An Exclusive Interview with an extraordinary fan of Ishtiaq Ahmed (late)
who created a perfect record book of the legendary fiction writer Ishtiaq Ahmed’s 800+ Novels for his readers around the world.
Meet Abu Abdullah Ammad Hasan
Like & Follow Ammad Hasan on Facebook
انٹرویو : شہزاد بشیر (ویب پبلشر کتاب دوست ڈاٹ کوم)
Watch Video Intro of Ammad Hasan Interview by Shahzad Bashir
Read Full interview below
عزیز کتاب دوستو!
کتاب دوست کے پلیٹ فارم سے ایک اور انتہائی پر تجسس اور دلچسپ شخصیت سے آپ کی ملاقات کروانے جا رہے ہیں۔ اشتیاق احمد کے لاکھوں مداحوں میں سے کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہیں جو ان سے زندگی میں ملاقات کر پائے۔ اور نہ صرف قلمی بلکہ عملی طور پر بھی اقدامات کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی سچے مداح اور پرستار ہیں جو اپنے محبوب مصنف کے ناولوں کو نہ صرف مکمل تعداد کے ساتھ محفوظ کئے ہوئے ہیں بلکہ نئے اور پرانے پڑھنے والوں کیلئے ہر ممکن طریقے سے ناولوں کی دستیابی کو یقینی بنایا ہے۔
ابو عبداللہ عماد حسن وہ شخصیت ہیں جنہوں نے حقِ مداحی بخوبی نبھایا ہے اور اشتیاق احمد کے ہر قاری کو نہ صرف اشتیاق احمد کے ناولوں کی جامع اور ترتیب وار لسٹ باقاعدہ ایک ریکارڈ کی شکل میں پیش کی بلکہ ہر ناول کا پی ڈی ایف لنک بھی شامل کیا جس کی بدولت ہر ناول ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ کام اپنے آپ میں ایک بہت ہی منفرد اچھوتا اور دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی دشوار، صبر آزما، محنت طلب اور مستقل مزاجی کو آزمانے والا کام تھا جسے ابو عبداللہ عماد حسن صاحب نے نہائت خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ان کی یہ زبردست کاوش اردو ادب اور بالخصوص جاسوسی ادب کے پڑھنے والے اشتیاق احمد کے قارئین پر گویا ایک قرض ہے جسے کبھی اتارا نہیں جا سکے گا۔ البتہ ان کی محنت کو شاندار انداز میں خراجِ تحسین پیش کرکے انہیں یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ اشتیاق احمد کے چاہنے والے آپ کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
عماد حسن سے بات چیت کے دوران کئی حیرت انگیز باتیں سامنے آئیں جب ان کی شخصیت کے مختلف چونکا دینے والے پہلو سامنے ائے۔ اس حوالے سے یہ بتاتا چلوں کہ اس انٹرویو کو کئی بار ریویو کرنا پڑا کیونکہ عماد حسن نہ صرف اشتیاق احمد کے حوالے سے بلکہ ایک ادبی شخصیت اور ریسرچر کی حیثیت سے سامنے آئے مگر اس کے علاوہ بھی ان کی شخصیت کے دیگر پہلو ہیں جو ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں تاکہ آپ بھی ان کی مکمل حیرت انگیز شخصیت سے واقف ہو جائیں۔
تو لیجئے ابو عبداللہ عماد حسن کی ادبی سرگزشت اور اشتیاق احمد کے قاری بننے سے لے کر ملاقات تک کا سفر پڑھئے۔ شکریہ
|
عماد حسن سے ایک دلچسپ گفتگو
شہزاد بشیر: السلام و علیکم۔ عماد حسن بھائی کیسے مزاج ہیں امید ہے کہ خیریت سے ہونگے۔ آپ کا بہت شکریہ اس گفتگو کے لئے وقت نکالنے اور اپنی سرگزشت کتاب دوست کے قارئین اور بالخصوص اشتیاق احمد (مرحوم) کے مداحوں کے ساتھ شیئر کرنے کیلئے۔
ابو عبداللہ عماد حسن: وعلیکم السلام شہزاد بھائی یہ آپ کی محبت ہے کہ آپ نے مجھ ناچیز کو اس قابل سمجھا وگرنہ میرا ایسا کوئی کارنامہ نہیں بہرحال میں آپ کے توسط سے اشتیاق احمد کے مداحوں سے اپنا تعارف کروانا باعثِ فخر سمجھتا ہوں ۔ اُ پ نے مجھے انٹرویو کے لئے منتخب کیا تو میرے لئے اعزاز کی بات ہے کیونکہ آپ نے بڑے معروف و معتبر لوگوں کے انٹرویوز شائع کئے ہیں جن میں فاروق احمد صاحب جیسی بڑی شخصیت بھی ہیں تو یہ بہرحال میرے لئے خوشی کی بات ہے۔
شہزاد بشیر: یہ تو آپ کی انکساری ہے ورنہ میں تو سمجھتا ہوں کہ جو کام آپ نے کیا ہے اس کے پیچھے کتنی مستقل مزاجی، محنت اور غوروفکر شامل ہوگا اس کا اندازہ مجھے بخوبی ہے کیونکہ کتاب دوست ویب سائٹ بناتے وقت میں بھی انہی مراحل سے گزرا ہوں۔ بہرحال آپ کا کام اپنی نوعیت کا منفرد اچھوتا اور عوامی مفاد کے لحاظ سے سراہے جانے کے قابل ہے۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کے کام کے حوالے سے یا اشتیاق صاحب کے حوالے سے بات آگے بڑھاؤں، میں چاہوں گا کہ آپ اپنا مخٹصراََ تعارف قارئین سے کرائیں۔
