رگڑا چراغ ۔۔۔ نکلا جِن
شہزاد بشیر
نہ بجلی ہے نہ گیس ہے نہ پانی ہے۔ دوستو یہ عام آدمی کی کہانی ہے
بجلی کے بل اور اس پر احتجاج نے بیزار کر کے رکھ دیا تھا۔دماغ پلپلا ہوگیا تھا۔ بجلی کا بل اتنا آگیا تھاکہ برداشت سے باہر۔
سوچا تھا کہ نہیں بھروں گا۔ بجلی کٹتی ہے تو کٹ جائے۔
پھر خبر سنی کہ نہ بھرنے والوں کو بھی بجلی چور کے کھاتے میں ڈال کر گرفتار کرلیا جائے گا۔
ارے ۔۔ خداکی پناہ ۔یہ کیسا قانون ہے۔
بھئی نہیں استعمال کرنی تمہاری بجلی یار۔
موم بتی جلا لیں گے اور پنکھا جھل لیں گے ۔
پہلے زمانے میں بادشاہوں کے بھی تو یہی ذرائع عیاشی ہوا کرتے تھے۔
مگر ہاں ۔ ان کے پاس تو خادم اور کنیزیں تھیں۔اور میرے پاس دو چار پتلونیں اور قمیضیں تھیں۔
کچھ اسی طرح کی ٹنشن اور پرایشانی میں نہ جانے کیا سر میں سمائی کہ سوچا چلو کچھ دیر ساحل سمندر پر صرف ٹہلتا ہوں۔کیونکہ تیرنا مجھے آتا نہیں اور ڈوبنے کا ارادہ نہیں۔
سو ٹہلتا ہو ا پیاں پیاں ۔۔۔ مطلب واک کرتا ہوا ۔ سی ویو پہنچ گیا۔
ہاں ہاں الحمدللہ گاڑی ہے میرے پاس۔۔۔مگر۔یار۔ اب وہ صرف کھڑی رکھنے کے کام آتی ہے ۔
چلانے کیلئے جتنا بڑا دل گردہ چاہئے اتنا ہی بڑا نوٹ بھی والٹ میں چاہئے۔
پٹرول کے بھاؤ اتنے ہیں کہ جتنے میں کچھ عرصے پہلے ہم کراچی کا پورا چکر لگا آتے تھے۔
اب تو گھر سے مرکزی سڑک تک پہنچیں تو گاڑی ایسے جھٹکے مارتی ہے جیسے کار میں نہیں ، اونٹ پر سوار ہوں۔
بہر حال ۔۔۔سمندر کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے سوچوں اور خیالات میں گم تھا کہ اچانک لہروں نے ایک چراغ نما آئٹم ساحل پر پھینکا اور لوٹ گئیں۔
ساتھ میں ایک لہر نے ریت پر لکیر بھی بنائی ۔ تیر کی طرح ۔ ( ایسا مجھے لگا کہ جیسے کہا ہو۔ یہ لے ۔ اور ۔ جاعیش کر )
میں نے حیرت اور تجسس سے اس کو دیکھا تو لگا کہ چراغ ہے۔
فوراََ ذہن میں جھماکہ ہوا کہ ارے اس میں تو کوئی جن بھی ہوسکتا ہے۔
دوڑ کر اس چراغ کو اٹھایاتو چند ادھر ادھر دور بیٹھے لوگوں نے حیرت سے مجھے دیکھا۔
مجھے لگا وہ سب حسد بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ کہ چراغ میرے ہاتھ لگ گیا تھا۔
وہ سب مجھے دیکھ کر عجیب انداز میں مسکرانے اور چہ میگوئیاں کرنے لگے تو میں نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔
یوں بھی جن کو ایسی جگہ حاضر کروانا تھا جہاں کوئی نہ ہو۔( آپس کی بات ہے ۔ جن اور محبوبہ کو لوگ ایسی جگہ ہی ملتے ہیں۔)
میں چلتے چلتے کچھ اور آگے بڑھا تو ایک کٹیا سی نظر آئی۔ اس کا دروازہ بوسیدہ سا تھا۔ اندر سے بدبو کے جھونکے بھی آ رہے تھے۔
میں آنکھ پر ہاتھ رکھ کر گھوم کر اس کے پیچھے چلا گیا۔(سوری۔ آنکھ پر نہیں۔۔ناک پرہاتھ رکھ کر ۔۔۔)
