Afsana by Shahzad Bashir – Women’s Day – 8 March – Aurat March. The best motivational afsana / Afsancha. Express the women’s feelings. A very heart touching content for every women who thinks she needs more rights.
Afsana by Shahzad Bashir – Women’s Day – 8 March – Aurat March
خواتین / عورتوں کا عالمی دن – 8 مارچ – عورت مارچ
شہزادانہ باتیں ! “افسانہ” —- (شہزاد بشیر کا افسانہ)
ایک گھنٹہ شوہر کے لائے ہوئے میک اپ جیولری میچنگ ڈریس پہننے کے بعد پرفیوم لگا کے وہ باہر نکلی ۔ موٹر سائیکل کی ٹنکی پراس کابیگ بندھا ہوا تھا۔فربہی کی وجہ سے شوہر کے پیچھے اس کے بیٹھنے کی جگہ کم ہی بچتی تھی مگر جیسے تیسے وہ ٹھس ٹھسا کر بیٹھ ہی گئی۔
تیز دھوپ میں شوہر نے بمشکل مسکراتے ہوئے بیگم سے پوچھا۔ “ارے بھئی اب تو بتادو یہ سرپرائز وزٹ کہاں کیلئے ہے۔ میکے سے تو کل ہی آئی ہو تم اور سسرال اتنا دور ہے کہ بائیک پر جا نہیں سکتے ۔”
بیگم مسکراکر بولی۔ “بس آپ چلئے تو سہی میں بتاتی ہوں راستہ۔ “
شوہر بادل نخواستہ چل پڑا۔ کچھ ہی دور چلے تھے کہ اگلا ٹائر پنکچر ہو گیا۔ چلچلاتی دھوپ میں شوہر نے بیوی کو بٹھائے رکھا اور خود بائیک کو بمشکل گھسیٹ کر ایک پنکچر والے تک پہنچا۔ پنکچر والا بھی شریف آدمی تھا۔ خاتون کیلئے فوراََ ایک اسٹول پرکپڑا مارکر صاف کیا۔ چھوٹے کو آواز لگائی ۔
“او چھوٹے باجی جی کیلئے ٹھنڈی برف سیون اپ پکڑ لا۔” پھر ٹوٹے ہوئے میلے کچیلے پنکھے کارخ بھی اس کی جانب کر دیا۔ اس کے بعد پھرتی سے سارے کام چھوڑ کر پہلے اس کی بائیک کا پنکچر لگا نے لگا۔ایک اور کسٹمر نے جلدی کا کہا تو بولا۔ “ارے بھائی ۔صبر کرو ۔ خاتون ساتھ ہیں اسلئے پہلے ان کو فارغ کر دوں۔”
پنکچر لگوا کر آگے بڑھے تو پتہ چلا کہ پٹرول ختم تھا۔ شاید فلیٹ میں کسی شرارتی نوسکھئے نے نکال لیا ہوگا۔ اب پھر چلچلاتی دھوپ میں سفر شروع کیامگر بیگم کو بیٹھے رہنے کا کہا۔ ابھی اتر کر کچھ دور ہی گھسیٹی تھی۔ کہ ایک کے بعد دو تین بائیک والے رک گئے۔ وہ ڈر گئی۔ اللہ جانے کیا ہوگا؟ ایک بائیک والا قریب رک کرپوچھنے لگا ۔
شوہر نے مسکرا کر کہا “یارپیٹرول ختم ہوگیا۔” اس نے کہا “کوئی بات نہیں آپ کے پاس بوتل ہے ؟ میری بائیک سے لے لیجئے۔” شوہر نے کہا۔ “نہیںآپ کو تکلیف ہوگی میں آگے سے ڈلوا لوںگا۔” اتنے میں دوسرا بولا۔ “جناب پمپ تو کافی دور ہے۔ آپ کے ساتھ خاتون ہیں اس لئے پٹرول لے لیجئے ۔ اکیلے ہوتے تو کوئی بھی ٹانگ سے ٹو کرکے آپ کو لے جا سکتا تھا۔” شوہر نے بادل نخواستہ بات مان لی کیونکہ عورت ساتھ تھی۔ورنہ شائد اس کی خود داری اس کی اجازت نہ دیتی۔
اب بوتل بھی اس کے پاس نہ تھی۔ تیسرے بائیک والے نے اتنی دیر میں اپنی بائیک سے ایک لیٹر کی آدھی بھری ہوئی بوتل اسے تھمادی اور بولا۔ ”یہ لیجئے۔جناب پٹرول ڈالکر بوتل مجھے دے دیجئے ۔ میں اور لے لوںگا آپ باجی کو دھوپ سے بچائیے ۔ آج کل ہیٹ ویو بڑی جلدی اثر کرتی ہے۔ اور باجی کپڑے سنبھال کر بیٹھئے گا۔”
بیگم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شوہر نے شکریہ اداکرکے پٹرول ڈالا اور بائیک لے کر پمپ تک پہنچا ۔ لائن میں چار پانچ موٹر سائیکل والے کھڑے تھے مگر انہیں دیکھ کر پمپ والے نے اشارہ کیا اور پہلے انہیں پٹرول دیا۔ اب دونوں پھر آگے بڑھے۔
اب شوہر نے پوچھا۔ “اب تو بتا دوں کہاں جانا ہے تاکہ میں کسی شارٹ کٹ راستے سے وہاں پہنچا دوں تمہیں ۔ ورنہ دھوپ میں میرا تو کچھ نہیں ہوگا روز کی روٹین ہے مگر تم بیمار ہو جاﺅ گی۔”
بیگم نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔ “واپس گھر چلئے۔ “
شوہر حیران ہوا۔ “کیوں ؟ آخر بات کیا ہوئی؟ کہاں جانا چاہتی تھیں؟”
“بس جہاں جانا چاہتی تھی اب وہاں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔ کیونکہ اب وہ سب بے مقصد و بے بنیاد لگ رہا ہے۔ مجھے اب اس کی قطعی ضرورت نہیں ۔”
شوہر نے الجھتے ہوئے پوچھا۔ “آخر کہاں جانا تھا؟”
بیگم سسکیاں لیتے ہوئے بولی: “عورتوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھانے عورت مارچ میں !”
شہزاد بشیر
مصنف / پبلشر (مکتبہ کتاب دوست)
#shahzadbashirafsancha
#shahzadbashirafsana
#shahzadbashirauthor