد ثنائل نے اسے تمام کہانی سے باخبر کیا۔
اس دن جب جرمنی جانے والا پلیکن کریش ہوا اس وقت دو جہاز جرمنی جانے والے تھے۔ثنائل کا شوہر جو ایک ڈرگ ڈیلر تھا۔

اس نے اپنا سیٹ پہلے فلائٹ میں لیا جبکہ اسکا دوسرے میں،اور جہاز میں مسافروں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ثنائل کا سیٹ دوسرے جہاز میں آیا۔
پہلے تو ثنائل کو بہت رونا ایا۔کیونکہ اسکا شوہر اسے اکیلا کیسے دوسرے جہاز میں بھیج سکتا ہیں۔مگر جب انکا پلین کریش ہونے کی اطلاع ملی تو اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
کیونکہ ہر کام میں اللہ کی حکمت ہوتی ہیں۔

اسکا شوہر جو خود کو اکلوتا کہہ رہا تھا وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوا اور اس کے کرنے کے بعد اسکی ساری جائیداد ثنائل کو ملی تو ثنائل اسکو ٹریسٹ میں دے کر خود اسکاٹ لینڈ آگئی ضوفی کے پاس کیونکہ اسے ضوفی نے بلایا تھا۔
——————-
یہ رملہ ہیں یقیناً اسے جانتے ہی ہونگے تم۔ثنائل نے رملہ کی طرف اشارہ کیا تو رملہ مسکرائی۔
یقیناً جانتا ہوں انہیں میرے پسندیدہ لیڈر کی بیوی ہیں۔ادم نے مسکرا کر رملہ کو دیکھا۔
اور یہ اقرا ،اقرا یزدانی ضوفیشان ابراہیم کی پھوپھو کی بیٹی۔ادم نے مخص سر خم کیا تو اقرا بھی صرف مسکرائی۔
—————-
تقریب کے ختم ہوتے ہی وہ سب آدم کے گھر گئی۔صبیحہ خانم اس سے مل کر بیت روئی تھی ۔
مسکان،نازنین،صوفیان اور انکی امی سب اس سے ملنے آئے تھے۔مسکان اسکے دائیں طرف بیٹھی بس اس خوبصورت لڑکی کو بس دیکھے ہی جارہی تھی۔
جو ناجانے کتنی سالوں بعد اپنی ماں اور بھائی سے ملی تھی۔
جبکہ نازی ان سب کے لیے چائے بنا کر لائی تھی۔سب کو چائے دے ، خود آدم کے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔اور اقرا کی نظروں سے یہ خائف نہ رہا۔
آدم مسکرا کر ان کو دیکھ رہا تھا۔
آدم کو سرکار کی طرف ایک گھر اور گاڑی ملنے والی تھی مگر اس نے لینے سے انکار کیا اور ابھی تک اسی محلے میں تھا۔
مما اب بس بھی کرے اور کتنا روئیں گئی اپ۔
اپا اپکو انداز نہیں کہ مرنے والوں کو زندہ دیکھ کر کتنی خوشی ہوتی ہیں۔ادم کی بات ہر سب سے پہلا قہقہ مسکان اور صوفیان کا گونجا تھا۔

اقرا نے اسے دیکھا جو کافی بدل گیا تھا۔وہ اب وہی گم سم رہنے والا آدم نہیں تھا وہ تو اب کافی خوش اور ہر ایک سے جلدی گل ملنے والا آدم تھا۔
انٹی ہمیں جانا ہے کافی لیٹ ہوگیا۔رملہ نے مسکرا کر اجازت لینی چاہی۔
ارے ایسے کیسے بیٹا کھانا کھا کر جانا ہوگا تم لوگوں نے اور پھر ہماری ثنائل واپس آئی ہیں ہمارے پاس اس خوشی میں سب کو کھانے کی ٹریٹ کسی نا کسی کو دینی ہی ہوگی نا تو تم لوگ ہی سہی۔

ہاں نا ویسے بھی ہم اتنے تھوڑے ہیں پارٹی کا مزہ تھوڑی آئے گا۔مسکان نے رملہ کو دیکھ کر کہا۔
ٹھیک ہیں۔ سب کے کہنے پر مجبورا ان دونوں کو رکنا ہی پڑا۔سب لوگ گھر میں موجود چھوٹے سے لان میں باربی کیو کی تیاری میں تھے۔جبکہ اقرا فون کے بہانے چھت پر آئی تھی اور اب کھڑے ہوکر نیچھے ان سب کو خوش گھپوں میں مگن دیکھ رہی تھی۔

کیا سچ میں میں اسے یاد نہیں یا پھر وہ بھول گیا ہیں ،لیکن اس کی بھی غلطی نہیں ہمارے درمیان ایسا کچھ تھا بھی تو نہیں صرف دوستی تھی او ر ویسے بھی اتنے پرانی دوستی کو کون یاد رکھتا ہیں۔
تلخی سے مسکرا کر اپنے آنسو صاف کئیے ۔شاید وہ خود کو تسلی دے رہی تھی۔

آدم اس لڑکی کو کیسے بھول سکتا ہیں جس کو میری آنکھوں کی وجہ سے اپنی آنکھوں سے عشق ہوگیا تھا۔اقرا کو اپنے عقب سے اسکی آواز ابھرتی سنائی دی۔مڑ کر دیکھا تو وہ وہی
مسکرا کر کھڑا تھا اور اس کی نظروں کے تعاقب میں نیچھے دیکھ رہا تھا
لائٹ کی روشنی دونوں کے چہروں پر پڑ رہی تھی۔
کیا میں تمھیں یاد ہوں؟
میں تمھیں بھول سکتا ہوں؟

اقرا نم آنکھوں سے مسکرائی۔وہ غلط تھی وہ نہیں بدلا تھا وہ آج بھی سوال کا جواب سوال ہی سے دیتا تھا۔

کیا میری آنکھوں سے اتنی ہی انسپائر ہوئی تھی کہ اپنے ہی آنکھوں کے لینز چینچ کر لیے۔اقرا نے نفی میں سر ہلایا۔

میری آنکھوں کا کلر اور تمھاری آنکھوں کا کلر ایک جیسا ہے، بس اس کلر کو لے کر مجھے کافی لوگوں نے بلی کیا تھا جس کے بعد بھائی کے کہنے پر میں نے لینز پہنا شروع کئیے مگر کچھ سال پہلے ایک لڑکے کو دیکھ کر مجھے یہ اندازا ہوا کہ جو چیز اپکو خود میں اچھی لگتی ہو اسے کبھی بھی ریپلیس نہیں کرنا،چاہیے وہ لوگوں کو اچھی لگے کا بری۔
آدم اسکی بات پر صرف مسکرایا۔وہ دیوار سے پشت ٹکائے ہوئے تھا۔

جبکہ منھ اقرا کی جانب تھا۔
اور اقرا مسکرا کر نیچھے کھڑے سب کو دیکھ رہی تھی۔جہاں مسکان اور صوفیان کی پھر سے کسی بات پر نوک چوک شروع تھی۔

لوگوں کو جو چیز آپ میں بدصورت لگتی ہیں،دراصل وہ چیز ہی آپکی سے بڑی خوبصورتی ہوتی ہیں اور اسی چیز کہ وجہ سے وہ آپکو ناپسند کرنے لگتے ہیں۔اقرا نے مسکرا کر اسے دیکھا۔تو وہ بھی مسکرایا اور سیدھا ہوا۔

چلو نیچھے ورنہ مما نے ڈانٹ دیتے وقت یہ نہیں دیکھنا کہ میں کمشنر ہوں۔ساتھ میں دونوں ہنسنے لگے اور یہ منظر کسی نے نم آنکھوں سے دیکھا تھا۔
—————
وہ سب اس قت ایک انجان جگہ پر موجود تھیں۔انہیں شاید اسی جگہ کا ایڈریس ملا تھا۔وہ ابھی موبائل پر ایڈریس چیک کر رہی تھیں۔کہ ایک لمبا سیاہ کوٹ پہنے لمبی داڑھی اور مونچھوں والا،جسں نے آنکھیں پر سیاہ کلاسسز چڑھا رکھی تھی ان کے سامنے آکر کھڑا ہوا۔
چیزیں ملی؟اس کے سوال کے جواب میں ان تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا
اور پھر نفی میں سر ہلا کر اس آدمی کو دیکھا۔اس آدمی نے بائیں طرف کسی کو اپنے کا اشارہ کیا۔
اور بائیں طرف سے آنے والے کو دیکھ کر وہ تینوں حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگی۔

کچھ دیر بعد اسکی نقلی داڑھی۔مونچھیں اس کے ساتھ دائیں طرف پڑی تھی۔اسکا لمبا سیاہ کوٹ اور مفلر بھی ساتھ میں ہی رکھا ہوا تھا۔
اس کے سامنے وہ تینوں بیٹھی تھی جبکہ تیسرا آدمی کھڑا ان ہی کی طرف متوجہ تھا۔
ہمارے جانے سے پہلے ہی وہ ،ان چیزوں کو لے جا چکا تھا۔ثنائل نے پہلے رملہ کو دیکھا اور پھر اسکی طرف دیکھ کر کہا۔
کمینہ انسان۔غصے کو ضبط کرنے کی وجہ سے اسکا چہرہ نہایت لال ہوچکا تھا۔
اس نے تمھیں کون کیا تھا تمھیں ،تمھیں اسکاٹ لینڈ نہیں آنا چاہئیے تھا۔رملہ نےحیرانی سے اسے دیکھا
مجھے؟اسے اب بھی یقین نہیں آیا تھا۔وجدان نے ہاں میں سر ہلایا۔
لیکن میں اسکاٹ لینڈ خود کی مرضی سے آئی تھی۔
یہی تو کون گیم ہوتا ہے تمھیں لگا کہ تم خود آئی ہو مگر اصل میں تمھیں اسکاث لینڈ بھجوایا گیا تھا۔انہیں پتہ تھا کہ وہ سامان تمھارے ساتھ ہے اور تم اس سامان کو جانے سے پہلے کسی کو ضرور دو گی۔رملہ کو یقین نہیں آیا تھا کہ اسے استعمال کیا گیا۔ثنائل اور اقرا کی حالت بھی اس سے کم نہیں تھی۔

اب ،اب کیا کریں گے،یقینا وہ اس ثبوتوں کو بھی غائب کر چکے ہونگے۔ثنائل نے پریشانی سے کہا۔وجدان نے کندھے آچکا ہے تھے۔کسی کے پاس کوئی پلان نہیں تھا۔پلان کیا ان کے پاس تو ایک چھوٹا سا ثبوت تک نہیں تھا۔
رملہ؟وجدان نے کچھ سوچتے ہوئے رملہ کو پکارا۔تو اس نے وجدان کو دیکھا۔
تم نے کہا تھا کہ اس ویڈیو کی دو کاپیز تھی ایک اس نے تمھیں دی تھی اور دوسری؟اور وجدان کی سب نے رملہ کو دیکھا۔

دوسری کاپی بابا جان کے پاس ہیں مطلب سب سے پہلے وہ ویڈیو ضوفی نے باباجان کو دی تھی میرے سامنے۔ثنائل نے خوش ہوکر کہا۔
لیکن وہ کاپی کون لے گا ان سے۔رملہ نے سوچتے ہوئے کہا
میں کل ہی باباجان سے ملنے جاؤں گی اور وہ لے آؤں گی۔
نہیں تم نہیں جاؤ گی ان کی نظر ہم سب پر ہیں ہمیں کسی اسے انسان کو بھیجنا ہوگا جو ہم میں سے نہ ہو۔وجدان کی بات پر سب ایک دفہ پھر سے خاموش ہوئے۔
ایک انسان ہے،جو وہ لے کے آسکتا ہیں۔ان میں موجود اس نئے آدمی نے کہا جس پر وہ سب اسکی طرف دیکھنے لگے۔
—————
مجھے سابق چیف جسٹس سے ملنا ہیں؟وہ جیل کے ہیڈ کے آفس میں اس کے سامنے ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھا تھا۔
دیکھیں سر کسی کو اس نے ملنے کی اجازت نہیں ہیں۔اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
تمھارا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔شاید آج کل میٹرک کے ایگزامز دے رہا ہیں؟کل ہی شاید انکے سکول میرا چکر لگے۔
ارے سر آپ مل سکتے ہیں ،ظفر ظفر۔وہ جلدی سے اہلکار کو آواز دینے لگا۔جبکہ اس کے اس انداز پر وہ ہنسا تھا۔یعنی لاتھوں کے بوت باتوں سے نہیں مانتے۔
تھوڑی دیر بعد وہ سابق چیف جسٹس کے سامنے کھڑا تھا۔انکی داڑھی اور بال کافی لمبے ہوچکے تھے۔انکا تندرست اور توانا جسم زائل ہوچکا تھا۔
انکی رنگت کافی مرجھاگئی تھی۔
انہیں جیل کے سب سے آخری کوٹھڑی میں رکھا گیا تھا۔وہان اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔صرف انکے سیل میں تھوڑی سے روشی تھی جو کہ سیل میں بنے روشن دان سے آرہی تھی۔
وہ مرے ہوئے قدموں سے ان کے پاس گیا تھا۔

اس کے ساتھ دو اہلکار بھی نیچھے آئے تھے۔جنہیں اس جانے کا اشارہ کیا تو وہ چلے گئیے۔
اس نے آگے بڑھ کر جیل کے سلاخوں کو تھاما۔

