kitab dost adbi muqabla 9 Title Page Story Writing Competition by Shahzad Bashir Author / writer / Publisher Maktaba Kitab Dost
9th Kitab Dost Story Writing Competition 2023
کتاب دوست ادبی تحریری مقابلہ نمبر 9
ادبی مقابلہ نمبر 9 میں مصنفین کو 5 میں سے 1 ناول کے سرورق پر کہانی لکھنے کا کہا گیا تھا جس میں کل 11 امیدواروں نے اپنی تحاریر بھیجیں ۔ ان میں سے اول دوم سوم اور 8 دیگر امیدوار سامنے آئے۔ پیش خدمت ہیں ان سب لکھاریوں کی دلچسپ سرورق کہانیاں ! پڑھ کر اپنی رائے کمنٹ کیجئے۔ شکریہ
وہ تیزی سے سیڑھیاں اتر رہی تھی ۔ عظیم اس کے پیچھے دوڑ رہا تھا ۔
”روک جاؤ میرے خوابوں کی شہزادی ”
” نہیں شہزادے میں نہیں رک سکتی ہوں“
وہ تیزی سے سیڑھیاں اتر کر گاڑی میں بیٹھ گئی اور گاڑی آگے بڑھ گئی ۔ وہ کچھ مایوسی سے مڑا ۔ اور اس کی بانچھیں کھل گئیں ۔ شہزادی کا ائیروسوفٹ کا قیمتی جوتا وہیں پر پڑا تھا۔
اس نے اٹھایا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔
” تو یہ خواب تھا “ اس نے سوچتے ہوئے ہاتھ آگے کیا تو بے ساختہ چونک پڑا ۔جوتا سچ میں اس کہ ہاتھ میں تھا ۔
” یہ یہ کیسے ممکن ہے “ وہ حیرت سے بڑبڑایا تھا ۔
شام میں دوستوں کو بلا کر واقع بتانے کا ارادہ کیا ۔ اس کی طرح فارغ فاروق سب سے پہلے آیا تھا ۔
اس نے جوتا دیکھایا تھا ۔
ساری بات سن کر اس نے گوگل پر تصویر کھینچ کر تلاش کیا اس جوتے کہ بارے میں تو پتہ چلا یہ جوتا کمپنی کی آنے والی ورائٹی میں شامل ہے جو 2024: میں آئے گی۔ دونوں سوچ میں پڑ گئے تھے ۔ کہ اچانک جہاں وہ بیٹھے ہوئے تھے ۔ اس جگہ ایک کالا دائرہ نمودار ہوا اور عظیم اس میں گرتا چلا گیا ۔
” میں کہاں ہوں۔؟ “
” آپ ٹھیک ہیں ؟۔ “ ایک مترنم آواز سنائی دی
” جی ہاں “
”اصل میں میں نے آپ کو ٹائم ہول سے فیوچر میں بلایا ہے ۔ کیا آپ میری مدد کریں گے۔ ؟“
” مدد کیسی مدد۔ ؟ “
” دراصل میرا ایک یونیورسٹی کا دوست ہے جو مجھے فیرول پارٹی میں کھینچی گئی کچھ تصاویر کے ذریعے بلیک میل کر رہا ہے۔ وہ اتنی نازیبا تصاویر بھی نہیں ہیں ۔ لیکن میرے شوہر حافظ قرآن ہیں ۔ اور دین دار انسان ہیں ۔ آپ واپس جاکر اس دن اس کا کیمرہ لے کر توڑ دیں ۔ میں اس کام کے آپ کو دس لاکھ روپے دوں گی “
” دس لاکھ ؟ ۔ لیکن آپ نے کہا وہ تصویریں نازیبا نہیں ہیں “
” آپ فیوچر میں ہیں۔ اور اب مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے “
” اوہ جی ہاں ۔ دیکھیئے میں کوشش کروں گا “
”نہیں آپ کو وعدہ کرنا ہے ۔ کیونکہ میں بار بار اپکو فیوچر میں نہیں بلا سکتی ہوں “
“” ٹھیک ہے میں وعدہ کرتا ہوں “
” میرا نام شاہین ہے اور میں انگلش لٹریچر کی ۔۔۔۔۔۔۔
تمام ضروری معلومات کے ساتھ رقم بھی لے کر وہ واپس آگیا تھا ۔ اس دن یونیورسٹی کی فیرول پارٹی تھی ۔ وہ وہاں پر پہنچ گیا ۔ مطلوبہ شخص کو تلاش کرنے کے بعد اس کی ڈرنک میں ،،سیکی لیکس،، سیرپ کی بوتل شامل کر دی ۔ وہ بے چارہ باتھ روم میں ہی بیٹھا رہا ۔ پھر اطمینان سے اس کا موبائل فون زمین پر گرا کر توڑ دیا تھا ۔
چند دن بعد جب اس نے اپنے پان سگریٹ کے ذاتی کھوکھے پر فاروق سے ملاقات کی اور اس کے پوچھنے پر قہقہ لگا کر کہا تھا ۔
” میں بتا بھی دوں تو تم یقین نہیں کرو گے ، بس یہ سمجھ لو ۔ ،،قسمت جب جوتا پہناتی ہے تو سائز نہیں پوچھتی ہے “”
شینا رحمن شیخ
دوئم انعام یافتہ سرورق کہانی: ایجنٹ حورب – (عرفان مرتضیٰ)
“ایجنٹ حورب تم ایسا نہیں کرسکتی، تم وہ سرخ یاقوتی پتھر ان کو نہیں دے سکتی۔”
“نہیں ں ں ں….
