اشتیاق احمد کی یاد میں ! خصوصی تحریر
از : شہزاد بشیر
اشتیاق احمد کے یومِ وفات پر خصوصی تحریر ! از – شہزاد بشیر
★ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی بہت قدآور شخصیت کے بارے میں تحریر لکھنا چاہیں تو الفاظ چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔ اشتیاق احمد ایسی ہی ایک بلند قامت ادبی شخصیت ہیں جن کے بارے میں مجھ جیسا طفلِ مکتب بھلا کیا لکھ سکتا ہے۔ ان کے بارے میں تو بڑے بڑے مشہورومعروف لکھاری بھی لکھتے ہیں تو تحریر میں باقاعدہ ایک عظیم شخصیت کا خاکہ ابھر آتا ہے۔ اپنے تئیں کوشش بہرحال کرتا ہوں کیونکہ بچپن سے جس مصنف کو سب سے زیادہ پڑھا ہے وہ اشتیاق احمد مرحوم ہیں۔
★ سال تھا 1983 اور اس وقت میں محض تیسری جماعت کا طالبعلم تھا اور عمر تھی صرف 9 سال۔ چلئے مان لیا کہ اس وقت اس عمر کے بچے رسائل اخبار وغیرہ پڑھ لیا کرتے تھے مگر ناول؟ بہت سوں کو تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ناول ہوتا کیا ہے؟ اور اس پر طرہ یہ کہ جاسوسی ناول۔ یہ ذرا چونکا دینے والی بات تھی۔ مجھے یاد ہے میری بڑی بہن اس وقت آٹھویں جماعت میں تھیں اور مجھے پڑھنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب ہاتھ میں ہوتی تھی،
★ یوں ہی ایک روز ان کے بیگ کو کھنگالا تو ایک کٹی پھٹی کتاب ہاتھ لگی۔ ناول “خون آلود خنجر” مصنف اشتیاق احمد۔ “محمود فاروق فرزانہ اور انسپکٹر جمشید کے کارنامے” یہ پر تجسس جملہ پڑھ کر سسپنس جاگ گیا تو پڑھنے لگا۔ وہ ناول ہی مجھے دراصل اردو ادب کی طرف لے کر آیا اور پھر صرف اسی چکر میں کوئی بھی کہانی پڑھنا شروع کردی کہ شاید یہ بھی اشتیاق احمد کا ناول ہوگا۔ دوستوں کی اس بارے میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی بلکہ ناول کو تو پتہ نہیں کیا سمجھا جاتا تھا۔ بہرحال یہ بے چینی اور شوق بڑھتا رہا اور ادھر ادھر سے اشتیاق احمد کے ناول لے کر پڑھتا رہا مگر پھر چند روز بعد ہی ایک لائبریری سے رابطہ ہوگیا اور جس طرح اور جس دلچسپ انداز میں ہوا وہ واقعہ بھی میں نے اپنی ویب سائٹ کتاب دوست پر 2020 میں لکھ کر پوسٹ کیا تھا اب بھی موجود ہے۔
★ خیر بات ہورہی تھی اشتیاق احمد کے ناولوں کی تو بہت جلد ہی دوستوں کے حلقے میں شامل سبھی ان کے دیوانے ہوگئے۔ اسکول میں آئے دن کسی نہ کسی کے بیگ سے اشتیاق احمد کے ناول نکلنے لگے۔ ہاف ٹائم میں دوست ملکر پڑھتے۔ پہلے یہ ڈر تھا کہ اساتذہ کو پتہ نہ چل جائے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تو خود ان ناولوں کی شوقین تھیں۔
★ سچی بات ہے اشتیاق احمد کے ناول ایسے صآف ستھرے اور دلچسپ ہوتے تھے کہ گھر میں کسی کو اعتراض بھی ہوتا تو ناول میں موجود کوئی قرآنی آیت، حدیث یا کوئی ایسا سبق آموز جملہ وغیرہ پڑھنے کے بعد اعتراض ختم ہوتا تھا۔ کسی اور مصنف کے ناول ان دنوں میں ہماری دلچسپی کا محور نہ تھے صرف اشتیاق احمد ہی وہ واحد مصنف تھے جن کے ناول اکثر ہمیں اپنے رشتہ داروں کے گھر پر بھی پڑھنے کو مل جاتے تھے۔ یعنی ہر گھر میں یہ ناول موجود ہوتے تھے۔