آپ نے کہا تھا کہ گرفتاری سے اپکو دکھ نہیں ہوا،لوگوں کہ گالیوں سے آپ نے اپنا سینہ تنگ نہیں کیا کیونکہ آپ نے سچ کا ساتھ دیا تھا تو پھر،پھر آج کیوں آپ یوں بیٹھے ہیں جیسے یہ جنگ آپ ہار چکے ہیں۔حلانکہ آپ تو ہار کر بھی جیت چکے ہیں اور وہ ۔۔۔وہ تو جیت کر بھی ہار چکے ہیں باباجان۔تھوڑا روک کر پھر سے بولا

لمبی داڑھی اور بالوں والے افتحار چوہدری نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو نم آنکھوں سے بولے جا رہا تھا۔
کیوں آپ ان کو جیتنے دے رہے ہیں باباجان۔وہ رونے لگا تھا۔اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ کر مضبوط سے مضبوط بیٹا بھی رو سکتا ہیں۔
سابق چیف جسٹس دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اس کے سامنے آکر کھڑا ہوا۔جبکہ وہ سر جھکا کر رو رہا تھا۔

ک-کون ہو تم؟اپنے کپکپاتے ہاتھ اس کے سلاخوں پر درے ہاتھوں پر رکھا۔تو اس نے سر اٹھا کر سامنے کھڑے اپنے دور کے سب سے جانے مانے جج کو دیکھا۔
جس کے انصاف کی تعریفیں صرف پاکستان تو کیا بہت سے دوسرے ممالک نے کئیے تھے۔

اتنی جلدی بھول گئے اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو۔تلخی سے ہنس کر کہا۔

آ-آدم۔اس نے سر ہلایا جبکہ جج اسکے ہاتھوں کو چھوتے ہوئے رو پڑا۔اسکا بیٹا اتنا بڑا ہوچکا تھا۔وہ کبھی اپنے آدم کو نہیں بھول سکتے۔اج بھی ان کی تین جان سے عزیز لوگ اسے یاد تھے۔
—————-
وہ اپنے پرانے گھر آیا تھا۔انکے گھر کو سیل کر دیا گیا تھا مگر وہاں کا سامان وہی پڑا تھا کوئی بھی لوگ وہاں رہنے کو نہیں آئے تھے,ہر طرف گھر میں اندھیرا تھا۔اس کے ساتھ ایک انسان اور بھی تھا،شاید ایک لڑکی،وہ دونوں مسلسل گھر کے کے ماسٹر روم کی الماریوں کی تلاشی لے رہیں تھے۔
لیکن شاید انہیں ابھی تک اپنی مطلوبہ چیز نہیں ملی تھیں۔
ہا آدم یہ دیکھو۔اا لڑکی نے سرگوشی میں اسے آواز دے کر کہا تو وہ جلدی سے اسکے پاس ایا۔لڑکی نے الماری کے ساتھ بنے کونے میں ایک ہینڈل کہ طرف اشارہ کیا۔

شاید یہاں کوئی دوسری جگہ بھی ہیں۔
یہ پکڑو۔ٹارچ لڑکی کو دے کر وہ الماری کو ہٹانے لگا مگر شاید وہ بہت بھاری تھی۔لڑکی بھی اپنے ہاتھ میں پکڑے ٹارچ کو وہی رکھا اور اس کے ساتھ الماری کو وہاں سے ہٹانے لگی۔

بہت محنت کے بعد آخر کار الماری اتنی ہٹی تھی کہ اب وہاں ایک انسان کے کھڑے ہونے کہ گنجائش تھی۔
وہ اپنا کوٹ اتار کر اس لڑکی کو دیا اور خود وہاں گیا اور ہنڈل کو گھومایا تو ایک دوسرا دروازہ نمودار ہوا۔
جس پر لاک لگا ہوا تھا۔مگر انہیں وہاں پاس ورڈ کو انٹر کرنا تھا۔
اس نے ایک مایوس کن نظر اس لڑکی کو دیکھا۔
کیا ہوا۔
پاس ورڈ لگا ہوا ہیں۔وہاں سے نکل کر کہا۔
میں ٹرائی کرتی ہوں۔
اقرا یہ لولی پوپ نہیں ہیں جو تم اسے یو ہی کھول دو گی۔اپنی اتنی تعریف پر وہ اسے گھورنا نہیں بھولی۔
اور اگر کھولا تو رات کے تین بجے مجھے مارگلہ ہلیلز پر ڈنر کرواؤ گے،منظور ہے تو بتاؤ ۔دونوں ہاتھ کمر پر باندھ کر اسے چیلنچ دیا۔
ٹھیک ہے ۔جواب جھٹ سے آیا تھا۔
سوچ لو کیونکہ میں یہ کھول سکتی ہوں۔
ہاں سوچ لیا۔۔اب بھی وہ ہنس رہا تھا۔اقرا ایک خفگی بھری نظر اس پر ڈال کر لاک کھولنے لگی۔

کافی دیر سے وہ کوشش کر رہی تھی مگر لاک تھا کہ کھول ہی نہیں رہا تھا۔وہ ہر پاسورڈ ٹرائی کر چکی تھی۔
نہیں کھولے گا چلو بہت دیر ہوگئی ہیں۔اس نے ہینڈ واچ دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔جبکہ وہ جانے کے موڈ میں بلکل نہیں تھی۔

فکر مت کرو ڈنر کروا دوں گا لیکن فل حال اب اسے چھوڑو اور چلو۔
ایسے کیسے وہاں سب ہماری انتظار میں ہیں کہ ہم ویڈیو لائے اور کیس شروع ہو۔اس نے پاس ورڈ ڈائل کرتے ہوئے کہا ساتھ میں وہ اپنا اور آدم کا موبائل بھی کھولے اس پر بھی انگلیاں پھیر رہی تھی۔

کچھ دیر بعد اقرا آکر اس کے سامنے فرش پر بیٹھ گئی۔اور اسکا موبائل اسکی طرف بڑھایا۔
دیکھو کہا تھا نا خود کو خواہ مخواہ میں ہی اتنا تھکا دیا۔اپنا کوٹ اور موبائل اسکے ہاتھ سے لے کر جانے لگا۔

اور یہ یو از بی کون پکڑے گا۔ادم کے قدم ساکت ہوئے اور ناسمجھی سے پیچھے مڑا۔
کھول گیا ہیں۔اقرا مسکرا کر اسکی طرف یواز بی بڑھا چکی تھی۔
جبکہ آدم آنکھوں میں حیرت لیے یو ایس بی کو دیکھ رہا تھا۔
آج تم نے ثابت کر ہی دیا کہ تم لولی پوپ کھانے کے علاؤہ اور بھی بہت کچھ کرنے میں ماہر ہو۔ہستے ہوئے اس کے ہاتھ سے ہو ایس بی لی۔
اب اگر تم نے مجھ سے ایک بات بھی کرنے کی کوشش کی نا تو قسم سے مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔وہ ناراض ہوکر چلی گئی جبکہ آدم معافی مانگتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگا تھا۔
———–

میری گرفتاری دیتے ہی رملہ کورٹ میں کیس دائر کرے گی۔اور احمر بھائی اس کیس کو ہینڈل کریں گے۔
(سوشل میڈیا پر سابق وزیر اعظم وجدان نیازی کی گرفتاری کی نیوز چل رہی تھی،ساتھ میں اڈیالہ جیل کے باہر اسکی گرفتاری کی ویڈیو بھی منظر عام پر عاچکی تھی۔ہر طرف ہنگامہ برپا ہوچکا تھا)
اور اس ویڈیو کو بطور ثبوت کورٹ میں پیش کریں گے احمر بھائی۔

(کچھ دن بعد وہ سب کورٹ میں موجود تھے،سلطان دلاور خان سمیت عاطف اور انکی اہلیہ بھی موجود تھیں،احمر کوٹ پینٹ پہنے جین کے سامنے ثبوت اور گواہان جو پیش کرنے لگے)
جج اس ویڈیو کو بطور ثبوت کرنے سے انکار کریں گے مگر آپ لوگ اسے مسلسل فورس کروں گے
(اور ایسا ہی ہوا تھا جج نے ویڈیو کو بطور ثبوت پیش کرنے سے انکار کیا٫سلطان نے فتح کی مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجائے بائیں طرف بیٹھے عاطف نیازی کی طرف دیکھا)

مگر جج صاحب ہمارے پاس صرف ایک یہی ثبوت ہے جو وجدان نیازی کو بے گناہ ثابت کر سکتے ہیں.احمر اس ویڈیو کو بطور ثبوت پیش کرنے پر بضد تھا۔کورٹ میں آنے والی لڑکی کو دیکھ کر سلطان کے تو ہوش وحواس کھونے لگے۔

کاظم تم نے تو کہا تھا کہ یہ مرچکی ہیں۔ سلطان نے دانت پیستے ہوئے ساتھ بیٹے کاظم سے کہااس لڑکی کو دیکھ کر تو کاظم کے بھی اوسان خطا ہوئے

پاپا میں نے خود ۔
چھپ کرو کمینے انسان۔اسے ٹوک کر وہ کمرہ عدالت سے باہر نکل گئے جس پر وجدان اور اس لڑکی نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ان کے نکلتے ہی وہ بھی خود کو چھپا کر نکل گئی۔

کچھ دیر بعد احمر کے بہت احتجاج کرنے پر بلا آخر جج مان گئے اور ویڈیو کو پلے کیا اس میں ضوفیشان ابراہیم سفید لمبے فراک میں بیٹھی بولے جارہی تھی.رملہ مزید برداشت نہ کرسکی اور باہر نکل گئی۔
———————
رملہ کے جانے کے بعد ہی سائمن نے ضوفیشان ابراہیم کو شادی کے لیے پروپوز کر دیا۔جس پر ضوفی پہلے ہی مان گئی۔
اور اس دن سائمن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔اگلے ہی دن وہ دونوں اپنے گھر کو سجانے لگے۔
جس میں شادی کے بعد وہ دونوں شفٹ ہونے والے تھے۔اس گھر کی ہر چیز کو ضوفی نے اپنی ہاتھوں سے سجایا تھا۔
وہ دن رات لگی رہتی اور اس گھر کو سجاتی رہتی اس نے بہت سی پینٹنگز بنائے جو اس نے سیکنڈ فلور پر لگائے تھے۔
اس نے سائمن کو کہا تھا کہ وہ اپنے لان میں بہت سے ٹیولپ لگائی گی۔اور اگلے ہی دن سائمن۔ نرسری سے ٹیولپ کے پودوں لایا تھا۔

اور اسے وہاں لگانے لگا۔گھر کو سجانے کے بعد انہوں نے باقی کی تیاریاں بھی مکمل کرلی۔ضوفی کے مطابق ویڈنگ ہال میں صرف ٹیولپ لگے گے۔
جس کی بات سائمن پہلے سے ہی کر چکا تھا۔

وہ دونوں بہت خوش تھے۔دو ہفتے بعد ان کی شادی تھی۔سائمن کی ماں نے انکے لیے خود اپنے ہاتھوں سے کیک تیار کرنے لگی تھی۔
ضوفی بہت خوش تھی۔بلااخر اسے بھی کوئی ملانتھا جس سے وہ ہر بات شیئیر کرے گی۔ہاں رملہ اس کے سب سے قریب تھی مگر وہ اسے کچھ نہیں کہتی تھی کیونکہ وہ بہت جلد ہر بات کا سٹریسی لیتیں تھیں۔
وہ بہت خوش تھیں مگر چند دن سے وہ سائمن کو کھوئی کھوئی سی لگی۔وہ سائمن سے باتیں بھی کم کرنے لگی تھیں۔

چونکہ وہ گم گو تھیں مگر شادی کی بات کے بعد وہ بہت بولنے لگی تھی۔لیکن اچانک اس کی خاموشی سائمن کو کٹکنے لگی۔

پھر چند دن بعد اس نے سائمن سے پاکستان جانے کی ضد پکڑ لی ۔سائمن نے اسے کیا تھا کہ شادی کے بعد وہ دونوں ساتھ میں چلے جائیں گے مگر وہ نہیں مانی اسے ابھی جانا تھا اور مجبورا سائمن کو اسے اکیلے بھیجنا پڑا سائمن بھی اس کے ساتھ جاتا مگر عین موقع پر ہی سائمن کی دادی کی ڈیتھ ہوگئی اور وہ اس کے ساتھ نا جاسکا۔

پاکستان میں وجدان کو وہ بہت ہی عجیب حالت میں ملی۔وہ اسے اپنے گھر لایا اسکا چیک اپ کیا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ ایکسپٹ کر رہی ہیں اور یہ بات سنتے ہی وجدان سمیت اسکی ممی بھی شاکڈ ہوئی۔
وجدان تو سائمن کو برا بلا کہہ رہا تھا مگر ضوفی کی بات سن کر وجدان کو اپنے پیروں تلے زمین نکلتی محسوس ہوئی۔

وہ لوگ انکا ابارشن کروانے کی بات کی ڈاکٹر سے تو ڈاکٹر کے مطابق اسکی پریگنینسی کو بہت وقت ہوا ہے ابھی ابارشن کروانا اس کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا۔
ڈاکٹر کی بات سن کر وجدان نے ضوفی کو اپنے گھر پر رکھا جہاں مسسز عاطف نے اسکا بہت خیال رکھا۔

