ِ رائٹر اکاؤنٹ بنائیے
  ِاپنی تحریر پوسٹ کیجئے
  مفت ناول ڈاؤن لوڈ کیجئے
ِ آن لائن شاپ / کتاب آرڈر کیجئے  
       
       
  قسط وار ناول پڑھئے
  بچوں کی کہانیاں پڑھئے
  بلاگ بنانا سیکھئے
ِدیگر اہم اصناف  
       

قارئین کی پسندیدہ کیٹگریز

              

سفر ظفر (ٹائم ٹریول کہانی – سوئم انعام)

سفر ظفر 

مصنف۔   ڈاکٹر حامد حسن

(ٹائم ٹریول کہانی -سوئم  انعام)

کتاب دوست ادبی مقابلہ ستمبر 2024 


amir ayar

 

سفرِ ظفر

ڈاکٹر حامد حسن

ایک خواہش جرم کیسے ہو سکتی ہے کہ جس کی سزا اچانک سے شروع ہو جائے؟ ہمارا دین ہر نیکی کے بدلے ثواب کی خوش خبری سناتا ہے جبکہ گناہ کی سزا سے بھی خبردار کرتا ہے۔ ان دونوں میں فرق بھی بہت زیادہ ہے۔ نیکی کا ارادہ کریں اور ثواب شروع لیکن گناہ کا ارادہ کرنے سے لے کر گناہ کی تکمیل ہو جانے تک کوئی جرم نہیں لکھا جاتا۔ پھر عامر کے ساتھ یہ کیا ہوا تھا؟ حالانکہ اس نے کسی گناہ کا سوچا تک نہیں تھا۔ صرف عمرو عیار جیسا بننا چاہا تھا۔ کیا انسان کسی چیز کی خواہش بھی نہ کرے؟

اسے ’عمرو عیار‘ کے نام سے دادی نے آشنا کیا تھا۔ پہلے پہل جنوں اور پریوں کی کہانیاں اس کے کچے ذہن میں انڈیلی گئیں۔ پھر پریوں اور جنات کے ساتھ جادوگر اور عمرو عیار بھی کہانیوں میں گھس آئے۔ عمرو عیار کا مظلوموں کی مدد کرنا اور برائی سے لڑنا اسے بھایا اور وہ اس کے ذہن کے نہاں خانوں میں سرایت کر گیا۔ لیکن اب کیا ہوا تھا؟

کلاس ٹرپ تھا اور یونیورسٹی کی بس اسلام آباد سے شمالی علاقہ جات کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ نہ جانے کتنی دیر کشادہ سڑک پر بس چلتی رہی اور پھر وقفے وقفے سے سیٹوں پر موجود طلبا دائیں بائیں ڈولنے لگے۔ کبھی بس دائیں طرف مڑتی تو سبھی بائیں طرف ڈول جاتے اور بس کے بائیں طرف مڑنے پر دائیں جانب۔ آہستہ آہستہ یہ موڑ طویل ہونے لگے اور عامر اطراف سے توجہ ہٹا کر سامنے دیکھنے پر مجبور ہو گیا۔ کیونکہ اس کی سیٹ سے باہری سمت نشیب و فراز شروع ہو گئے تھے۔ 

اچانک ہی ایک الگ قسم کا جھٹکا لگا اور زور دار دھماکے کی آواز چاروں طرف گونج گئی۔ عامر جو اسی لمحے سامنے دیکھنے لگا تھا، اس نے اچانک چٹانوں کی اوٹ سے ایک جیپ نکلتے دیکھی اور ڈرائیور کی صرف بائیں کہنی اسے تیزی سے متحرک ہوتی نظر آئی۔ اس کے بعد ونڈ سکرین کے باہر اچانک چٹان ایک طرف جاتی اور آسمان سکرین پر قابض ہوتا نظر آیا۔ ٹھیک اسی لمحے دھماکے کی آواز کے ساتھ بس کو جھٹکا لگا اور آسمان پر نظر آنے والے بادل لہریں لیتے کروٹیں بدلتے نظر آئے اور فوراً ہی اس نے خود کو ہوا میں بلند ہوتا محسوس کیا اور بدن کے ساتھ ساتھ ذہن بھی قلا بازیاں کھاتا چلا گیا۔

