ِ رائٹر اکاؤنٹ بنائیے
  ِاپنی تحریر پوسٹ کیجئے
  مفت ناول ڈاؤن لوڈ کیجئے
ِ آن لائن شاپ / کتاب آرڈر کیجئے  
       
       
  قسط وار ناول پڑھئے
  بچوں کی کہانیاں پڑھئے
  بلاگ بنانا سیکھئے
ِدیگر اہم اصناف  
       

قارئین کی پسندیدہ کیٹگریز

              

وقت کے مسافر (ٹائم ٹریول کہانی – اول انعام)

وقت کے مسافر – مصنف: عبدالحفیظ شاہد

(ٹائم ٹریول کہانی – اول انعام)

کتاب دوست ادبی مقابلہ ستمبر 2024 


time machine story

 

وقت کے مسافر

تحریر: عبدالحفیظ شاہد –شہر :  مخدوم پور پہوڑاں۔

 

شہر سے کوسوں میل دور، بلند و بالا  پہاڑوں کی چوٹی پر “ٹائم ایکسپلوریشن سینٹر” قائم تھا، جو اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی اور عالمی معیار کی سہولیات کی بدولت ایک منفرد تعمیراتی شاہکار بھی تھا۔ یہاں وقت کی حدود کو عبور کرنے اور ماضی و مستقبل میں سفر کرنے والے منصوبوں پر تحقیق جاری تھی۔ اس سینٹر کی قیادت ڈاکٹر محمد صارم انصاری اور پروفیسر ڈاکٹر مشعال فاطمہ کر رہے تھے، جن کی غیر معمولی صلاحیتوں اور انتھک محنت نے اسے دنیا کے سب سے اہم تحقیقی مراکز میں شامل کر دیا تھا۔ یہاں وہ مستقبل کے اسرار سے پردہ اٹھانے کے لیے کوشاں تھے، وقت کی گتھیوں کو سلجھانے اور تاریخ کو نئے زاویے سے دیکھنے کی جستجو میں مصروف تھے۔

کنٹرول روم جہاں ڈاکٹر صارم انصاری اور پروفیسر ڈاکٹر مشعال فاطمہ اپنی ٹیم کے ساتھ  کام کر رہی تھیں، کمپیوٹر کنسولز کی قطاروں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر کمپیوٹر کنسول پر وقت کے مختلف حصوں سے جمع کردہ ڈیٹا کی مسلسل سٹریمز دکھائی دے رہی تھیں۔ یہ ڈیٹا “ٹائم ویژنری ڈیوائسز” کے ذریعے حاصل کیا جاتا تھا، جن کے بڑے پیرابولک اینٹینا وقت کی لہروں کو دریافت کرتے تھے۔ یہ آلات دن رات مختلف ادوار کا تفصیل سے مشاہدہ کرتے، ماضی اور مستقبل سے آنے والے سگنلز کو وصول کرتے، اور ان کی ترجمانی کے لیے سینٹر کی ٹیم کو بروقت معلومات فراہم کرتے تھے۔

ڈاکٹر صارم کی کامیابیوں کی بنیاد پر، انہیں ٹائم ٹریولنگ  ادارے کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ان کی ٹائم ٹریولنگ کی اپروچ خاصی منفرد تھی۔ ڈاکٹر صارم نے نہ صرف ٹائم مشین کی تخلیق کے دوران سائنسی اصولوں کا خیال رکھا بلکہ انسانی جذبات اور ان کی نفسیات کو بھی مدنظر رکھا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ وقت کے سفر کی ٹیکنالوجی کو محفوظ اور ذمہ داری کے ساتھ استعمال کیا جائے، تاکہ مستقبل میں آنے والے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے انہیں صحیح معلومات فراہم کی جا سکیں۔

