14 اگست 1991 کچھ یادیں کچھ باتیں ! طنزو مزاح کالم #8
ناقابل فراموش کل اور آج !
از : شہزاد بشیر
13 آگست رات 10 بجے : ابھی ابھی لائٹ چلی گئی۔ یہ کھیل اب رات ہوتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد لائٹ آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عوام کسی ٹارچر سیل میں ہے اور بجلی کا محکمہ عذاب دے رہا ہے۔ میں بیڈ پر بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اب شاید 14 اگست اندھیرے میں آئے گی۔ باہر سے مسلسل پوں پاں کی زور دار آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ اب تو لوگوں نے منع کرنا بھی چھوڑ دیا۔ میں دیوار کو دیکھ رہا ہوں۔ چارون طرف سے جنریٹرز کا شور سنائی دے رہا ہے۔ دیوار پر کچھ پرچھائیں نظر آرہی ہیں۔ شاید ماضی کی یادیں ہیں۔ ہاں 13 اگست کی۔ ہر سال جو 13 اگست کو ہم جیسے محب وطن نوجوان اپنی گلیوں کو محلے کو سجایا کرتے تھے۔ اب وہ سب بڑے ہوگئے۔ دیکھئے تو ذرا۔۔۔ !
جشن آزادی – یوم آزادی ۔ 14 اگست یہ سب ایک ایسے دن کے عنوان ہیں جسے ہم سب نے اپنے بچپن میں بھرپور انداز میں جیا ہے۔ مناتے تو اب بھی ہیں مگر بچپن اور لڑکپن کی تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ اسکول لائف کے دوران 1982 سے 1997 تک جس محلے میں رہا کرتے تھے اس کی گلی کافی لمبی تھی اور کافی دورویہ گھر تھے۔ جہاں ہر قومیت کے لوگ آباد تھے۔13 اگست ہر سال اس پوری گلی کو سجانے کی ذمہ داری ہم لڑکوں کی ہوتی تھی۔ اس سلسلے کا آغاز 10 اگست کے دن سے ہی “چندے” سے ہو جاتا تھا۔ جن دوستوں نے یہ کیا ہے اس کام کا مزہ انہیں ہی معلوم ہے 

گھر کے سامنے فتح محمد جنرل اسٹور المعروف “فتو بھائی” اپنا حقہ لئے گلی کے کونے پر بیٹھ کر کمنٹری شروع کر دیتے تھے۔ اگر آپ نے میرا ناول “سپر مین ” پڑھا ہے تو میرے بچپن کے دوستوں میں ایک نصیر اور اس کا بھائی چن زیب سب سے زیادہ متحرک ہوا کرتے تھے۔ نصیر کا گھر گلی کے عین درمیان کا تھا اور وہ گھر کے باہر اپنا ڈیک رکھ کر ملی نغمے لگا دیتا تھا بس پھر کیا تھا۔ ہر گھر سے بچے بوڑھے نکل آتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے عید کا سا میلہ سج گیا ہو۔ سب تفریح کے موڈ میں پوری گلی کے ایک نکڑ سے دوسرے کونے تک بندھی ڈوری پر جھنڈیاں چپکایا کرتے تھے اور ساتھ ہی مزے مزے کے کھیل اور مزاح، گانوں کا مقابلہ، فیورٹ سونگز کے لئے لڑنا کہ پہلے میرا لگاؤ پہلے میرا۔ مجھے سب سے زیادہ پسند تھا اور اب بھی ہے “میرا دل ہے پاکستان ۔ میری جان ہے پاکستان” مونا کی آواز میں۔ یہ سب 13 اگست سے 14 اگست کی صبح 8 بجے تک چلتا تھا۔