بات ایک ہی دھماکے پر ختم نہیں ہوئی تھی۔ دھماکے کے بعد متعدد ’کھڑکھڑاہٹیں‘ اس کی سماعت میں گونجیں جو آہستہ آہستہ ’دھما دھم‘ میں تبدیل ہوئیں اور انھی ’دھم دھمکوں‘ میں اس کا شعور بیدار ہونا شروع ہو گیا۔ سائیں سائیں کرتی ہوائیں اس کے بدن کو سرسرانے لگیں۔ اپنا بدن اڑتا ہوا محسوس ہوا جو کسی چیز میں ایسے لپٹا تھا کہ پیروں سے سر کی جانب تیز ہوا پورے بدن کو گدگداتی چلی جا رہی تھی۔ اس نے بمشکل آنکھیں کھولیں لیکن ہوا کی تیز سرسراہٹ کے باعث کھلی نہ رکھ سکا۔ اتنی ذرا سی دیر میں اسے یہ اندازہ ہو گیا کہ اس کی چاروں جانب اندھیرا ہے۔

دھما دھم کے دوران اب اس کی سماعت میں انسانی آوازیں بھی آنے لگیں جو نعروں، آہوں، کراہوں اور بہت سی شور آلود کیفیات سے بھرپور تھیں۔ اسی لمحے سماعت شکن چیخ ماحول میں گونجی اور کچھ دیر کے لیے باقی سب آوازیں گم سی ہو گئیں۔ اس کا اڑنا بھی اسی وقت ختم ہوا اور وہ کسی جانب لڑھکتا چلا گیا۔

”لینا…… پکڑنا…… ہمارے مہمان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔“ ایک تیز آواز گونجی اور اگلے ہی لمحے اس کا لڑھکنا ختم ہو گیا۔ اس دوران چیخوں اور کراہوں کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا۔ اچانک ہی اس نے تڑپ تڑپ کر خود کو ہلانے کی کوشش کی اور زور سے پکارا۔

”کوئی ہے؟ میں کہاں ہوں؟ نکالو مجھے باہر!“ وہ دوبارہ کسی سطح پر ٹکا دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی ایک جھٹکے سے وہ بائیں جانب گھومتا چلا گیا۔

 اگلے چند حامیوں میں اس کی نگاہیں چندھیا کر رہ گئیں۔ آنکھیں پٹ پٹاتے ہوئے اس نے ماحول دیکھنے کی کوشش کی اور چند لمحوں میں روشنی نے اس کی بصارت کے ساتھ دوستی کر لی۔ پہلی چیز جو اس کی نظروں کی گرفت میں آئی وہ گردآلود آسمان تھا۔ چھدرے درختوں میں سے جھانکتا ہوا آسمان جس کے نیچے گرد کا طوفان محسوس ہو رہا تھا۔

”خوش آمدید معزز مہمان!“ ایک اجنبی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی اور وہ چونک کر آواز کی سمت دیکھنے لگا۔ وہ چار افراد تھے، ایک بوڑھا اور عمر رسیدہ جبکہ باقی تینوں مختلف عمروں کے جوان۔ لیکن ان کے لباس……!

”معزز مہمان کو ہم ملکہ ماہ رخ کی سلطنت میں خوش آمدید کہتے ہیں!“ عمر رسیدہ آدمی کی آواز اس کی سماعت میں گونجی۔ پہلے بھی یہی بزرگ بولا تھا۔ تینوں جوانوں اور بزرگ نے پرانے زمانے کے مسخروں والے لبادے پہنے ہوئے تھے، جو اکثر الف لیلہ ڈراموں کے جادوئی کرداروں نے پہنے ہوتے ہیں۔ اسے ایک عجیب سا احساس گھیرنے لگا۔

”آپ……! آپ سب کون ہیں؟ اور میں کہاں ہوں؟“ عامر کسی قدر پریشانی سے بولا۔ پس منظر میں انسانی و حیوانی آوازوں کا شور اب بھی مسلسل جاری تھا۔

”جاں سوز! تم جلدی سے میدان پر نظر ڈالو، ہمیں کسی بھی حال میں غافل نہیں ہونا چاہیے۔“ بزرگ نے ایک جوان سے کہا اور پھر عامر سے مخاطب ہوا۔ ”معزز مہمان ہمارے استاد محترم نے آپ کو یہاں بلایا ہے تاکہ آپ اپنے شوق کی تسکین کر سکیں۔ آپ افراسیاب کی جادو نگری میں موجود ہیں اور اس وقت باہر گھمسان کی جنگ چھڑی ہے۔“ بزرگ نے ایک مرتبہ پھر بات کرنے کا فرض نبھایا۔

