ابن صفی کی نگارشات اور میڈیکل سائنس
ڈاکٹر حامد حسن
قسط نمبر 01
شروع اللہ کے پاک نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ گو کہ موضوع بالکل نیا ہے۔ لیکن اس موضوع کی ابتدا ”سنگ ہی کی واپسی“ والے سلسلے سے ہو چکی ہے۔ وہ مضمون ”دی گریٹ ابن صفی فینز کلب“ کے ایک سلسلے کے لیے لکھا گیا تھا۔ چونکہ منفرد موضوع کے لحاظ سے، اس مضمون میں ایک دو ناولوں کا ہی احاطہ ہوا تھا تو اس موضوع پر ابن صفی کی تمام نگارشات کو دیکھنے کا ارادہ بنا لیا اور آج کام کا آغاز بھی ہو گیا۔ الحمدللہ۔۔۔
اسرار احمد جو کہ ابن صفی کے نام سے ”سری ادب“ کے بانی کے طور پر جانے جاتے ہیں، بنیادی طور پر استاد تھے اور جس دور میں وہ استاد تھے اس دور میں مضمون وغیرہ کی پابندی نہیں ہوا کرتی تھی۔ اس کے باوجود دنیا جانتی ہے کہ ان کا مضمون نفسیات تھا۔ وہ بچوں کی نفسیات جانتے تھے، بڑوں کی نفسیات جانتے تھے، پڑھنے والوں کی نفسیات جانتے تھے اور اس وقت کے لکھنے والوں کی نفسیات سے بھی واقف تھے۔ نفسیات چونکہ میڈیسن کی ہی ایک شاخ ہے اس لیے انھیں میڈکل سائنس سے بےبہرہ بالکل نہیں کہا جا سکتا۔ ایک ادیب کی حیثیت سے یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ جدید یا ان کے اپنے وقت کی میڈیکل سائنس سے کما حقہ واقف بھی ہوں۔ کیونکہ اس دور میں گوگل تو ہوتا نہیں تھا کہ ہر بندہ ہر چیز کی بابت جان سکے۔
بہرحال موضوع ہے ابن صفی کی نگارشات اور میڈیکل سائنس۔ ابن صفی کی اول لکھت سے لے کر آخری لکھت تک جتنی بھی چیزیں میڈیکل سائنس سے متعلقہ ہیں ان کا جائزہ لینا ہے کہ ان کی حقیقت اس وقت کیا تھی کہ جب وہ لکھی گئیں، بعد میں ان پر کتنا کام ہوا اور کون سی چیزیں صرف فرضی تھیں کہ جن کا وجود یا تو ان کے لکھے جانے کے وقت نہیں تھا یا پھر بعد میں وجود میں آئیں یا جن کا حقیقت سے کسی بھی طرح کا واسطہ نہیں۔
فرار :(ماہنامہ نکہت الہ آباد، جون 1948)
اشاعت کے لحاظ سے سب سے پہلی چیز جو سامنے آ رہی ہے وہ ابن صفی کی ”طغرل فرغان“ کے نام سے ماہنامہ نکہت، جون 1948 میں شائع ہونے والی طنزیہ و مزاحیہ کہانی ”فرار“ ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک گدھے کی ایک دن کی خود نوشت ہے جس میں وہ اپنے مالک یعنی دھوبی اور اس کے کتے سے نالاں کہیں فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس پوری کہانی میں میڈیکل سائنس کے حوالے سے جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب کا تعلق ابن صفی صاحب کے ذاتی مشاہدے اور علم نفسیات سے ہے۔ کوشش کرتے ہیں کہ ساری چیزوں کا احاطہ ہو سکے۔
سب سے پہلے تو وہ اقتباسات جو مصنف کے عمیق مشاہدے کا ثبوت ہیں۔
الف– یکایک اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کئی لڑکے ایک ساتھ اس کی پیٹھ پر سوار ہو گئے ہوں اور ساتھ کسی موٹی سی مکھی نے بائیں آنکھ میں جہاں چیپڑ لپٹا ہوا تھا، ڈنک مار دیا۔۔۔ اس نے احتجاجاً بائیں کان کو جنبش دی اور دل ہی دل میں دھوبی کو گالیاں دینے لگا۔۔۔
ب– گدھے نے ”تھینک یو!“ کہتے ہوئے دولتی جھاڑی اور یہ جا وہ جا۔۔۔۔۔
ج– ”اچھا۔۔!“ کتے کی دم اب اس کی کمر پر دائرہ بنا رہی تھی اور نچلے جبڑے کی کوریں تھرتھرانے لگی تھیں۔۔ غراہٹ آہستہ آہستہ بلند ہو رہی تھی۔ قبل اس کے کہ وہ گدھے پر جھپٹے، ایک بڑے موٹے انگریز کا گرے ہاؤنڈ اس پر جھپٹ پڑا۔ کتے کی دم سیدھی ہو گئی اور آہستہ آہستہ پچھلی ٹانگوں سے گزرتی ہوئی پیٹ سے جا لگی۔ پچھلی ٹانگوں کے بل جھکتے ہوئے اس نے اپنے دانت نکال دئیے۔ گنجے انگریز نے پلٹ کر سیٹی بجائی اور گرے ہاؤنڈ دھوبی کے کتے کی دم سونگھ کر پھر اس کے پیچھے ہو لیا۔