ان کی قیادت میں، ادارے نے کئی بین الاقوامی پروجیکٹس میں شرکت کی۔ ڈاکٹر صارم کی یہ کوششیں ان کے ادارے کو نہ صرف سائنسی میدان میں ممتاز بناتی تھیں، بلکہ انہیں ایک معیاری ادارے کے طور پر دنیا بھر میں تسلیم بھی کرواتی تھیں۔ ان کی ٹائم ٹریولنگ کی جدید اپروچ کی مہارتوں کی ایک دنیا معترف تھی۔ڈاکٹر صارم نے اپنی پی ایچ ڈی کے دوران ٹائم ٹریول کے نظریاتی پہلوؤں پر کام کیا، جس کے نتیجے میں انہوں نے مختلف سائنسی مضامین میں شائع ہونے والے کئی تحقیقی مقالات بھی لکھے۔ ان کے مضامین نے سائنسی برادری میں نئی بحثیں شروع کیں اور انہیں ایک با اثر علمی شخصیت کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

لیبارٹری میں ہر طرف خاموشی تھی، صرف ایک بہت بڑے کمپیوٹر  کی اسکرین پر ہلکی روشنی اور الیکٹرک آلات کی مدھم گونج سنائی دے رہی تھی۔ چمکتی ہوئی مشینیں، کمپیوٹر اسکرینیں، اور تحقیق کی  دستاویزات ہر جگہ پھیلی ہوئی تھیں، جو کسی  اہم پیش رفت  کا پیش خیمہ تھی۔رات کا آخری پہر ہونے کے باوجود  ٹیم کے چہرے کسی ان دیکھی چمک   سے  روشن تھے۔ یہ چمک  دراصل کئی سالوں کی محنت، اور انتھک کوششوں کی عکاسی کر رہی تھی۔ آج وہ دن تھا جس کا  ڈاکٹر صارم کو برسوں سے انتظار تھا۔

آج ڈاکٹر صارم کا خواب حقیقت بننے جا رہا تھا۔ بارہ سال کی مسلسل محنت اور بے شمار راتوں کی نیند کی قربانی کے بعد، وہ اپنی جدید ایجاد “کرونوماسٹر” کے آخری تجربے کی تیاری کر رہے تھے۔ یہ کوئی عام ٹائم مشین نہیں تھی بلکہ  یہ زمان و مکان کی حدود کو عبور کرنے والی ایک انقلابی ٹیکنالوجی تھی، جو انسان کو وقت کی  پرتوںمیں سفر کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی تھی۔یہ مشین نہ صرف مستقبل کے دروازے کھول سکتی تھی، بلکہ زمان و مکان کی تمام پوشیدہ  رازوں کو بھی بے نقاب کر نے کی صلاحیت رکھتی تھی، جو سائنس کے لیے ایک نئی جہت کا آغاز تھا۔ ایک وقت تھا جب وقت کا سفر محض قصے کہانیوں کی دنیا میں محدود تھا، لیکن ڈاکٹر  صارم نے اسے حقیقت بنا دیا تھا۔ انہوں نے اس مشین کو نہ صرف وقت کے سفر کے لیے تیار کیا تھا بلکہ اس میں نئی سائنسی انکشافات کی جھلک بھی موجود تھی۔

ڈاکٹر مشعال فاطمہ نے احتیاط سے اپنے نوٹس کا جائزہ لیا۔ انہوں نے اپنی ذہانت اور تحقیق کی مہارت سے لیبارٹری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کے چہرے پر جوش و شوق کی چمک تھی، جو اس لمحے کی اہمیت کی عکاسی کر رہی تھی۔ڈاکٹر مشعال ایک غیر معمولی سائنسدان تھیں، جن کی ذہانت اور قائدانہ صلاحیتیں ہر قدم پر ڈاکٹر صارم کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوئیں۔ ان کی غیر متزلزل قوتِ ارادی اور عمیق سائنسی بصیرت نے ہر پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے میں مدد دی۔ ڈاکٹر مشعال کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ نہ صرف اپنے علم میں ماہر تھیں بلکہ جذباتی طور پر بھی مضبوط تھیں۔ ہر مشکل مرحلے پر، وہ پرسکون رہتیں اور ٹیم کو حوصلہ دیتیں۔

“آج کا تجربہ ہمارے تمام محنت کا صلہ ہوگا ان شاء اللہ،” ڈاکٹر صارم نے گہرے عزم کے ساتھ اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا۔ “یہ صرف ہماری کامیابی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے نئی شروعات ثابت ہو گی۔”

 

