خوفناک سفر
خوفناک سفر – ڈر خوف اور سسپنس پر مبنی کہانی
نورین خان
شانی اور مانی دو دوست تھے۔
شانی کو سرکاری محکمے سے تار آیا تھا کہ تمھاری نوکری پکی ہو چکی ہے لہذا ڈاک خانے میں ایک پرانا گاؤں ہے وہاں جاکر ڈیوٹی کا چارج سنبھال لو اور خط میں ایڈریس لکھا ہے وہاں جلد از جلد پہنچو۔
شام کا وقت تھا ۔شانی گھر سے نکلا اور نزدیک ہوٹل سے چائے پی کر ٹیلی فون بوتھ پر گیا اور اپنے دوست مانی کا نمبر ڈائل کیا اور بتایاکہ کل صبح 4 بجے تیار رہے سفر پر نکلنا ہے۔
سخت سردیوں کے دن تھے۔ شانی جلدی جلدی گھر پہنچا اور اپنا سوٹ کیس تیار کیا اور سو گیا ۔
صبح کے 4 بج چکے تھے شانی اٹھا وضو کیا نماز پڑھی اور اسکے بعد کچن میں چولہے پر چائے چڑھا دی ۔
اسی دوران دروازے پر دستک ہوئی۔ شانی نے دروازہ کھولا تو سامنے مانی کھڑا تھا ۔
دونوں نے اکٹھے ناشتہ کیا اور فورا گھر سے نکل گئے۔ ریل کا سفر تھا ۔تقریبا آٹھ گھنٹے بعد ریل سٹیشن پر رکھی اور شانی مانی ریل گاڑی سے اترے۔
وہاں پر لوگوں سے شانی نے خط کا ایڈریس معلوم کیا تو لوگوں نے کہا یہ والا گاؤں دو گاؤں کے بعد آتا ہے اور راستہ کافی مشکل اور کچا ہے وہاں گاڑی نہیں جا سکتی البتہ دو گاؤں جو ہے وہاں ۔تانگے پر سفر ہو سکتا ہے اور اسکے بعد پیدل ہی سفر کرنا ہے ۔وہاں یہ سرکاری عمارت ہے
شانی اورمانی جلد تانگے پر بیٹھ گئے اور روانہ ہوئے۔
“تانگہ چلانے والا بابا بوڑھا تھا اور تقریبا “اسی” سال سے اوپر کا تھا اس نے کہا: ” شہری بابو یہاں کیسے آنا ہوا ؟ یہ تو کافی پرانے علاقے ہیں اور یہاں کوئی پوسٹنگ پر نہیں آتا ۔
“مانی نےپوچھا:”کیوں بابا جی۔ لوگ کیوں نہیں آتے؟
” بابا جی نے بتایا: “جہاں بابو جی کی ڈیوٹی لگی ہے اس سے آگے ایک خوفناک گاؤں ہے ۔ وہاں سے کوئی نہیں گزر سکتا ۔یا تو صبح اسکی لاش ملتی ہے یا پاگل ہو جاتا ہے۔
مانی یہ سن کر ڈر گیا ۔
“شانی بولا:” بابا جی کیا واقعی یہ سچ ہے ؟
“بابا جی نے کہا :”جی ہاں بابو جی ۔یہی سچ ہے
ایک گاؤں گزر گیا۔ اب وہ خوفناک گاؤں کے راستے پر تھے۔
بابا جی نے کہا :”میں آگے نہیں جاؤنگا ۔اب تم لوگ جاؤ”۔
شانی مانی تانگے سے اترے اور وہاں اندھیرے میں ایک مقامی بندے سے منت سماجت کی کہ ہمارے ساتھ چلو۔ میں ڈبل پیسے دونگا۔
وہ جوان راضی ہو گیا اور یوں تینوں پیدل سفر پر روانہ ہوئے۔
اس آدمی نے کہا :”بابو جی میرا نام شیر دل خان ہے۔ اور یہ علاقہ جہاں واقع ہے اس سے پہلے ایک ممنوعہ جنگل ہے یہاں کوئی آتا جاتا نہیں کیونکہ یہاں کی تاریک گہرائیوں میں بسا ہوا ایک پراسرار گاؤں ہے ۔جس نے اس پار آنے والے تمام لوگوں کو ڈرایا ہوا ہے۔ یہ سن کر مانی کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی دوڑ گئی۔
