ترکوں کے اباوجداد
ہم سب جانتے ہے کہ ترک ایک بہادر قوم ہے اور بہادری انکے خون میں شامل ہے اللہ تعالی نے ترکوں کو نا صرف بہادری سے بلکہ اچھے اخلاق اور اقدار سے بھی مالامال کیا ہے ترک کہاں آباد تھے اور کیا کرتے ہے اس کے بارے میں مختلف تاریخ دان مختلف اور متضاد تاریخ بتاتے ہے مگر اصل بات یہی ہے کہ
ترکمانستانی ترک کبھی بھی اپنی جائے پیدائش سے منتقل نہیں ہوئے اس لیے وہ ثقافتی اور حیاتیاتی طور پر آبائی ترکوں کے قریب ہیں۔ (ترکمان کا مطلب ہے: ترک+ایمان = ایک ترک جس نے اسلام قبول کیا ہے۔ اس صورت میں تینوں گروہ بلا شبہ ترکمان ہیں۔ اور یہ ایک سائنسی حقیقت ہے!) سنکیانگ (اویغور) ترک تقریباً ترکمانستانی ترکوں کے ساتھ ایک جیسے ہیں۔ زبان، خوراک، شکل، یہاں تک کہ ذہنیت! (وہ مضحکہ خیز طور پر اچھی چینی بھی بولتے ہیں، شاید اس کا اثر ان کی زبان پر ہو، مجھے یقین نہیں آتا۔ لیکن جب میں کسی ایغور بھائی سے ملتی ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ گاؤں کا میرا پڑوسی ہے۔) ترک ترک اپنے مادر وطن سے الگ ہو کر آدھی دنیا کو فتح کرنے میں مصروف ہیں (مجھے آپ لوگوں کے ساتھ فخر ہے!)، اور صدیوں سے مختلف دیگر اقوام کے ساتھ گہرے تعلقات میں ہیں۔ یورپی، عرب، فارسی، کرد وغیرہ… تو وہ بہت سے پہلوؤں میں تھوڑا سا ارتقائی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ایک ترک ترکمان کی طرح نظر آ سکتا ہے، اور ایک روسی، ایک انگریز، ایک ویلش، ایک عرب کی طرح بھی نظر آ سکتا ہے… کچھ تو کورین جیسا بھی ہو سکتا ہے جو ان کی اصل شکل سے تھوڑا قریب ہے۔ “Öztürkçe” جس کا مطلب ہے “حقیقی ترکی” جدید ترکی کے ادب میں استعمال ہوتا ہے – روزمرہ کی زندگی میں نہیں! اور وہ “Öztürkçe الفاظ” ابھی ترکمانستانی ترکوں کی روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہوتے ہیں (مجھے پورا یقین ہے کہ ایغور، عراق اور افغان ترک بھی)۔
مثال: مکٹیپ – اسکول۔ (جدید ترکی: اوکل)
Example:
Mektep – School. (Modern Turkish: Okul)
Maslahat – Advice. (Mod. Turkish: Tavsiye)
Nöker – Soldier. (Mod. Turkish: Asker)
Nakkaş – Jeweler. (Mod. Turkish: Bezekçi – or something like that). etc…
(Yet of course many of these words derive from Persian or Arabic – another story!)
All three nations share the same grammar, almost the same vocabulary, the same literature, the same historic events, ancestral heroes, familial myths and idioms. In deep, the same soul and heart.