کرونو میٹر، جو ایک کمرہ نما ٹائم مشین تھی، وقت کے اسرار سے پردہ اٹھانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ اس کی دیواروں پر نصب ٹائم ڈائلز گھمائے گئے، ڈاکٹر صارم انصاری نے کنٹرول پینل پر آخری ہدایات دیتے ہوئے مخصوص دورانیے کا انتخاب کیا۔ نیون لائٹس نے چمکنا شروع کر دیا، اور مشین کی لمبی سوئیاں وقت کی لہروں کو گرفت میں لانے کے لیے متحرک ہو گئیں۔ انرجی کور نے “ٹائم انرجی کریسٹلز” کی طاقت کو جذب کرنا شروع کیا، اور آہستہ آہستہ کرونو میٹر کے اندر ایک عجیب سی گونج پیدا ہونے لگی۔

 

پروفیسر ڈاکٹر مشعال فاطمہ نے اپنے کنسول پر نظریں جمائے، ڈیٹا کی سٹریمز کو بغور دیکھتے ہوئے، جیسے ہی سب کچھ مستحکم ہوا، انہوں نے ڈاکٹر صارم کی طرف دیکھا اور ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا اور  پینل پر موجود ایک بڑے سرخ بٹن کو دبا دیا۔ ایک لمحے میں، مشین کی دیواروں پر روشنیوں کا طوفان سا برپا ہو گیا، اور کمرے میں موجود ٹیم نے اپنی نشستوں پر خود کو سنبھال لیا۔

کرونو میٹر کی اندرونی فضا میں ایک پراسرار سا ہلکا ارتعاش محسوس ہوا، جیسے پورا کمرہ کسی اور دنیا میں داخل ہو رہا ہو۔ وقت کی لہریں قابو میں آنے لگیں اور کمرے کی فضا میں سکون چھا گیا۔ چند سیکنڈز بعد، کمرہ دھیرے دھیرے مدھم روشنی میں ڈھل گیا، اور سفر کا آغاز ہو چکا تھا۔ ٹیم کی نظریں اس نئی حقیقت پر مرکوز تھیں، جہاں ایک ان دیکھا  مستقبل  ان کا منتظر تھا، اور کرونو میٹر وقت کے سفر میں ایک نیا باب رقم کرنے جا رہا تھا۔

لیبارٹری میں رہ جانے والی ٹیم نے ان کی آخری لمحے کی تصویر اپنے دل و دماغ میں نقش کر لی۔ ان کی آنکھوں میں پریشانی  اور امید کا ملا جلا احساس تھا۔ ہر ایک کی سوچ میں یہ سوال گونج رہا تھا کہ کیا ڈاکٹر صارم اور ان کی بہادر ٹیم اس نئے، غیر متوقع مستقبل میں کامیابی حاصل کر سکیں گے؟ ان کی سرگوشیوں میں ایک عزم تھا، جیسے وہ بھی ان کے ساتھ وقت  میں سفر کی اس خطرناک مہم میں شامل ہوں ۔

آج انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ تین سال آگے کا سفر کریں گے، ایک مختصر اور محفوظ سفر۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ دیکھیں کہ “کرونوماسٹر” واقعی کام کرتا ہے یا نہیں۔ جب ڈاکٹر  صارم کی آنکھیں دوبارہ کھلیں، تو وہ تین سال بعد کے اپنے وطن میں تھے، مگر منظر ان کے تصور سے بالکل مختلف تھا۔ ہر طرف تباہی کا منظر تھا۔ آسمان پر دھواں چھایا ہوا تھا، عمارتیں زمیں بوس ہو چکی تھیں، اور سڑکیں ملبے کے ڈھیروں سے بھری پڑی تھیں۔ وہ خوف زدہ ہو گئے، کیوں کہ جو کچھ وہ دیکھ رہے تھے وہ ایک قیامت کا منظر تھا۔

زمین اچانک ہلنے لگی۔ یہ زلزلے کے جھٹکے تھے، لیکن یہ عام زلزلہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر  صارم نے زمین کے شدید لرزنے کے ساتھ ہی اپنے ہولوسکینر کو نکالا، جو ان کے گرد ہونے والے واقعات کو ریکارڈ اور تجزیہ کر سکتا تھا۔ جیسے ہی انہوں نے تجزیہ کیا، ان کے چہرے پر تشویش کی لکیریں گہری ہو گئیں۔ زلزلے کے جھٹکے مصنوعی معلوم ہو رہے تھے؛ یہ سب  قدرتی نہیں تھا۔