وہ ضوفی سے بہت باتیں کرتی تھی مگر وہ صرف ہاں ہوں میں جواب دیتی اور سارا دن لان میں ٹیولپ کے پودے لگاتی اور پھر گھنٹوں اسے دیکھتی۔
وہ شاید بہت بہادر تھی۔اس سارے وقت میں مسسز عاطف نے اس کے منھ سے ایک لفظ بھی مایوسی کا نہیں سنا۔
پھر وہ چلی گئی۔اور ایک دن اسکی لاش گھر ائی۔خون میں لت پت۔
————-
ضوفی عدالت میں لگے سکرین پر سے چلی گئی تھی۔کمال کی لڑکی تھی نا وہ اس عدالت میں سوائے چند لوگوں کے کسی سے رشتہ نہیں تھا لیکن پھر بھی وہاں موجود ہر انسان کی آنکھ آبدیدہ تھی۔
عدالت نے وجدان نیازی کو ہر الزام سے باعزت بری کر دیا تھا۔مگر وہاں کوئی خوش نہیں تھا سب نے مرجھائے ہوئے چہروں کے ساتھ اسے مبارک باد دی تھی۔
مسسز نیازی اور رملہ تو بہت پہلے ہی وہاں سے جاچکی تھی۔
————-
اففف ہمارے ملک میں فوجی آپریشن سے امریکہ کو کیا فائدہ۔ہمیشہ کی طرح آدم اور اقراء کو کسی کام سے بھیجا تھا اور وہ دونوں وہی بیٹھی فوڈ سٹریٹ کے مزے کے رہے تھے۔
جب وہی دکان میں لگے ٹی وی پر پاکستان کے علاقائی آپریشن کے بارے میں نیوز چل رہی تھی۔
آدم کی ماں یعنی صبیحہ بیگم کراچی اپنے بھائی کے ہاں گئی تھی۔کیونکہ ثنائل اور آدم کو آسلام آباد آنا پڑا۔
ہمارے علاقائی اضلاع میں آپریشن سے وہ افغانستان جانے کے لیے پھر ایک راستہ بنا رہے ہیں۔
افغانستان جاکر ان انگریزوں نے کیا کرنا ہیں بھئی۔اس نے چاٹ کا چمچ منھ ڈالتے ہوئے کہا۔
وہاں سے وہ چین جانے کا راستہ تلاش کریں گے اور چین کے ساتھ ان کی جنگ چھڑ جائے گی پھر تیسری جنگ عظیم شروع ہوگئی پھر امام مہدی آئیں گے اور پھر۔

بس بس اتنی جلدی قیامت کیوں لارہے ہو۔اس نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
میں تھوڑی لا رہا ہوں۔
ویسے چین سے ان کو کیا بیر ہیں جو ان بیچاروں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ان بیچاروں کو تو جنگ کے دوران دیکھے گا بھی کچھ نہیں۔اسے واقعی میں ان کی چھوٹی آنکھوں پر افسوس ہوا۔جبکہ آدم مسکرایا تھا۔
چین شاید بہت جلد سپر پاور ہونے کا اعلان کرے۔اقرا نے او کے انداز میں ہونٹ کھولے۔

ویسے ایک تو یہ انگریز نا خود سکون سے رہتے ہیں نا ہمیں سکون سے رہنے دے رہیں۔اسے شدید نفرت تھی ان گوروں سے۔
چھوڑو ان کو انکی لڑائی سے ہمیں کیا۔ادم نے پلیٹ رکھتے ہوئے کہا
ائے ہائے ہم کوئی دوسری دنیا میں نہیں رہر ہے قیامت آئی گی تو ہم پر بھی آئی گی۔
اب یہ قیامت کہاں سے اگیا؟

تیسری جنگ عظیم قیامت کے سب سے بڑے نشانیوں میں سے ایک ہیں۔اس نے جیسے آدم کی نولج میں اضافی کیا۔اسکی بات پر آدم نفی میں سر ہلانے لگا۔یعنی اسے کسی اور چیز کی فکر نہیں اسے بس یہ ٹینشن تھی کہ قیامت جلدی نا ائے۔

ویسے ہمیں وجدان سر نے یہاں کیوں بھیجا ہیں؟ادم کے پوچھنے پر اس نے کندھے اچکائے۔
اور اسکی لاپرواہی پر آدم اپنا ماتھا پیٹتا رہ گیا۔اسے لگا تھا وہ بہت بدل گئی ہوگی مگر
وہ تو ویسی ہی تھی
سدا کی بے وقوف۔ادم اسے ہاتھ پکڑ کر اپنے پیچھے گھسٹتا ہوا لے گیا کیونکہ اگر اسے موقع ملے تو وہ یہاں صبح تک بیٹھی چاٹ کھاتی رہے۔
———————

وجدان کو جیل سے آئے ہوئے ایک ماہ ہونے کو تھا۔ادم اور اقرا کی لائی ہوئی ویڈیو اور انفارمیشن اب تک وجدان نے کسی سے شئیر نہیں کی تھی۔وہ سب آج وہی انجان جگہ پر موجود تھے۔
ان میں سائمن بھی موجود تھا۔اسے وجدان نے بلایا تھا اور آتے ہی اسے ضوفی کی ریپ کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
تب سے وہ اور بھی زیادہ خاموش ہوا تھا رملہ کا بھی کچھ اسکے جیسا ہی حال تھا۔
وہ سب وہاں موجوں تھے۔ احمر اور ثنائل دونوں کیس کی تیاری کے لیے ایک دور بیٹھے کیس ڈسکس کر رہے تھے کیونکہ ان کے پاس وہ دونوں ہی وکیل تھے۔
وجدان ہاتھ میں لیپ ٹاپ پکڑے ان کے سامنے بیٹھا۔
اور لیپ ٹاپ کھول کر ان کے سامنے کیا۔
رملہ سمیت سب نے حیرانی سے اسے دیکھا۔اور پھر ویڈیو پلے ہوئی۔جیسےجیسے ویڈیو آگے جارہی تھی۔رملہ کی بے یقینی ویسے ہی بڑھتی جارہی تھی۔
—————
اس رات جب ضوفی اپنے کمرے میں کیمرہ لے کر بیٹھ بیٹھی تھی۔تب کاظم اس کے کمرے میں آیا تھا۔ضوفی کا آئی پیڈ لے کر وہ چلا گیا۔
کاظم کے جاتے ہیں وہ سو گئی تھی۔
اسے اس رات کو بہت کچھ کرنا تھا۔رات کو جب سب سو چکے تھے۔تو وہ اپنا کیمرہ اٹھا کر اپنے کمرے سے چلی گئی۔

ضوفی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی لاونج سے سیدھا بیسمنٹ کہ طرف گئی۔ایک نظر تمام کمروں پر ڈال کر وہ نیچھے گئی۔

اسکا ارادہ بیسمنٹ میں موجود لڑکی سے بات کر کے اسکی تمام کہانی جو کچھ اسکے ساتھ کیا گیا تھا سب ریکارڈ کرنے کا تھا۔مگر وہ جیسے ہی نیچھے گئی۔
اس سے پہلے وہاں کوئی اور موجود تھا۔اس نے فرصت سے پہلے ریکارڈنگ شروع کی اور سب کچھ اسکے کیمرے میں مقید ہوگیا۔

اسکے ہاتھ ہر کانپ رہے تھے مگر اس نے اس مظلوم اور بے کس لڑکی کی مدد کرنی تھی۔وہ ریکارڈنگ کر رہی تھی جب اسکا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا،جس کی وجہ سے سارے تہہ خانے میں آواز پیدا ہوئی۔

بیسمنٹ میں بنے کمرے میں موجود نفوس نے ایک دوسرے کو دیکھا اور
سلطان دلاور خان ڈاکٹر کے ساتھ کمرے سے نکل آئے اور بیسمنٹ کی تلاشی لینے لگے
مگر تب تک وہ جاچکی تھی۔
ا
کمرے میں آکر اسے اے سی کی کولنگ میں بھی پسینے آنے لگے۔
اسے یقین نہیں ارہا تھا کہ اسکا خالو ایسا ایک بچی کے ساتھ کیسے کرسکتے ہیں۔

اسے کچھ نہیں پتہ تھا کہ وہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ بس اسے صرف اتنا پتہ تھا کہ وہ جو بھی کر رہے تھے غلط کر رہے تھے۔
اس نے جلدی سے کیمرہ سے ریم نکالی اور اپنے سکول بیگ میں رکھا۔

اگلی صبح وہ ریم لے کر ثنائل کے گھر گئی اسکے والد چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ افتخار چوہدری سے ملنے ان کو سب کچھ بتا کر وہ اس لڑکی کا کیس لڑ کر اسکی مدد کرنا چاہتی تھی۔

مگر شاید اسکا کیمرہ کاظم دیکھ چکا تھا اور اس نے وہ بات سلطان دلاور خان کو بتائی۔اور اگلے ہی دن اسے اسکاٹ لینڈ بجھینے کا ارادہ کیا۔
————–
ویڈیو ختم ہوئی اور وہاں موجود تمام لوگوں پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔سوائے وجدان کے۔
سب خاموش تھے جب انہوں نے ایک ساتھ کھڑی ہوئی مسلسل نفی میں سر ہلاتی رملہ کو دیکھا۔
یہ -یہ جھوٹ ہی۔ پاپا ——پاپا ایسا کیسے۔۔وہ کھڑی ہوکر مسلسل نا میں سر ہلاتی بولی گئی۔وجدان اٹھ کر اس کے پاس ایا۔
رملہ۔اسکو کندھوں سے تھاما چاہا مگر رملہ اسکے ہاتھ جھٹک گئی تھی۔
جھ–جھوٹ بول رہے ہو تم اور یہ —-یہ ویڈیو بھی ایڈیڈنگ ہیں میرے پاپا ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔— اس نے لیپ ٹاپ زمین پر دے مارا۔اور پھر ثنائل کے پاس آئی جو اسے دیکھ رہی تھی۔

ثنائل تم بھی اس دن ضوفی کے ساتھ تھی نا تم ہی کہہ رہی تھی کہ وہ — وہ آوازیں جنات کی ہیں تم گئی تھیں اسکے ساتھ تم نے دیکھا نا وہ —وہ پاپا نہیں تھے وہ جن تھے ہیں نا-
وہ بلکل پاگلوں کی طرح بول رہی تھی۔وجدان چہرے ہر ہاتھ پھیر کر منھ موڑ گیا۔

میں نے انکا چہرہ نہیں دیکھا تھا ضوفی مجھے وہاں روکنے کا کہہ کر خود اس روم کے پاس گئی تھی مگر میں نے سنا تھا وہ مردوں کی آوازیں تھیں اس وقت چھوٹی تھی تو انکو جنات سمجھ بیٹھی۔
رملہ اب بھی یقین نہیں کر رہی تھی۔

جھوٹ بول رہے ہو تم سب میرے پاپا ایسا نہیں کر سکتے ہیں ان کی خود کی دو بیٹیاں تھیں وہ کسی اور کی بیٹی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔

وہ سب کو دیکھ کر چیخی تھی مگر وہ لوگ چہرے جھکا گئے ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس وقت اسے دیکھتے وہ وہ رملہ نہیں تھی وہ تو کچھ اور لگ رہی تھی جسے اپنے باپ پر اندھا یقین تھا۔وہ روتے ہوئے وہی فرش پر بیٹھ گئی تھی۔
وجدان مرے ہوئے قدم اٹھاتا اس کے پاس آکر دونازوں ہوکر بیٹھ گیا۔

ر-رملہ۔
وج-وجدان تمھیں یقین ہے نا کہ پاپا ایسا نہیں۔ کرسکتے۔وجدان نظریں جھکا گیا۔
پلیز وجدان بولو نا کہ یہ سب اے آئی ایڈیٹنگ ہے یہ پاپا نے نہیں پلیز۔اسکو گریبان سے پکڑ کر وہ مسلسل کہے جا رہی تھی۔

رملہ جب یہ ویڈیو ریکارڈ ہوئی تھی اور یہ سب ہورہا تھا اس وقت اے آئی ٹیکنولوجی کا کوئی کنسپٹ نہیں تھا اور پھر خود دیکھو اس ویڈیو کی ریزولوشن کو یہ کتنے سال پرانی ویڈیو ہیں۔
وجدان نے اسکا چہرہ پیار سے اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرا اور آہستہ سے اسے یقین دلانے کی کوشش کی۔

رملہ۔اسے یوں خاموش دیکھ کر وجدان نے اسے کندھے سے تھام کر کہا۔وہ نیچھے دیکھ رہی تھی۔
باقی سب بھی اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے سر جھکائے ہوئے تھے۔

وجدان کی پکار پر اسے ایک نظر دیکھا اور اٹھی۔اپنا سکارف ٹھیک کیا اور بیگ اٹھا کر باہر چلی گئی۔
سب نے ایک ساتھ اسے باہر جاتا دیکھا۔وجدان اسے آواز دیتا اس کے پیچھے چلا گیا۔

مگر باہر آتے ہی وہ وجدان کو کہی نہیں دیکھی۔اور وجدان کی گاڑی بھی نہیں تھی مطلب وہ جا چکی تھی۔وجدان جلدی سے اندر ایا۔

رملہ کہاں ہیں؟سب سے پہلے سوال ثنائل نے پوچھا۔
شاید وہ سلطان سے ملے گئی ہیں۔چئیر پر بیٹھ کر دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرتے ہوئے کہا۔
انہیں سلطان صاحب کے پاس نہیں جانا چاہیے۔اقرا کی بات پر سب نے مڑ کر اسے دیکھا۔
وجدان بھی ناسمجھی سے اسے دیکھا۔

اگر وہ ان کے پاس گئی اور انہیں اس سب کے بارے میں بتایا تو بہت بڑا ہوگا۔اقرا کا اشارہ ویڈیو کی طرف تھا۔
تو بتا دے ویسے بھی کچھ ہی دنوں میں کیس دائر کریں گے ہم۔وجدان نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔

اقرا ٹھیک کہہ رہی ہیں اگر مس رملہ نے سلطان صاحب کو سب کچھ بتایا تو جو ثبوت ہم نے ان کے خلاف اتنی مشکلوں سے اکٹھے کئیے ہیں ایک ہی جھٹکے میں وہ سب تباہ کر دیں گیں۔
آدم نے اقرا کی بات کو تفصیل سے بیان کیا تو اقرا نے سر ہلایا۔