ابو عبداللہ عماد حسن: جی ضرور۔ میں لاہور میں رہائش پذیر ہوں اور ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق ہے میرے والد ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور پچھلے تیس پینتیس سال سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ میری پیدائش 26 جنوری 1979 سرگودھا کی ہے۔ میں گھر میں سب سے بڑا ہوں چھوٹے دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ ابتدائی تعلیم ماڈل ٹاؤن لاہور کے ڈویژنل پبلک اسکول سے حاصل کی اسکے بعد انٹر اور پھر پنجاب کالج آف کامرس سے بی کام کیا پھر آئی بے اے پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا۔
میں ٹیکسٹائل انڈسٹری میں نٹ ویئر مرچنڈائزنگ سے وابستہ رہا ہوں۔ شروع سے ہی انٹرنیشنل مارکیٹنگ میں کام کیا ہے۔ فوڈ سے بھی منسلک ہوں، تاجک ڈش اوش پلاؤ کو 2018 میں پہلی بار لاہور میں “اوش خانہ” کے نام سے متعارف کروایا تھا، “لاہور رائل فوڈز” کے نام سے کیٹرنگ سروس اب بھی موجود ہے۔
اس کے علاوہ مجھے ایک زمانے میں موسیقی کا بہت شوق تھا مگر اب اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے صرف حمد و نعتِ رسول مقبول اور ترانوں تک محدود کر دیا ہے اس شوق کو۔ اس حوالے سے جنید جمشید شہید کو بھی خراج تحسیس پیش کیا ہے۔
Watch Ammad Hassan Videos on Youtube. Click here |

شہزاد بشیر: واہ جناب کیا بات ہے۔ یہ تو گویا سونے پہ سہاگہ والی بات ہوئی۔ آپ ماشاءاللہ بہت باصلاحیت انسان ہیں۔ تو گویا اشتیاق احمد ہی نہیں بلکہ جنید جمشید صاحب کے حوالے سے بھی آپ کا کردار سراہے جانے کے لائق ہے۔ مجھے امید ہے قارئین کی بھی بھرپور پذیرائی حاصل ہوگی ۔
ابو عبداللہ عماد حسن: جی بہت شکریہ ۔ میں تو اب بھی یہی کہوں گا کہ میں کسی قابل نہیں۔
★★★★★
عماد حسن سے بات چیت کے دوران کئی حیرت انگیز باتیں سامنے آئیں جب ان کی شخصیت کے مختلف چونکا دینے والے پہلو سامنے ائے۔ اس حوالے سے یہ بتاتا چلوں کہ اس انٹرویو کو کئی بار ریویو کرنا پڑا کیونکہ عماد حسن نہ صرف اشتیاق احمد کے حوالے سے بلکہ ایک ادبی شخصیت اور ریسرچر کی حیثیت سے سامنے آئے مگر اس کے علاوہ بھی ان کی شخصیت کے دیگر پہلو ہیں جو ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں تاکہ آپ بھی ان کی مکمل حیرت انگیز شخصیت سے واقف ہو جائیں۔
عماد حسن بطور گلوکار و نعت خواں
اگر آپ کو حیرت ہوئی ہے کہ یہ عماد حسن صاحب کے اشتیاق احمد کے ساتھ تعلق کا انٹرویو کسی اور رخ پر جا رہا ہے تو جناب میں خود حیران ہوں کہ جس شخصیت سے صرف ایک حوالے سے انٹرویو کرنے کا پروگرام تھا ان کی شخصیت کے اور کئی پہلو سامنے آنے پر کیا کیا جائے؟ پھر کافی سوچ بچار کے بعد یہ ہی بہتر معلوم ہوا کہ کتاب دوست کے قارئین کو ان تمام پہلوؤں سے آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ بعد میں یہ نہ کہہ سکیں کہ اوہ یہ انٹریو تشنہ رہ گیا اور عماد حسن کا یہ ٹیلنٹ ہم سے چوک گیا۔
تو جناب اشتیاق احمد کے حوالے سے چونکہ اکثر لوگ ان سے واقف ہیں اس لئے اس سیکشن کو آخر میں رکھ کر پہلے عماد حسن کی دیگر دلچسپ و حیرت انگیز صلاحیتوں پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ یقیناََ آپ کو بھی خوشگوار حیرت ہوگی اور اپ پکار اٹھیں گے ۔۔اوہ ۔۔اوہ۔۔یہ تو چھپے رستم نکلے۔
میرے ایک سوال کے جواب میں عماد حسن نے بتایا کہ ایک زمانے میں انہیں گانے کا بہت شوق تھا اور ان کا ایک یوٹیوب چینل بھی ہے جس پر انہوں نے اپنی ویڈیوز جن میں نغمہ ، نعت اور مرحوم جنید جمشید کے بہت بڑے مداح ہیں گو ان سے کبھی ملاقات نہ ہو سکی مگر ان کو دل دل پاکستان اپنی آواز میں گا کر خراج تحسین پیش کیا ہے۔
اب گلوکاری سے انہوں نے ذرا کنارہ کشی اختیار کر لی ہے اور ترانوں اور حمدو نعت تک محدود کر لیا ہے۔
Follow Ammad Hasan on Instagram
★★★★★
عماد حسن بطور ناول ایڈیٹر: جس نے اشتیاق احمد کے خاص نمبر بیگال مشن سمیت دیگر ناولوں کی پروف ریڈنگ و ایڈیٹنگ کی۔
ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ دل جیتنے والا بیان بھی دیا کہ :
عماد حسن بطور ایک مؤلف: جس نے اشتیاق احمد کے ناولوں کی مکمل لسٹ ترتیب دی ۔
جناب آپ مانیں یا نہ مانیں۔ عماد حسن کا اشتیاق احمد کے تمام ناولوں کی لسٹ ترتیب وار شائع کرنا ایک بہت ہی بڑا کارنامہ ہے۔ یہ کام کتنا محنت طلب اور مستقل مزاجی سے کرنے والا کام ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔ اشتیاق احمد کے 800 سے زائد ناولوں کی کھوج، کو میں ریسرچ ہی کہوں گا۔ عماد حسن نے جس طرح تمام ناولوں کی لسٹ ترتیب دی وہ اپنے آپ میں ایک شاندار خراج تحسین ہے جناب مرحوم اشتیاق احمد صاحب کو۔ یہ کام کوئی دیوانہ ہی کر سکتا ہے جو اس قدر محبت اور خلوص سے انہوں نے نہ جانے کیا کیا مشکلات جھیل کر اس لسٹ کو مکمل کیا اور نہ صرف مکمل کیا بلکہ اشتیاق احمد کے قارئین تک اس لسٹ کو پہنچایا۔ اور اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ انہیں اس کام کا کوئی معاوضہ دیاگیا ہوگا تو معذرت کے ساتھ کہوں ایسا بالکل بھی نہیں ہے اور تمام اخراجات عماد حسن نے اپنے پلے سے خرچ کر کے اس لسٹ کو آپ تک پہنچایا ہے۔