ڈاکٹر  صارم نے فوراً اپنے ہولوسکینر کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔ انہیں پتہ چلا کہ یہ زلزلے ایک مخصوص جگہ سے شروع ہو رہے تھے، جو ایک خفیہ ادارے کی جانب اشارہ کر رہا تھا۔ ان کے ذہن میں ہزاروں سوالات جنم لینے لگے۔ کیا یہ زلزلہ کسی سازش کا نتیجہ تھا؟ کیا ان کے ملک کے خلاف کوئی خطرہ تھا؟

انہوں نے اپنے ہولوسکینر کے ریکارڈز کو باریک بینی سے جانچنا شروع کر دیا۔ انہیں محسوس ہوا کہ یہ زلزلے ایک مخصوص دورانیے میں وقوع پذیر ہو رہے ہیں، اور ان کے پیچھے ایک گہری سازش اور منصوبہ بندی  محسوس ہو رہی تھی۔ڈاکٹر  صارم نے اپنی تحقیق جاری رکھی اور جلد ہی انکشاف ہوا کہ یہ زلزلہ ایک دشمن ملک کی سازش کا نتیجہ تھا۔ دشمنوں نے زیر زمین پلیٹوں کے نیچے ایک خفیہ ٹیکنالوجی نصب کی تھی، جو زمینی پلیٹوں کو ہلا کر زلزلہ پیدا کر رہی تھی۔ یہ ایک تباہ کن ہتھیار تھا جس کا مقصد پاکستان کو تباہ کرنا تھا تاکہ وہ کبھی بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہو سکے۔

 ڈاکٹر مشعال نے مشورہ دیا کہ ہمیں اپنی معلومات کو بہتر انداز میں ترتیب دینا چاہیے۔ وہ دونوں مل کر اس سازش کے شواہد کو جمع کرنے لگے، لیکن وقت ان کے ہاتھ سے پھسل رہا تھا۔ ڈاکٹر  صارم کو جلدی سے احساس ہوا کہ وہ وقت ضائع نہیں کر سکتے۔ ایک خطرہ  مسلسل سر پہ منڈلا رہا تھا۔ انہوں نے دشمن کی ٹیکنالوجی کی تلاش شروع کی۔

چند روز کی محنت کے بعد، انہوں نے اپنے ہولوسکینر کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا اور ایک اہم پہلو کو دریافت کیا۔ وہ جان گئے کہ دشمن کی ٹیکنالوجی کے ذریعے زمین کی پلیٹوں کی ہلچل کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل تھا، جسے روکنا بہت ضروری تھا۔

کچھ دن کی جدوجہد کے بعد  انہیں ایک حیران کن حقیقت کا سامنا ہوا: زمین کے اندر ایک خفیہ متوازی دنیا موجود تھی، جہاں کی مخلوقات زمین کی ٹیکٹونک پلیٹوں کا نظام کنٹرول کر رہی تھیں۔ یہ مخلوقات اپنی فطری توانائی اور قدیم طاقت کے ذریعے زمین کی ساخت کو مستحکم رکھتی تھیں، اور ہزاروں سالوں سے زمین کے توازن کا  کنٹرول انہی کے ہاتھوں میں تھا۔ان مخلوقات کی اپنی بقا اور وجود اسی توازن سے منسلک تھا۔ زمین کی ٹیکٹونک پلیٹوں اور قدرتی نظام کا استحکام براہِ راست ان کی دنیا کی حفاظت کرتا تھا۔ اگر زمین کی سطح پر زلزلے، آتش فشاں، یا دیگر قدرتی آفات کا سلسلہ بڑھتا، تو زمین کی اندرونی دنیا میں بھی تباہی آ سکتی تھی، اور ان مخلوقات کی دنیا اور زندگی متاثر ہو سکتی تھی۔

 