★ کئی بار لائبریری والے نے عمران سیریز وغیرہ کی طرف توجہ دلوائی کہ یار یہ بھی پڑھا کرو مگر وہ اس وقت ہماری عمر سے آگے کی چیز تھے اور دوسرا جو چسکا محمود فاروق فرزانہ آفتاب آصف فرحت شوکی اخلاق اشفاق آفتاب اور دیگر کرداروں کی طنزومزاح سے بھرپور نوک جھونک اور سسپنس سے بھرپور کہانیوں کا تھا اس نے ہمیں کسی اور مصنف کے قریب پھٹکنے بھی نہ دیا۔ یہ اور بات ہے کہ گاہے بگاہے ابن صفی، مظہر کلیم صفدر شاہین کے جاسوسی ناول ہاتھ آئے مگر مستقل زیر مطالعہ نہ رہ سکے۔ اے حمید بہرحال ہماری لسٹ میں شامل تھے۔ ان کے علاوہ بچوں کے رسائل تو بہرحال گھر میں موجود ہی رہتے تھے۔ اب تجزیہ کروں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایسا نہیں تھا کہ کوئی مصنف اچھا نہیں لکھتا تھا یا کوئی اور بات تھی۔ بات صرف یہ تھی کہ اشتیاق احمد کا سادہ اسلوب اس عمر میں ہمارا ذہن بڑی آسانی سے قبول کر لیتا تھا کیونکہ وہ کافی حد تک حقیقی واقعات محسوس ہوتے تھے۔ اشتیاق احمد کا ہاتھ اپنے قارئین کی نبض پر رہتا تھا۔
★ بچپن سے لڑکپن تک کے دور میں ان کے ناولوں کا شوق اور جنون کبھی کم نہ ہوا۔ پھر گردشِ دوراں نے فکر معاش میں مبتلا کرکے جو دوڑیں لگوائیں اس نے اس شوق کو کافی عرصہ فراموش کرنے پر مجبور کئے رکھا۔ان ناولوں کی جانب واپسی کا سفر تب شروع ہوا جب 2011 میں آن لائن ویب سرسز یعنی فری لانسنگ کا آغاز کیا۔ وہ وقت بڑا کٹھن تھا۔ رات رات بھر جاگ کر آن لائن کسٹمرز کو خدمات فراہم کرنا انتہائی مشکل کام تھا کیونکہ جلدی سونے اور جلدی اٹھنے کی برسوں پرانی روش یکسر بدل گئی تھی۔
★ پھر یوں ہونے لگا کہ جب رات میں کبھی تھکن اور نیند کا غلبہ ہونے لگتا تو اکثر عمر شریف مرحوم کا کوئی طنزو مزاح سے بھرپور کلپ دیکھ لیتا یا پھر اشتیاق احمد کا کوئی پرانا یادگار ناول تلاش کر لیتا۔ اس تلاش کے دوران اکثر بہت چکربازیاں ہوتیں۔ کبھی ڈاؤن لوڈ لنک بڑا گھما پھرا کر ملتا کبھی تلاش کے دوران غیر اخلاقی تصاویر یا اشتہار آجاتے۔ اور پھر ناولوں کیلئے کبھی کہیں تو کبھی کہیں سرچ کرنا پڑتا۔
★ میں ویب ڈیویلپمنٹ کرتا تھا تو ایک روز یہ خیال آیا کہ کیوں نہ ایک ویبسائٹ اشتیاق احمد کے ناولوں کی بنا لوں جس میں سارے ناول موجود ہوں جو صرف ایک کلک پر آسانی سے ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھے جا سکتے ہوں۔ اس طرح نہ صرف مجھے بلکہ لاکھوں قارئین کو بھی اس چکربازی اور جھنجھٹ سے نجات مل جائیگی۔ بس اس سوچ کے ساتھ ہی سرچ کرنے پر کتاب دوست ڈوٹ کوم www.kitabdost.com کا نام بھی مل گیا اور اسی روز یعنی یکم اکتوبر 2020 کو اس سفر کا آغاز ہوا جو اشتیاق احمد کی وجہ سے اور انہیں کے ناولوں کی بنیاد پر شروع ہوا تھا۔ مجھ سے زیادہ قارئین نے کام دکھایا اور مجھ سے وہ وہ کام کروائے کہ اب سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے۔