”سمجھا، اگر میں افراسیاب کی نگری میں ہوں تو میرا خیال ہے آپ مہتر قران ہیں اور جسے آپ نے بھیجا وہ آپ کا بیٹا جاں سوز بن قران ہے۔“ عامر کچھ سمجھتا ہوا بولا اور باقی دو جوانوں کو دیکھنے لگا۔ ان میں سے قدرے گوری رنگت والے کی طرف اشارہ کرتا ہوا وہ دوبارہ گویا ہوا۔

”یہ برق فرنگی اور وہ ضرغام شیر دل ہیں! لیکن میں یہاں کیسے پہنچا؟“

”اس بارے میں تو ہم کچھ نہیں جانتے۔ بس اتنا علم ہے کہ استاد عمرو نے اچانک ہمیں حکم دیا کہ ایک معزز مہمان قالین میں لپٹا ہوا آئے گا اسے لے کر جنگل کی طرف دوڑیں۔ چونکہ ہم لوگ جنگ جیت چکے ہیں اس لیے واپس لشکر گاہ جا رہے ہیں۔“

اسی لمحے جاں سوز واپس آتا نظر آیا۔

”دشمن شکست کھا کر فرار ہو گیا۔ ہمیں اجازت مل سکتی ہے کہ ہم کچھ مال لوٹ لیں؟“ جاں سوز نے قریب پہنچتے ہی کہا تو برق فرنگی بھی مچل اٹھا۔

”ہاں اب تو مہمان چل سکتا ہے آپ چلیے، ہم میدانِ جنگ سے چکر لگا کر آتے ہیں۔“ یہ کہتے ہی تینوں جوان اچک کر تیز رفتاری سے دوڑے اور لمحوں میں غائب ہو گئے۔ عامر ان کی رفتار دیکھ کر شدتِ حیرت سے گنگ رہ گیا۔

”چلیے معزز مہمان۔ ویسے آپ کو کس نام سے پکارا جائے؟“ مہتر قران نے ادب سے پوچھا۔

”محترم بزرگ! آپ مجھے عامر کہہ سکتے ہیں۔ لیکن میں ابھی تک اپنی یہاں موجودی سمجھنے سے قاصر ہوں۔“ عامر بےچارگی مگر احترام سے بولا اور مہتر قران کے ساتھ چل پڑا۔

*****

پڑاؤ تک پہنچتے پہنچتے عامر کو معلوم ہوا کہ غدار جادو کے ساتھ جنگ ہو رہی تھی جس وقت وہ قالین میں لپٹا وہاں پہنچا تھا اور یہ چاروں عیار اسے اٹھا کر پڑاؤ کی جانب ہی بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ چونکہ جنگ کا اصول تھا کہ لڑنے والے میدان میں جبکہ عیار جنگل میں رہا کرتے تھے اس لیے پانچوں عیار جنگل میں ہی تھے کہ جب اچانک عمرو عیار کسی وجہ سے اپنے شاگردوں کو یہ ہدایات دیتا ہوا غائب ہو گیا۔

جب عامر کو ہوش آیا تو اس وقت آخری معرکہ چل رہا تھا اور رعد جادو زمین میں غرق ہو، غدار جادو کی پشت پر نمودار ہو کر چیخا تھا جس سے غدار جادو لشکر سمیت بےہوش ہو گیا اور بجلی جادو نے اسی وقت لپک جھپک کر غدار جادو کو ختم کر دیا۔ وہ شور و غل اور دھماکے رعد جادو اور بجلی ناگن کے حملوں کے تھے، کہ جن سے عامر ہوش میں آیا تھا۔

اب پورا لشکر آہستہ آہستہ واپس پہنچ رہا تھا۔ سارے عیار بھی واپس آ چکے تھے۔ عامر کو کچھ ہی دیر میں ملکہ ماہ رخ کی خدمت میں پیش کرنا تھا، جس کے لیے مہتر قران، عامر کو تیار کر رہا تھا۔ عامر بمشکل ان کا لباس پہننے پر راضی ہوا تھا اور مسخروں جیسے لباس میں ملبوس خیمے سے نکلنے کو تیار تھا۔ یہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوا تھا کہ اس کے پاس اپنے سامان کے نام پر اس کا اپنا شولڈر بیگ تھا کہ جس میں ایک جینز، دو شرٹس، کاغذات، موبائل چارجر، پاور بنک اور تین بال پین تھے۔ موبائل اس کی اپنی جیب میں موجود تھا جس کی چارجنگ بیاسی فیصد تھی۔