اس کام کی اہمیت کا اندازہ لگانے کیلئے آپ کو صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ جس ویب سائٹ پر یعنی کتاب دوست ڈوٹ کوم پر آپ عماد حسن کے کارنامے ابھی اس وقت پڑھ رہے ہیں یہ ویب سائٹ بھی دراصل ان کی لسٹ کی بنیاد پر ہی ڈیویلپ کی گئی تھی لیکن بعد ازاں اس میں دیگر مصنفین کے ناول بھی شامل کر لئے گئے۔ تو اس لسٹ کا ایک تو یہ بہت زبردست فائدہ عوام کو پہنچا کہ اب ایک ہی ویب سائٹ پر اشتیاق احمد کے تمام ناول، خاص نمبرز اور متفرق ناول مفت پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کا انتظام ہے۔ انہوں نے مختصراََ اپنی لسٹ مرتب کرنے کے دوران کے دلچسپ واقعات بھی شیئر کئے۔
یقیناََ اشتیاق احمد کے قاری اور مداح عماد حسن کی اس کاوش کو نہ صرف جانتے ہونگے بلکہ اس حوالے سے ایک جذباتی وابستگی بھی عماد حسن سے موجود ہوگی۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ ایک بڑی تعداد ان مداحوں کی بھی ہوگی جو نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اورانہوں نے ابھی اشتیاق احمد کے ناول آن لائن یا گھر پہ منگوا کر پڑھنا شروع کئےہیں۔ مگر ٹھہریئے۔ ابھی معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ اگلی صلاحیت پر نظر ڈالتے ہیں۔
★★★★★
عماد حسن بطور ایک مصنف: تین ناول قاتل گھڑی ، ناپاش اور موت کا ہنگامہ تصنیف کیے۔
عماد حسن سے میری گفتگو کا ویسے تو بنیادی مقصد ان کی مرتب کردہ انسپکٹر جمشید ، کامران مرزا، اور شوکی سیریز کے ناولوں اس مکمل فہرست پر بات کرنا اور اس سے متعلق معلومات قارئین تک پہنچانا تھامگر ملاقات کے آغاز میں ہی انہوں نے اپنی ایک اور ادبی صلاحیت کا انکشاف کیا اور بتایا کہ اب تک تین جاسوسی ناول لکھ چکے ہیں جو کہ “خرم ذیشان اور انسپکٹر یزدانی سیریز” کے نام سے مارکیٹ میں آچکے ہیں۔
قاتل گھڑی (خاص نمبر) ۔ ناپاش اور موت کا ہنگامہ اور یہ تینوں ناول ادارہ “بچوں کا کتاب گھر” سے شائع ہوئے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں، عماد حسن کا ایک طنزومزاح سے بھرپور ناول “انور ماموں” بھی شائع ہو چکا ہے یعنی موصوف نے مزاح پر بھی ہاتھ صاف کیا ہے ۔ تادمِ تحریر، راقم ان کے تینوں جاسوسی ناول پڑھ چکا ہےجبکہ انور ماموں ابھی تک نہیں پڑھا جا سکا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اشتیاق احمد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے یہ جاسوسی ناول لکھنا اور قارئین سے داد وصول کرنا ان کا حق ہے ۔ ناولوں میں اشتیاق احمد کی جھلک نمایاں ہے اور کئی نامور ادیبوں نے جبکہ سینکڑوں قارئین نے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی ہے۔ اور انہی میں اس ناچیز کا نام بھی شامل کر لیا جائے گا ۔
ابھی میں عماد حسن کے ناولوں کے سحر سے اپنے آپ کو آزاد بھی نہ کروا پایا تھا کہ ان کے سوشل میڈیا پیج کا وزٹ کرتے ہوئے ایک اور خوشگوار جھٹکا لگا۔ اور اس دفعہ اس جھٹکے کا سبب ان کا شعری مجموعہ تھا جس کا نام “مجال” ہے اور یہ ان کے بہترین اشعار کا مجموعہ (حصہ اول) ہے۔ جی جناب ! حیرت در حیرت ۔ دلچسپ شخصیت ہیں عماد حسن صاحب جو مصنف ہونے کے علاوہ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔
میرے ایک سوال کےجواب میں عماد حسن نے بتایا کہ ان کے ناول بچوں کا کتاب گھر سے شائع ہوئے ہیں اور ادارے کے سی ای او جناب فہیم عالم صاحب ان کے بہترین دوست ہیں ان کے علاوہ ان کے دوستوں میں جناب انیل ارشاد اور عمران محمود صاحب بھی شامل ہیں۔ جو جناب اشتیاق احمد مرحوم کے خاص دوستوں میں شامل ہیں اور ایک خاص نمبر “بلیک ہول” کا انتساب انہی کے نام ہے۔ اشتیاق احمد کو آخری مرتبہ لاہور ایئرپورٹ پر چھوڑنے بھی وہی گئے تھے اور واپسی پر لینے کے لیے بھی موجود تھے جب انتقال کی خبر آگئی۔ اللہ اشتیاق احمد صاحب کی مغفرت فرمائے اور درجات بلنک فرمائے۔ (آمین)
★★★★★

عماد حسن بحیثیت اشتیاق احمد قاری و مداح
چلئےجناب اب ہم اس موڑ پر آچکے ہیں جہاں عماد حسن کی جانب سے کی گئی بہت ہی منفرد اور اچھوتی کاوش کا ذکر کرنا ہے۔ اور وہ ہے ان کی اشتیاق احمد سےمحبت اور ان کے تمام ناولوں کی مکمل ترتیب وار، تاریخ و پبلشر کی معلومات کے ساتھ مرتب کی گئی ایک ایسی لسٹ جو 800 سے زائد ناولوں کے ریکارڈ پر مبنی ہے۔ یو ں اگر اشتیاق احمد مرحوم کو 800 سے زائد ناول لکھنے کا کریڈٹ جاتا ہے تو ان 800 سے زائد ناولوں کا ریکارڈ مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ کتابی شکل میں ناولوں کا ذخیرہ کرنے کا کریڈٹ عماد حسن کو جاتا ہے۔ یعنی انہوں نے جس محبت اور لگن سے ان ناولوں کا ریکارڈ محفوظ کیا ہے اس کی قدر اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جناب اشتیاق احمد کے صاحب زادے “جناب نوید احمد” ان سے بالمشافہ ملاقات کر کے ان کے کام کو سراہنے اور انکی بھرپور حوصلہ افزائی کیلئے لاہور میں ان سے ملاقات کر چکے ہیں اور باقاعدہ رابطے میں ہیں۔ یہ اپنے آپ میں ان کی محبت کا اعتراف بھی ہے۔