بلکل وجدان ہماری ساری محنت تباہ ہوجائی گی ہمیں اسے روکنا ہوگا ۔یہ کہنے والا احمر تھا۔
—————–
رملہ سلطان ہاؤس کے سامنے کھڑی اس گھر کو دیکھ رہی تھی۔جس میں رہتے ہوئے بھی وہ بہت کچھ سے انجان تھی۔
ایک نظر اس گھر کو دیکھ کر وہ اندر کی طرف بڑھی۔سلطان کی گاڑی وہی کھڑی تھی۔مطلب وہ گھر پر ہی تھے۔
جیسے ہی اس نے لاونج میں قدم رکھا۔اسے سلطان کسی سے فون پر بات کرتے ہوئے دیکھائے دے۔
ارے رملہ آؤ اپنے پاپا کو تم بھول ہی گئی۔اسے دیکھ کر فون بند کیا اور اسکی طرف ائے۔انکی آواز سن کر ازرہ سلطان بھی باہر ائی۔

کاش کہ میں آپکی بیٹی نا ہوتی پاپا۔اسکی بات پر سلطان کے فون پر چلتے ہاتھ رکھ گئے اور سر اٹھا کر مسکرایا اور ناسمجھی سے اسے دیکھا۔

ٹھیک کہہ رہی ہوں پاپا۔۔۔۔۔۔۔ میرے پاپا تو میرے آئیڈیل تھے مجھے لگا کہ میرے پاپا تو اس قوم کی حفاظت کر رہے ہیں اس قوم کے لیے وہ دن رات محنت کرتے ہیں۔تخلی سے مسکراتے ہوئے کہا۔
ازرہ سلطان خاموشی سے وہی کھڑی رہی۔جبکہ سلطان دلاور خان اٹھ کر اس کے پاس ائے۔

کیا ہوا بیٹی یہ سب کیوں کہہ رہی ہو۔اسے کندھوں سے تھام کر کہا۔تو رملہ نے ایک تلخ مسکراہٹ اپنی ہونٹوں پر سجائی۔

میرے پاپا درندے نہیں ہوسکتے ،وہ کسی معصوم کے بدن کو درندوں کی طرح نوچ نہیں سکتے۔ازرہ سلطان نے اپنی بیٹی ہو دیکھا جو پتہ نہیں کیا کہہ رہی تھی۔

رملہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔ازرہ سلطان قدم اٹھاتی ہوئی اس کی پاس ائی۔

آپ کو دھوکہ دیا ہے انہوں نے، ایک معصوم کو اپنی ہوس کا نش۔باقی کے الفاظ اسکے منھ میں رہ گئے اور اسکی ماں کے انگلیوں کے نشان اسکی گال پر ثبت ہوئے۔

کچھ اندازہ بھی ہیں تمھیں کیا کہہ رہی ہو۔ازرہ کے آنکھوں میں ایک غصہ سا تھا۔جبکہ رملہ مسکرائی۔

مکافات عمل سے میں تو بچ گئی ماما مگر ضوفی نہیں بچھی جو انہوں نے کسی اور کی بیٹی کے ساتھ کیا وہی ہماری ضوفی کے ساتھ ہوا تھا ماما۔تخلی سے مسکرا کر کہا جبکہ ازرہ سلطان نے اپنے دونوں ہاتھ منھ پر رکھ لیے۔

صرف اتنا ہی نہیں ماما مجھے میری اولاد سے محروم کرنے والے وجدان نہیں میرے اپنے ہی پاپا تھے۔ازرہ سلطان کو لگا کہ کسی نے اسکے پیروں تلے زمین کھینچ لی۔

ایک بات یاد رکھیے آپ۔۔۔ایک قدم چل کر ان کے پاس آئی اور سلطان کے آنکھوں میں دیکھا۔

جو کچھ ضوفی کے ساتھ ہوا اسکا بدل میں ضرور لوں گی اور آج سے ابھی آگاہ مجھے اپنے دشمنوں کے صف میں پائیں گے۔انگلی اٹھا کر انہیں خبردار کیا اور ایک نظر ان پر ڈال کر وہی سے چل پڑی۔

خود کو جتنا اندر کنٹرول کیا باہر آکر زور و قطار رونے لگی۔گاڑی کے ساتھ نیچھے بیٹھ کر رونے لگی۔
اسکا باپ درندہ بن چکا تھا۔اسے تو اپنے وجود سے گن آنے لگی تھی۔اس نے شدید خواہش کی کہ کاش اسکی آنکھ کھلی اور اسے معلوم ہو کہ یہ سب ایک خواب ہو اسکا باپ آسیا نا ہو۔

کاش اسکی ضوفی آکر اسے گلے سے لگائے اور کہے کہ جب اسکی ضوفی اسکے پاس ہیں تو کیا رملہ کو کسی اور رشتے کی ضرورت ہیں اور وہ ہمیشہ کی طرح نا میں سر ہلاکر اسے گلے لگائے جیسا کہ اسکاٹ لینڈ میں کرتی تھی۔

آج وہ رو رہی تھی مگر اسکی ضوفی اسکی پاس نہیں تھی۔وہ تو بغیر کچھ کہے اسے چھوڑ کر چلے گئی تھی۔
اسکی ضوفی اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
—————-

باب :5

ایک چاند سی لڑکی ہلال امتیاز

وہ چاند سی چمکتی لڑکی

خود کو تحریر کرنا چاہتی تھی

ایک اسکے ورق پہ

جو آسمانی صحیفے کی مانند

حکم الہٰی سے

زمین پر اترا ہو

پھر وہ

اک روز

انسانی درندے کے

ہوس کی سولی چڑھی

اک مننظم منصوبے کے

تحت اس کے ہاتھ

میں خود کشی کا پروانہ دے دیا گیا

اور ہلال صرف اتنا جان سکی

کہ خواہش اور ارادے

انسان کے وہ خواب ہیں

جن کی تعبیر

زمین پر اتاری نہیں گئی

بے چین روحوں کی روشنائی میں

اترتے سمندر بے زبان ہیں

ایسا گہرا درد ہے

جو دل پہ تو

اتارا جاسکتا ہے

مگر موت سے پہلے

آسودگئ نہیں پاسکتا

(از بشری سعید)

ہلال کے ماں باپ نے وجدان کے کہنے پر سلطان دلاور خان کے خلاف کیس دائر کر دیا تھا۔سب لوگ اس میں بزی ہوگئے تھے۔
اس کے کیس کے دو ٹرائل ہوچکے تھے۔جج نے مزید ثبوت مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔وہ لوگ مسلسل ثبوت ڈھونڈ رہے تھے۔
آج بھی ہمیشہ کی طرح اقرا اور آدم ہی ایک اور ثبوت لینے کے لیے گئے تھے۔

تم نے اچھے سے چیک کیا تھا نا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔ادم نے دروازے کو دھکیلتے ہوئے سرگوشی کی۔
ہاں ابھی ابھی چیک کیا ہیں۔۔اقرا مسلسل پیڈ پر انگلیاں چلارہی تھی۔وہ دونوں گھر کے وسط میں کھڑے ہوئے۔ادم نے ایک کونے والے کمرے کی طرف چہل قدمی کی۔
دروازہ کھول کر وہ دونوں اندر داخل ہوئے۔

اس کیبنٹ کو چیک کرو میں اس کو دیکھتا ہو۔ادم نے اسے بائیں طرف والے کیبنٹ کی تلاشی لینے کا کہا تو ہو اس کی طرف گئی۔

یہ رہی اس سال کی ریپ کی فائل۔ادم نے ایک فائلل ہاتھ میں پکڑ کر نیچھے کھودا کیونکہ وہ میز پر چھڑ کر الماری کے اوپر رکھے فائلز نکالنے لگا تھا۔
اقرا ساری فائلز وہی چھوڑ کر اسکے پاس ائی۔

یہ رہی۔۔۔۔۔۔ڈیٹا چیک کرو کیونکہ اس نام کی دو رپورٹز ہیں۔ایک رپورٹ اقرا کو دے کر دوسرا خود دیکھنے لگا۔
یہ والی تو نہیں ہیں اسکا نام ہلال تبریز ہیں جبکہ ہم جس ہلال کی فائل ڈھونڈ رہے ہیں وہ ہلال امتیاز ہیں۔اقرا دوبارہ اپنے کام میں بزی ہوئی۔

ہاں یہ ہیں نا ہلال امتیاز ۔ادم نے ایک فائلز اسکی طرف بڑھائی اور باقی کا سامنا رکھنے دوبارہ میز پر چڑھ گیا۔
وہ نیچھے کھودا تو باہر سے کسی کی قدموں کی آواز ائی۔
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔

شش۔اسے خاموش رہنے کا کہہ کر وہ دروازے کے پاس گیا اور تھوڑا سا دروازہ کھول کر دیکھا۔سلطان اس ڈاکٹر کے ہمراہ اسی کمرے کی طرف ارہاتھا۔

او نو اب کیا کرے وہ اسی طرف ارہے ہیں۔ابھی وہ یہی کہہ رہے تھے کہ دروازہ کھولا اور وہ دونوں اندر ائے۔
سلطان وہ فائلز نہایت سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں میں نے۔ڈاکٹر نے اندر آتے ہوئے کہا اور الماری میں سے فائل نکالنے لگا۔
وہ دونوں بائیں طرف والی الماری میں چھپے تھے۔الماری کی پٹ کو تھوڑا سا کھول کر باہر بیٹھے ان کو دیکھ رہے تھے۔

شاید وہ میں نے اس الماری میں رکھی ہیں۔وہ انکی طرف بڑھنے لگا۔
اس فائل کو سنبھال کر رکھنا ہوگا اگر یہ ان کی ہاتھ لگ گئی تو پھر بہت برا ہوگا۔سلطان نے سگار پیتے ہوئے کہا۔

ارے صاحب بے فکر رہے۔مسکرا کر دروازہ کھولا اور ڈھونڈنے لگا۔ادم اور اقرا کی سانس اٹکی ہوئی تھی۔ادم نے اپنا دایاں ہاتھ اقرا کے منھ پر رکھا ہوا تھا۔کیونکہ اگر وہ ڈاکٹر تھوڑا سا بھی بائیں جانب جھانکتا تو شاید وہ دونوں پکڑے جاتے۔
اچانک سلطان کو کسی کی کال آئی اور وہ باہر چلا گیا۔جب کہ آدم اور اقرا باہر ائے۔

کون ہو تم اور یہاں گارڈ۔۔۔۔۔۔اور ایک واس آکر اسکے سر پر لگا۔اور ڈھڑام سے گر گیا۔ادم نے سامنے دیکھا تو اقرا ہاتھ میں واس پکڑے کانپ رہی تھی۔
چلو یہاں سے۔ادم اسکا ہاتھ پکڑ کر کھڑکی سے بھاگا۔جب سلطان سمیت گارڈز اندر آئے ڈاکٹر کو فرش پر کراہتے دیکھ کر اسے سارا معاملہ سمجھ آیا!

اچھا نہیں کر رہے تم دونوں بلکل بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔جاو جاکر چاروں طرف ڈھونڈوں اگر وہ یہاں سے چلے گئے تو تم لوگوں کو ژندہ جلا ڈالوں گا دفہ ہوجا۔گارڈز سر ہلا کر باہر چلے گئے۔

آہ وجدان آپ تمھیں تو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا بہت بہادر سمجھتے ہو نا اب دیکھو گے تم۔ کہتے ساتھ ساتھ ہی وہ بھی باہر چلا گیا جبکہ ڈاکٹر وہی کراہتا رہ گیا۔

آدم اور اقرا مسلسل بھاگ رہے تھے۔فائل اب بھی آدم کے ہاتھ میں تھی۔ساتھ میں وہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھ رہا تھا۔
کب اقرا وہی روک گئی۔

ہمت کرو یار بس تھوڑا سا ہی راستہ رہ گیا ہیں۔اقرا کو روکتے دیکھ کر ادم نے کہا دونوں کا سانس پھول چکا تھا۔

میں اور نہیں بھاگ سکتی آدم ۔وہ وہی پر بیٹھ گئی۔
دیکھو بس تھوڑا ہی راستہ رہ گیا ہیں پھر سڑک آجائیں گی اور وہی ہماری گاڑی کھڑی ہیں۔
اقرا کے پاس دونازوں بیٹھتے ہوئے کہا۔

اقرا سر اثبات میں ہلا کر کھڑی ہوئی ابھی وہ دو قدم ہی بھاگے تھے کہ سلطان دو گارڈز کے ہمراہ انکے سامنے آکر کھڑا ہوا۔
ان دونوں کے قدم روک گئے۔اقرا نے آدم کی طرف دیکھا۔

تم تو سچ میں بہادر نکلے کمشنر صاحب تمھیں بھی راستے سے ہٹانا پڑے گا کیونکہ وجدان کو بھی یوں دیکھ کر میں سمجھا تھا کہ بس یہ اسکی منھ کی باتیں ہیں مگر اب دیکھو تو اس نے میرے سر میں درد کر رکھا ہیں تو سرے سے تمھارا بھی کام تمام کر دیتا ہوں۔ادم پر گن تھام کر ہنستے ہوئے کہا آدم اقرا کو اپنے پیچھے کر چکا تھا۔
اور جیسے ہی وہ آدم پر گولی چلانے والا اتھا کہ ایک ایک کر کے اسکے دونوں گارڈز نیچھے ڈھیر ہوچکے تھے۔

آدم اقرا کو ہاتھ سے پکڑ کر درخت کے پیچھے چھپ گیا تھا جبکہ ایک گولی آکر سلطان کے دائیں کندھے پر لگ چکی تھی۔