ملکہ کے پاس لے جانے کی ذمہ داری برق فرنگی کو دی گئی۔ عامر بڑے غور سے ان چاروں کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ برق فرنگی کی چال اسے بہت بےچین سی محسوس ہوئی۔ وہ چلتے ہوئے بڑی بے چینی سے ادھر ادھر دیکھا کرتا تھا۔ جیسے کہ چاروں طرف کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہا ہو۔ جنگل میں رہتے ہوئے تو وہ چاروں ہی اس بےچینی و بےتابی کا شکار تھے۔ لیکن یہاں کچھ سکون تھا۔

بعد میں برق فرنگی نے تصدیق کی کہ ان عیاروں کی فطرت میں تھا کہ وہ ہمہ وقت ہوشیار رہیں اور چاروں طرف نظر رکھیں۔ بہرحال لشکر کا ماحول پرانے زمانے کے چھوٹے سے عربی بازار جیسا ہی تھا۔ لوگ روز مرہ کے معمولات میں منہمک تھے۔ ملکہ کا خیمہ ایک بلند جگہ پر موجود تھا، جس کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے خیمے، کچھ فاصلے پر ایستادہ تھے۔ جبکہ کئی محافظ ترتیب کے ساتھ ملکہ کے خیمے کے چاروں طرف بکھرے مستعدی سے اس کی حفاظت کر رہے تھے۔

دربان نے انھیں دیکھتے ہی دروازہ نما پردہ ایک طرف ہٹایا تو برق فرنگی عامر سمیت خیمے میں داخل ہو گیا۔ نہایت کشادہ خیمہ ایک حسین و جمیل دربار کا منظر پیش کر رہا تھا۔ سامنے ایک حسین مہ جبین، نازنین خاتون زیورات و جواہرات سے سجی، اطلس و کمخواب میں ملبوس، جڑاؤ تخت پر براجمان تھی۔

”ملکہ کی خدمت میں برق فرنگی کا آداب!“ برق فرنگی جھکتا ہوا آداب بجا لایا۔ عامر نے بھی اسی طرح جھک کر تعظیم دی تو ملکہ نے ہاتھ اٹھا کر کھڑے ہونے کا اشارہ کیا۔ اگلے ہی لمحے عامر کو خیمے میں جلترنگ سے بجتے ہوئے محسوس ہوئے۔

”برق فرنگی یہ کس نوجوان کو لے آئے ہو؟“ ملکہ کے لہجے میں تعجب کی جھلک تھی۔

”ملکہ! یہ استادِ محترم کے معزز مہمان، عامر عیار ہیں۔“ برق نے عامر کے نام کے ساتھ ’عیار‘ کا لاحقہ اپنی طرف سے لگا دیا تھا۔ جس پر  عامر نے چونک کر اسے دیکھا۔

”خود استاد عمرو کہاں ہیں؟“

”ان کی کوئی خبر نہیں ملکہ!“ برق احترم سے بولا۔ ”استاد نے محترم عامر کو اپنے ساتھ رکھنے اور لشکر کی سیر کرانے کا کہا تھا۔ میں آپ کی خدمت میں لے آیا ہوں!“

”آؤ جوان آگے آؤ اور اپنے بارے میں کچھ تفصیل بتاؤ۔“ ماہ رخ عامر سے مخاطب ہوئی۔ اس کے لہجے میں اشتیاق کروٹیں لے رہا تھا۔ ”تم یہاں کے بلکہ آس پاس کے علاقے سے تو تعلق نہیں رکھتے۔“

”جی ملکہ عالیہ!“ عامر کچھ سوچ کر بڑی متانت سے بولا۔ ”میں بہت دور سے آیا ہوں۔ اس کا خود مجھے بھی اندازہ نہیں کہ کتنے فاصلے سے۔ چونکہ استاد عمرو کا شائق و محب ہوں اس لیے شاید قدرت نے مجھے یہ موقع عنایت فرمایا ہے۔“

”واہ۔۔۔ خوب اندازِ تخاطب ہے۔“ ملکہ نے سراہتے ہوئے کہا۔ ”کچھ اپنے بارے میں بتانا پسند کرو گے؟“

”ضرور ملکہ عالیہ! میں ابھی طالب علم ہوں اور علم کی تحصیل کے لیے سفر پر نکلا ہوں۔“