دشمن ملک نے ان مخلوقات کو زلزلے پیدا کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ایک بےرحم اور چالاک حربہ استعمال کیا۔ انہوں نے ان مخلوقات کے توانائی کے ذرائع کو آلودہ کر دیا تھا، جو ان کی بقا کے لیے انتہائی ضروری تھے۔ دشمنوں نے ایک مخصوص تابکاری ہتھیار نصب کر دیا جو اس مخلوقات کی توانائی جذب کرنے والی معدنیات کو آہستہ آہستہ تباہ کر رہا تھا۔ اس آلودگی کی وجہ سے مخلوقات کی دنیا برباد ہونے کے قریب پہنچ چکی تھی۔

اپنی بقا کو یقینی بنانے کے لیے، مخلوقات کو دشمن ملک کی شرطیں ماننا پڑیں۔ دشمنوں نے انہیں دھمکی دی کہ اگر وہ  مخصوص خطے پر زمین کی پلیٹوں کو ہلا کر زلزلے پیدا نہیں کریں گے، تو ان کی دنیا مکمل طور پر ختم کر دی جائے گی۔ اس بلیک میلنگ نے انہیں مجبور کر دیا کہ وہ اپنی طاقتوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے زمین کے اس مخصوص خطے پر تباہی پھیلائیں۔

ڈاکٹر  صارم اور ڈاکٹر مشعال نے اپنی ٹائم  مشین کی مدد سے اس متوازی دنیا کی گہرائیوں میں اترنے کا ارادہ کیا۔ ان کی ہمت اور عزم نے انہیں اس خطرناک سفر کے لیے تیار کیا۔ جب وہ اس دنیا میں پہنچے، تو انہیں ایک نئی حقیقت کا سامنا کرنا پڑا۔یہ مخلوقات انسانی زبان نہیں بول سکتی تھیں، لیکن ان کے پاس ایک طاقتور ذہنی رابطے کی صلاحیت تھی۔ ڈاکٹر صارم نے اپنی ذہنی لہروں کے ذریعے ان سے رابطہ قائم کیا، جو ابتدا میں ایک غیر معمولی تجربہ تھا۔ مخلوقات کی پراسرار طاقتوں اور پیچیدہ ذہنی دنیا کو سمجھتے ہوئے، ڈاکٹر صارم نے انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ موجودہ تباہی نہ صرف انسانوں بلکہ ان کی اپنی دنیا کے لیے بھی ہولناک ثابت ہوگی۔

ڈاکٹر صارم نے انہیں ایک ٹھوس سائنسی وضاحت پیش کی: زمین کی پلیٹوں کے عدم توازن کی وجہ سے، نہ صرف سطح زمین پر تباہی ہو گی، بلکہ زمین کی اندرونی تہوں میں ایسی زبردست تبدیلیاں آئیں گی جو مخلوقات کے اپنے نظامِ حیات کو بھی خطرے میں ڈال دیں گی۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا، تو دشمن کی سازش کے نتیجے میں زمین کے نیچے موجود مخلوقات کی دنیا تباہ ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی، ڈاکٹر صارم نے ایک منصوبہ پیش کیا کہ کیسے وہ مل کر دشمنوں کی چال کو ناکام بنا سکتے ہیں اور مخلوقات کی بقا کو  بھی یقینی بنا سکتے ہیں۔

مخلوقات کے لیے ڈاکٹر صارم کی باتوں میں ایک طاقتور دلیل تھی: اگر انہوں نے ڈاکٹر صارم کی مدد کی، تو نہ صرف وہ اپنی دنیا کو بچا سکیں گے، بلکہ زمین کی سطح پر پیدا ہونے والی تباہیوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔ اس کے علاوہ، ڈاکٹر صارم نے انہیں یقین دلایا کہ انسانیت اب زمین کی حفاظت اور مخلوقات کی بقا کے لیے بھی اقدامات کرے گی، اور ایک نئے عہد کی بنیاد رکھے گی جس میں انسانی اور غیر انسانی دنیا کے درمیان تعاون ہو گا۔

اس مخلوق نے اس پیشکش میں اپنی بقا اور ایک بہتر مستقبل دیکھا۔ وہ سمجھ چکی تھیں کہ دشمن ملک صرف انہیں استعمال کر رہا ہے اور آخر میں ان کی تباہی بھی دشمن کا مقصد ہے۔ اس طرح، انہوں نے ڈاکٹر صارم کے ساتھ اتحاد کرنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ یہ اتحاد انہیں صرف وقتی فائدہ نہیں، بلکہ طویل مدتی بقا کی ضمانت بھی فراہم کر رہا تھا۔ ڈاکٹر صارم کی مدد کرکے، وہ نہ صرف اپنی دنیا کو دشمنوں کے شر سے بچا سکتے تھے، بلکہ زمین کی فطری ساخت کو بھی محفوظ رکھ سکتے تھے، جو ان کی اپنی دنیا کے وجود کے لیے ضروری تھی۔