” کیا تم واقعی اس مشن کے لیے تیار ہو؟”
بلند و بالا عمارت کی کھڑکی میں کھڑے جون نے کہا۔
” جی سر” سامنے سے ایک پر اعتماد آواز آئی۔
” ٹھیک ہے ایجنٹ تم نکلنے کی تیاری کرو”.
۔۔۔۔
ساؤتھ افریقہ کے گھنے جنگلات میں وہ تین دن سے چلے جارہے تھے۔ ساتھ میں اس کے جنگلی جانور ان کے خون کے پیاسے انھیں ڈھونڈ رہے تھے۔
” حورب! یہ دیکھوں.” ولیم کے کہنے پر وہ اس نشان کو دیکھنے لگی۔ اور جانچ کے بعد اپنی بندوق سے اس طرف چلنے کا اشارہ کیا ۔
“حورب! کب تک چلنا ہے.”
“جب تک ہمیں ہسٹری آف ٹرائینگل نہیں مل جائے.”
” وہ کتنا دور ہے؟”
“اگر تمہیں تین اونچے ٹیلے ایک ساتھ کھڑے مل جائے۔تو سمجھ لو تم اس جگہ کے قریب ہو.”
“وہ دیکھوں ہمیں وہ ٹیلے مل گئے.” ماریہ نے ان کا دھیان ان ٹیلوں کی طرف کیا۔
‘ہسٹری آف ٹرائینگل اب زیادہ دور نہیں ہے۔”ایجنٹ حورب نے بندوق میں گولیا چیک کرتے ہوئے کہا ۔
“ہسٹری آف ٹ”.. وہ چاروں حیرانگی سے بولے۔
“یہ تو مصر کے پیرامینڈ کی طرح ہے.” جولیا نے چونکتے ہوئے کہا۔
وہ تینوں ایجنٹ حورب کے ساتھ اندر کی طرف چل دیے۔ لیکن مصیبت تو ابھی ان کی منتظر تھی ۔ اندر جاتے ہی تیروں کی برسات ہوگی۔ بچتے بچاتے وہ مشکل سے اس جگہ پہنچے، جہاں سرخ یاقوتی پتھر ایک جانور کے منہ میں جکڑا ہوا تھا۔
ایجنٹ نے جیسے ہی اسے نکالا پوری جگہ ہلنے لگی۔
“یہ کیا ہورہا ہے؟”
“بھاگوں یہاں سے بھاگوں.”
وہ جسے ہی باہر نکلے، ایک ویر ولف کی فوج ان کی منتظر تھی ۔ قسمت سے ان کی طرف ایک ہیلی کاپٹر آن پہنچا جنھوں نے ان کو بچا لیا۔
“یہ لیجے سر!” ایجنٹ حورب نے سرخ یاقوتی پتھر جون کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔”
اچانک سے بلڈنگ ہلنے لگی سارا شہر ہلنے لگا۔ وہ فوج اس پتھر کے پیچھے شہر تک آں پہنچے ۔
“وہ اس پتھر کے پیچھے آیئں ہیں۔وہ ان کی امانت ہیں، ہزاروں سالوں سے وہ اس کی حفاظت کرہے ہیں.”
ایجنٹ حورب نے جب یہ سنا تو وہ جون سے پتھر چھین کر اس گروہ کو دینے چلے گی جسے جون بار بار چیخ چیخ کر منع کرہا تھا ۔
سوئم انعام یافتہ سرورق کہانی: آنکھوں میں عکس تیرا – (اریبہ کفیل)
پنڈال میں چار سو جیسے رنگ و بُو کا سیلاب امڈ آیا تھا۔
برقی قمقموں ، رنگ برنگی جھنڈیوں اور لہراتے رنگ برنگے آنچلوں کی بہار میں مہندی کی رسم بس شروع ہوا چاہتی تھی ۔
پیلے اور گلابی خوبصورت امتزاج کے شرارے میں ماتھے پر ٹیکا لگائے،لمبی چوٹی میں پراندہ اور جھلملاتا آ نچل سر پر ڈالے آمنہ پنڈال میں داخل ہوتے ھوتے دوپٹے کا پلو کسی چیز میں پھنسنے سے گرنے لگی تھی کہ اچانک دو مضبوط ھاتھوں نے اسے سہارا دے کر گرنے سےبچالیا۔
سنبھل کر سر اٹھایا تو بڑی بڑی گہری براؤن آنکھیں پرشوق انداز میں خود پر جمی پائیں ۔
دراز سراپا ،گندمی رنگت اور گھنی مونچھوں تلے مسکراتے بھرے بھرے ھونٹ۔آمنہ دھک دھک کرتے دل کو بمشکل قابو کرتی بظاہر اس اجنبی کو نظر انداز کرتی پنڈال میں داخل ہو گئی لیکن خود کو مسلسل کسی کی نظروں کے حصار میں محسوس کر کے چین رہی۔
“یار دیکھا ہے ملک سجاول کو شہر سے پڑھ کر کیسا شاندار سجیلا گھبرو بن کر لوٹا ھے اور شریف اتنا کہ کسی لڑکی کی طرف آ نکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا،”نوراں اور زلیخا کے ساتھ بیٹھی آ منہ کے دماغ میں ایک جھماکا سا ھوا۔