”کس چیز کے متعلم ہو؟“

یہ بڑا ٹیڑھا سوال تھا، عامر سوچ میں پڑ گیا۔ کیمسٹری کا کیسے بتائے ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ملکہ نے چٹکی بجائی اور گویا ہوئی۔

”آؤ…… استاد عمرو کے معزز مہمان، یہاں تخت پر بیٹھو۔“ حکم کے ساتھ ہی ایک چھوٹے سے تخت کی طرف اشارہ ہوا جو اسی لمحے ملکہ کے تخت سے کچھ فاصلے پر زمین سے نمودار ہوا تھا۔ عامر تعظیم پیش کرتا ہوا آگے بڑھا اور تخت پر بیٹھ گیا۔

”ملکہ عالیہ اگر اجازت ہو تو میں اپنے علم کے لیے یہاں سے کچھ لے سکتا ہوں؟“

”کیا لینا چاہتے ہو؟“ ملکہ ماہ رخ نے تعجب سے پوچھا تو عامر نے پوشاک کے پہلو میں ہاتھ ڈال کر جینز کی جیب سے اپنا موبائل نکالا اور کیمرہ آن کر کے جھٹ سے ملکہ کی تصویر بنا لی۔ ذرا سا رخ موڑتے ہوئے خیمے کی متعدد تصاویر بنائیں اور آخر میں کیمرہ تبدیل کرتے ہوئے ملکہ کی جانب ذرا پشت کر کے ایک سیلفی بنا لی جس میں ملکہ پس منظر میں نظر آ رہی تھی۔

”یہ کیا چیز ہے عامر عیار؟“ ملکہ نے شاید سیلفی لیتے ہوئے سکرین پر اپنی جھلک دیکھی تھی۔ اس لیے اس کے لہجے میں شدید حیرت جھلک رہی تھی۔ ”کیا یہ کتاب سامری جیسی متبرک چیز ہے؟“

ماہ رخ کے لہجے اور تجسس نے سبھی درباریوں کو متجسس کر دیا۔

”نہیں ملکہ عالیہ! یہ صرف ’یادداشت نما‘ ہے۔“ عامر موبائل کو اس سے زیادہ آسان بالکل نہیں کر سکتا تھا۔ ”اس میں صرف تصویری یاداشتیں محفوظ کی جاسکتی ہیں۔“

”ارے……! یہ تو پھر سامری جادوگر کے بیٹے مصور جادو کا جادو ہوا۔“ ملکہ کے لہجے میں ابھی تک حیرت موجود تھی۔ ” کہیں تمہارا تعلق مصور جادو سے تو نہیں ہے؟ لیکن استاد عمرو کیسے دھوکا کھا سکتے ہیں!“ آخر میں ملکہ ماہ رخ کا لہجہ تشویش زدہ اور دھیما ہو گیا۔ جیسے وہ صرف خود سے مخاطب ہوئی ہو۔

”نہیں ملکہ عالیہ!“ عامر جلدی سے بولا۔ ”ایسا ہرگز نہیں ہے۔ میں ملک پاکستان سے آیا ہوں، میرا افراسیاب یا اس کے کسی بھی جادوگر سے کوئی تعلق نہیں اور میں خود بھی کوئی جادو نہیں جانتا۔ کیونکہ ہمارے مذہب میں جادو حرام ہے۔“ عامر کا لہجہ مضبوطی اور ثبات کا حامل تھا۔

”پھر یہ کیا جادو ہے؟“ ماہ رخ تعجب سے بولی۔

”جادو نہیں ملکہ عالیہ! یہ سائنس ہے بس…… بلکہ میں مزید دکھاتا ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے عامر اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور کیمرہ کھول کر برق فرنگی کی طرف بڑھا۔ برق بڑے اعتماد سے اپنی جگہ ایستادہ تھا۔

عامر نے وہاں پہنچنے تک کیمرہ آف نہیں کیا تھا۔ بلکہ ویڈیو بناتا چلا گیا۔ برق فرنگی کے سامنے جا کر وہ مڑا اور ملکہ کی طرف دیکھتا ہوا واپس پلٹ پڑا۔ اب کیمرے کا رخ ملکہ کی سمت تھا۔ دو تین قدم چل رک وہ رکا اور ویڈیو ریکارڈنگ بند کر کے تازہ بنی ویڈیو چلا کر ملکہ ماہ رخ کے سامنے پہنچ گیا۔