یہ اتحاد انسانیت اور مخلوقات کے درمیان ایک تاریخی سنگِ میل تھا، جس نے دونوں کو نہ صرف بچایا بلکہ انہیں ایک مشترکہ مقصد کے تحت جوڑ دیا۔

ڈاکٹر  صارم اور ان مخلوقات کے درمیان ایک عجیب سا اتحاد قائم ہو گیا۔ انہوں نے ان  مخلوقات کو دشمنوں کے بنائی ہوئی ٹیکنالوجی کے خلاف لڑنے کی تدبیر سکھائی اور  مخلوقات نے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے زمین کے پلیٹوں کو مستحکم کر دیا۔

ڈاکٹر  صارم نے دیکھا کہ یہ مخلوقات اپنی طاقت کے ذریعے نہ صرف زمین کی ساخت کو مستحکم کر رہی تھیں بلکہ دشمن کی سازش کو بھی ناکام بنا رہی تھیں۔ ان کا اتحاد مضبوط ہو رہا تھا، اور وہ اس بات کا عزم کر رہے تھے کہ وہ اپنی دنیا اور زمین دونوں کو بچائیں گے۔

اب وقت تھا کہ ڈاکٹر  صارم واپس جائیں اور اپنے ملک کو اس تباہی سے بچانے کا آخری قدم اٹھائیں۔ انہوں نے مخلوقات سے وعدہ کیا کہ وہ ان کی مدد کو کبھی نہیں بھولیں گے اور ان کی طاقت کا احترام کریں گے۔

اب لازم  تھا کہ ڈاکٹر صارم اپنے ملک کو مستقبل میں ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فیصلہ کن اقدام اٹھائیں۔ وقت کے سفر کے دوران، انہوں نے یہ جان لیا تھا کہ دشمن ایک خطرناک منصوبے کے تحت مصنوعی زلزلے پیدا کر کے ملک کو تباہ کرنے کی سازش کر رہا تھا۔ یہ حملہ ایک مخصوص وقت پر ہونے والا تھا، لیکن ڈاکٹر صارم نے اس خطرے کو وقت سے پہلے ہی جان لیا، اور انہیں موقع ملا کہ وہ اس نقصان کو کنٹرول کر لیں۔

واپسی پر، ڈاکٹر صارم نے فوراً حکومت کو اس منصوبے کے بارے میں آگاہ کیا اور دشمن کے عزائم کے خلاف مضبوط ثبوت فراہم کیے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگر بروقت اقدامات نہیں کیے گئے تو ملک کو زبردست نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی، ڈاکٹر صارم نے ایک جدید “میٹا فزیکل دفاعی نظام” تیار کیا، جس کی بدولت مصنوعی زلزلوں کے خطرے کو روکا جا سکتا تھا۔

یہ دفاعی نظام زمین کی پلیٹوں  کو منظم رکھنے  کے لیے بروقت اقدامات کرتا تھا۔ اس کی کارکردگی کی بدولت، ڈاکٹر صارم اور ان کی ٹیم نے مصنوعی زلزلے پیدا کرنے کی طاقتوں کو پہلے ہی کنٹرول کر لیا، اور ان کے حملے سے پہلے ہی ان کی سازش کو ناکام بنا دیا۔

یوں، وہ منصوبہ جو مستقبل میں ایک بڑی تباہی کا سبب بن سکتا تھا، وقت سے پہلے ہی ناکام کر دیا گیا۔ ڈاکٹر صارم کی اس دوراندیشی اور ان کی کوششوں نے ملک کو محفوظ کر لیا۔ ان کی بصیرت کی بدولت، ملک کی حفاظت کے لیے کیے جانے والے اقدامات نے آنے والی خطرات کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کر لیا۔