اتنی دیر سے جو چیز اس کو من ہی من کھٹک رہی تھی وہ ملک سجاول کی اپنے بھائی ملک بلاول کے ساتھ مشابہت تھی اور اور اس کے ساتھ ہی اس کی یادداشت میں وہ تاریک رات روشن ہو گئی جب اس نے اپنی بیٹھک کے باہر کھڑے اندر اپنی ماں اور ملک بلاول کی دبی دبی سرگوشیاں سنی تھیں۔
“کنیز فاطمہ نے تو پردیس کاٹتے بے چارے شوھر کی عزت خاک میں ملا دی”ماں کے بارے میں ایسی اڑتی اڑتی چہ میگوئیاں سن کر آمنہ اندر ھی اندر ٹوٹتی لیکن خاموش رھتی۔
ملک بلاول کے اثر و رسوخ کی وجہ سے کسی کو کھل کر کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوتی ۔پھر اس کی کوری نوخیز جذبوں سے سجی آنکھوں میں ملک سجاول کا وجیہہ عکس چپکے سے آ ٹہرا۔
دونوں طرف یکساں” آتش عشق کے مصداق “جلد ہی ملک سجاول کے لیے آمنہ کا رشتہ بھیج دیا گیا۔لیکن جس نے بھی لڑکی والوں کی طرف سے انکار کا سنا دانتوں میں انگلیاں داب کر رہ گیا۔
کم عقل لوگ نہیں جانتے تھے کہ کہ نو عمر آمنہ کو اپنی آنکھوں میں اترے ملک سجاول کے عکس سے زیادہ اپنی عزت نفس اور وقار عزیز تھا جو سجاول کے بڑے بھائی بلاول اور اپنی ماں کے ناجائز رشتے کی وجہ سے اسے سسرال میں ملنا محال تھا۔
سو کچی عمر کے کچے جذبوں اور سجاول کے دلکش سراپے کا عکس اپنی آنکھوں سے مٹا دینے میں ہی اس کی عزت نفس باقی رہ سکتی تھی اور اسے یہ سودا مہنگا نہیں لگا تھا۔
کمال پورہ میں جمیل نامی ایک نوجوان رہتا تھا۔ وہ ایک کند ذہن مگر بڑے خواب دیکھنے والا نوجوان تھا ۔ تاہم جمیل کے خواب اس وقت چکنا چور ہو گئے جب وہ اسٹریٹ کرائم کا شکار ہو گیا۔
ایک رات، جمیل نوکری سے گھر جا رہا تھا کہ اچانک اس پر ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا۔ انہوں نے اس کا پرس، فون اور گھڑی چھین لی اور اسے زمین پر گرا کر مارا پیٹا اور زخمی کر دیا۔ اس واقعے نے جمیل کو ہلا کر رکھ دیا۔ حملے کے بعد جمیل بے ہوش ہو گیا اور مسلسل خوف میں رہنے لگا۔ وہ اپنے زخموں کو دیکھتا اور اندھیرے میں باہر جانے سے گریز کرتا۔ اس کی غبی شخصیت کی جگہ خوف اور عدم تحفظ نے لے لی تھی۔ اپنی زندگی پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پر عزم، جمیل نے اسٹریٹ کرائم کے خلاف جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے آپ کو ممکنہ حملہ آوروں سے کیسے بچایا جائے کے عنوان سے تحریک شروع کر دی۔ اس نے دفاع کی کلاسوں میں داخلہ لیا اور اپنے دفاع کے لیے مختلف تکنیکیں سیکھیں۔ اپنی ذاتی حفاظت کے علاوہ، جمیل نے اسٹریٹ کرائم سے دوسروں کو بچانے کے لیے بھی جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے مقامی کمیونٹی تنظیموں کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام شروع کیا جنہوں نے اسٹریٹ کرائم کے خطرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے کام کیا۔ اس نے شہر کے ایک واچ گروپ میں بھی شمولیت اختیار کی اور مشکوک سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے گلیوں میں گشت کرنا شروع کر دیا۔ جمیل کی کوششیں رائیگاں نہیں گئیں اور وہ جلد ہی معاشرے کا ایک قابل احترام رکن بن گیا۔