وجدان کو کہنا کہ میں اسکی ناک ختم کردوں گا۔یہ کہتے ہی وہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھ کر گھر کی طرف بھگانے لگا۔
کچھ دیر بعد اقرا اور آدم جانے کے لے قدم بڑھائے ہی تھیں کہ ایک لڑکی کے ساتھ ایک لڑکا ان کے سامنے آکر روکا۔

آپ یہاں؟ادم اور اقرا نے ایک دوسرے کو دیکھا
————-
رملہ کی گاڑی سڑک پر اپنی منزل کہ جانب گامزن تھی۔ساتھ میں وہ فون پر کسی سے بات بھی کر رہی تھی۔
بس بیس منٹ تک پہنچ جاؤں گی ہاں بیگ میں ہی ہیں۔۔۔۔وہ فون پر بات کر رہی تھی کہ اسکے گاڑی کے سامنے کوئی آکر کھڑا ہوا تو مجبورا اسے گاڑی روکنی پڑی۔
میں فون رکھتی ہوں۔فون بند کر کے وہ گاڑی سے اتر اور اس تک ائی۔
کون ہو تم؟رملہ کے پوچھنے پر اچانک سے اس نے گن نکال کر اس پر تانی۔

فائلز کہاں ہیں۔
یہ کیا کر رہے ہوں اور کون سی فالز میں کسی فائلز کے بارے میں نہیں جانتی۔رملہ کے گن کو دیکھتے ہوئے کہا۔اسکی جھوٹ پر وہ زور سے ہنسا۔
ہمیں اتنا بےوقوف سمجھا ہے۔۔۔۔۔۔۔تم سب کے فون ٹریس ہو رہے ہیں۔گن اسکی کنپٹی پر رکھتے ہوئے کہا۔
اچھا تو اب تک ٹھکانہ ڈھونڈ نا سکے تم لوگ ۔
او ہو کاش اپنے ٹھکانے کو ثبوتوں سمیت جلتا ہوا دیکھ لیتی تم ۔اس نے افسوس کرتے ہوئے کہا جبکہ رملہ کے تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔

کیا بکواس کر رہے ہو تم۔
فائلز دو۔اسکی بات کو سرے سے نظر انداز کرکے چیخا تھا۔جبکہ رملہ کا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔اان کی سب محنت جل کر راکھ ہوچی تھی۔
گاڑی میں ہیں میں دیتی ہوں۔وہ رملہ پر گن تھامے اسکے ساتھ گاڑی تک آیا۔رملہ نے جھک کر پچھلی سیٹ سے بیگ اٹھا یا اور اسکی طرف بڑھایا۔
ابھی وہ اس سے بیگ لینے ولا تھا کہ وہ ایک زور دارا دھکا اسے دے کر جنگل کی طرف بھاگی۔وہ کیوں اپنی اتنی دن کی محنت یوں اسے دے دیتی۔
رملہ مسلسل بھاگی جارہی تھی جبکہ وہ بھی اکسے پیچھے ہی تھا ساتھ میں ہوائی فائرنگ بھی کر رہا تھا۔
اچانک رملہ راستے میں گرے ہوئے پیڑ سے ٹکرا کر گر گئی۔
او ہو شاید تم بھی ضوفیشان ابراہیم کی طرح جا انجام چاہتی ہو۔اس تک پہنچ کر اس پر جھکتے ہوئے کہا کہ اچانک وہ گر گیا۔

رملہ نے سر اٹھا کر دیکھا تو ہاتھ میں ایک لکڑی پکڑا وہ کھڑا تھا اسے دیکھ کر رملہ نے سکھ کا سانس لیا۔
تم یہاں کیا کر رہیں ہو۔اسکا بڑھا ہوا ہاتھ تھام کر کھڑی ہوئی۔
پاکستان میں بور ہورہا تھا سوچا تھوڑا گھوم کو ان جنگلوں میں۔لڑکی پھینکتے وہ زمین پر پڑا ہوا اپنا بیگ پیک اٹھانے لگا۔

ویسے عمر مجھے علم نہیں تھا کہ تم اتنے بہادر ہوسکتے ہو۔رملہ نے نیچھے پرے سانڈ جیسی جسامت والے آدمی کو دیکھا۔جیسے وہ آسانی سے زیر کر گیا تھا پیچھے سے وار کر کے۔

ابھی وہ دونوں واپس جا رہے تھے کہ بائیں طرف گولی چلنے کی آواز آئی۔عمر نے رملہ کو دیکھا۔
چلو دیکھتے ہیں۔
نہیں عمر واپس جانا ہوگا۔لیکن وہ سنتا کب تھا اسکو۔ مجبورا رملہ کو بھی اسکے پیچھے جانا پڑا۔
عمر جھاڑیوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھا اور اپنی گن نکالی۔
میں تمھاری ٹیچر ہوں عمر کم از کم میرے لیے روکتے تو سہی۔
آپ میری ٹیچر تھی۔رملہ نے اسے گھورا اور اسکے نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو اس کے تو اوسان خطا ہوئے آدم اور اقراء پر وہ گن تھامنے کھڑا تھا رملہ اسکے چہرے کو نہ دیکھ سکی۔
یہ تو۔
ششش۔عمر اسے خاموش کرتا دونوں گارڈز کو ابدی نیند سلا چکا تھا۔
عمر تم نے اسے مار ڈالا۔دونوں ہاتھوں کو منھ پر رکھ کر اپنی چیخ کا گھلا گھونٹا تھا۔جبکہ عمر صرف کندھے آچکا چکا تھا۔
جبکہ انکے لیڈر کو وہ صرف کندھے پر شوٹ کر چکا تھا۔پھر وہ ان سے کچھ کہہ کر چلا گیا تو وہ دونوں ان کے پاس آئے۔

آپ یہاں؟
تم دونوں ٹھیک تو ہو نا؟رملہ نے ان کے قریب جاتے ہوئے کہا۔تو اقرا نے ہا میں سر ہلایا۔
یہ فائل مل گئی۔ادم نے فائل اسکی طرف بڑھائے۔

یہ کون ہیں؟۔ادم نے عمر کو دیکھتے ہوئے پوچھا اور تو رملہ کو اسکا خیال آیا۔
او ہاں یہ عمر ہیں میرا سٹوڈنٹ۔
آسلام علیکم ۔اس نے آدم کی طرف ہاتھ بڑھایا،جسے آدم تھام چکا تھا۔
اچھا چلو ہمیں وجدان کے پاس جانا ہوگا بہت کچھ غلط ہوچکا ہیں۔رملہ نے فائل بیگ میں رکھا اور انہیں اپنی پیچھے آنے کا اشارہ کیا،ادم اور اقرا ایک دوسرے کو دیکھ کر اسکے پیچھے چلنے لگے۔
—————–
وجدان سمیت وہ سب کورٹ میں بائیں طرف بیٹھے تھے۔احمر اور سلطان کا وکیل کھڑے اپنےا پنے دلائل پیش کر رہے تھے۔
سلطان مسلسل وجدان کو مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔
مائے لارڈ اس رپورٹ کے مطابق سلطان دلاور خان نے ہلال امتیاز کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔جبکہ اس وقت ہلال کی عمر صرف تیرہ برس تھی۔احمر نے فائل جج کے سامنے رکھی۔
ابجکشن مائے لارڈ یہ مسلسل میرے کالئینٹ کی توہین کر رہے ہیں۔سلطان کے وکیل نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
مائے لارڈ انکو میں کہنا چاہتا ہوں کہ حقیقت کو برداشت کرے۔احمر نے مسکرا کر انکے وکیل کو دیکھا۔
تو انکا وکیل دوبارہ بیٹھ گیا۔
اور ضوفیشان ابراہیم کی ویڈیو کے مطابق سلطان نیازی وہاں موجود تھے اور یہ فائل اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ جرم سلطان دلاور خان ہی نے کیا ہیں۔

مائے لارڈ میں عدالت سے درخواست کروں گا کہ وہ مجھے اجازت دے تاکہ میں اپنے کلائنٹ کی بے گناہی ثابت کرسکوں۔
سلطان نے اپنے وکیل سے کچھ کہا تو ہو کھڑا ہوا۔عدالت کے اجازت ملتے ہی انکا وکیل احمد کو دیکھ کر اپنی جگہ سے مسکرا کر اٹھا۔
احمر آکر اپنی جگہ پر بیٹھ چکا تھا۔

مائے لارڈ بے شک اس رپورٹ سے یہ ثابت ہوچکا ہوگا کہ سلطان صاحب نے یہ کیا ہیں مگر آپ اس رپورٹ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ رپورٹ جس سال بنائی گئی تھی اس سال سلطان دلاور خان ملک سے باہر تھے۔
وکیل نے سلطان کا ویزا اور کچھ اور فائل جج کے سامنے رکھے ،احمر نے جھٹکے سے وجدان کو دیکھا جبکہ وجدان مسلسل مسکراتے سلطان کو دیکھا جس نے ویکٹری کا نشان بنایا۔

ابجکشن مائے لارڈ۔
اوور رولڈ۔جج کے کہنے پر احمر بیٹھ گیا۔
عدالت اس کاروائی کو اگلی سماعت تک ملتوی کرتی ہیں۔جج حکم دے کر اٹھ کر چلا گیا۔باقی سب بھی کمرہ عدالت سے باہر اگئے۔

انہوں نے بہت غلط کر ڈالا۔پہلے ہمارے ثبوتوں کو جلایا اور اب یہ سب بکواس۔وہ دونوں عدالت کی راہداری میں جارہے تھے۔وہاں بہت سے ملزموں کو ہتھکڑیاں پہنا کر لایا جارہا تھا۔

وہ سچ کہہ رہے تھے وجدان سلطان اس وقت ملک سے باہر تھا۔۔۔۔درمیان میں کچھ نا کچھ مسنگ ہیں۔احمر نے روکتے ہوئے کہا تو وجدان سوچ میں پڑگیا۔
لیکن کیا ہوسکتا ہیں جیسے ہم مس کر رہے ہیں۔

ہمیں کسی ایسے انسان سے پوچھنا ہوگا جو اس وقت وہاں موجود تھا ۔احمر دوبارہ چلنے لگا۔
ثنائل ۔۔۔۔ہم ثنائل سے پوچھ سکتے ہیں وہ اس رات ضوفی کی ساتھ وہاں موجود تھی۔
وجدان کی بات پر احمر نے مڑ کر اسے دیکھا۔اس وقت وہ وکیل کے یونیفارم میں تھا۔
ابھی احمر کچھ کہتا کہ سلطان اپنے وکیل کے ساتھ ان کے پاس ایا۔

میں نے کہا تھا نا کہ تم صرف اور صرف اپنا وقت ضائع کر رہے ہو بس۔مسکرا کر وجدان کی طرف دیکھ کر کہا۔تو وجدان تلخی سے مسکرا کر بائیں طرف دیکھا۔
وجدان آخری دفہ کہہ رہا ہو، یہ سب روک دو نہیں تو اس سب کے نتائج خوشگورا نہیں ہوں گے۔
دانت پیستے ہوئے کہا تو وجدان دو قدم چل کر اسکے قریب آیا۔

نتائج کی پرواہ کرنے والے عقلمند ہوتے ہیں اور وجدان نیازی سے عقل مندی کی امید رکھنے والے بےوقوف اب خود کا موازنہ کر لو مسٹر سلطان کہ آپ عقل مند ہیں یا بے وقوف۔
انکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا اور سن گلاسز انکھوں پر چھڑا کر وہاں سے چلا گیا احمر بھی اسکے پیچھے ہولیا۔
جبکہ سلطان ضبط کرتا رہ گیا۔اور اپنے وکیل کر ایک سخت گھوری ڈال کر وہاں سے چلا گیا۔
————–
احمر سمیت سب موجود تھے بس اقرا ثنائل کو لینے گئی تھی۔باقی سب اقرا کے اپارٹمنٹ میں انکا انتظار کر رہے تھے۔
اب ہم کیا کریں گے وجدان سارے ثبوت پہلے ہی وہ جلا چکے ہیں۔اگر مانا ثنائل سے ہمیں کچھ پتا چلا بھی تو بھی ہمیں اس کو کورٹ میں ثابت کرنا ہوگا اور ہمارے پاس اسے ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہیں۔
رملہ نے اسکی دائیں طرف بیٹھتے ہوئے کہا۔
یہ بعد کی باتیں ہیں پہلے ثنائل تو کچھ بتائیں۔وجدان نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا جب ثنائل اور اقرا اندر ائی۔

آسلام علیکم۔بیٹھتے ہوئے سب کو سلام کیا۔تو وجدان تھوڑا آگے کو ہوا۔کیچن میں کافی بنانے کھڑا احمر باہر آیا۔
سب بیٹھ گئے تو ثنائل نے کچھ خوفزدہ ہوکر سب کو دیکھا ۔
کیا میرے خلاف کچھ مواد ملا ہیں۔ثنائل نے دونوں ہاتھوں سے خود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
ارے نہیں بس کچھ پوچھنا ہیں۔رملہ نے اسے ریلکس کرنے کے لیے کیا۔

ثنائل تم اس رات ضوفی کے ساتھ تھی نا تو اتنا تو تمھیں پتہ ہوگا کہ وہاں سلطان اور ڈاکٹر کے علاؤ کوئی اور تھا۔احمر نے بیٹھتے ہوئے کہا تو ثنائل سوچنے لگی۔