★ ان تین سالوں میں نہ صرف اشتیاق احمد کے سارے ناول کتاب دوست ویب سائٹ پر مہیا کئے بلکہ بات اس سے کہیں آگے بڑھ گئی اور لکھنے کا رحجان بنا پھر اس کے بعد باقاعدہ “مکتبہ کتاب دوست” کا قیام عمل میں آیا۔ جہاں سے اب تک میرے اپنے 15 اور دیگر مصنفین کے ملا کر 40 ناول شائع ہوچکے ہیں جبکہ کافی ابھی زیر اشاعت ہیں۔
★ مجھ سے گزشتہ سال اگست میں “مارگلہ نیوز میگزین” کے ایک انٹرویو کے دوران لکھنے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ “جہاں تک لکھنے لکھانے کا سوال آتا ہے تو میں صاف کہتا ہوں کہ میں اشتیاق احمد مرحوم” کا پراڈکٹ ہوں۔ ” میرے قارئین بھی اسی حوالے سے زیادہ جانتے ہیں۔ بطور مجموعی اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ اشتیاق احمد نے نسلوں کو متاثر کیا ہے تو یہ بات سو فیصد درست ہے۔ ناول بچوں کے تھے مگر آج بھی بڑوں کا ایک وسیع حلقہ نہ صرف ان کا قاری ہے بلکہ لاکھوں عقیدت مند ایسے ہیں جو اشتیاق احمد کی تحریروں سے متاثر ہیں۔
★ اشتیاق احمد نے ذہنوں پر گہرے نقوش چھوڑے۔ ان کے کرداروں میں چاہے وہ مثبت کردار ہوں یا منفی کردار ہوں سب ہی قارئین کے دل میں گھر کرنے والے تھے۔ جیرال کا کردار حالانکہ منفی کردار تھا مگر اشتیاق احمد نے اسے جن خطوط پر اصولوں کا پاسدار بنا کر پیش کیا وہ منفی ہوتے ہوئے بھی قارئین کی سب سے زیادہ محبت کا مرکز رہا۔ یہاں تک کہ اسے دوبارہ سامنے لانا پڑا۔
2021 میں اس خاکسار نے ناول “شعاعوں کا ہنگامہ” لکھ کر “خراجِ تحسین” پیش کرنے کی کوشش کی جس میں بہت سے دیگر قارئین اور لکھاری بھی شامل ہوئے اور بے حد پسند کیا گیا۔ اس سال “روح کی چوری” ناول قارئین کی ہی فرمائش پر ماہِ اشتیاق کے حوالے سے پیش کیا گیا جس کی آج آخری قسط شائع ہوئی ہے۔ یہ بھی خراجِ تحسین ہے اپنے استاد جناب اشتیاق احمد کیلئے۔ اب قارئین کی رائے کا انتظار ہے وہ کیا کہتے ہیں۔ اب تک اس خاکسار کو جتنی محبت و عزت ادبی حلقوں میں ملی ہے ان سب کا کریڈٹ اشتیاق احمد کو جاتا ہے کیونکہ اگر آج آپ مجھے مصنف کے طور پر پڑھ رہے ہیں تو اس کی شروعات اور اس کا جواز ایک ہی نام ہے اور وہ ہے “اشتیاق احمد”۔
اللہ ان کی کامل مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔ آمین۔
تحریر : شہزاد بشیر
مصنف/ناشر (مکتبہ کتاب دوست)
اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز - ڈاؤن لوڈ کیجئے
ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟ We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff ! Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household Items | Buy from Amazon |