ایک دن، جمیل کام سے گھر جا رہا تھا جب اس نے نوجوانوں کے ایک گروہ کو ایک عورت کو ہراساں کرتے دیکھا۔ اس نے فورا ان کو روکنے کا فیصلہ کیا ۔ اس نے دفاع کی وہ تکنیکیں جو اس نے سیکھی تھیں ، لڑکوں کو غیر مسلح کرنے کے لیے استعمال کیا اور پولیس کے آنے تک انہیں روکے رکھا۔ یہ واقعہ خبر بن گیا ، اور جمیل ہیرو بن گیا۔ جمیل نے اسٹریٹ کرائم کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی، اس کی کوششیں رنگ لائیں. اس کے شہر میں جرائم کی شرح کم ہوئی، اور لوگوں نے خود کو محفوظ سمجھنا شروع کیا۔ جمیل نے جدوجہد کے ذریعے اپنے منفی تجربے کو مثبت ردعمل میں بدل دیا تھا۔
برستی بارش میں بھیگی سرد رات ساحر کے اعمال کی مانند سیاہ تھی۔سیاہ لمبا لبادہ اوڑھے وہ قاتل عامر عمرو عیار کی مانند ہوشیار تھا۔
“ہاہاہا” وہ خود ہی ہنس دیا۔
“روشنی لیے سورج کبھی جان نہیں پاتا گزری رات کی داستان”
لوگ اسے عامر عیار عمرو عیار کی نسبت سے کہتے۔۔۔کیونکہ حیرت انگیز طور پر وہ بھی زنبیل رکھتا تھا۔
لمبی ٹوپی اوڑھے بوڑھے جانسن کی دکان پر وہ ٹھہرا
“آہاں عیار کیا پیوں گے؟”
“انسانی ہڈیوں کا سوپ اور سرخ مے ۔۔دستیاب ہو گی کیا؟” ایک آنکھ دبائے عامر عیار ہنس کر بولا۔
“یہ انسانوں کا ہوٹل ہے ایسا ہوٹل شاید افریقہ کے جنگلوں میں پایا جائے” بوڑھا کافی خوش مزاج تھا۔
“افریقہ کا جنگل” دیگر گاہک بھی ہنسے ۔
عامر عیار نے اپنی زنبیل کھولی اور آڑن طشتری نکال کر حکم دیا کہ مجھے زرا اس علاقے تک لے جاوں جہاں کے لوگ ایسی خوراک رکھتے۔۔۔
چند لمحوں کے بعد وہ آدم خود قبائل میں تھا۔
لباس سے لاپرواہ اپنی موج میں مست ۔۔۔۔رقص کرتے وہ وحشی
عامر عیار ہونے کے باوجود ڈر سا گیا۔
اڑن طشتری نے حکم کی تعمیل کرنے کے بعد اسے واپس چچا جانسن کی دکان پہ اتارا۔
“ارےے عیار کہاں چلے گے تھے۔۔ لو تمہارا کھانا معذرت ہم انسان ہے فی الحال مٹر کا شوربہ اور یہ سفید چاول،ذائقہ بہر حال بہت اچھا ہے۔ایسے مزے دار چاول تو شاید قدیم چاول اگانے والے لوگ بھی نہیں پکا پائیں گے۔لکھ لو میری بات”
شیخی باز چچا بلند قہقہہ لگائے چلا گیا۔
گاہک اس کی دکان پہ بہت محظوظ ہوتے تھے۔
“چاول اگانے والے علاقے”۔۔عیار ہنس دیا۔
“آخر میں کیوں نہیں واقف ان قدیم لوگوں سے” ۔۔۔عیار نے سوچا کہ کیونکہ کھانا بعد میں کھایا جائے پہلے ایک سیر کر لی جائے ۔
زنبیل سے ٹائم مشین نکالی اور مشین کی ترتیب کرنے کے بعد بیٹھ گیا۔
چاول کی فصل بس تیار ہو چکی تھی۔سبز سے پیلا صرف رنگ نہیں ہی زندگی بدلتی ہے۔
کھانا کھانے کے بعد وہ ایک بات ہی سوچتا رہا
“قدیم لوگ اور آدم خور”
“کیا مشترک ہے؟”۔
چند لمحے بعد وہ اپنی شاطر سوچ پہ ہنس دیا۔
چچا کو زنبیل سے سکے نکا کر دیتے ہوئے بوڑھےجانسن نے پوچھا”
“ویسے عامر یہ زنبیل کب لی ہے؟”
وہ فقط ہنسا اور نکل آیا اور اپنے آئی فون پرو میکس 14 پر جانسن کے بتائے ہوئے نئے کلنگ ٹارگٹ سیٹ کرنے لگا۔
ارے ابھی تک پڑا سو رہا ہے۔ نکھٹو کہیں کا ماں نے جلی کٹی سناتے ہوئے فضلو کو جگایا ۔جا جاکے ناشتے کا سامان لے کے آ۔ تیرے بھائیوں کو کام پہ جانا ہے۔
فضلو جو اپنی ماں سے بہت محبت کرتا تھا ماں کی جلی کٹی سنتا رہتا اور اف تک نہ کرتا۔جبکہ اسکے کماءو پوت بیٹے اپنی کمائ کا حساب لیتے رہتے تھےماں سے۔ کہتے فضلو بھی کام کرے ہر وقت گھر میں پڑا رہتا ہے۔