★★★★★
ابو عبداللہ عماد حسن کی ادبی سرگزشت اور اشتیاق احمد سے ملاقات تک کا سفر
کتاب دوست ویب سائٹ پر انٹرویو کے حوالے سے جب عماد حسن صاحب سے بات ہوئی تو اس وقت میرے ذہن میں انٹرویو کا وہی سوال جواب کا مروجہ طریقہ تھا جس کے ذریعے عموماََ انٹرویوز لئے جاتے ہیں لیکن سوالات کے جوابات کے لئے جب عماد حسن نے اپنی باقاعدہ ادبی سرگزشت لکھ بھیجی تو بہت سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ جس دلچسپ اور بھرپور سحر انگیز گرفت کے سے انداز میں انہوں نے اپنی سرگزشت لکھی ہے اس میں تقریباَ تمام ہی سوالات کے جوابات موجود ہیں تو لہٰذہ اس سرگزشت کو من و عن ان کے ہی انداز میں شائع کر دیا جائے تاکہ قارئین عماد حسن کے بارے میں تمام معلومات ایک نہائت دلچسپ کہانی کی شکل میں حاصل کریں جس کاایک بھرپور تاثر ذہن و دل پر چھا جاتا ہے۔ یہ گویا ایک ناول کی طرح ہی لگتا ہے تو آپ کی معلومات کیلئے ہم عماد حسن کی داستان ان کی زبانی ہی شائع کر رہے ہیں۔
ابو عبداللہ عماد حسن کی ادبی سرگزشت ان کی اپنی زبانی
پُرخوف رات“…یہ تو کسی ناول کا نام ہوسکتا ہے… ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ یہ اس ناول کا نام ہے جو میری زندگی کا سب سے پہلا جاسوسی ناول تھا۔ ہوا یوں کہ غالباً 1987 ء کا سال تھا، اس وقت میری عمر قریباً 8 برس ہوگی۔ کہانیوں کا دور تھا، بچوں کے مشہور رسائل” نونہال“”تعلیم و تربیت“”نوآموز“”آنکھ مچولی“ میرے ہر پل کے ساتھی تھے۔ان کے علاوہ فیروز سنز کے چند ناول تو پڑھ ہی رکھے تھے۔
ایسے ہی چلتے چلتے 2011ء کا سال آگیا۔ میری فاروق بھائی سے شناسائی کو چار برس ہونے کو آرہے تھے۔ ایک دن یہ خوش خبری ملی کہ اپریل 2011 ء کے لاہور ایکسپو پر اٹلانٹس اورفاروق احمد آرہے ہیں۔ اور صرف یہ ہی نہیں،بلکہ اس سے بڑھ کر خود ہمارے محبوب مصنف جناب اشتیاق احمد بھی وہاں تشریف لارہے ہیں۔ یقینا یہ زندگی کی چند بڑی خوشی کی خبروں میں سے ایک خبر تھی۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میری اس دور کے اس عظیم مصنف اور ایسی کمال کی ہستی سے ملاقات ہونے جارہی تھی۔
آخر خدا خدا کر کے اتوار 10 اپریل 2011ء کا دن آیا اورمیں اپنے والد، بھائی اور بیٹے کے ہمراہ ایکسپوسنٹر کی جانب رواں ہوا۔ دھڑکنیں بے چین تھیں کہ ایک محبوب اورتاریخی شخصیت سے پہلی مرتبہ ملاقات ہونے جارہی تھی۔ ایکسپوسنٹر میں داخل ہوتے ہی نگاہیں انھیں ڈھونڈنے میں مصروف ہوگئیں، تیز تیز قدموں کے ساتھ اپنے باقی ہمراہیوں سے آگے آگے اٹلانٹس کے اسٹال کی تلاش میں چلنا شروع کیا اور آخر کار جلد ہی پرستاروں کے جھرمٹ میں اشتیاق احمد صاحب بیٹھے نظر آگئے۔ جب میں قریب پہنچا تو اچانک وہ تمام لوگ اِدھر اُدھر ہوگئے، یوں لگا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے خاص علیحدہ جگہ بناڈالی۔
ایک جانب سے فاروق بھائی مسکراتے آئے اور گلے لگا لیا۔ پھر میں اشتیاق احمد انکل سے بغل گیر ہوا۔ میرا تعارف فاروق بھائی نے فیس بک پیج کے سب سے مستقل اورمتحرک ممبر کی حیثیت سے کروایا جو میر ے لیے نہایت ا عزازکی بات تھی۔ فاروق بھائی اسٹال کی طرف چلے گئے اور میں اشتیاق انکل کے ساتھ بیٹھ گیا اور کئی منٹ تک باتیں ہوتی رہیں۔ میں گفتگو میں اتنا مدہوش تھا کہ باتوں کی تفصیل بھی یاد نہ رہی، مگر اتنا یاد ہے کہ باتیں میرے ناول”پُرخوف رات“کے پڑھنے سے لے کر ”عمران کی واپسی“ کی متوقع اشاعت تک بہت طویل تھیں۔ چھوٹے بھائی عدیل سے تصاویر لینے کا کہا تو یہ بھی یاد نہ رہا کہ محترم والد صاحب، بھائی اور فرزندکی بھی تصاویرلے لی جائیں،یہاں تک کہ آٹو گراف پر اپنا نام بھی جو کہ بجائے”عماد حسن“ کے”حماد حسن“لکھا گیا تھا، اس پر بھی غور نہ کیا۔
ملاقات کا نشہ ہی کچھ ایسا تھا، مگربھائی شہباز مرزا کے لیے آٹو گراف لینا نہیں بھولا تھا۔
اتنی دیر میں فاروق بھائی بھی واپس آگئے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اشتیاق انکل نے انہیں آتے دیکھ کر میرے پاس ہو کرزور سے کہا
”ان سے پوچھیں ”عمران کی واپسی“ کب شائع کررہے ہیں؟“
میں نے فارروق بھائی کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا کر بولے
”ان شاء اللہ بہت جلد ایسا ہوگا۔“