اس سے پہلے ہر گھر سےگلیوں کو سجانے اور جھنڈیاں لگانے کیلئے دس بیس روپے سےسو روپے تک لینا اور اس دوران فل تفریح۔ ایک تو ہر گھر میں الگ الگ قومیت کے لوگ آباد تھے جن سے پیسے نکلوانے کیلئے باقاعدہ نمنصوبہ بندی کی جاتی تھی کیونکہ کہ کچھ تو بہت ڈھیٹ ہوا کرتے تھے۔ دیتے ہی نہیں تھے بالکل اسی طرح جس طرح آجکل وہ نہیں ہے “اپڑاں” آئی ایم ایف۔۔۔ جو مہنگائی کرواتا جا رہا ہے مگر دے کچھ نہیں رہا۔ اسی طرح کچھ ایسے تھے جو لیکچر نصیحت اور مشورے تو ایسے دیتے تھے جیسے پوری جشن آزادی کا ٹھیکہ لے رہے ہیں مگر نکلتا ان کے پاس سے دھیلا بھی نہیں تھا۔ مگر صاحب پھیکے گولے گنڈے تو ہم دوستوں نے بھی نہیں کھائے تھے۔ کچی گولیاں ضرور کھیلی تھیں۔
اس معاملے میں نصیر کا چھوٹا بھائی چن زیب بہت استاد تھا وہ ڈیک اٹھا کر اس گھر کے آگے رکھ دیتا جہاں سے “تعاون” نہیں ہوا ہوتا تھا اور پھر ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں نہ صرف “تعاون” ہو جاتا تھا بلکہ درخواست بھی آتی تھی کہ بھیا۔۔۔۔ اب تو دے دیے اب اس ڈیک کو تو وہیں لگادو۔ اور ہمیں سونے دو۔ مگر صاحب تعاون اگر ناکافی ہوتا تو درخواست “رد” بھی ہو جاتی تھی۔
مگر کمال ہے اور سلام ہے وہاں ہمارے کشمیری، پنجابی، اردو اسپیکنگ، سندھی، بلوچی، پٹھان مطلب یار۔۔۔۔ ہر قوم کا بندہ ہی رہتا تھا اور اس رات ہم جس گھر کو چاہتے دروازہ بجا کر آرڈر مار سکتے تھے۔ یعنی کہ فل پرمٹ ہوتا تھا۔ مثلاََ دروازے بجاتے اور اوٹ میں ہو کر کھڑے ہوجاتے۔ اندر سے کبھی کوئی بھائی آجاتے ورنہ خاتون خانہ دروازے کی اوٹ سے پوچھ لیتیں کہ کیا چاہئے؟ تو کسی کو چائے کا کسی کو لسی پانی کا آرڈر ہو جاتا اور وہ پورا بھی ہوتا تھا۔ زیادہ تر تو بغیر کہے ہی کچھ نہ کچھ بھجواتے رہتے تھے۔
13 اگست کی رات عشاء کی نماز کے بعد سارے دوست اکٹھے ہو جاتے تھے اور ایک ایک جھنڈی کو گلو سے ڈوری پر چپکانے کا کام کیا جاتا تھا۔ ایسی بات نہیں تھی کہ بنی بنائی جھنڈیاں نہیں ملتی تھیں یا ہم خرید نہیں سکتے تھے، اصل بات یہ تھی کہ سب دوست اپنے ہاتھ سے بناتے تھے اور خوب ہلہ گلا بھی کرتے تھے۔ اس کام میں بڑے بزرگ بھی ساتھ لگ جاتے تھی تو اور مزہ آتا تھا۔