فضلو کی ماں بھی فضلو کو سخت سست کہتی ۔اور نکھٹو تو اسکا نام پڑ گیا تھا۔ وقت گزرتا رہا ۔دونوں بھائیوں کی شادی ہو گئ۔ اور وہ کسی نہ کسی بہانے فضلو اور ماں کو چھوڑ کر الگ گھر لے کے رہنے لگے ۔
فضلو اور اسکی ماں دونوں اکیلے رہ گئے۔
فضلو بیچارہ مرتا کیا نہ کرتا اپنا کھانے کا ہو ٹل کھولیا ۔ اس کو کچھ رقم اس کی ماں نے دی تھی ۔ جو اس کے پاس جمع تھی ۔
دیکھتے ہی دیکھتے فضلو نے اپنی کئ فوڈ چین کھول لیں۔ جن کا شمار مشھور فوڈ سینٹر میں ہونے لگا۔
فضلو کا شمار اب امیر ترین لوگوں میں ہونے لگا۔ اس نے بہت بڑا گھر خرید لیا اور اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا۔
جب فضلو کے بھائیوں کو اسکی کامیابی کی خبر ہوئ تو وہ فضلو کے گھر دوڑے چلے آئے۔اور فضلو کا گھر دیکھ کے حیران رہ گئے۔
کے فضلو اور ماں کتنے خوش تھے۔ کچھ دنوں بعد فضلو کی ماں نے اس کی شادی کر دی۔
فضلو کے بھائ جو ماں اور فضلو کو اکیلا چھڑ گئے تھے۔ رشک بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔
کیونکہ وہ فضلو جو کبھی “نکھٹو ” کہلاتا تھا۔ اپنی ماں کی دعاءو سے بہت آگے نکل گیا تھا۔
تانیہ۔۔تانیہ۔ وہ ہر آنے جانے والی لڑکی دیکھتا، تانیہ تانیہ پکارتا رہتا۔۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ آصف ایک نوجوان لڑکا تھا، ایک دن راہ چلتے اسکی نظر ایک کالج کی لڑکی پر پڑ گئی دونوں کی نظریں ملیں آصف کو پہلی نظر میں ہی اس لڑکی سے پیار ہوگیا۔ لڑکی کا نام تانیہ تھا، اسکے بعد آصف کا معمول بن گیا، کالج آتے اور چھٹی کرتے وہ اسکو دیکھتا رہتا، لڑکی بہت پریشان ہو گئی کہ یہ کون آوارہ لڑکا اس کے پیچھے پڑ گیا۔ اسکے دل میں آصف کے لئے نفرت پیدا ہوگئی وہ ایک شریف اور عزت دار لڑکی تھی۔۔
آخر کار آصف نے ضد کر کے اپنے والدین کو منا لیا اور اسکا رشتہ لینے کے لیے بھیج دیا۔ رشتہ منظور ہوا اور کچھ عرصہ بعدتانیہ کے امتحانات سے فارغ ہو کر شادی طے ہو گئی۔ لڑکی کو یہ علم نہ تھا کہ اسکا ہونے والا شوہر آصف ہی ہے۔ امتحانات میں کچھ ہی دن رہ گئے تھے تانیہ کالج جا رہی تھی کہ آصف نے پاس سے گزرتے ہوئے اس پہ فقرہ اچھالا ” بس کچھ دن اور، پھر تم میری ہو جاؤ گی” تانیہ یہ سن کر آگ بگولہ ہوگئی، وہیں سے پلٹ کر اپنے گھر گئی اور اپنی امی سے پوچھا امی میں نے آپ لوگوں کی بات رکھ کے ہاں کہی تھی، اب بتائیں کے میرا ہونے والا شوہر کون ہے، اسکی امی نے تانیہ کو آصف کا بتا دیا، تانیہ کے پاؤں تلے زمین نکل گئی، اس نے اپنی امی کو سب کچھ بتا دیا اور شادی کرنے سے انکار کر دیا، اسکے گھر والوں نے اسے لاکھ سمجھایا، منت سماجت کی مگر وہ نہ مانی، آخر کار مجبور ہوکر آصف کے والدین کے ہاں انکار کا پیغام بھجوادیا کہ لڑکی نے شادی سے انکار کر دیا ہے۔ یہ سنتے ہی آصف شدید صدمہ سے نڈھال ہوگیا اور بے ہوش ہوگیا۔ کچھ گھنٹوں بعد جب اُسے ہوش آیا تو وہ پاگل ہو چکا تھا، نہ کھانے پینے کا ہوش، نہ کسی کی بات سنتا، بس خاموش دیکھتا رہتا اور تانیہ تانیہ کہتا رہتا، گھر سے باہر بھی جب کبھی کوئی لڑکی دیکھتا تانیہ تانیہ پکارتا رہتا، وہ پیار میں پاگل ہو چکا تھا اسکی آنکھوں میں ہر دم بس تانیہ کا ہی عکس تھا۔