وہاں پراسرار خاموشی تھی۔ لوگ دور کہیں رہ گئے تھے۔
اب میں نے اس چراغ کو دیکھا اس کی ٹونٹی پر میل جما ہوا تھا۔ پیندے میں بھی میل اور کچھ کیچڑ وغیرہ تھا۔
میں حیران ہوا کہ یہ سمندر میں تیرتا ہوا چراغ اتنا گندہ کیوں ہے؟اب کیا سمندر کے جھاگ میں بھی کسی نے ملاوٹ کردی؟
اسی وقت دماغ نے کہا۔ ارے یار تو نے اس کو رگڑ کر جن بلانا ہے یا اس کو پالش کرکے الماری میں رکھنا ہے۔(ان ادبی ایوارڈز کے ساتھ جن میں سے ایک بھی ابھی تک نہیں ملا ہے۔)
بات سمجھ میں آتے ہی میں نے اس کو رگڑنا شروع کر دیا۔
رگڑنے سے کالا کالا میل میرے ہاتھوں پر لگ گیا مگر چراغ میں سے جن نہیں نکلا۔
میں نے غصے سے چراغ کی ٹونٹی سے اندر جھانکا تو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آیا۔مجھے لگا ۔۔جن کہیں چھپ گیا ہے۔
میں نے غصے سے کہا: “اوئے چراغ کے جِن ! باہر آ۔ چھپ کر نہ بیٹھ اندر۔ کام چورکہیں کے۔”
اسی وقت ٹونٹی سے دھواں سا نکلنا شروع ہوگیا۔ میں نے فوراََ پیچھے ہو کر چراغ کو نیچے رکھ دیا۔
اب دھواں ایک جن کی شکل اختیار کرنے لگا تھا۔
جب وہ پورا نکل کر ہوا میں معلق ہوا تو مجھے لگا اس کی شکل مجھ سے ملتی ہے۔
جن خاموشی سےہوامیں معلق مجھے گھورنے لگا۔جیسے میں نے اسے کسی بہت ہی اہم کام کرتے ہوئے بلوالیا ہو۔ مگر مجھے اس سے ڈرنا نہیں تھا۔ وہ غلام تھا نا۔
“اوئے ۔۔۔ جن کے بچے ! تو نے مجھے پروٹوکول کیوں نہیں دیا؟” میں نے غصے سے پوچھا۔
“پروٹوکول؟۔۔۔ اوہ اچھا۔مگرتیری حیثیت ہے پروٹو کول کی؟ کوئی بنک اکاؤنٹ ، کوئی وزارت، کوئی گارڈ شارڈ، کوئی موبائل شوبائل ہے تیرے آگے پیچھے؟” جن چونکا۔ پھرمیرے آگے پیچھے دیکھ کر بولا۔
“وہ ۔۔۔ آ۔۔ہاں ۔۔ نن نہیں ابھی تو نہیں ہے مگر تم تو میرے غلام ہو نا۔ آخر میں نے تمہیں آزاد کروایا ہے۔ “میں نے شرمندگی سے کہا۔
“او یار۔ میں قید میں کب تھا؟اچھا بھلا اشتیاق احمد کا ناول پڑھ رہا تھا۔ میں تو تیری آواز سن کر دیکھنے آیا تھا کہ یہ کون پاگل ہے ٹونٹی میں سے جھانک رہا ہے۔
او بھائی۔ پرائیویسی پالیسی کا بھی احترام کیا کرو کسی کی۔ اچھا ۔۔ چل اب آگیا ہوں تو پروٹوکول دے ہی دیتا ہوں۔ غریب آدمی یہ لے۔کیا یاد کرے گا۔”
“کیا حکم ہے ۔۔ بے !” ہو ہو ہو۔ ہاہاہا۔ ہی ہی ہی۔ ہے ہے ہے۔”وہ مجھے گویا چڑارہا تھا۔
“اوئے بدتمیز جن ! تجھے تمیز نہیں سکھائی کسی نے۔ آقا سے اس طرح بات کرتے ہیں۔ ڈفر کہیں کے۔” مجھے غصہ آگیا۔
“آقا۔۔۔؟ ابے کونسا آقا بے؟ کہاں کا آقا؟ ۔۔۔ یہ بتا کیا تو اپنا بجلی کا بل بھر سکتا ہے؟” اس نے مجھے تپاتے ہوئے پوچھا۔
“نن۔۔۔ نہیں ۔۔۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔” میں نے ہکلا کر کہا۔
“گھر میں گیس آتی ہے؟”
“ٹینکر کے بنا پانی آتا ہے ؟”