لیکن ڈاکٹر صارم جانتے تھے کہ یہ صرف شروعات تھی۔ وہ یہ بھی سمجھ چکے تھے کہ وقت کا محافظ بننا کسی بھی لحاظ سے آسان نہیں ہوگا۔ ہر قدم پر نئی مشکلات اور پیچیدہ چیلنجز ان کے سامنے آنے والے تھے، اور انہیں خود کو مسلسل تیار رکھنا تھا۔ مزید گہرائی سے تحقیقات اور اور کامیاب تجربات کی ضرورت تھی تاکہ مستقبل میں پیش آنے والی رکاوٹوں اور بحرانوں کا بہتر انداز میں سامنا کر سکیں۔ڈاکٹر مشعال نے سنجیدگی سے کہا، “ہمیں اپنی موجودہ طاقتوں کو مزید بہتر اور مضبوط بنانا ہوگا۔ یہ سب کچھ ابھی ختم نہیں ہوا، بلکہ ہمیں ایک ایسی مضبوط ٹیم تیار کرنی ہوگی جو وقت کے آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کر سکے اور اسے محفوظ رکھ سکے۔”

ڈاکٹر صارم نے آسمان کی طرف دیکھا، جہاں ستارے روشنیوں کے سنگ اپنی داستانیں سنا رہے تھے۔ وقت کا یہ سفر ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکا تھا جہاں سے آگے کا راستہ نا معلوم اور پراسرار تھا، مگر ان کے دل میں امید کی ایک روشن کرن تھی۔

یہ کہانی کا خاتمہ نہیں، بلکہ ایک نئے سفر کا آغاز ہے۔ وقت کی سرگوشیاں اب بھی جاری ہیں، اور ہر لمحہ ایک نئی دنیا کا دروازہ کھولنے کو تیار ہے۔ شاید یہ قصہ یہاں تھم گیا ہو، لیکن اس کی بازگشت ہمیشہ باقی رہے گی۔

یہاں ختم ہونے والا ہر قدم، ایک نئی راہ کی شروعات ہے۔

کہانی ختم نہیں ہوئی، یہ بس شروع ہوئی ہے…


تحریر: عبدالحفیظ شاہد – اول انعام


 


اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز -   ڈاؤن لوڈ کیجئے

نمرہ احمد کے ناولز Nimra Ahmed Novels  عمیرہ احمد کے ناولز Umera Ahmed Novels  اشتیاق احمد کے ناولز Ishtiaq Ahmed Novels 
عمران سیریز Imran Series دیوتا سیریز Devta Series انسپکٹر جمشید سیریز Inspector Jamshed Series 
دیگر مصنفین کے ناولز شہزاد بشیر کے ناولز Shahzad Bashir Novels نسیم حجازی کے ناولز Naseem Hijazi Novels


ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟  We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff !   Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household ItemsBuy from Amazon

Abdul Hafeez Shahid

One thought on “وقت کے مسافر (ٹائم ٹریول کہانی – اول انعام)

  1. ماشاءاللہ 💗
    بہت ہی خوبصورت تحریر۔ فکشن کے پردے میں ایک حقیقی داستان کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش پر مصنف کے لیے بہت بہت مبارکباد!

    تحریر میں افسانوی انداز زیادہ محسوس ہوا، افسانویت کہانی کی روانی کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ کمال لکھا، مصنف کے لیے ڈھیروں دعائیں اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔

    خیراندیش
    ڈاکٹر حامد حسن
    بہاول پور

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave the field below empty!

Next Post

وقت کا کھیل (ٹائم ٹریول کہانی - دوئم انعام)

Fri Nov 15 , 2024
وقت کاکھیل   تحریر: ریحان خان  (ٹائم ٹریول کہانی -دوئم  انعام) کتاب دوست ادبی مقابلہ ستمبر 2024  ( وقت کا کھیل۔:  – (ریحان خان –  کراچی کبھی کبھار زندگی وقتی طور پر  بے مقصد اور بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے -خاص کر جب آپ کا کوئی اپنا آپ سے […]
ریحان خان ٹائم ٹریول کہانی

ایسی مزید دلچسپ تحریریں پڑھئے

Chief Editor

Shahzad Bashir

Shahzad Bashir is a Pakistani Entrepreneur / Author / Blogger / Publisher since 2011.

Hunoot series = waqt ka taaqub