”دیکھیے ملکہ عالیہ!“ ملکہ ماہ رخ نیچے جھک کر موبائل سکرین پر دیکھنے لگی۔ دو لمحات میں ہی اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوا اور وہ زیر لب کچھ بدبدانے لگی۔

عامر کی چھٹی حس پھڑکی اور اس نے جلدی سے موبائل اپنی پوشاک میں چھپا لیا۔ اسی وقت ماہ رخ نے اشارہ کیا اور اس کا جسم بے حس و حرکت ہو کر رہ گیا۔ سبھی احساسات کے ساتھ، چاروں طرف آنکھیں گھمانے کے باوجود وہ اپنے جسم کا کوئی حصہ ہلانے سے قاصر تھا۔

”گرفتار کر لو اسے۔ یہ مصور جادو کا فرستادہ ہے۔“ ماہ رخ غصے سے چلائی۔

اسی وقت باہر غلغلہ سا ہوا اور ایک دربان جلدی سے اندر داخل ہوا۔

”ملکہ عالیہ! استاد عمرو عیار پہنچ رہے ہیں۔“ دربان نے جھک کر تعظیم دیتے ہوئے کہا اور باہر نکل گیا۔ جبکہ اندر موجود سپاہیوں نے عامر کو بازوؤں سے جکڑ لیا۔ اس سے پہلے کہ وہ عامر کو کہیں لے جاتے، دروازے سے سوکھی لمبی ٹانگوں اور لاغر سے جسم کا حامل عجیب الخلقت عمرو عیار اندر داخل ہوا اور تعظیم بجا لاتا ہوا عرض گزار ہوا۔

”ملکہ ماہ رخ کی خدمت میں تعظیم! میرے معزز مہمان کے ساتھ یہ کیسا سلوک ہو رہا ہے ملکہ؟“

”یہ مصور جادو کا فرستادہ ہے اس لیے اسے قید کیا جا رہا ہے۔“

”نہیں ملکہ! یہ واقعی دور دیس کا باشندہ ہے اور اس کا کسی جادوگر سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ میں ثابت کر سکتا ہوں۔“

”کر کے دکھاؤ استاد تو مانوں!“ ملکہ نے جواب دیا۔

”اسے ٹھیک کیجیے ابھی ثابت کرتا ہوں۔“ عمرو نے مطالبہ کیا۔ ملکہ نے کوئی منتر پڑھ کر عامر پر پھونکا تو اگلی ہی لمحے عامر کو اپنا جسم اپنے اختیار میں محسوس ہوا اور وہ دوڑ کر برق فرنگی و عمرو عیار کے درمیان پہنچ گیا۔

”برق……! یہ برفی کھلاؤ ہمارے جوان کو۔“ عمرو عیار نے اپنی زنبیل سے برفی نکال کر برق کو دی اور برق پھرتی سے عامر کی طرف مڑ گیا۔ عامر نے بھی بنا کسی ہچکچاہٹ کے برفی منہ میں ڈال لی۔ اسی وقت اسے احساس ہوا کہ عمرو عیار کے پاس تو ایسی چیزیں بےہوش کرنے کے لیے ہوا کرتی ہیں۔ لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کا ذہن چکرایا اور آخری چیز جو اسے نظر آئی وہ برق فرنگی کے بازو تھے جو اسے گرنے سے روک رہے تھے۔

*****

بس کا ہارن زور سے بجا اور عامر کی آنکھ کھل گئی۔ ہوٹل کے مین گیٹ پر رکی ہوئی بس ہارن پر ہارن بجا رہی تھی اور آفتاب اسے اٹھنے کا کہہ رہا تھا۔ شدید سردی کا عالم تھا اور سب اسٹوڈنٹس نے گرم لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ خود عامر کے جسم پر بھی موٹا سا اوور کوٹ موجود تھا۔ اس نے سر گھما کر ادھر ادھر دیکھا اور خود بخود مسکرا دیا۔

بس اپنی منزل پر پہنچ چکی تھی اور اسٹوڈنٹس اپنا اپنا سامان اٹھا رہے تھے تاکہ نیچے اتر کر اپنے اپنے بستر تک پہنچ سکیں۔ صبح سب نے پہاڑیوں اور برف زار کی سیر کو نکلنا تھا۔ عامر نے وقت دیکھنے کے لیے موبائل نکالا تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ انھیں اسلام آباد سے یہاں تک پہنچنے میں آٹھ گھنٹے لگے تھے۔ اس نے جلدی سے کیمرہ کھولا اور اپنے نئے مسکن کی تصویر بنانے لگا۔