“نن۔ نہیں تو۔ وہ دن اب نہیں رہے۔اب یہ سب عیاشیاں غریب کی پہنچ سے دور ہیں۔”میں نے گہری اداسی سے کہا۔
“ہاں تو پھر کس بات کا آقا بے۔ ہو ہو ہو۔ ہاہاہا۔” وہ ہنسنے لگا۔میں گنگ ہوگیا۔ الفاظ ہی ساتھ چھوڑ گئے۔
“مجھے معاف کرنا جن بھائی۔ تمہیں پریشان کیا۔ جاؤ جا کر ناول پڑھو۔” میں نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا اور جانے کے لئے مڑ گیا۔
“اچھا اچھا۔۔۔ چلو جلدی سے اپنی پرابلم بتاؤ شائد میں کوئی مشورہ دے سکوں۔” اچانک جن نے نرم لہجے میں کہا۔ میں خوش ہوکر واپس مڑا۔
“دیکھو مم۔ میری مدد کرو۔ میرا بل دس گنا زیادہ آیا ہے۔ وہ وہ ٹیکس لگا دیئے ہیں جن کے نام خود لگانے والوں کو پتہ نہیں۔ مگر حکومت کہتی ہے بھرنا پڑے گا۔ بیگم کہتی ہے زیور نہیں بیچنے دوں گی۔ بچے کہتے ہیں ۔۔ فیس نہیں بھری تو اسکول سے نکال دیں گے۔ مالک مکان کہتا ہے کرایہ نہ دیا تو گھر سے نکال دے گا۔ فیس بک کے دوست کہتے ہیں ٹینشن نہ لو ورنہ شوگر ہو جائے گی۔ ڈاکٹر کہتا ہے شوگر کا ہم سے علاج نہ کروایا تو وقت سے پہلے مر جاؤ گے۔ گورکن کہتا ہے مرنا ہو تو پہلے کفن دفن کے پیسے جمع کر کے بینک کے لاکر میں رکھ دو یا کسی پراپرٹی میں انویسٹ کر دو تاکہ مرنے کے بعد بیوی بچے ادھار نہ مانگتے پھریں۔ اور۔۔۔۔” ابھی میں کہہ ہی رہا تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ بادل گرجنے لگے۔
اچانک مجھ پر انکشاف ہوا کہ وہ بارش نہیں تھی اور نہ بادل گرجے تھے۔ بلکہ وہ جن رو رہا تھا۔ اس کے آنسوں کی برسات ہو رہی تھی۔
“ابے بس کر پگلے۔ رلا تو دیا اب کیا جان لے گا جن کی؟” وہ ہچکیاں لیتے ہوئے بولا۔ میں دنگ رہ گیا۔ وہ تو مجھ سے بھی زیادہ حساس دل کا تھا۔
“تو یہ داستان ہے تمہاری !” اس نے بالآخر ناک پونچھتے ہوئے کہا۔ (سوری ناک نہیں۔۔۔ آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا۔ (مائی مسٹیک)
“ہاں جن بھائی۔ جینا مشکل ہوگیا ہے۔ ہمسایہ ملک کے لوگ ہم پر ہنس رہے ہیں۔ ہمارے برادر اسلامی ملک ہم سے کترا رہے ہیں جیسے کہ ہم جیب کتروں سے کتراتے ہیں۔ ہمارا سابق وزیر کہتا تھا کہ جب ہم باہر جاتے ہیں کسی دورے پر تو وہاں کے وزراء اور صدر کہتے ہیں وہ دیکھو بھکاری وزیر کس شان سے چلا آرہا ہے بھیک مانگنے کیلئے۔ بھیک دو نہ دو اس کا “کون فی ڈانس” چیک کرو ذرا۔” میں نے اسے “حالات حاجرہ “سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔
“یہ سب باتیں تو ہمیں پتہ ہیں۔ اس ملک میں ہمارے قبیلے کے کروڑوں لوگ رہتے ہیں اور وہ بھی پریشان ہیں۔” جن نے افسوس زدہ لہجے میں کہا۔
“ارے ۔۔۔ وہ کیوں پریشان ہیں؟ بجلی کے محکمے کو جناتی طاقت سے درست کیوں نہیں کردیتے۔ انسانوں کا اتنا تو حق ہے نا جنات پر ؟ آخر کو ہم سب اس زمین پر ساتھ بستے ہیں۔” میں نے بھنا کر کہا۔