اس کے بعد مزید پرستار آنا شروع ہوگئے اور میں نے بھاری دل سے ان دونوں سے اجازت لی۔ آج سوچتا ہوں کہ کاش اشتیاق انکل اور فاروق بھائی کواس دن اپنے گھرآنے کی دعوت بھی دے دیتا تو وہ ضرور قبول کرتے، مگر میں تکلف میں، کہ اتنے بڑے مصنف کہاں یہ مانیں گے ایسا نہ کہہ سکا۔ یہ پہلی اورآخری ملاقات ختم ہوگئی، مگر یہ وقت کو معلوم تھا کہ اس ملاقات کے اثرات نہ ختم ہونے والے ہوں گے اور خود میں ایک انجانی طاقت رکھنے ہوں گے۔
اس ملاقات سے اگلے روز یعنی 11 اپریل 2011 کو میری نئی ملازمت کا آغاز تھا۔ میں گذشتہ 4 برسوں میں بعض وجوہات کی بنا پر قریباً 12-10 ملازمتیں تبدیل کرچکا تھا۔ نئی ملازمت شروع ہوتے ہی میں کام میں مشغول ہوگیا اور ناولوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
اسی دوران آنے والے ایک ناول کی جھلکیوں نے مجھے چونکا دیا۔ ناول کا نام تھا ”انجانی طاقت“ اور اس کے مرکزی کردار کا نام لکھا تھا۔ ”حمادحسن“ نہ جانے کیو ں مجھے یوں لگا کہ ہو نہ ہو، یہ کردار میرے نام پر لکھا گیا ہے۔
میں نے اسی وقت فاروق احمد کو فون ملایا اور ان سے پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں اشتیاق انکل سے پوچھ کر بتائیں گے، لگتا تو ایسا ہی ہے۔ اگلے ہی روز ان کی پُرجوش کال آئی جس سے یہ بات کنفرم ہوگئی۔ میں نے ایک عجیب فرمائش کا اظہار کیا جو اشتیاق انکل نے فوراً ہی قبول کرلی۔ وہ فرمائش یہ تھی کہ جھلکیوں میں تو نام غلط آگیا، ناول میں اسے درست کر لیا جائے۔ لہٰذا آپ لوگوں کو ناول ”انجانی طاقت“ میں درست نام ”عماد حسن“ہی ملے گا۔
اس ناول کی کہانی کی بھی میرے ساتھ عجیب مماثلت تھی۔ حالاں کہ میں نے اس بارے میں کبھی بھی اشتیاق انکل سے تذکرہ نہیں کیا تھا، مگر حیرت انگیز طورپر ناول کے کردار ”عماد حسن“کا مسئلہ ملازمت کا تھا، وہ کسی جگہ زیادہ عرصہ ملازمت نہیں کرسکتا تھا اور آخر کار اس کا یہ مسئلہ حل ہو گیا تھا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے بھی اس سے قبل چار سالوں میں دس سے بارہ ملازمتیں تبدیل کی تھیں، مگر حیرت انگیز طور پر 11 اپریل 2011ء کو شروع ہونے والی ملازمت آج بھی جاری ہے، بلکہ یہ میری زندگی کی طویل ترین ملازمت ہے اب تک۔ کیوں ہے نا حیرت کی بات؟ میں آج بھی اس اتفاقی مماثلت پر دنگ ہوں، واقعی اللہ تعالیٰ نے اشتیاق احمد رحمت اللہ کو بہت اعلیٰ صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں۔
مزید ناول آرہے تھے، مگر رفتار بہت سست تھی، درمیان میں فاروق بھائی نے سلسلے کوپھر سے ختم کرنے کا ارادہ بھی کیا، مگر میری درخواست پر دوبارہ جاری کرنے پر راضی ہوگئے۔
میں اپنی شرمیلی طبیعت کی وجہ سے اشتیاق انکل سے براہ راست رابطہ نہیں کرتا تھا حالاں کہ فاروق بھائی نے مجھے ان کا نمبر تک دے دیا تھا۔ بس یہ سوچ تھی کہ کہاں وہ اور کہاں میں ناچیز۔ مگر شاید میں ان کے دل میں موجود تھا۔
انجانی طاقت کے بعد بھی میرا تذکرہ اس بات کا ثبوت ہے۔ ”آسمانی آوازیں“ (صفحہ 156) اورایک اورناول(جس کا نام اس وقت ذہن میں نہیں آرہا) میں بھی ”عماد حسن“ کاتذکرہ آپ احباب دیکھ سکتے ہیں۔
وقت کو قرار تو ہے ہی نہیں۔ 2015 ء کا سال آگیا۔ملاقات کو چار سال بیت گئے تھے۔ اس کے بعد نہ ہی فاروق بھائی لاہور ایکسپو آئے نہ ہی اشتیاق انکل۔ 2015 ء کے کراچی ایکسپو کو اس سال ایک ماہ قبل بجائے دسمبر کے نومبر میں منعقد کیا جارہا تھا۔
فاروق بھائی کے ساتھ رابطہ جاری تھا، خبر ملی کہ دو اہم باتیں ہو رہی ہیں۔ ناول ”عمران کی واپسی“ شائع ہورہا ہے اور اشتیاق انکل پُرزور اصرار پر کراچی تشریف لارہے ہیں۔ جب نئے آنے والے دُوسرے ناولوں کا علم ہوا تو تیسری اہم بات فاروق بھائی کو میں نے بتائی کہ اس طرح تو ”عمران کی واپسی“ ناول نمبر 800 بن جائے گا۔
ایکسپو شروع ہوا، میں فاروق بھائی سے تمام ناولوں پر اشتیاق انکل سے نام کے ساتھ آٹو گراف کی فرمائش کرچکا تھا اور اختر بھائی ایکسپو کے بعد میرا پارسل بھیجنے کا وعدہ۔ میں تصور میں ہی رہا کہ کیسے اشتیاق انکل اپنے 800 ویں ناول کو اپنی دیرنہ خواہش ”عمران کی واپسی“ کی صورت میں دیکھ رہے ہوں گے۔ ایکسپو ختم ہوگیا اورمیں انتظار میں تھا کہ اس دن اختر بھائی میرا آٹو گراف والا ناولوں کا سیٹ بھیجیں گے… مگر قدرت کو اس دن کوئی اور ہی خبر آنا منظور تھا۔
فیس بک کی ایک مخلص ساتھی اور دوست لبابہ علوی ہیں۔ مجھے اچانک ان کا میسج 17 نومبر 2017 ء کو موصول ہوا کہ اشتیاق احمد کا انتقال ہو گیا ہے۔ میں نے فوراً اس بات کو مسترد کر دیا۔ میں نے کہا کہ وہ تو کراچی ایکسپوپر ہیں اورمیں فاروق احمد کے ساتھ میں رابطے میں ہوں، یہ کوئی افواہ ہوگی۔ لبابہ نے کہا کہ کاش ایسا ہی ہوتا، مگر تم ٹی وی پر دیکھ لو۔ میں نے لیپ ٹاپ پر ٹی وی چینل لگایا تو واقعی یہ اندہوناک خبردرست نکلی۔ اس خبر کو دیکھ کر جو احساسات تھے، وہ قلم بند کرنے سے قاصر ہوں۔ خواہش کے باوجود جھنگ نہ جاسکا کہ جنازہ میں شرکت کرسکوں۔