ا”پردیسی سمجھ کر چھوڑ دیا ورنہ۔۔۔“ دھوبی کے کتے نے جھینپ مٹانے کی کوشش کی۔
د– کتا پچھلی ٹانگ سے پیٹ کھجلاتا ہوا بولا۔۔۔
ر– گدھے نے پچھلی ٹانگ کے اوپری جوڑ پر کی کھال کو ذرا سی جنبش دے کر کہا۔۔۔۔۔۔
س– ”خیر مارو گولی۔۔ چلنے کی کیا رہی۔۔؟“ کتے نے چاروں ٹانگیں آگے پیچھے پھیلا کر ایک طویل انگڑائی لی۔
ص– ”یہ بات۔۔ تو آؤ!“ گدھے نے اپنے بائیں پہلو پر دم رسید کرتے ہوئے کہا۔
درج بالا تمام جملہ جات گدھے اور کتے کی فطرت کو بیان کرتے ہیں۔ مکھیوں سے بچنے کے لیے کانوں کی جنبش، بھاگنے سے پہلے دولتی جھاڑنا، کتے کا غصے کی حالت میں دم کو کمر کے اوپر گول دائرے کی صورت میں رکھنا اور خوف کی صورت میں دم کا تین سو ساٹھ ڈگری پر اور پیٹ کے ساتھ لگا ہوا ہونا، کتے کا پیٹ کھجلانا، گدھے اور ہر چوپائے کا کھال ہلا کر مکھیوں وغیرہ سے نجات کا طریقہ، کتے کی انگڑائی اور مکھیوں کے لیے ہی دم کو پیٹ پر مارنا یہ سب کسی حد تک جانوروں کے اضطراری افعال ہیں جن کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ کہانی اور مکالمے میں پیوست کیا گیا ہے۔
کہانی میں ”انکشاف“ کا باعث جو چیز ہے وہ ”بھوک“ ہے۔ یعنی بھوک وہ چیز ہے جو انسان تو انسان جانوروں تک کو ذلیل و خوار کرا سکتی ہے۔ تو جناب اسی بھوک سے بیتاب ہو کر گدھے صاحب ہری بھری گھاس پر منہ مار کھڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے کھیت کا مالک گدھے کی اچھی مرمت کرتا ہے اور پھر اردگرد کے بچے اس کا احوال پوچھنے اور خاطر کرنے لگتے ہیں۔ گدھے کو غصہ اس بات پر آ رہا ہے کہ اس کے مالک، دھوبی نے اس کی اگلی ٹانگیں کیوں باندھیں کہ اب وہ بھاگ ہی نہیں سکتا۔ اس غصے کے دوران جو جو سوچ گدھے کے ذہن میں آئی ہے وہ واقعی گدھے کی ہی سوچ تھی۔
کتے کے ساتھ حسد اور پھر فوراً لیڈری کا شوق، جو ڈنڈے کی نذر ہوا اور گدھے کو ٹانگیں چھڑا کر بھاگتے ہی بنی۔ بھینس کے ساتھ ٹکر اور پھر سینگوں کی خواہش، ’گدھا پن‘ ہی تو ہے۔ اس کے بعد مزید ترقی کرتے ہوئے خچرنی کے ساتھ نین مٹکا کرنا گدھے پن کی معراج!
کتے کا اچانک پہنچ کر گدھے پر رعب جمانا اور دوسرے کتے کے آنے پر اس کا خوفزدہ ہونا، خالص ”کتے پن“ کی تصویر کشی ہے۔ اس کے بعد ان دونوں کی گفتگو بھی جانوروں کی ہی کامل گفتگو ہے اور انسانوں کے رویے کی بھرپور شکایت کرتی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ کہانی انسانی رویہ جات کی کہانی تھی کہ جسے ابن صفی نے گدھے، کتے اور دیگر جانوروں کے نام دے کر نہایت عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ابن صفی صاحب کی اگلی تخلیق کا تجزیہ ان شاءاللہ پھر۔۔۔
اس سلسلے کی دوسری قسط پڑھنے کیلئے کلک کیجئے
ڈاکٹر حامد حسن
بہاولپور
اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز - ڈاؤن لوڈ کیجئے
ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟ We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff ! Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household Items | Buy from Amazon |
ماشاءاللہ 🌹🌹
ڈاکٹر صاحب!
ابن صفی صاحب کے فن پر اس
منفرداندازمیں تبصرہ کرنے کے لئےآپ کو بہت بہت مبارکباد پیش ہے ،اگلے تبصرے کا انتظار رہے گا ں
بہت خوب جناب بہترین تحریر ہے
اور تجزیہ بھی ان کے شایانِ شان ہے ناچیز کی رائے ہے کہ ایسا مصنف بہت قسمت والا ہوتا ہے جس کو ایسے قدردان قارئین میسر ہوں ۔ اگلی قسم کے شدت سے منتظر ہیں ۔ اگر کرنل صاحب کے بارے میں ہو تو کیا کہنے
Nice review.