بہت دن سے عامر اپنے ہوٹل کے کمرے سے سامنے نظر آنے والی حویلی نما عمارت کو دیکھ رہا تھا ۔ دن میں عموماً سناٹا ہی رہتا تھا ۔ یہ عمارت فیضان ہوٹل ۔ کی پشت پر واقع تھی ۔لیکن رات میں عامر نے کئی بار وہاں کاروں کے آنے جانے کی آواز سنی تھی ۔ وہ چھٹیوں میں اپنے ماں باپ کے ساتھ سوات میں گھومنے آیا تھا ۔
”پاپا یہاں پر کون رہتا ہے ؟۔“
” کوئی بھی نہیں رہتا ہے بیٹا ۔ ویسے کل میں اپکو یہ عمارت اندر سے دیکھاؤ گا “رمیض صاحب نے پر سوچ انداز میں کہا
دوسرے دن اس عمارت کہ ٹھیکیدار سے بات کر کے عمارت دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو وہ متامل نظر آیا ۔ لیکن پھر خود ساتھ چلنے کا کہہ کر راضی ہو گیا تھا ۔
یہ لوگ وہاں پہنچے تو وہ ایک بہت پرانی حویلی تھی ۔ رقبہ ایک کنال سے کم نہیں تھا ۔ اور باغیچے میں ایک کنواں بھی موجود تھا ۔ لائٹ نہیں ہے کہہ کر وہ ان لوگوں کو دوپہر میں لے گیا تھا ۔ چھوٹے چھوٹے کمروں کی قطاریں ۔پرانے طرز تعمیر کا نمونہ تھی وہ عمارت اور صفائی کا بھی خیال رکھا گیا تھا ۔ عامر کو محسوس ہوا تھا کہ اس کے پاپا ۔ کچھ سوچ میں پڑے ہوئے ہیں ۔ کئی جگہ انہوں نے زمین پر ٹھیکیدار کی نظر بچا کر زمین پر زور سے پاؤں مارے تھے ۔ وہ بھی ذہین بچہ تھا اور اپنے والد کی متجسس نظریں دیکھ کر اس کو بھی تجسس ہو گیا تھا ۔
“ہیلو ۔ فرخ ۔ میں رمیض بات کر رہا ہوں “
” تم رات کو مجھ سے ملنے آؤ “
” تمھارے گھر بھی چلیں گے ۔ ابھی تم آؤ” عامر نے اپنے باپ کو فون پر بات کرتے ہوئے سنا تھا ۔
رات کو ان کا دوست آگیا تھا اور وہ دونوں سرگوشیاں کرتے رہے تھے ۔ عامر نے بھی آج جلدی ہی سونے کی ایکٹنگ شروع کر دی تھی ۔
دوبجے کا وقت تھا جب اس کہ پاپا اور انکا دوست چپکے سے کمرے سے نکلے تھے ۔وہ بھی اٹھا اور ان کے پیچھے ہولیا تھا ۔
حویلی میں ہلچل محسوس ہو رہی تھی ۔ اور عامر نے وہاں کچھ دوتین اور لوگوں کو بھی اپنے پاپا سے سرگوشیاں کرتے سنا تھا وہ تاریکی میں تھا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی نے اس کے پاپا کو گن پکڑا دی تھی ۔ اب وہ لوگ حویلی میں داخل ہو گئے تھے ۔ لیکن پھر اچانک اندر سے خوفناک قہقہے کی آواز سنائی دی تھی ۔
”میں نے دیکھ لیا تھا تو نے تہہ خانے کا راستہ تلاش کر لیا ہے میں منتظر تھا کہ تو پولیس کو لے کر ضرور آئے گا ۔ لیکن یہ عمارت جس شخص سے تعلق رکھتی ہے اس پر پولیس دن کے اجالے میں انگلی بھی نہیں اٹھا سکتی ہے ۔ ہم منتظر تھے تمھارے اب مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ تمھارے ساتھ یہ بچارے پولیس والے بھی مریں گے ۔ کیونکہ ہم انسانی اعضاء کی تجارت کرتے ہیں اور یہ راز ،،راز ہی رہے گا “یہ ٹھیکیدار کی آواز تھی
عمر نے ادھر ادھر دیکھا اس کو کچھ دور پولیس کی کار نظر آئی ۔ وہ تیزی سے اس کے قریب گیا اور سائرن کا سوئچ آن کر دیا ۔ سناٹے میں وہ آواز بہت زیادہ تیز سنائی دی تھی ۔۔۔۔۔۔ ۔
”یار ڈاکٹر تمھارا بیٹا تو بہت بہادر ہے ۔ کیسے اس نے رات کو بازی پلٹ دی تھی ‘“ فرخ نے ڈاکٹرسے کہا
“ہاں بھئی یہ اتنا عیار ہے مجھے بھی پتہ نہیں تھا ۔ وہ مسکرا کر فخر سے بولے
رات کی سیاہی پورے آسمان پہ چھانے لگی تھی بادلوں کی اوٹ میں چمکتا چاند چپکے سے جھانک رہا تھا سڑک کنارے بنی چھوٹی سی جھونپڑی جس میں تین لوگ رہتے تھے.