کئی دن اس خبر کا اثر طبیعت پر رہا اور دل اُداس رہا۔ میں اشتیاق احمد انکل سے دوبارہ نہ مل سکا اور پھر کبھی اس دنیا میں نہ مل سکوں گا، یہ خیال ہی دل کو بے چین کیے ہوئے تھا۔ پھر ایک دن وہ مطلوبہ پارسل بھی موصول ہوگیا۔ ناولوں پر میرے درست نام کے ساتھ آٹوگراف بھی موجود تھے۔ کیسا عجیب احساس تھا، دستخط کرنے والا دُنیا سے جاچکا تھا اور مجھے یہ اب موصول ہورہے تھے۔
ان ناولوں کی ترتیب بناتے خیال آیا کہ دیکھوں تو کتنے ناول میری لائبریری میں موجود ہیں اور کتنے مسنگ ہیں۔ اس کے لیے اٹلانٹس کی ”میری کہانی“ کے آخر میں شائع شدہ فہرست کی مدد لی۔ اس تحقیق کے دوران اس فہرست میں کچھ جگہ بعض غلطیاں محسوس ہوئیں۔
فاروق احمد بھائی سے فون پر اس کے متعلق بات ہوئی تو کچھ باتوں کا ان کو بھی واضح علم نہیں تھا۔ میں ان دنوں ”اشتیاق احمد ناولزفینز ”نامی فیس بک پیج کا بھی ممبربن چکا تھا۔ اس فہرست کے بارے میں ان سے بھی بات چیت شروع ہوئی۔
میرا ہدف فہرست کی تصحیح و تکمیل اور اس کے مطابق تمام ناول اپنی لائبریری میں مکمل کرنا تھا۔ اس ہدف کے تعاقب میں فہرست میں بتدریج بہتری بھی ہو رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ جو ناول کتابی شکل میں لائبریری میں موجود نہیں تھے، ان کی ڈاؤن لوڈنگ بھی جاری تھی۔ میں اس سوچ میں تھا کہ بالفرض اگر ناول کتابی صورت میں نہ بھی مکمل ہوسکیں تو کم از کم پی ڈی ایف میں تو ضرور موجود ہونے چاہییں۔
اس تلاش و تحقیق کے دوران ”اشتیاق احمد ناولز فینز“ پر کچھ خاص نمبر اور دوسرے ناول ایسے ملے کہ جن کے مسنگ صفحات الگ سے پیج پر لگائے گئے تھے اور کچھ ناولوں کے صفحات آگے پیچھے بھی تھے۔ میں نے ان کو مکمل کرکے اور ترتیب میں لا کر پیج کے ایڈمن کو بجھوائے۔ چند ہی ناولوں کی درستگی کے بعد پیج کے بانی ایڈمن جنید علی نے میرے کام سے متاثر ہو کر مجھے اعزازی طورپر اس پیج کا ایڈمن ہی بنا دیا۔
یہ ایک اوربہت بڑا اعزاز تھا جس نے مجھے کچھ کر گزرنے کے لیے سوچنے پر مجبور کر دیا اور میں ایک اور راہ کی طرف گامزن ہوا۔ وہ سوچ یہ تھی کہ فہرست کی تشکیل و ترتیب کے ساتھ ساتھ، تمام آنے والی نسلوں کے لیے اشتیاق احمد رحمت اللہ کے تمام ناول ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کردئیے جائیں۔اس کام کیلئے سب سے پہلے معاون ایڈمن احباب اور ممبران کے ساتھ مل کر پیج پر موجو دناولوں کی ایک فہرست بنائی۔ معلوم ہوا کہ قریباً ڈھائی سو ناول ایسے ہیں جو کہ پی ڈی ایف میں دستیاب نہیں ہیں۔
اس فہرست کے مطابق اپنی لائبریری میں ناول تلاش کیے۔ قریباً پچاس کے قریب ناول میرے پاس موجود تھے۔ باقی دو سو کے قریب ابھی تلاش کرنا تھے جن میں متفرق کتب بھی شامل تھیں۔
اب پیج کا ایڈمن تومیں تھا ہی، تو اس کا فائدہ اور ذمہ داری لیتے ہوئے مسنگ ناولوں کی فہرست بڑی امید کے ساتھ پوسٹ کی۔ اوراللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ چند ہی دنوں میں رضاکاروں کی ایک ٹیم تیار ہوگئی۔ حافظ ابو بکر، حافظ انجم، معاذ احمد، محمد ندیم اور بہت سے ساتھی قافلے میں شامل ہوتے چلے گئے۔ ان سب نے حیرت انگیز رفتار سے بہت سے اہم ناول اسکین کرکے میرے حوالے کیے جو میں پے درپے اس پیج کے ذریعے قارئین کے حوالے کرنے لگا۔ شاید یہی وہ انجانی طاقت تھی جس کی طرف اشتیاق احمد انکل نے میرا ناطہ جوڑا تھا۔
مکمل فہرست اور مکمل ناول ایک جگہ یکجا۔ اسی دوران ایک قاری اور پیج کے ممبر انیل ارشاد خان سے بھی ملاقات ہوئی جو کہ میرے دفتر کے قریب ہی رہائش پذیر ہیں۔ ان سے ناول مستعار لیے اورپھر اسکین کرکے واپس کیے۔ اورپھرسب سے آخر میں اپنے پاس موجود ناول بھی اسکین کرکے قارئین کے حوالے کردیے۔ (اب فقط متفرق سلسلوں کے 12 عدد شاہکارہی پی ڈی ایف کی دنیا سے باہر موجود ہیں اوران کی تلاش جاری ہے)۔
یہ وہ موقع تھا جب فہرست بھی قریباًمکمل ہوچکی تھی اور ناول بھی اوریہ 2016ء کے آخر ی دن تھے کہ جب مجھے ایک دن اشتیاق احمد انکل کے فرزند ارجمندنوید احمد بھائی کی کال موصول ہوئی۔ نوید بھائی نے فون پر فہرست اور ناولوں کی پی ڈی ایف میں تکمیل پر بے حد پذیرائی کی اور وعدہ کیا کہ جب لاہور آئیں گے تو ملاقات بھی ہوگی۔ اس وقت تک وہ متفرق چھوٹی کہانیوں کے دو تین مجموعے شائع کرچکے تھے اور مزید اشاعت کے سلسلے میں ہی مجھ سے رابطہ استوار ہوا تھا۔