–
مگر تاریخ کہتی ہے کہ ماروا نہر جسے آج کل ترکستان بولتے ہے اور جو مشرق میں اور منگولیا اور شمالی چین کی پہاڑوں سے مغرب میں بحر خزر بحر قزوین اور شمال میں سائیبریا کے میدانی علاقوں سے لے کر جنوب میں برصغیر اور فارس تک پھیلا ہوا ہے
یہ اوغوز خاندانوں کا وطن ہے اس علاقے میں اوغوز خاندان کے بڑے بڑے قبائل رہائش پذیر تھے اور ترک یا اتراک کے نام سے پہچانے جاتے تھے
اچھا جناب یہ تو تھا وہ علاقہ جہاں اغوز خاندان آباد تھے چلئے جی اب آگے کیطرف چلتے ہے
چھٹی صدی عیسوی کے نصب ثانی میں ان قبیلوں نے اپنے اصلی وطن کو خیر آباد کہہ کر گروہ در گروہ ایشیا کوچک کہ راہ لی کئی تاریخ دان اور مورخ اغوز کی ان نقل مکانی کی کئی توجہات پیش کرتے ہے
بعض مورخین کا خیال ہے کہ اسکی وجہ معاشی بدحالی اور غریبی تھی بعض مورخین کہتے ہے کہ شدید قلت و قحط اور روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی نے انکو نقل مکانی پر مجبور کیا اور اغوز خاندان ایسے علاقوں میں آکر رہنے لگے جہاں وسیع چراگاہیں اور خوشحال زندگی کے اسباب وافر مقدار میں موجود تھے
مگر اسکے ساتھ ساتھ بعض تاریخ دان یہ بھی کہتے ہے کہ اغوز خاندان کی نقل مکانی کے پیچھے سیاسی عوامل کارفرما تھے ترکوں کو بعض ایسے طاقتور قبائل کی دشمنی کا سامنا کرنا پڑا جن کی طاقت اور تعداد اور قوت ان سے کئی گنا زیادہ تھی جیسے منگولیا اس دشمنی سے بچنے کے لئے انہوں نے ترکستان کو چھوڑ دیا اور اور ایسے علاقے میں چلے گئے جہاں وہ امن سے سکون سے رہ سکے یہ رائے جناب ڈاکٹر عبدالطیف عبداللہ بن دھیش کی ہے لہذا ظالم منگولوں سے بچنے کے لئے ان قبیلوں نے مغرب کی راہ لی اور دریائے جیجوں کے قریب آباد ہو گئے جہاں سے بعد میں موسم کے مطابق طبرستان اور اور جرجان گئے اور وہاں بودوباش اختیار کر لی اس طرح ترک ان اسلامی علاقوں سے قریب ہو گئے جن کو مسلمانوں نے 21 ہجری اور 641 ہجری میں معرکہ نہاوند اور فارس میں دولت ساسانیہ کے سقوط کے بعد فتح کیا
اسی طرح اسلامی دنیا کیساتھ ترکوں کا اتصال 22 ہجری 652 عیسوی کو اسلامی فوجوں نے باب کے علاقوں کیطرف پیش قدمی کی تاکہ ان علاقوں کو فتح کریں یہ وہ علاقے تھے جن میں ترک رہائش پذیر تھے اسلامی سپاہ کے سپہ سالار عبدالرحمن بن ربعیہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ترکوں کے سردار شہر براز سے ملاقات کی شہر براز نے عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ سے صلع کی درخواست کی اور اس بات کا اظہار فرمایا کہ وہ ارمن پر حملہ کرنے کے لئے اسلامی لشکر میں شریک ہونے کے لئے تیار ہے عبدالرحمن نے انہیں اپنے سراقہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس بھیج دیا شہر براز نے سراقہ سے ملاقات کی اور ان سے اپنی خدمات پیش کرنے کے سلسلے میں بات کی سراقہ نے انکی پیش کش کو قبول کیا اور اس بارے میں ایک عریضہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نام تحریر کیا اور انہیں اس بارے میں اطلاع دی
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بھی سراقہ کی رائے سے اتفاق کیا اور اسکے بعد مسلمانوں اور ترکوں میں باقاعدہ معاہدہ طے پا گیا یوں مسلمانوں اور ترکوں میں کسی قسم کی جنگ نا ہوئی بلکہ یہ دونوں لشکر ارمن پر حملہ آور ہوئے اور وہاں اسلام کی اشاعت ہوئی اسکے بعد اسلامی لشکر فارس کے شمال مشرقی علاقوں کیطرف بڑھے تاکہ مسلمان لشکروں کے ہاتھوں دولت ساسانی کے سقوط کے بعد ان علاقوں میں دعوت اسلام کی ترویج ہو سکے یی یہ وہ علاقے تھے جو شمال کیطرف اسلامی سپاہ کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے جب صلح کے معاہدے کی بدولت یہ مشکلات ختم ہو گئیں تو ان علاقوں اور ملکوں تک پہنچنے کی راہ ہموار ہو گئی اور ترکوں اور مسلمانوں کے درمیان ربط و ضبط پیدا ہو گیا ترک اسلامی تعلیمات سے بہت متاثر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا اور اسلام کی اشاعت اور غلبہ دیں کے لیے مجاہدین کی صفوں میں شامل ہو گئے