نہیں وہاں صرف وہ دونوں ہی تھے۔پہلے احمر کو دیکھ اور پھر سب کو۔
لیکن جس وقت اس بچی کا ریپ ہوا تھا اس وقت سلطان ملک سے باہر تھا۔وجدان نے ہارے ہوئے انداز میں صوفے پر ہاتھ رکھا۔
نہیں وہاں دو نہیں تین لوگ تھے ہاں یاد آیا ضوفی نے کہا تھا کہ وہ تینوں ہماری طرف آرہے ہیں ہاں تین لوگ تھے وہاں۔ثنائل نے یکدم یاد کرتے ہوئے کہا۔جب وہ دونوں چھپ گئی تو ضوفی نے اس سے یہی کہا تھا
کہا وہ تینوں اس طرف آرہے ہیں۔وجدان آگے ہوکر بیٹھ گیا۔
تو ہمیں اس تیسرے کو ڈھونڈنا ہوگا!۔۔۔۔۔۔۔۔۔احمر بھائی اگلی سماعت کب ہیں۔پہلے سوچھتے ہوئے کہا اور اخر میں احمر کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
گیارہ تاریخ کو۔
اور آج تین تاریخ ہیں مطلب ہمارے پاس صرف آٹھ دن ہیں۔۔۔۔ہمیں جلد از جلد اس کو ڈھونڈنا ہوگا۔وجدان اٹھ کر دروازے کی طرف بھاگا۔تو رملہ بھی اسکی ساتھ اٹھی۔
اور اسکے ساتھ ہی باہر چلا گیا۔
—————-
ان دونوں کے درمیان ایک لمبی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔وجدان نہایت سنجیدگی سے ڈرایو کر رہا تھا۔رملہ یک ٹک اسے دیکھنے لگی۔

لگتا ہیں آج کچھ زیادہ ہی ہنڈسم لگ رہا ہوں۔اسکی اچانک جواب پر رملہ ہڑبڑاگئی۔
نہیں میں تو بس اس سائڈ والا ویو دیکھ رہی تھی۔اسے اپنی چوری پکڑ جانے پر اچھا خاصا خود پر غصہ ایا۔
اور یقیناً اس سائڈ والا ویو مجھ سے زیادہ خوبصورت نہیں ہوگا ۔اس بار رملہ کو دیکھا تو وہ مسکرائی۔وہ واپس سے سامنے دیکھنے لگا وہ ایک ہاتھ سے ڈرایو کر رہا تھا۔جبکہ دوسرا اپنے منھ پر رکھا تھا۔

وجدان۔
ہمم۔
ام سوری۔رملہ نے سر جھکا کر کہا۔
کس لیے؟
ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سے نظریں سڑک پر مذکور کی۔
وہ میں حفاظت نہیں کرسکی آپکے بچے کی۔وجدان نے یکدم سے گاڑی روک دی۔
اس میں تمھاری کوئی غلطی نہیں جان وجدان۔اس کے گال کو اپنے انگھوٹے سے سہلاتے ہوئے کہا۔
اور ویسے بھی ابھی پوری زندگی پڑی ہیں بچوں کے لیے۔اس کی اس قدر بےشرمی پر اسکے بال دہکنے لگے اور ساتھ میں گھوری سے نوازنا نا بھولی جبکہ وہ اسکی حالت پر مسکراتے ہوئے دوبارہ گاڑی سٹارٹ کر چکاتھا۔
———————
کل ہی انکی سماعت تھی کورٹ میں اور ان آٹھ دنوں میں وہ اس تیسرے انسان کو نا ڈھونڈ سکے۔ہر طرح اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر بے سود وہ نہیں ملا۔
اور آج ہی کیس کا فیصلہ ہونے جا رہا تھا۔وہ سب اپنی اپنی گاڑیوں میں کورٹ جارہے تھے۔
کیا آپا اگر آپ نے بچپن میں تھوڑی ہمت کر کے ضوفیشان کے ساتھ اس روم تک گئی ہوگی تو شاید آج ہمارے پاس ایک زندہ گواہ ہوتا۔ادم نے اپنے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ثنائل کو دیکھ کر کہا۔

اگر اس وقت تم ہوتے تب میں تمھاری بہادری دیکھ لیتی۔
ارے میں تو ضوفیشان سے پہلے وہاں تک گیا ہوتا۔اس نے فرضی کالر جھاڑتے ہوئے کہا۔
ہاں تب دیکھتی میں تمھاری یہ بہادری۔۔۔۔۔۔ثنائل کی بات پر پیچھے بیٹھی اقرا کا قہقہ بلند ہوا تو آدم نے بیک وہ مرر میں اسے دیکھ کر گھورا۔
تھوڑی دیر بعد وہ سب کمرہ عدالت میں دائیں طرف موجود تھے۔ان کے پا س کوئی ثبوت نہیں تھا۔
مگر انہیں اس کامل رب پر کامل یقین تھا کہ وہ باطل کے مقابلے میں حق کا ساتھ دینے والے چیف جسٹس اور ضوفی کو انصاف ضرور دے گا۔
انکا وکیل مسلسل دلائل پر دلائل دے رہے تھے جبکہ وہ سب بیٹھے ایک دوسرے کو خاک نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
مسٹر احمر نیازی کیا آپ کوئی دلائل پیش کریں گے۔جج نے سوچ میں گم بیٹھے احمر کو دیکھا۔
تو ہو کھڑاہوا۔
جی مائے لارڈ ہمارے پاس صرف دو گواہ ہیں اگر عدالت اجازت دے تو میں انکو کمرہ عدالت میں بلانا چاہتا ہوں۔احمر کی بات پر سب نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
اور پھر دروازے سے اندر آتے ویل چئیر پر بیٹھے نوجوان کو۔
اسے دیکھ کر رملہ نے ساتھ بیٹھے عمر کو دیکھا تو اس نے کندھے آچکا کر سائمن کی طرف اشارہ کیا۔
جو خاموش بیٹھا بس آگے دیکھ رہا تھا۔
—————-
ضوفیشان ایک رات اپنے گھر سے سائمن کی بیکری جارہی تھی کہ اسے راستے میں بٹلر ملا۔

ہائے ضوفیشان۔۔جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ اسکے سامنے کھڑا ہوا
او ہائے بٹلر کیسے ہو۔مسکر آکر کہا اور چلنے لگی تو وہ بھی اسکے ساتھ چلنے لگا۔
فرسٹ کلاس ۔۔۔اور ہاں سائمن نے بھیجا ہے مجھے تمھیں لانے کے لیے۔اسکی بات کر ضوفیشان کے قدم روک گئے۔
لیکن سائمن نے مجھے بیکری پر بلایا ہیں اور میں وہی جارہی ہوں۔وہ پھر سے چلنے لگی تو وہ اس کے سامنے آکر کھڑا کوا۔
نہیں وہ۔میرا مطلب سائمن وہاں ہے جہاں تم دونوں نے شادی کے بعد شفٹ ہونا ہیں کچھ کام کرنا ہیں جس میں تمھارا مشورہ چائیے تھا اسے۔
ضوفیشان نے اسے دیکھا اسے کچھ غلط ہونے کا اندیشہ ہوا۔
نہیں میں نے خود ابھی اسے کال کی تھی وہ بیکری میں ہی ہیں۔ضوفی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
تم ایسے نہیں مانوں گی۔اپنے جیب سے رومال نکال کر اس کے منھ پر رکھا۔ضوفی کافی چلائی مگر وہاں کوئی سننے والا نا تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ بٹلر کے اپارٹمنٹ میں بے ہوش پڑی تھی۔اسکے کپڑے اس کے جسم سے وہ درندے نوچ چکے تھے۔اسکی زندگی برباد ہوچکی تھی۔

اس کے بعد سائمن کو ضوفی کافی دن بعد دیکھائی دی وہ بہت کمزور ہوچکی تھی۔اور
پہلے سے بھی زیادہ خاموش۔
اس کے بعد وہ پاکستان گئی اور وہی سے وہ اپنی ابدی زندگی کی طرف چلی گئی۔
————
میں شرمندہ ہو اپنی اس گناہ پر اس کی سزا بھی کاٹ چکا ہوں جو کچھ میں نے اس کے ساتھ کیا تھا۔بٹلر ویل چئیر پر بیٹھا کہے جارہا تھا رملہ اپنے ہاتھوں میں چہرہ چھپائے روئے جارہی تھی۔جبکہ سائمن خاموش سا نیچھے دیکھے جارہا تھا۔
احمر قدم اٹھا تا ہوا بٹلر کے سامنے آکر کھڑا ہوا۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ نے یہ سب کیوں کیا۔احمر کے پوچھنے پر بٹلر نے سائمن کو دیکھا ۔
مجھے سائمن سے بدلا لینا تھا کیونکہ اس کی وجہ سے میں نے پوری یونیورسٹی کے سامنے ضوفیشان سے تپڑ کھایا تھا۔ لیکن۔وہ خاموش ہوا

لیکن مجھے بدلہ سائمن سے ہی لینا تھا اس کے لیے میں نے کھبی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں ضوفیشان کے ساتھ ایسا کرو مگر اسی رات میری مامے(اسکاٹ لینڈ میں بہت زیادہ محبت کی وجہ سے ماں کو مامے کہتے ہیں) کی طبیعت خراب ہوئی مجھے تین کروڑ چاہئیے تھے انکے آپریشن کے لیے پھر مجھے نہیں پتہ انکو میرے بارے میں کیسے معلوم ہوا اور پھر مجھے سلطان دلاور خان نے پیسوں کے بدلے میں یہ سب کرنے کا کہا میں اس وقت مجبور تھا ورنہ میں یہ سب نا کرتا!
آخر میں وہ سر جھکا کر رونے لگا۔کچھ عرصہ پہلے جب وہ اپنی ماں کو ہسپتال لے کر جا رہا تھا تو انکا ایکسڈنٹ ہو ااسکی ماں موقع پر ہی جاں بحق ہوئی جبکہ وہ ہمیشہ کے لیے چکنے سے محروم ہوگیا۔
دیکھا مائے لارڈ مس ضوفیشان ابراہیم اس بات کو جانتی تھی کہ سلطان صاحب نے تیرہ سالہ ہلال کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا یہی نہیں ضوفیشان کے پاس تمام ثبوت تھے جو کچھ عرصہ پہلے ہی یہ لوگ ڈیمج کر چکے ہیں۔احمر نے جج کے سامنے کھڑے ہوکر کہا،بٹلر کو دو آدمی آکر لے کر جاچکے تھے۔
اسی بات سے ثابت ہوتا ہیں کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بھی پھنسایا گیا کیونکہ اس وقت یہ کیس وہ ہنڈل کر رہے تھے۔

ابجکشن مائے لارڈ یہ مسلسل جھوٹ بولیں جارہے ہیں،بٹلر نائل کو خود سائمن سے بدلا لینا تھا جس کا الزام اب وہ میرے کلائنٹ پر لگا رہے ہیں۔احمر کے بات کے درمیان سلطان کا وکیل اٹھا۔
اوور رولڈ۔وکیل دانت پیستے ہوئے بیٹھا۔
مائے لارڈ یہی نہیں بلکہ سلطان دلاور خان کی بڑی بیٹی ژالے سلطان کے قتل میں بھی سلطان شامل ہیں۔رملہ کو لگا کہ اسنے غلط سنا لیکن جب اس نے اپنی ماں کو اندر آتے دیکھا تو اسکے اوسان خطا ہوگئے وہ نگی میں سر ہلانے لگی۔

ازرہ سلطان آکر کٹہرے میں کھڑی ہوئی۔
تو جی مسسز سلطان کیا آپ نے خود انکو ژالے سلطان کے قتل میں ملوث پایا۔احمر ان کے سامنے کھڑا سوال کر رہا تھا ازرہ سلطان نے ہاں میں سر ہلایا۔

مائے لارڈ میں ،ژالے اور سلطان ایک دن کسی جھگڑے کے بعد اپنے فارم ہاؤس گئے۔سلطان کے مطابق ہمیں ژالے کو وہاں چھوڑنا تھا کیونکہ وہ ڈرگز ایکڈیک بن چکی تھی وہاں اسکا علاج کروانا تھا۔ وہاں جانے کے بعد سب ٹھیک تھا لیکن ایک دن میں کسی بات کے سلسلے میں ان کے کمرے میں گئی تو یہ فون پہ ڈاکٹر کو زہریلے انجکشن لگانے کا کہہ رہے تھے اور ژالے کی موت کے بعد پوسٹمارٹم رپورٹ میں یہ پتہ چلا کہ اسکی موت زہر کی وجہ سے ہوئی۔
یہ کہتے ہی وہ رو پڑی جبکہ رملہ اٹھ کر سلطان صاحب کے پاس ائی۔

آپ درندے بن چکے پاپا ،یہ سب کرتے ہوئے زرا آپکا دل نہیں کانپا تھا ذرا اپکو یہ خیال نہیں آیا کہ اپکو خشر کے دن اس رب کے سامنے جوابدہ ہونا ہیں اتنے سنگ دل کیسے ہوسکتے ہیں اپ۔وہ اسکا گریبان پکڑ کر چکا رہی تھی

مسسز وجدان آپ عدالت کی توہین کر رہی ہیں مسز وجدان ۔جج مسلسل اسے کہہ رہے تھے مگر وہ تو چیخی جارہی تھی بمشکل وجدان اسے کمرہ عدالت سے باہر لے گیا اسکے ساتھ ثنائل اور عمر بھی باہر گئے۔

یہ مسلسل جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں مائے لارڈ ریپ میرے کلائنٹ نے نہیں کیا اور نا ہی وہ ان تمام جرموں میں شامل تھے۔انکے وکیل کے کہنے پر احمر تلخی سے مسکرا یا تھا جبکہ سلطان اپنی ٹائی ڈھلی کر رہا تھا۔