” یہ گاؤں خوف کی طویل بھولی ہوئی کہانیوں اور مافوق الفطرت واقعات کی سرگوشیوں والی داستانوں سے گھرا ہوا ہے بابو جی۔”
شام ڈھلتے ہی زمین پر ایک خوفناک دھند چھا گئی۔ گاؤں کی گلیوں میں انجانے پتھریلے راستوں میں ڈر اور خوف کا سماں تھا۔
ایک منحوس سایہ گاؤں پر نظر ڈالنے لگا۔ یہ گاؤں خستہ حال مکانات اور ٹوٹی کھڑکیوں کے ساتھ وقت کے ساتھ منجمد دکھائی دے رہا تھا جو ایک پریشان کن ماضی کی جھلک دے رہا تھا۔
اچانک دور سے چیخنے کی آوازیں آئیں یہ خاموشی صرف دور دراز کے بھیڑیے کی چیخنے سے ٹوٹی تھی۔
بابو جی۔ پرانے بزرگوں نے بتایا ہے کہ اس گاؤں پر لعنت کی گئی تھی۔ اس لئے اب یہ گاؤں منحوس بن چکا ہے۔ اس کے باشندے ایک ابدی ڈراؤنے خواب میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ظالم روحیں ماضی کی غلطیوں کا بدلہ لینے کے لیے سڑکوں پر گھومتی ہیں۔ جبکہ کئی اور دوسرے لوگوں نے جادو ٹونے اور مکروفریب کے بارے میں بتایا کہ یہاں کالے جادو والی کالی قوتوں کا سایہ ہے جس نے تاریک قوتوں کے غضب کو جنم دیا ہے ۔شیر دل نے مزید بتایا۔
شانی کے تجسس میں مزید اضافہ ہو گیا اور مانی کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک جھنجھوڑنے والے خوف نے انگڑائی لی۔
بابو جی یہاں گاؤں کے کچھ بہادر نوجوان تھے جو اس منحوس گاؤں کے رازوں سے پردہ اٹھانے پر مجبور تھے۔ لیکن وہ جتنا آگے بڑھتے گئے، اتنا ہی زیادہ دہشت ان کے دلوں کو اپنی لپیٹ میں
لے لیتی۔ معصوم متلاشی اسرار کے جال میں الجھ گئے اور کئی جوان تو مر گئے اور کئی پاگل ہو گئے افسوس ۔
چند دیہاتی بہادر جنہوں نے اس بھوت بھرے مقام پر رہنے کی ہمت کی تھی وہ شدیدخوف میں آج کل رہ رہے ہیں۔
اچانک شانی کو دیواروں پر کچھ نظر آیا ۔
دیواروں پر سائے بظاہر زندہ دکھائی دے رہے تھے جیسے وہی سائے ہواؤں میں ان کی ہر حرکت کا مذاق اڑاتے ہوئے سرگوشیاں کر رہے ہوں ۔
اچانک انکو ایک گھر نظر آیا جو کہ خاص طور پر گاؤں کے بیچ میں اکیلا بنا ہوا تھا ۔ایک زبردست پرانا ڈھانچہ جیسے کوئی پرانا کھنڈر ہو جو کبھی اس گاؤں کا شاندار گھر ہو گا۔
بابو جی۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ گھر ایک بزرگ کا تھا اور اس بزرگ عامل نے علم حرام کے حصول میں تاریک روحوں سے معاہدے کیے اور ناقابل بیان مخلوق کو طلب کیا۔ جبکہ کئی احمقوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے ان ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں سے موم بتی کی روشنی میں اس طرح دیکھا ہے جیسے بزرگ وہاں چہل قدمی کر رہے ہو اور اس بزرگ عامل کی موجودگی ابھی تک محسوس ہوتی ہے۔شیر دل نے بتایا۔
گاؤں کے آس پاس کی زمین اور پورا ماحول اپنے اندر کے اندھیرے کی عکس بندی کر رہی تھی۔
مڑے ہوئے درختوں کی شاخوں کے ساتھ کوئی سکون یا اطمینان محسوس نہیں ہو رہا تھا۔