“او دیکھ بھائی ۔۔۔ کیا نام ہے تیرا ۔۔۔ چل میں آقا ہی فرض کرلیتا ہوں تھوڑی دیر کیلئے۔ تو بھائی آقا۔ مم ۔۔ میرا مطلب ہے کہ آقا۔۔۔ ہم لوگ انسانوں کے معاملات میں ٹانگ نہیں اڑاتے۔ الٹا انسان ہم معصوم جنات کو اپنے قبضے میں کرنے کیلئے نہ جانے کیا کیا الٹے سیدھے حرام حلال جائز ناجائز طریقے استعمال کرتے ہیں۔ کبھی ہمیں بوتل میں بند کر دیتے ہیں کبھی چراغ میں اور کبھی اس چیز میں جس کو تم نے رگڑا ہے۔ اب جب رگڑا ہے تو دیکھنا اب یہی تمہارے انسان جن میں دوست، رشتہ دار، سوشل میڈیا فرینڈز اور دنیا بھر کے ویوئرز تمہیں راتوں رات کہاں سے کہاں پہنچاتے ہیں۔ میں تمہارے لئے اور کچھ نہیں کرسکتا بس یہ بتا سکتا ہوں کہ اس وقت تم نے جس چیز کو رگڑا ہے۔ اس سے تو کچھ نہیں ہوا کیونکہ یہ تو اس پبلک ٹوائلٹ کا وہ پرانا لوٹا ہے جس کے پیچھے تم موجود ہو۔ اس لوٹے کو کسی چرسی نے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا تھا اسے تم نے اٹھا لیا اور جس جس نے بھی دیکھا وہ تمہیں پاگل دیوانہ خیال کرکے تمہاری ویڈیو بنا رہے ہیں چھپ چھپ کر اور ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ڈال رہے ہیں۔ میں جن نہیں ہوں صرف تمہارا تخیل ہوں۔ مگر اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ اب تم دنیا بھر میں وائرل ہونے والے ہو کیونکہ جو کچھ میں نے کہا وہ تو کسی نے نہیں سنا مگر جو کچھ تم نے کہا وہ سب لوگوں نے ریکارڈ کرلیا ہے۔ اب تم سے ٹی وی والے میڈیا والے اگر کہیں کہ تم کسی جن سے بات کر رہے تھے تو انکار مت کرنا۔کہنا میں پراسرار علوم جانتا ہوں۔ اس طرح تم راتوں رات مشہور ہو جاؤ گے اور دھن دولت سب تم پر برسے گا۔ لیکن اگر تم نے کسی جن کی موجودگی اور بات چیت سے انکار کیا تو لوگ تمہیں پاگل کہہ کر ہنسیں گے، مذاق اڑائیں گے، پتھر ماریں گے، پاگل خانے والے تمہیں لے جا کر کسی کوٹھری میں پاگلوں کے ساتھ بند کردیں گے جہاں تم سچ مچ کے پاگل ہو جاؤ گے۔ اسلئے فیصلہ تم خود کرو۔ پاگل بننا ہے یا پاگل بنانا ہے !”
وہ جن کہتا چلا گیا۔ میں سنتا چلا گیا۔ سمجھتا چلا گیا۔ اور پھر فیصلہ کرلیا۔
کیا فیصلہ کیا ؟ “میں نہیں بتاؤں گا۔”
اس کالم کے اگلے حصے میں بتاؤں گا بچو۔۔کرلوجوکرنا ہے!
تحریر: شہزاد بشیر
مصنف / ناشر
اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز - ڈاؤن لوڈ کیجئے
ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟ We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff ! Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household Items | Buy from Amazon |