میں نے شروع میں جیسے بتایا کہ ترک قوم ایک بہادر قوم ہے اور ترک لوگ کسی کی غلامی برداشت نہیں کرتے اس لئے ترکوں نے اسلام کی ترویج اور اشاعت میں جان لگا دی اور کسی سے نا خوف کھاتے تھے یہ ترکوں پر اللہ تعالٰی کا خاص فضل و کرم تھا اس لئے جب خلیفہ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد خلافت میں طبرستان کا پورا علاقہ فتح ہوا چنانچہ 31 ہجری کو اسلامی لشکر دریائے جیجوں سے پار اترا اور ماروا النہر کے علاقے میں پڑاو ڈالا اس علاقے کے ترک جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے اور اسلام کا دفاع کرنے اور اللہ تعالی کے دین کے پیغام کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لئے جہادی سرگرمیوں میں شریک ہوئے وقت کیساتھ ساتھ اسلامی لشکر کی پیش قدمی جاری رہی
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں بخارا فتح ہوا اور کامیابی اور کامرانی کا یہ سلسلہ آگے بڑھا اور سمر قند بھی اسلامی قلم رو میں شامل ہوا حتی کہ اسلامی سلطنت کی سرحدیں وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی اور ایک وقت وہ بھی آیا کہ ماروا النہر کے تمام علاقے اسلامی سلطنت کا حصہ بن گئے اور ان میں بسنے والے ترک قبائل نے خالص اسلامی تہذیب و تمدن کو اختیار کیا اور کٹر مسلمان بن گئے
عباسی خلفا اور درباروں میں ترکوں کا اثر نفوذ بڑھنا شروع ہوا ہر شعبے میں ترکوں کی تعداد دیکھی جانی لگی فوج کاتب اور حکومت کے دوسرے اعلی مناصب غرض یہ کہ کوئی ایسا شعبہ موجود نا تھا جس میں ترک شامل نا تھے اپنی خداداد صلاحیتوں اور اخلاق اخلاص کی بدولت انہیں بڑے بڑے مناصب مرتبوں پر فائز کیا گیا
جب معتصم تخت خلافت پر متمکن ہوا تو ترکی اثر و نفوذ کے سامنے اعلی مناصب کے سب دروازے کھل گئے بڑے بڑے منصب پر ترک فائز ہوئے اب ترک ہر شعبہ میں کلیدی اسامیوں پر کام کرنے لگے دراصل معتصم ایرانی اثر و نفوذ کی بیخ کنی کرنا چاہتا تھا ایرانی خلیفہ المامون کے دور سے ایک بہت بڑی طاقت کی حیثیت سے حکومتی عہدے پر فائز چلے ارہے تھے اور ان میں کافی حد تک خودسری کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے
معتصم کے اس اقدام نے لوگوں کو کافی حد تک مشتعل کر دیا تھا عوام اور سپاہ دونوں میں بےچینی پھیل گئی یہی وجہ تھی کہ معتصم نے اپنے لئے ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی جہاں اسکی ذاتی فوج اور اعوان و مددگار رہائش پذیر ہوئے یہ نیا شہر سامرہ کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا اور بغداد سے 125 کلومیٹر دور تھا
یوں تاریخ اسلامی کے اہم ترین دور میں ترکوں کو سلطنت میں خاصی اہمیت حاصل ہو گئی حتی کہ وہ وقت بھی ا گیا کہ ترکوں نے ایک بہت بڑی اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی اس سلطنت کا دولت عباسیہ کے خلفا کے ساتھ مضبوط تعلق تھا یہ سلطنت تاریخ میں سلجوقی سلطنت کے نام سے پہچانی جاتی ہے
تحریر : نورین خان
اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز - ڈاؤن لوڈ کیجئے
ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟ We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff ! Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household Items | Buy from Amazon |