ڈر اور خوف کے وسوسے ہوا کے ساتھ اڑ رہے تھےاور ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی۔
ڈر کا سماں تھا کہ جس سے سخت ترین روحیں بھی کانپ اٹھتی تھیں۔
قدیم قبرستان کے ڈھلنے والے قبروں کے پتھروں اور کتبوں نے بے چین روحوں اور ممنوعہ رسومات کے خوفناک نظاروں کو جیسے خود دیکھا ہو۔
پھر بھی خوف اور مایوسی کے درمیان امید کی ایک جھلک باقی تھی۔ کیونکہ شانی اور اس جیسے بہادر لوگ تھے جو یقین رکھتے تھے کہ گاؤں کی اس نحوست کو ختم کرنے اور کالی طاقتوں کے گہرائیوں میں چھپی اس لعنت کو توڑنے اور اس گاؤں اور اس کے باشندوں دونوں کو اندھیرے کے چنگل سے آزاد کرنے کے لئے روشنی کی امید موجود ہے۔
مگر ابھی یہ تین بہادر چند جوان اپنے گہرے خوف کا سامنا کرتے ہوئے اور گاؤں کے اس گھمبیر اور خفیہ رازوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے ایک خوفناک راستے پر چل پڑے۔
یہی تین جوان جرات مند نکلے جو نامعلوم طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حقیقی معنوں میں تیار تھے۔
گاؤں پر چھائے ہوئے سائے کا پردہ اٹھانے کا موقع آج ان کو قسمت سے ملا تھا ۔
تو پیارے بچوں آپکے خیال میں کیا وہ اس بدمعاشی کو ختم کرنے کی کوشش میں کامیاب ہو جائیں گے جس نے گاؤں کو اس ڈر اور خوف کی صورتحال سے دوچار کیا تھا یا وہ بھی اس روحوں کی ناقابل معافی گرفت کا شکار ہو جائیں گے؟
بالآخر گاؤں کا سفر ختم ہوا اور شانی کو سامنے ایک سرکاری عمارت نظر آئی جہاں چوکیدار کھڑا تھا اور شانی کو دیکھ کر سلوٹ مارا اور سامان کمرے میں لے گیا۔
شانی نے اپنے ساتھ آنے والے بہادر جوان شیر دل خان کو روک لیا کہ رات یہی گزارو کل چلے جانا۔
اس طرح تینوں بہادر سو گئے اور صبح شانی نے قریبی مسجد کے امام سے رابطہ کیا اور گاوں کے بزرگ لوگوں کو لے جا کر اس خوفناک جگہ پر قرآن خوانی کروائی
راستوں سے تمام رکاوٹیں ہٹائیں اور وہاں کی ویران مسجدوں کی صفائی کروائی۔
اور سب مسجدوں میں اذانیں دی گئی اور پورا گاؤں اللہ اکبر اللہ اکبر کے نام سے گونج اٹھا ۔
قرآن کی مسلسل تلاوت سے اس گاؤں میں سکون اور اطمینان لوٹ آیا ۔
وہاں چرند پرند اور جانور لوٹ آئے اور وہاں سے ہجرت کرنے والے لوگ بھی پھر سے آکر آباد ہونے لگے۔
اس طرح شانی کی دانائی اور سمجھ بوجھ نے اس علاقے کے مسائل کا خاتمہ کیا ۔
ختم شد
کہانی کار: نورین خان
اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز - ڈاؤن لوڈ کیجئے
ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟ We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff ! Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household Items | Buy from Amazon |