مائے لارڈ ایک اور گواہ بھی ہیں جس کے بعد انکا مجرم ہونا اٹل ہیں،اگر عدالت اجازت دیں تو میں انکو یہاں بلانا چاہتا ہوں۔
اجازت ہیں۔اجازت ملتے ہی ایک بیس سالہ لڑکی اندر ائی۔اسے دیکھ آدم کو تو مانو حیرتوں کا جھٹکا لگا۔وہ اٹھتا ہوا اس کے پاس ایا۔

نازی تم یہاں کیا کر رہی ہو ان کے خلاف گواہی دے کر تم خود کو مصیبت میں ڈال رہی ہوں۔اسکے سامنے کھڑے ہوکر دبے دبے غصے میں کہا۔
میں ایک انسان کے ریکوسٹ پر آئی ہوں مجھے انکی ضوفی کو انصاف دلانا ہیں آدم بھائی۔نازنین نے مسکراتے ہوئے دور بیٹھے ایک اداس سے لڑکے کو دیکھا جو ایک پُرامید نگاہ سے اسے دیکھ رہا تھا۔

وہ ناجانے کیوں اس لڑکی کے پاس گیا اسے اس لڑکی پر کیوں ایک پختہ امید تھا کہ وہ اسکی بات ضرور مانے گی کیونکہ وہ کسی کی بات پر یہاں آنے کو تیار نہیں۔ تھی نا احمر کی بات پر نا ہی اپنے والد کی بات پر۔خود نازی کو بھی پتہ نہیں چلا کہ اس نے کیوں اس لڑکے کی بات پر عدالت میں سلطان کے خلاف گواہی دینے پر حامی بھری کیوں اس نے کہا کہ وہ انکی مدد کریں گی۔
وہ تو کبھی اس لڑکے سے ملی نہیں پھر کیوں وہ اسے انکار نا کرسکی۔

مسٹر آپ کسی بھی گواہ سے بات نہیں کرسکتے۔جج کی بات پر آدم سر ہلاتا ہوا واپس اپنی جگہ پر بیٹھا جبکہ نظریں اب بھی اسی پر تھیں۔
وہ ایک نظر کمرے میں موجود تمام نفوس ہر ڈالی اور کٹہرے میں کھڑی ہوئی۔
——————
نازنین بورڈ ایگزامز کے بعد سکول کی ٹریپ پر آسلام آباد آئی تھی۔شام کو وہ سب مارگلہ ہلیز پر گئے تھے۔
جب وہ تصویریں لیتے لیتے ان سے کچھ دور آگئی تھی۔
ابھی وہ مسلسل بھاگی جارہی تھی جب ایک سفید فراک میں ایک لڑکی بھاگتی ہوئی اس سے ٹکرائی۔
اسکا سارا سفید فراک خون سے سرخ ہوچکا تھا۔نازنین جلدی سے اپنے بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر اسے دینے لگی تو اس نے پینے سے انکار کیا۔
اور اپنا ہاتھ آسکے طرف بڑھایا۔
پلیز اسے ۔۔۔۔۔۔اسے سائمن کو دینا پلیز اسے کہنا کہ خالو نے۔۔۔۔۔۔اور اس سے آگے وہ کچھ نہیں بول سکی۔شاید اسے شدید درد ہورہا تھا اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
پلیز آنکھیں کھولے پلیز ہماری گاڑی یہی ہیں میں اپکو وہاں تک لے کر جاتی ہوں۔نازنین اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگی مگر بے سود اس میں اتنی ہمت نہیں تھی۔اس لیے وہ اسے وہی چھوڑ کر اپنے پرنسپل کے پاس گئی۔
اور جب تک وہ ضوفی تک پہنچتے وہ لوگ اسے لے کر جا چکے تھے اور پھر کچھ دن بعد نازنیں نے اس لڑکی کی موت کی خبر نیوز میں سنی۔
اسکے بعد نازنیں اپنے کمرے میں بند ہوگئی۔
وقت گزرتا گیا اور نازی اسے وہ لڑکی اور اسکی دی ہوئی چیز بھولتی گئی۔ایک دن وہ لان میں پودوں کو پانی دے رہی تھی جب مسکان اسکے پاس ائی۔

نازی تم سے ملنے کوئی آیا جلدی سے او۔نازی نے حیرانی سے اسے دیکھا کہ مجھ سے کون ملنے آیا ہیں۔وہ جلدی سے اندر آئی تو احمر وہی بیٹھا تھا اسے دیکھ کر وہ مسکرایا۔
آسلام علیکم میں احمر ہوں مس ہلال امتیاز کا وکیل۔اس نے مسکرا آکر کہا جبکہ نازی حیرانی سے وہاں بیٹھے اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی۔

اگر آپ کو برا نا لگے تو میں نازی سے کچھ بات کرنا چاہتا ہو اکیلے میں۔احمر نے مسکرا کر سلیم احمد سے کہا تو وہ مسکرا کر باہر چلے گئے۔

دیکھو نازنیں میں جانتا ہوں کہ تم ڈر رہی ہوں وہ سب بتانے سے جو کچھ ضوفیشان نے اس رات تم سے کہا تھا۔نازنیں نے جھٹکے سے اسے دیکھا
اس کے ساتھ بہت کچھ غلط ہوا تھا اسکو انصاف اب صرف تم کی دلا سکتی ہوں صرف اسے ہی نہیں بہت سے مظلوموں کو صرف اور صرف تمھاری ایک گواہی انصاف دلاسکتی ہیں۔

دیکھیں آپ غلط جگہ پر آئے ہیں میں کسی ضوفیشان کو نہیں جانتی نا ہی میں اس سے ملی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اور نا ہی کسی کے خلاف میں نگ گواہی دینی ہیں آپ جاسکتے ہیں۔
نازنین نے کانپتے ہوئے کہا مگر احمر وہی بیٹھا رہا وہ نہیں گیا۔

یہ تمھارا آخری فیصلہ ہیں؟نازنیں نے ہاں میں سر ہلایا تو ہو مسکرا کر باہر چلا گیا۔
پھر کچھ دن بعد پھر سے نازنیں کی وہی حالت ہوگئی اسے پھر سے وہ شام یاد ائی۔اب بھی وہ چھت پر بیٹھی ہاتھ میں کتاب لیے وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اسے اپنے عقب سے آواز ائی۔

ہماری شادی میں صرف کچھ ہی دن بچھے تھے جب اسکی موت کی خبر مجھے ائی تھی۔تمھیں پتہ ہیں وہ بلکل تمھاری طرح تھی۔خاموش گم سم رہنے والی اور پیاری بھی۔نازی نے جھٹکے سے اسے دیکھا تھا۔
لیکن وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے ٹیولپ کو دیکھ رہا تھا

لیکن ایک بات تم دونوں میں مشترکہ نہیں۔نازی تو اپنی امی کو دل میں سنا رہی تھی کہ وہ کسی اجنبی کو یوں کسے گھر میں آنے دے سکتی ہیں۔

تم ڈرپوک ہو اور میری ضوفی۔وہ مسکرایا تھا نازنین نے دیکھا اسکی مسکراہٹ بھی اسکی طرح اداس ہیں۔
ہاں اسکی مسکراہٹ اداس تھی اسکے دل کی طرح۔اسکی آنکھیں گہری تھی جہاں بہت سے خواب جو شاید اس نے اپنی ضوفی کے ساتھ دیکھیں تھے وہ سب ڈوب چکے تھے۔

میری ضوفی بہت بہادر تھی اتنا سب کچھ اسکے ساتھ ہوا مگر وہ پھر بھی اس لڑکی ہو انصاف دلانا چاہتی تھی،نہیں شاید وہ بہت سی لڑکیوں کی عزت کو بچھانا چاہتی تھی اور ان کی عزت بچاتے بچاتے اس نے اپنی عزت کھو دی۔
وہ چھپ ہوگیا شاید اس سے مزید کچھ بولا نہیں جارہا تھا۔

کیا اسے ٹیولپ پسند تھے؟نازی نے اس کے ہاتھ میں پکڑے ٹیولپ کو دیکھا۔
بہت۔
مجھے بھی پسند ہیں۔سائمن نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو سائمن کے ہاتھ میں ٹیولپ کو دیکھ رہی تھی۔
میں نے کہا تھا نا کہ تم دونوں ایک جیسی ہو، بس ہو بہادر تھی اور تم ڈرپوک۔
نازی کو شاید اسکا یوں اسے ڈرپوک کہنا برا لگا تھا۔نازی ایک دم نیچھے بھاگی۔اسکے جاتے ہی سائمن نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا۔

وہ اس شام بہت زخمی تھی اسکا سارا فراک خون سے بھر چکا تھا۔اس نے مجھ سے کہا تھا کہ سائمن کو یہ دے دینا اور کہنا کہ خالو نے ۔تھوڑی دیر بعد وہ اسکے سامنے کھڑی تھی۔

سائمن نے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو اپنی ہتھیلی پھیلائے اسے دیکھ رہی تھی۔سائمن نے ناسمجھی سے اسکے ہتھیلی پر رکھی ہوئی ہو ایس بی کو دیکھا اور پھر اسے تو نازی نے اسے یو ایس بی لینے کا اشارہ کیا۔
سائمن نے اس سے وہ یواز بی لی۔

خالو نے؟نازی نے سر اثبات میں ہلایا
اس کے بعد وہ۔۔۔نازنین خاموش ہوئی تو سائمن نے مزید نہیں پوچھا کیونکہ اسے پتہ معلوم ہوگیا تھا کہ اس کے بعد وہ چلی گئی۔

گیارہ تاریخ کو ہیں آخری سماعت۔سائمن کھڑا ہوا اور یو ایس بی اسکی جانب بڑھائی۔
نازنین نے اسے تھام لیا تو وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔

تمھیں یقین ہے کہ میں آؤں گی؟سائمن کے قدم روک گئے۔نازنین اسکی پشت کو دیکھ رہی تھی۔
وہ میری ضوفی تھی نازنین فقط ایک ہی ملاقات میں لوگ اسکے گرویدہ بن جاتے تھے۔اور پھر تم تو اسکی جیسی ہو بس صرف ڈرپوک ہو۔۔۔۔وہ چلا گیا۔جبکہ نازی کو اسکا یوں اسکو ڈرپوک کہنا بہت برا لگا۔

اب میں اتنی بھی ڈرپوک نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاتھ میں پکڑے یو ایس بی کو دیکھتے ہوئے کہا۔اور پھر گیارہ تاریخ کی صبح جب وہ تیار ہورہی تھی تب اسے خود بھی معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیوں جارہی ہیں شاید وہ اس اداس لڑکے کو خوش دیکھانا چاہتی تھی یا پھر ضوفی کی قربانی جو اس نے تمام لڑکیوں کے لیے دی تھی اس کی وجہ سے جا رہی تھی اسے اندازا نا ہوا ۔
پھر وہ سر جھٹک کر تیار ہونے لگی۔
اور کمرہ عدالت میں اسکی سب سے پہلی نظر اسی لڑکے پر پڑی جسے ایک امید تھی کہ وہ ضرور آئی گی۔اور وہ آگئی تھی اس دیکھ کر وہ مسکرایا تھا۔۔
—————-
نازنین کہہ کر خاموش ہوئی۔اسکی نظر اب بھی اس لڑکے پر تھی۔مگر وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔اسکا سر جھکا ہوا تھا شاید وہ رو رہا تھا یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔اسے سمجھ نہیں آیا۔
وہ اس سے نظریں ہٹاکر جج کو دیکھنے لگی۔
احمر اسکے ہاتھ سے یوایس بی کے چکا تھا۔
عدالت اپنا فیصلہ سنانے لگی ہیں۔جج کے کہنے پر سب کھڑے ہوئے رملہ بھی اچکی تھی۔اسکی آنکھیں سرخ تھی۔
تمام ثبوتوں اور گواہان کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ عدالت سلطان دلاور خان کو ژالے ابراہیم کے کیس میں مجرم ٹھرا کر سات سال کی قید کی سزا سناتی ہیں۔
رملہ اور سائمن اپنا سر دونوں ہاتھوں میں گرا کر رونے لگے تھے۔ثنائل اور اقرا کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔تھا۔
جبکہ ۔۔۔۔۔مس نازنین کے اس ثبوت ۔جج نے یو از بی کو بلند کرتے ہوئے کہا۔
اس ثبوت کے مطابق یہ عدالت کاظم دلاور خان کو تیرہ سال کی ہلال کے ریپ کے جرم میں تاحیات قید کی سزا سناتی ہیں۔رملہ کے آنسو ایک دم روک گئے۔سب نے جج کی طرف دیکھا ۔

کاظم جو وہی بیٹھا تھا پولیس آکر اسے گرفتار کر چکی تھی۔اس نے ایک نگاہ اپنے باپ ہر ڈالی۔کیونکہ انہوں اسے بچانے کا وعدہ کیا تھا اور آج خود مجرم بنے کھڑے ہیں۔
جج نے وہاں کھڑے ایک آدمی کو اشارہ کیا اور ویڈیو پلے ہوا۔

احمر چلاتا ہوا سلطان کے سامنے کھڑا ہوا،سلطان نے ایک نظر اس پر ڈالی۔

وللیل یعنی رات۔سلطان نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
اور جب رات کا سیاہ ترین حصہ آتا ہے تو اسکا مطلب ہیں صبح ہونے والی ہیں اور مسٹر سلطان ہر ظلم کے بعد انصاف ضرور غالب آتا ہیں۔مسکراتا ہوا اس کے سامنے سے ہٹ گیا۔