ایک رات کو نیند سے آنکھ کھلی تو محسوس ہوا کہ میں اپنے کمرے میں نہیں ہوں۔ عجیب سا احساس تھا، میں نے خود کو ایک کرسی پر بیٹھے پایا۔ آس پاس دیکھا تو میں ایک نئے سے کمرے میں موجود تھا۔ کمرہ نیا ہونے کے باوجود نامانوس نہیں تھا۔ اس میں چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں موجود تھیں۔ ایک دم ساتھ بیٹھی شخصیت پر نگاہ پڑی تو میں بے اختیار اُچھل پڑا۔ وہ شخصیت کہ جس سے میں زندگی میں دوبارہ ملاقات کا صرف متمنی ہی ہوسکتا تھا، میرے سامنے موجود تھی۔ اشتیاق احمد رحمتہ اللہ میرے پاس بیٹھے، ہاتھ میں میری مرتب کی ہوئی فہرست لیے کبھی مسکرا کر فہرست کی جانب اور کبھی میری جانب دیکھتے جاتے تھے۔ فہرست کی وہ ساتھ ساتھ ورق گردانی کررہے تھے، الفاظ تو کچھ بھی نہیں کہہ رہے تھے، مگر تبسم بتارہا تھا کہ وہ میری اس کاوش پر بے حد مسرور تھے۔ میں ابھی ان سے کچھ پوچھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ یہ سب تو ایک خواب ہے، اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی اور میں اپنے بستر پر موجود تھا اور اذان فجر ہورہی تھی۔
اس ملاقات کا احساس بالکل ویسا ہی حقیقی تھا جیسا کہ ان سے واحد حقیقی ملاقات کا تھا۔ اس خواب کی ملاقات نے میری ذمہ داری اور لگن میں اضافہ کر دیا۔ میں بیک وقت فاروق بھائی، نوید بھائی اور اشتیاق احمد ناولز فینز کے ساتھ مل کر اپنی کاوشیں رضا کارانہ طور پر مسلسل کررہا تھا۔ گو کہ میری ملازمت پرائیوٹ ادارے میں مارکیٹنگ جیسی مصروف ذمہ داری کی تھی،مگر اشتیاق احمد رحمت اللہ کی محبت مجھے یہ سب کوششیں کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔
دسمبر2016ء کی ایک سرد شام کو جب میں اپنے گھرانے کے ساتھ مینار پاکستان کی سیر کررہا تھا، مجھے نوید بھائی کی کال موصول ہوئی۔ وہ لاہور آرہے تھے… آئندہ اتوار کو ان سے ملاقات طے ہوگئی۔ اتوار کے دن علی الصبح میں ان سے ملاقات کے لیے روانہ ہوگیا۔ وہاں ان کے ہمراہ کچھ اور رفقاء بھی موجود تھے۔ نوید بھائی کو پہلی بار دیکھ رہا تھا اور بار بار اشتیاق انکل کا سا گمان ہو رہا تھا۔ وہی لہجہ وہی مسکراہٹ… نوید بھائی کو مکمل فہرست اور ناولوں کی ڈی وی ڈی بھی پیش کی، جو انھوں نے بے حد سراہتے ہوئے وصول کی۔ کافی دیر ناولوں کے مستقبل کے بارے میں بات چیت ہوتی رہی، خواب کا ذکر بھی کیا۔ میری رائے میں فاروق بھائی بہترین کام کررہے تھے، بس رفتار میں تیزی کی ضرورت تھی۔
انہی دنوں فیس بک پیج پر جناب عمران محمود صاحب سے بھی بات چیت چل رہی تھی۔ یہ صاحب اشتیاق احمد انکل کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔ آخری مرتبہ لاہور ایئرپورٹ سے کراچی ایکسپو پر بھی ان کو انہی نے روانہ کیاتھا اور وفات کے وقت لاہورمیں ان کے انتظار میں بھی موجود تھے۔ ان کے متعلق اشتیاق انکل نے بھی کئی مرتبہ دوباتوں میں تذکرہ کیا تھا، خاص نمبر”بلیک ہول“ کا تو انتساب ہی ان کے نام تھااور پھر ان کے ناولوں کی کولیکشن کا بھی کافی شہرہ تھا۔ میں ان سے ملنے کے لیے کافی بے تاب تھا۔ کئی مرتبہ عمران محمود بھائی سے ملاقات کا پر وگرام بنا مگر کسی نہ کسی مجبوری کے تحت وہ اس کو منسوخ کرتے رہے۔
میں یہ سمجھ بیٹھا کہ شاید وہ مجھ سے ملنا ہی نہیں چاہتے، اس احساس کے چند ہی دنوں بعد جنوری 2018ء کے دوران ایک دن ان کی کال موصول ہوئی۔ ان سے بھی آئندہ آنے والی اتوار کو ملاقات طے پائی۔ اتوار کی دوپہر میں ان کے پاس پہنچا۔ انھوں نے پُرتپاک استقبال کیا اور بہت خوب کیا۔ چائنیز کھانا بھی کھلایا اور ناولوں کی زیارت بھی کروائی۔ اپنے پاس موجود ڈبل ناولوں میں سے چند ناول تحفے میں بھی عنایت کیے۔
اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ ملاقات آنے والے وقتوں میں دوستی کی ایک تحریک کاآغاز ثابت ہونے جارہی ہے۔ نوید احمدصاحب مجموعوں اور ناولوں کی اشاعت کا سلسلہ روک چکے تھے اور کامران سیریز وشوکی سیریز کی اشاعت کے لیے سوچ رہے تھے۔ یہ بات 2017 ء کے اوائل کی تھی۔ میری سوچ کے مطابق اس ضمن میں فاروق احمد صاحب سے مشورہ ضروری تھا جس کا اظہار میں نے کئی مرتبہ کیابھی۔ نوید بھائی نے ”بچوں کا کتاب گھر”نامی ادارے سے چند ناولوں کی اشاعت کا آغاز کیا۔ فیس بک پر اُس ادارے کے روح رواں محمد فہیم عالم صاحب سے رابطہ بھی شروع ہوا۔ یہ فروری 2018 ء کی بات ہے کہ فہیم بھائی نے اُردو بازار اپنے دفتر آنے کی باقاعدہ دعوت دی ڈالی۔ میں وہاں پہنچا تو عمران محمود بھائی بھی وہاں موجود تھے۔ فہیم بھائی نے پُرتپاک استقبال کیا اور ناولوں کا تحفہ بھی عنایت کیا۔فہرست مکمل ہوگئی، تمام جاسوسی ناول پی ڈی ایف میں مکمل ہوگئے اور بہت سے اچھے دوست جو کہ زندگی کا اصل سرمایہ ہیں وہ مل گئے۔