“ابو مجھے نیا دوپٹہ چاہئے دیکھیں نا میرا دوپٹہ ساری جگہ سے پھٹ گیا ہے اب میں کیا پہنوں گی”چھ سال کی بچی نے باپ کے سامنے آتے ہوئے کہا۔
“جا پرے ہٹ یہاں سے ۔۔یہاں پیٹ پالنا مشکل ہے تمہیں نیا دوپٹہ چاہئے جاؤ یہاں سے”زور سے چلاتا ہوا وہ اس بچی کو پیچھے دھکیلنے لگا۔
“یہ کیا کر رہے ہیں آپ وہ بچی ہے (انیسہ نے دہل کر اپنے نکھٹو شوہر کو دیکھا جو اک دن کام اور باقی ہفتہ آرام کر کے گزارا کرتا تھا) اسے نہیں پتا ہم کن حالات کا سامنا کر رہے ہیں اسے تو جو لگا اس نے کہہ دیا آپ اپنا غصہ اس معصوم پر کیوں نکال رہے ہیں کیا اس کی غلطی ہے کہ وہ ہماری بیٹی ہیدا ہوئی اس غربت میں۔۔؟؟”اس نے بچی کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
“اب پیدا ہو ہی گئی ہے تو اسے بھی اس غربت کی عادت ڈال لینی چاہئے سختی سے کہا گیا تھا۔
“میری بچی رو مت تم ۔۔!!میں ہوں نا تمہاری ماں میں تمہارے لئے پیاری سی جوتی لا کر دوں گی تم کو ٹھیک ہے”گالوں کو چومتے ہوئے کہا گیا تھا۔
“لیکن امی ہم لوگ اتنے غریب کیوں ہے آج میں روڈ پہ دیکھا اتنی بڑی گاڑی میں ایک صاحب آۓ اور ساری جھگیوں میں سب کو پیسے دے کے گۓ امی ہمارا اللہ تو ایک ہے نا پھر وہ کیوں اتنے پیسے والے ہیں اور ہم کیوں اتنے غریب ہے امی۔۔؟؟”معصوم سی بچی کی باتوں پر انیسہ کی آنکھوں سے جھرنا بہنے لگا تھا کاش ماں باپ بیٹی بیاہنے سے پہلے سوچ لیا کریں (وہ اپنے سوۓ ہوۓ نکھٹو شوہر کو دیکھ کر کرب سے سوچنے لگی) ۔اور بولی
“نہیں میری بچی ایسے نہیں کہتے وہ اللہ تو سب کا ہے نا ہم پہ آج مشکل وقت تو ان شاءاللہ ہم پہ کل اچھا وقت بھی آئے گا میری بچی بس اپنے اللہ پہ یقین رکھنا چاہئے اور مجھےاپنے اللہ پہ پورا بھروسا ہے وہ ہمیں ان مشکلات سے ایک دن ضرور نکالے گا۔
“امی کیا اللہ ہمیں سن سکتا ہے۔۔؟؟”ایک اور سوال کیا گیا۔
“ہاں میری بچی وہ ہمیں سن بھی سکتا ہے اور دیکھ بھی سکتا ہے۔۔۔چلو اب جا کے سوجاٶ صبح فجر کیلیۓاٹھنا بھی ہے “مسکراتے ہوئے سمجھایا گیا تھا اور سامنے آسمان پہ چمکتا چاند بھی ماں بیٹی کی گفتگو پہ ہلکا سا مسکرا دیا تھا ۔
نیلگوں آ سمان پر کھلی فضاؤں میں اڑتے پرندوں کی پرواز چہکتتی آ وازیں نیلم کا دل کا موسم بدل رہے تھے۔ کچھ دیرتک وہ یوہنی نظارہ کرتی رہی۔
ارے نیلم! کہاں ہو ٫
اماں! آ تی ہوں۔ مہمان آنے والے ہیں۔ شام ہوتے ہی نیلم چھت پر چڑھ جاتی تھی۔ ڈھلتا سورج اس کی زندگی کو جیسے ڈھال رہا تھا۔ اس کا رنگ بدل گیا زرد
رنگ بکھیر دیا۔ پرندے اونچی پرواز کر کے اپنے اپنے گھونسلے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اس کی آ نکھوں کے رنگ بھی زرد رنگ کے ہونے لگے وہ اپنے اندر ڈھلتا سورج کا عکس اپنی
آ نکھوں میں سما چکی تھی۔
کچھ دیر بعد ناصر اس کے برابرمیں بیٹھ کر وہ بھی ڈھلتے سورج کا منظر دیکھ رہا تھا۔ اور جب نیلم کی آ نکھوں کے عکس میں کھو گیا وہ عکس شام کا گہرا منظر اس کی آ نکھوں میں نظر آ رہا تھا۔ پہاڑوں کے اس پار دریا میں ڈھلتا سورج کا نظارہ اور آ س پاس کا منظر عکس بکھیر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اماں نےآ واز لگائی نیلم ! آ جاؤ جلدی سے شام ہو چکی ہے۔ آ واز سنتے ہی نیلم نیچے اتر گئی اورکچن میں چائے بنانے چلی تو اماں نے مسکرا کر کہا بیٹی چائے بنائی ہوئی ہے٫ تم پی لو ۔
کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی- اماں دروازے پر پہنچی اور پوچھا ! کون ہے؟ جواب ملا ناصر ہوں۔
اچھا بیٹا ٹہرو ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آنٹی کیسی ہیں۔ الحمدللہ
بیٹا تم سناؤ کیسے آ نا ہوا ۔۔
امی کیسی ہیں؟ آ نٹی ! امی بلکل ٹھیک ہیں٫ کسی دن آ ئیں گی۔ اماں نے آ واز دی ۔ نیلم بیٹی چائے لے آ ؤ ۔۔ چائے کا کپ لیکر آ ئی تو ناصر نے کپ پکڑتے