بس سے اتر کر آفتاب کے ساتھ وہ اپنے کمرے میں پہنچا اور سامان سنبھال کر فریش ہونے چلا گیا۔ اسے شدید بھوک لگی ہوئی تھی۔

”یار تم راستے میں کہاں غائب ہو گئے تھے؟“ آفتاب نے بستر پر لیٹتے ہوئے پوچھا۔

”میں بس میں ہی تھا، نیند آ گئی تھی مجھے۔“ عامر منہ دھوتے ہوئے واش روم سے ہی بولا۔

”ارے یار تم نے مِس کر دیا، اگر تم بھی نیچے اترتے تو تمہیں عمرو عیار سے ملاتا۔“ آفتاب کی مسکراتی آواز سن کر وہ منجمد ہو گیا۔ جلدی سے منہ پر چھینٹے مارے اور لپک کر باہر نکل آیا۔

”کیا مطلب؟ کیسا عمرو عیار؟“ اس کے لہجے سے حیرت چھلک رہی تھی۔

”جب راستے میں بس پٹرول کے لیے رکی تھی تو ہم لوگ نیچے اترے تھے۔ وہیں ہمیں ایک مسخرہ ملا تھا۔“ آفتاب اس کی طرف دیکھے بغیر بولتا چلا گیا۔ ”عجیب مخنچو آدمی تھا، کوئی عجوبا بلکہ نمونا۔ لمبی سوکھی سڑی ٹانگیں، بےڈھب سا جسم اور مسخروں والا ڈرامائی کاسٹیوم! خود کو عمرو عیار کہہ رہا تھا اور مزے کی بات یہ کہ مجھ سے اپنا تعارف کرا کے بڑے جوش سے گلے ملا اور میرا سینہ تھپتھپا کر اچانک غائب ہو گیا۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے عامر کو دیکھا تو اچھل کر کھڑا ہو گیا۔

عامر کا چہرہ شدتِ جذبات سے سرخ ہو گیا تھا اور وہ گہری سانسیں لے رہا تھا۔

”کک…… کیا ہوا عامر؟ خیر تو ہے نا؟“ وہ گھبرا کر کھڑا ہوا اور عامر کی طرف بڑھا۔ لیکن عامر تیزی سے پلٹا اور اپنا موبائل اٹھا لیا۔

”اس کا مطلب ہے وہ خواب نہیں تھا۔“ اس کی بڑبڑاہٹ سی ابھری اور آفتاب چونک کر رہ گیا۔

”کیا مطلب اور کیسا خواب؟“ آفتاب نے حیرت سے پوچھا۔

عامر اپنا موبائل اٹھا کر کچھ دیکھ رہا تھا۔ ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس نے موبائل آفتاب کی طرف بڑھا دیا۔

”دیکھ لو میرے افراسیاب دوست!“ عامر عجیب سے لہجے میں بولا۔ ”اصلی افرسیاب کے مخالفوں کی ملکہ مہ رخ… اس کا دربار… اور ………“

”برق فرنگی…… یہ آدھا انگریز برق فرنگی ہی ہے نا؟“ آفتاب اشتیاق بھرے لہجے میں بولا۔ ”اوہ……! واہ………!“ ویڈیو ختم ہوتے ہی وہ عامر کو ایسے دیکھنے لگا جیسے زندگی میں پہلی بار دیکھا ہو۔

”ہاں…… اب سمجھ آ رہا ہے۔“ عامر کچھ سوچتا ہوا بولا۔ ”وہ سب یہی کہہ رہے تھے کہ استاد عمرو نے کسی ترکیب سے مجھے بلایا ہے۔ کیسے……؟“

”جیسے وہ خود یہاں آیا۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟“ آفتاب بھرائے ہوئے لہجے میں بولا۔ ”ہاں یاد آیا، وہ عمرو صاحب نے شاید مجھے ہاتھ بھی لگایا تھا…… مطلب مجھے نہیں، میری جیکٹ کو!“ آفتاب چونک کر بولا۔

”ہو سکتا ہے لگ گیا ہو ہاتھ۔“ عامر اپنے موبائل میں ہی بار بار تصویریں اور ویڈیو چلا کر دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے اپنی اور ملکہ ماہ رخ کی تصویر نکالی اور آفتاب کو دکھانے کے لیے سر اوپر اٹھایا۔ لیکن آفتاب تو اپنے اتارے ہوئے کپڑوں میں گھسا کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔

”وہ ایسا ویسا ہاتھ نہیں تھا نا یار!“ آفتاب اپنی جیکٹ اٹھا کر پلٹتا ہوا بولا، ساتھ ہی وہ جیکٹ کی جیبیں ٹٹول رہا تھا۔ اگلے ہی لمحے اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور اس نے جیکٹ کی اندرونی جیب سے ایک سبز رنگ کا عجیب سا کاغذ نکال لیا۔

”یہ دیکھو…… اگر وہ عام سا جگلر،مداری یا مسخرہ ہوتا تو میں واقعی جیکٹ پر لگے اس کے ہاتھ کو اتفاق ہی سمجھتا۔ لیکن وہ عمرو عیار تھا تو……!“

عامر نے اس کے ہاتھ سے کاغذ پکڑا اور کھول کر پڑھنے لگا۔

”برخوردار عامر علی المعروف عامر عیار خوش رہو…… اپنے دونوں دوستوں، افراسیاب اور سامری کے ساتھ ہمیشہ خوش رہو۔ میں آفتاب اور ساگر کی بات کر رہا ہوں۔ تم بھی کہو گے کہ یہ کیا جادو ہو گیا۔ تو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔

مجھے تمہاری بابت علم ہوا تو میں نے کہا تمہاری محبت کا انعام تمہیں دیا جائے۔ اس لیے میں نے تمہیں اپنی جگہ بلانے کا ارادہ کیا، بلایا اور خود تمہاری دنیا دیکھنے چلا آیا۔ اللہ تمہیں ہر امتحان میں کامیاب کرے اور ہر مشکل و پریشانی سے آزاد رکھے۔ اس کاغذ کو سنبھال کر رکھنا یہ تمہارے بہت کام آیا کرے گا۔

ان شاءاللہ کامیابیاں تمہارے قدم چومیں گی۔

فقط

عمرو عیار“

اور خط تمام ہو گیا۔ وہ دونوں گم سم کاغذ کو دیکھ رہے تھے۔

”یہ کیا تھا…؟“ آفتاب دبی آواز میں بولا۔ ”ٹائم ٹریول… جادو… یا کچھ اور؟“

اچانک انھیں محسوس ہوا کہ کاغذ میں سے دھواں نکل رہا ہے اور کاغذ دھندلانے لگا ہے۔ چند لمحوں میں ہی تحریر کے الفاظ دھوئیں کے ساتھ غائب ہو گئے۔ اب ان کے پاس سوائے کاغذ کے کچھ نہیں تھا۔

لیکن نہیں!

عامر نے جلدی سے موبائل اٹھایا اور سکرین پر موجود ملکہ ماہ رخ اور اپنی تصویر دیکھنے لگا۔ ملکہ ماہ رخ اپنے حسن و جمال کے ساتھ اس کے موبائل میں قید نظر آ رہی تھی۔

”ملکہ ماہ رخ………!“ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔

یہ وہی ملکہ تھی جو اسے قید کرنے چلی تھی!

*****تمام شد*****


تحریر-  ڈاکٹر حامد حسن



اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز -   ڈاؤن لوڈ کیجئے

نمرہ احمد کے ناولز Nimra Ahmed Novels  عمیرہ احمد کے ناولز Umera Ahmed Novels  اشتیاق احمد کے ناولز Ishtiaq Ahmed Novels 
عمران سیریز Imran Series دیوتا سیریز Devta Series انسپکٹر جمشید سیریز Inspector Jamshed Series 
دیگر مصنفین کے ناولز شہزاد بشیر کے ناولز Shahzad Bashir Novels نسیم حجازی کے ناولز Naseem Hijazi Novels


ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟  We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff !   Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household ItemsBuy from Amazon

Dr Hamid Hasan

ڈاکٹر حامد حسن معروف کالم نگار، کہانی کار، محقق اور تجزیہ نگار۔ اخبار جہاں کے ساتھ ساتھ دیگر رسائل میں اور مختلف اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں بچوں کے لیے جاسوسی ناول، ”عامر عیار“ کتاب دوست سے ہی شائع ہوا ہے۔ ڈاکٹر حامد حسن کنسلٹنٹ اینستھیٹسٹ، لودھراں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave the field below empty!

ایسی مزید دلچسپ تحریریں پڑھئے

Chief Editor

Shahzad Bashir

Shahzad Bashir is a Pakistani Entrepreneur / Author / Blogger / Publisher since 2011.

Hunoot series = waqt ka taaqub