لاتعداد ساتھی ملے جن سب کا نام لینا ممکن نہیں، مگر فاروق احمد اور نوید احمد جیسے شفیق رہنما، جنید علی اور ملک فرخ جیسے مخلص رفقاء، حافظ انجم، حافظ ابو بکر، محمد ندیم، معاذ احمد جیسے بہترین معاونین اور سب سے بڑھ کر انیل ارشاد خان، محمد فہیم عالم اور عمران محمود بھائی جیسے اعلیٰ دوست جو یقینا اس ساری کوشش کا انعام خاص ہیں۔ وقت گزرتا جارہا ہے، اشتیاق احمد رحمتہ اللہ کا کام کبھی نہ ختم ہونے والا ہے۔ وہ میرے خواب میں ایک مرتبہ پھر سے آئے اور اس مرتبہ میرے گھر تشریف لائے، میرے دل کے اطمینان کے لیے یہی بات کافی ہے۔ کچھ دوستوں کو میرے بارے میں کچھ غلط فہمیاں ہیں، میں ان سے تہہ دل سے معذرت خواں ہوں۔



میں، انیل ارشاد خان، محمد فہیم عالم اور عمران محمود اب بھی ملتے ہیں اور اشتیاق احمد پر خوب باتیں کرتے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ اشتیاق احمدرحمت اللہ کا خزانہ تا قیامت آنے والی نسلوں کو دستیاب رہے، چاہے کوئی بھی اسے پیش کرنے کا بیڑہ اٹھائے، بس یہ سلسلہ چلتا رہے۔ آمین۔ ثم آمین۔ آخرمیں چند سطور اس فہرست کے بارے میں عرض کروں گا کہ اس فہرست کو مکمل تحقیق کے ساتھ اور”میری کہانی“ کے مختلف ایڈیشنز کی مدد سے مرتب کیا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ اس میں تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھا جائے تاکہ تمام کام کا درست احاطہ ہوسکے۔ لیکن انسان خطا کا پتلا ہے، کسی بھی قسم کی غلطی کی نشاندہی ضرور فرمائیں تاکہ مزید تحقیق کے بعد آئندہ ایڈیشن میں تصیح بھی کی جاسکے۔ علاوہ ازیں اس فہرست کو مرتب کرنے میں جس جس نے بھی میری مدد کی اور میں نام نہیں لے سکا، میں ان سب کا بھی بے حد مشکور ہوں، یہ ہم سب کا مشترکہ کارنامہ ہے۔ شکریہ۔
★★★★★
میرے تاثرات: ایک تجزیہ۔
عماد حسن کی شخصیت میں جھانکیں تو کئی اور انکشافات بھی متوقع ہیں مگر وقت کی کمی درپیش ہے ۔ عمادحسن کوایک مخلص اور انتھک محنت کرنے والے انسان کے طور پر میں کتاب دوست کے پلیٹ فارم سے ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ میرے مطالعے کیلئے جس محبت اور خلوص سے انہوں نے اپنے ناول نہ صرف لاہور سے مجھے کراچی بھیجے بلکہ ان ناولوں کے لئے لاہور اردو بازار تک کا 60 کلومیٹر کا سفر طے کیا ااور اپنے ناول اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے ارسال کئے وہ ان کی اشتیاق احمد کے ہر قاری کے ساتھ پرخلوص محبت کا ثبوت ہے۔ میں چاہتا تو یہی تھا کہ اسی انٹرویو کے اختتام پر ان کے ناولوں پر اپنا ایک تبصرہ لکھوں مگر اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان کے ناولوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی لہٰذہ کچھ دنوں میں انشاءاللہ ان کے ناولوں پر ایک الگ سے آرٹیکل شائع کرنے کا ارادہ ہے جس میں بھرپور تفصیلی جائزہ پیش کروں گا۔
عماد حسن صاحب نے مجھے بھی اپنی مرتب کردہ اشتیاق احمد کے ناولوں کی لسٹ ارسال کی ہے جس کے پہلے صفحے پر اپنے ہاتھ سے جو لکھ کر بھیجا وہ میرے لئے باعثِ فخر ہے کہ انہوں نے مجھے بھی اشتیاق احمد کے دیوانوں میں شامل کر دیا۔ آپ کی حسنِ نظر ہے اور میں ممنون و مشکور ہوں ۔
عماد حسن کا اس انٹرویو کے لئے دستیاب ہونے ، معلومات شیئر کرنے اور بالخصوص ناول ارسال کرنے کا بے حد شکریہ ادا کرتا ہوں اورامید کرتا ہوں کہ اشتیاق احمد کے اس مخلض اور ذہین انسان کو مستقبل میں بہت بڑا مصنف بنتا دیکھوں گا۔
قارئین آپ کو یہ گفتگو، تصاویر، سرگزشت اور انکشافات کیسے لگے ۔ مجھے اپنا فیڈ بیک
ضرور بھیجئے گا۔ شکریہ
اپ ڈیٹ 2 اگست 2021: عماد حسن کے ناولوں اور کتب کا جائزہ کتاب دوست ویب سائٹ پر شائع ہو چکا ہے۔ پڑھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے۔ شکریہ
E-Publisher: KitabDost.com
[email protected]
اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز - ڈاؤن لوڈ کیجئے
ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟ We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff ! Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household Items | Buy from Amazon |
بہت اچھا انٹرویو ہے، پڑھ کر مزہ آگیا۔ بہت معلومات بھی حاصل ہوئیں اور عماد حسن بھائی کی انتھک محنت کا بھی پتا چلا۔ اس انٹرویو کی اشاعت کیلئے میں آپ کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔
انٹرویو پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ میں خود ان کی سرگزشت پڑھ کر حیران ہوا تھا اور ماشاءاللہ ان کی صلاحیتوں کا معترف ہوں۔ آپ کا بھی پڑھنے اور فیڈ بیک دینے کا شکریہ۔
انترویو بالکل مرحوم اشتیاق احمد کے ایک سنسنی خیز خاص نمبر جیسا لگا
بہت بہت شکریہ جناب مجھے بھی ان عماد صاحب کی سٹوری بہت دلچسپ لگی تھی۔