ہی نیلم کی آ نکھوں میں کھو گیا تھا ۔ اماں نے مسکرا کہا بیٹا کپ پکڑلو ۔ نیلم شرما کے وہاں سے کمرے میں چلی گئی۔
ناصر نےچائے پینے کے بعد آ نٹی سے اجازت طلب لی۔ گھر چلا گیا ۔
ناصر اپنے کمرے میں داخل ہوگیا اور بستر میں لیٹنے کے بعد سونے کی کوشش کرنے لگا ۔ لیکن نیند آ نکھوں سے کوسوں دور تھی۔ نیلم کے خیالوں میں گم ہو گیا تھا ۔اس کی آ نکھوں میں عکس تیرا ۔
جہاں چار لوگ جمع ہوتے موضوع اسی کی ذات ہوتی۔وہ بغیر ثبوت چھوڑ ے روز کسی نہ کسی کو ایسے موت کے گھاٹ اتارتا کہ ہر سمت خوف وہراس پھیل جاتا۔
آئی جی صاحب آج اپنی ٹیم پر سخت خفا ہو ئے تھے۔ اور عامرعیار کی گرفتاری پر زور دیتے ہوئے یہ کیس انسپکٹر نعمان کے سپرد کر دیا۔
“سمجھ نہیں آتی انسان ہے یا چھلاوا؟”
انسپکٹر نعمان عامر عیار کی تفصیلات پڑھتے ہوئے بڑبڑائے۔ اسی اثنا میں فون کی گھنٹی بج اٹھی۔
“بندے کو عامر عیار کہتے ہیں۔ سنا ہے بڑے دلیر ہو۔چلو چوہے بلی کا کھیل ختم کر کے روبرو ملتے ہیں، اپنا دراز کھولو پتا مل جائے گا۔”
ان کے بولنے سے پہلے وہ اپنی سنا کر فون بند کر چکا تھا۔وہ لب بھینچ کر رہ گئے۔
٭٭٭
اس علاقے کا نام سنتے ہی بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا تھا، جہاں وہ تن تنہا چلے آئے تھے۔سیاہ رات کی مانگ میں چمکتا چاند اور اس کی نیلگوں روشنی میں ڈوبی حویلی بہت پراسرار لگ رہی تھی۔ ہرطرف ہو کا عالم تھا۔انسپکٹر نعمان نے کوٹ کی اندرونی جیبوں سے پستول نکال کر دونوں ہاتھوں میں تھام لیے، پھر محتاط انداز میں قدم اٹھاتے اردگرد کا جائزہ لینے لگے۔ حویلی کی بلند و بالا دیوار یں اور ان پر بنے نقش و نگار شائیں شائیں کرتی ہوا میں ماحول کو مزید پر اسرار بنا رہے تھے۔ اچانک انہیں بند دروازے کے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ ان کا دل بری طرح دھڑک اٹھا۔ پستولوں پر گرفت مضبوط کرتے ہوئے وہ بائیں جانب دروازے کی سمت بڑھنے ہی والے تھے کہ قدموں نے یوں ہلنے سے انکار کردیا جیسے ان سے بھاری پتھر باندھ دیے گئے ہوں۔
انسپکٹر نعمان کا جسم مفلوج اور حسیات سن ہونے لگیں۔کچھ انہونا محسوس کرتے ہی خوف کے بچھو ان کی ٹانگوں سے لپٹ چکے تھے اور مساموں سے پسینہ پھوٹ پڑا ۔
راہداری کے آخری سرے پر نظر پڑتے ہی ان کی آنکھیں دہشت سے پھیلیں۔ ساتھ ہی ان کے منہ سے دلخراش چیخ بلند ہوئی تھی۔۔۔
“پھر کیا ہوا مانی بھائی؟”
حیدر نے اس کے خاموش ہوتے ہی بے تابی سے پوچھا، تو وہ محظوظ ہوتے ہوئے بولا:
“چار سو الفاظ میں اتنی ہی کہانی سنائی جا سکتی ہے۔ الفاظ زیادہ ہوتے تو بتاتا کہ اس رات عامر عیار کی حویلی میں کس پر کیا کیا گزری۔”
اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز - ڈاؤن لوڈ کیجئے
ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟
We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine.
You can support this website to grow and provide more stuff !
Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books | Buy Gift Items | Buy Household Items | Buy from Amazon |
Shahzad Bashir
شہزاد بشیر (مصنف / ناشر / بلاگر) مکتبہ کتاب دوست کے بانی ہیں۔ کتاب دوست ڈوٹ کوم اور دیگر کئی ویب سائٹس کے ویب ماسٹر ہیں۔ آئی ٹی کی فیلڈ میں گزشتہ بارہ سال سے لکھتے آرہے ہیں۔ بطور مصنف 15 اردو ناول شائع ہو چکے ہیں۔ مزید تفصیلات ان کی ویب سائٹ پر پڑھی جا سکتی ہیں۔
20 Amazing Urdu Novels by Shahzad Bashir Author. Jasoosi, Action, Adventure, Suspense, Thrill, Romantic, Tragedy, Comedy, Horror and Social Novels under the limitation of Islam and Society. The most surprising novels in Urdu language on Kitab Dost. Shahzad Bashir is a recognized Urdu novel writer who writes Science Fiction (Sci-Fi) […]