—————
تیرہ سالہ ہلال رملہ کے گھر ملازمہ تھی۔وہ بہت پیاری تھی۔ہر ایک سے ہنسی مذاق کرنے والی۔
کاظم جو اس وقت ہائی سکول میں تھا۔ہلال کو اسکی نظریں بلکل پسند نہیں تھی۔وہ جہاں ہلال کو اکیلا دیکھتا اس کے پاس اتا اور اسکا ہاتھ تھامتا۔ہلال اس کو بہت بار کہہ چکی تھی کہ اگر اس نے مزید اس سے کوئی بدتمیزی کی
تو وہ یہ سب اسکی ماں کو بتادے گی۔
رملہ کے برتھ ڈے کے دن وہ تیار ہوکر باہر چیزیں سجا رہی تھی۔جبکہ ازرہ سمیت ضوفیشان اور رملہ دونوں پالر گئی ہوئی تھی۔جبکہ سلطان دلاور خان اپنے کام پر گئے ہوئے تھے۔
ازرہ اسے وہ سب سجانے کا کہ کر گئی تھی۔
وہ کھڑی سب سجا رہی تھی کہ کاظم اسکے پاس آیا۔
ارے ہلال تم یہاں اور مما تمھیں نیچھے بسمنٹ میں بلا رہی ہیں ان کو شاید کوئی چیز وہاں سے اوپر لانی تھی۔کاظم نے سٹول پر چھڑی ہلال سے کہا تو وہ نیچھے اتری ۔

ازرہ آنٹی اگئی۔
جی اور وہ آپکو بلا رہی ہیں۔کاظم نے مسکرا کر کہا تو ہو بسمنٹ کی طرف گئی۔
انٹی ۔۔۔۔وہ ازرہ کو آوازیں دینے لگی مگر وہاں کسی کو نا دیکھ کر وہ کندھے آچکا کر واپس مڑی تو کاظم وہاں ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
اہ۔۔۔اپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا ویسے انٹی کہاں ہیں۔ہلال نے دل پر ہاتھ رکھا اور ارد گرد نظریں دوڑاتا ہوئے کہا۔
تو کاظم اسکے نزدیک آیا۔
ک-کاظم بھائی۔۔۔کاظم اسکے بالوں میں منھ چھپا گیا تھا جب وہ روتے ہوئیے اسے دور کرنے لگی مگر کاظم کا تپڑ اسے چکرانے پر مجبور کیا۔
————–
یہ —-یہ سب جھوٹ ہے یہ بکواس کر رہے سب۔کاظم نے چلاتے ہوئے کہا۔جبکہ پولیس اہلکار اسے گھسیٹتے ہوئے کے کر جارہے تھے۔سلطان کو بھی اس سے پہلے ہی لے کر گئے تھے۔
رملہ ایک دم ہی چئیر پر بیٹھ گئی۔اسکے گھر کے مرد ہی درندے نکلے تھے۔

وہ اتنا عرصہ ان درندوں کے ساتھ رہ رہی تھی۔اسے تو اپنے باپ اور بھائی پر فخر تھا۔لیکن وہی عورت کے جسم کے بھوکے نکلے تھے۔
اسکا بھائی کاظم گم گو اسے تو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ ایسا کرسکتا ہیں۔اسے خود سے گن آرہی تھی،اس کے رگوں میں ان دو درندوں کا خون دوڑ رہا تھا۔
وہ تو جسم نوچنے والے تھے۔اور اسکے بعد وہاں کیا ہوا تھا اسے کچھ یاد نہیں وہ اپنا ہوش کھو کر گر گئی تھی۔اور آخری چہرہ اس نے وجدان کا دیکھا تھا جو اسے گود میں اٹھا کر باہر کے جارہا تھا۔
—————

مرشد ہمارے دیس میں ایک جنگ چھڑ گئی
مرشد سبھی شریف شرافت سے مر گئے

بٹلر کو عمر سائمن ہی اسکاٹ لینڈ سے پاکستان لائے تھے۔
احمر ثنائل سے شادی کرکے انگلینڈ شفٹ ہوگیا تھا۔جبکہ آدم نے مارگلہ ہلیز پر اقرا کو شادی کے لیے پروپوز کر چکا تھا اور پچھلے ہی ہفتے انکی شادی ہوچکی تھی۔چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بھی ہر الزام سے باعزت بری کے کے جیل سے رہا ہوچکے تھے۔اور اب آدم کے ساتھ وہ اٹلی چلے گئے تھے۔
عمر بھی واپس اسکاٹ لینڈ جاچکا تھا۔
اس دن کے بعد رملہ ہر رشتہ ناتا چھوڑ کر پاکستان سے ہمیشہ کیلئے اسکاٹ لینڈ شفٹ ہوچکی تھی۔وجدان اور رملہ کی دو جڑواں اولاد تھی ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔
جبکہ ازرہ سلطان علی کے پاس گئی تھی اور اب ان کے ساتھ ہی رہائش پذیر تھی۔
آج ضوفیشان ابراہیم کو گزرے ہوئے پورے پندرہ سال ہوئے تھے۔اور وہ سب آج وہاں دس سال بعد موجود تھے۔

سب سر جھکائے دعا کے لیے ہاتھ بلند کئیے تھے۔ثنائل کے ساتھ اسکی تین سالہ بیٹی بھی سر پر دوپٹہ اوڑھی کھڑی دعا کر رہی تھی۔
البتہ رملہ نیچھے بیٹھی رو رہی تھی۔

اسکاٹ لینڈ میں اسکا گھر اپنی خاموش مالکن کو بہت یاد کرتا ہیں۔اسکی آواز کانپی تھی۔رملہ کی ہچکی بند ہوئی۔
سب نے سر اٹھا کر اسے دیکھا،نازی اسکے ساتھ کھڑی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ لوگ اپنی اپنی گاڑیوں کے پاس کھڑے تھے۔
کیا ہم سب پاکستان سے گئے ہیں؟یہ سوال اقرا نے پوچھا تھا۔۔۔۔جس پر سب نے صرف ہاں میں سر ہلایا۔
اب اس ملک میں ان لوگوں نے رہ کر کیا کرنا تھا۔جہاں لوگوں کو یہ یقین تک نا کہ انہیں عدالت سے انصاف ملے گا۔کیونکہ گرفتاری کے دو دن بعد ہی سلطان دلاور خان اور کاظم دلاور خان باعزت بری ہوکر جیل سے رہا ہوئے تھے۔ لوگوں نے پھول نچھاور کرکے انکا استقبالِ کیا تھا۔
یہ وہ ملک ہے جہاں ظالم ہمیشہ سرخرو ہوتا ہیں۔
—————
ایسا لگ رہا ہیں کہ یہ سب ایک خواب تھا اور ضوفی میرے خواب کا ایک اداس کردار۔وہ اسکاث لینڈ کے گلیوں میں وجدان کے ساتھ گھوم رہی تھی۔وجدان کی گود میں اسکی بیٹھی تھی۔
البتہ اپنے بیٹے کو انگلی سے تھام کر چل رہا تھا۔

میں تمھیں اسے بھولنے کو نہیں کہو گا کیونکہ ضوفی کو کوئی بھول ہی نہیں سکتا مگر صرف اتنا کہنا ہے کہ ہر وقت یاد کر کے خود کو تکلیف مت دو۔

اپنی بیٹی کو گود سے اتار کر اسکی انگلی تھام لی تھی۔اب اسکے دائیں طرف اسکا بیٹا اور بائیں طرف بیٹی تھی۔جبکہ رملہ بائیں طرف اپنی بیٹی کے ساتھ چل رہی تھی۔
ان کی کہانی کا ایک اداس پہلو گزر چکا تھا۔

مگر اداسی اب ان میں موجود کسی نا کسی کی زندگی میں موجود تھی۔اس نے مڑ کر اس محلے کو دیکھا جہاں کبھی وہ سائمن اور ضوفی کے قہقہے ہوتے تھے۔
لیکن اب وہ لڑکی جاچکی تھی اور اپنے ساتھ ہر ایک کہ مسکراہٹ کے کر گئی تھی۔
تھوڑا دور جاکر وجدان گھٹنوں کے بل بیٹھا اپنی بیٹی کو چھپ کر وارہا تھا۔کیونکہ اسکا بیٹا مما کے سائڈ پر چلنا چاہ رہا تھا مگر وہ اسے وہ سائڈ نہیں دے رہی تھی۔

اور بدلے میں اس نے اسکی پونی کھنچی اور اب رملہ اپنے بیٹے کو سمجھا رہی تھی جبکہ وجدان اپنی بیٹی کو خاموش کروارہا تھا۔
————
اپنے گھر کے بالکنی میں کھڑا ڈھلتے سورج کو دیکھ رہا تھا۔ہوا سے اسکے بال اڑ رہے تھے۔جب وہ ہاتھ میں کافی کے دو مگ پکڑے اس کے پاس ائی۔
ایک کپ اسے دیا جبکہ دوسرا اپنے لبوں سے لگایا۔

تمھیں سن سیڈ پسند ہیں؟اس نے نفی میں سر ہلایا۔تو اس نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
اسے بھی پسند نہیں تھا۔
کیا اسے بھولنا اسان نہیں ہے؟وہ اب بھی اسکے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔

اسے بھولنے کا دکھ اسے یاد رکھنے سے زیادہ ہیں۔سر جھکا کر ریلنک پر ہاتھ رکھا۔
ہم دو انسانوں کو کبھی بھول نہیں سکتے۔۔۔۔۔۔اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا وہ اب بھی ریلنک پر انگلی پھیر رہا تھا۔

جیسے ہم یاد رکھنا چاہے اور جسے ہم بھولنا چاہتے ہیں اصل میں ہم اسے کبھی بھی بھول نہیں سکتے۔سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا تھا۔وہ آج بھی اسکی یادوں میں تھی۔

کیا اپکی تھوڑی سی محبت بھی میرے حصے میں نہیں آسکتی۔سائمن نے ایک نظر اسے دیکھا۔اور اسے اپنے سینے سے لگایا۔

وہ میری بیوی نہیں تھی نازی مگر تم میری بیوی ہو اور مجھے بہت عزیز ہو۔۔۔نازنیں کو آج اپنا آپ سب سے انمول لگا۔اسے سائمن کے ماضی سے کوئی مطلب نہیں اسے بس اس بات کی تسلی تھی کہ وہ اب اسکا تھا۔
اسکا ماضی جس کا بھی رہا ہو اسکا حال اور مستقبل صرف اور صرف نازنین تھی۔

اس نے مسکرا کر سر سائمن کے کندھے پر رکھا ۔ سائمن نے اس کے ماتھے پر اپنی محبت کی مہر ثبت کی اور اسکے گرد اپنا مضبوط حصار باندھا اور مسکرا کر اسے دیکھا جس نے ریڈ براؤن کومبو کے شال سے اپنا وجود ڈھانپا تھا شاید تھوڑے عرصے بعد انکے گھر ایک ننھا مہمان آنے والا یا آنی والی تھی۔ اور دور کھڑی سفید فراک میں ضوفیشان ابراہیم نے مسکرا ان کو دیکھا تھا۔
———-
وہ ہاتھ میں کیمرہ پکڑے بہت مزے مارگلہ ہلیز کی خوبصورتی کو قید کر رہا تھا۔اپنا بیگ پیک کندھے پر ڈالا۔وہ دائیں جانب درختوں کی تصویر لے رہا تھا۔
جب وہاں کچھ جھاڑیاں ہلنے لگی۔پہلے وہ ڈر کر وہاں سے جانے لگا مگر پھر نسوانی آواز سن کر وہ پلٹا تو اسکی آنکھیں کھولی کی کھولی رہ گئی۔
وہ اسکے سامنے کھڑی تھی۔
تم -تم زندہ ہو۔اسکے کیمرہ والا اسکے پہلو میں جا گرا۔

شاید یہ کہانی ایک بار پھر شروع ہونے والی تھی کبھی نا ختم ہونے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہتے ہیں کہ اپنا ملک تحفظ کا احساس دلاتا ہیں
لیکن شاید یہ کہنے والے ریاست پاکستان سے ناواقف ہیں
کہ اس دنیا میں ایک ایسا ملک میں بھی ہیں جو اپنے ہی
باشندوں سے خوشیاں اور تحفظ چھین لیتا ہیں
اسی طرح جس طرح اس نے رملہ سلطان سے
اسکے ہر رشتے کی محبت چھینی تھی
ہلال امتیاز سے اسکی آبرو
سائمن فن لے سے اسکی محبت
اور ضوفیشان ابراہیم سے اسکا تحفظ۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد

 


 


اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز -   ڈاؤن لوڈ کیجئے

نمرہ احمد کے ناولز Nimra Ahmed Novels  عمیرہ احمد کے ناولز Umera Ahmed Novels  اشتیاق احمد کے ناولز Ishtiaq Ahmed Novels 
عمران سیریز Imran Series دیوتا سیریز Devta Series انسپکٹر جمشید سیریز Inspector Jamshed Series 
دیگر مصنفین کے ناولز شہزاد بشیر کے ناولز Shahzad Bashir Novels نسیم حجازی کے ناولز Naseem Hijazi Novels


ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟  We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff !   Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household ItemsBuy from Amazon

Alishma Nisa

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave the field below empty!

Next Post

ادیب نگر گرینڈ ایوارڈز 2024

Thu Nov 7 , 2024
ادیب نگر گرینڈ ایوارڈز 2024 Report: Tasneem Jafri  Adeeb Nagar Grand Awards 2024 اس قسم کے ایوارڈز ادیب نگر کی جانب سے پہلی بار ان کو دیئے جا رہے ہیں جو اردو ادب اور خصوصا بچوں کے ادب کا بڑا نام ہیں اور ان کی آبیاری میں اپنا دن رات […]
adeeb nagar grand awardz 2024

ایسی مزید دلچسپ تحریریں پڑھئے

Chief Editor

Shahzad Bashir

Shahzad Bashir is a Pakistani Entrepreneur / Author / Blogger / Publisher since 2011.

Hunoot series = waqt ka taaqub