پھر جوں جوں رات گزرتی جاتی تھی محلے میں سناٹا چھاتا جاتا تھا لوگ بستروں میں گھس جایا کرتے تھے تو صرف ڈیک پر بجتے ملی نغمے گونجتے رہتے تھے۔ ایسے میں بیچ بیچ میں چائے بسکٹ میٹھے چاول اور شربت لسی کا دور بھی چلتا رہتا تھا۔ اس دوران ملی نغمے روک کر عمر شریف کی کوئی کیسٹ لگا دی جاتی تھی۔ ہنسی کی آوازیں گونجتی تھیں تو کئی گھروں کے دروازے کھل جاتے تھے اور وہ لوگ جو کبھی ہاتھ نہ لگائیں وہ بھی آکر گھل مل جاتے تھے۔ ہنسنے والوں کے ساتھ ہی تو سب ہنستے ہیں۔
گلی کی کونے پر جامع مسجد اللہ والی تھی۔ وہاں کے پیش امام جناب “کمال الدین سورتی” صاحب ہماری پسندیدہ شخصیت تھے۔ آج دیکھیں تو حیرانی کی بات لگتی ہے کہ ہمیں یہی نہیں پتہ کہ مسجد کے پیش امام کون ہیں ان کا نام کیا ہے؟ بہت سے تو ایسے بھی ہونگے جنہوں نے کبھی پیش امام کو دیکھا ہی نہیں ہوگا۔ مگر سچ کہتا ہوں کہ جمعہ کے دن ہم بڑے بے چینی سے انتظار کرتے تھے اور ان کا جمعے کا خطبہ سنتے تھے اگلی صفوں میں بیٹھ کر اور جس دن ذرا “ادھر ادھر” ہوئے نہیں کہ پکڑائی ہوئی نہیں۔ وہ جمعہ کے بعد گلی میں پکڑ لیتے۔ بالکل ایک شفیق مہربان باپ اور بھائی کی طرح سمجھایا بھی کرتے اور کبھی ہم گلی میں کرکٹ کھیل رہے ہوتے تھے تو ایک آدھ اوور وہ بھی کھیل کر جاتے تھے۔ سورتی صاحب کے دو بیٹے تھے۔ وہ وہیں اس چھوٹی سی زیر تعمیر مسجد سے متصل ایک کمرے کے حجرے مٰیں رہا کرتے تھے۔ اکثر ہم وہاں کھانا پہچانے بھی جایا کرتے تھے تو دیکھتے تھے کہ حجرے میں ان کے بیٹے موٹر سائیکل پر لگنے والے ریفلیکٹرز بنارہے ہوتے تھے۔ اور 13 اگست کی رات نہ صرف جناب سورتی صاحب بھی ہم لڑکوں کا حوصلہ بڑھانے گلی میں نکل آتے تھے بلکہ ان کے دونوں بیٹے بھی ہمارے ساتھ اس جشن آزادی مہم میں شامل رہتے تھے۔
یوں بھی ہوتا کہ دوسرے محلے کے وہ لڑکے اپنے محلے کے سناٹے سے گھبرا کر ہمارے محلےمیں آجاتے اور کبھی اکثر رنگ میں بھنگ ڈالنے کی بھی کوشش کیا کرتے تھے۔ ایسے ناخوشگوار واقعات کیلئے ہمیں محلے کی ہردلعزیز شخصیت مارشل آرٹس بلیک بیلٹ “رانا” بھائی کا بھرپور تعاون حاصل ہوتا تھا جو ایک آواز “او ۔۔۔بھائی رانا ۔۔۔ ذرا باہر آنا” اور وہ ہمہ وقت اپنے ٹریک سوٹ میں ملبوس گلے میں “نن چکو” ڈالے بروس لی اسٹائل میں باہر آتے تو مخالف گروہ “اوہ ۔۔ رانا بھائی ۔۔ ہم تو ایسے ہی مخول کر رہے تھے'” کہہ کر کھسک لیتے تھے۔ مگر کئی بار ایسا بھی ہوا کہ رانا بھائی کی غیر موجودگی کی اطلاع ہوتی تھی تو ہم سب لڑکوں کو ہی بروس لی بننا پڑتا تھا۔ اس میں بھی رانا بھائی کا بڑا ہاتھ تھا جو سب کو صبح صبح فجر کی نماز میں دروازے بجا کر اٹھاتے اور نماز کے بعد زبردستی پکڑ کر اپنے ساتھ ڈیفنس کی “طوبیٰ مسجد المعروف گول مسجد” سے تھوڑا پہلے “مصطفیٰ مسجد”کے خوبصورت پارک میں جاگنگ کرواتے ہوئے لے جاتے تھے۔ وہ کوئی 3 کلومیٹر کا فاصلہ تھا جو ہم سب لڑکے طے کرتے اور پھر رانا بھائی کا کلب وہاں کھل جاتا۔ خیر 13 اگست کو ہم بخشتے ان کو بھی نہیں تھے۔ جہاں پتہ چلتا کہ رانا بھائی بستر میں گھسنے لگے ہیں کسی بہانے سے بلوا کر بٹھا لیتے کہ ملی نغمے سنیں اور سر دھنیں۔ ایسے ہے تو پھر ایسے ہی سہی۔
ساری رات یہی دھما چوکڑی رہتی اور پھر پوری گلی کی سجاوٹ کا مرحلہ طے کر کے جھنڈیاں اور جھنڈے لہرا کے لائٹس کا بندوبست کرکے پھر شروع ہوتا تھا پیسوں کا حساب جس میں کچھ کمی ہوجاتی تو سب کی نظریں نصیر کی طرف اٹھ جاتیں اور وہ گھبرا کر قسمیں کھانے لگتا اور اگر کہیں بیشی ہوجاتی تو اس میں ہم سب کی ٹریٹ پکی۔ رات کو ہی قلندریہ ہوٹل پہنچ جاتے اور گرما گرم پراٹھے اڑاتے۔
پھر فجر کی نماز کے بعد سب اپنے اپنے گھر۔ مگر اب مسئلہ یہ ہوتا تھا کہ کئی لڑکوں کے سخت مزاج “ابے” نیند سے اٹھائے جانے پر عالمی جنگ چھیڑ بیٹھتے تھے تو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ چپکے سے دیواریں پھاند کر گھروں میں کود جائو۔ بچ گئے تو سوگئے اور پکڑے گئے تو بس گئے کام سے۔ اس کی خبر صبح چہرے کے شناختی نشانات سے ہو جاتی تھی۔ یوں تو ہمارا ایسا کوئی مسئلہ نہ تھا مگر سب کی دیکھا دیکھی ہم بھی دیوار پھاند کر ہی گھر میں گھستے تھے۔ تاکہ ہماری وجہ سے کوئی “ڈشٹب” نہ ہو جائے۔ جو کہ ہو ہی جایا کرتے تھے۔والدہ فجر کے بعد تلاوت کرتی تھیں۔
اور پھر ہوتی تھی 14 اگست کی شروعات۔ صبح آٹھ بجے اسکول کے گراؤنڈ میں کھڑے ہو کر ترانہ پڑھنے کا مزہ ہی الگ تھا۔ تقریر و ملی نغموں میں حصہ لینا۔ اور پھر مٹھائی لے کر گھر آنا۔ یہ سب اب اگر دوبارہ ہو تو سارے کام چھوڑ کر کرنے کو تیار ہیں۔اور پھر دوپہر میں بے خبر سونے کے بعد عصر کے بعد گلی میں جمع ہوکر رات کے قصے دہرانا۔ بس بھائی کیا بتائیں سب کو ہی پتہ ہوگا کہ یہ مزے مجھے یقین ہے سب کی زندگی میں ہی رہے ہونگے۔
فتو بھائی کی دکان کے آگے جمگھٹا لگتا تھا تو وہ کبھی سیون اپ اور کبھی کوکا کولا بھجوا دیتے تھے بہت ہی نیک دل اور دینی و ملی کاموں میں آگے رہنے والے انسان تھے۔ اللہ جنت نصیب کرے سورتی صآحب اور فتو بھائی کو۔ آمینَ
اس دوران ہر سال ہی ہلکی بارش یا بوندا باندی ہو جاتی تھی۔ بچے بھی خوش نظر آتے تھے اور اہل محلہ بھی۔ اکثر محلے کی بڑی بوڑھیاں گھر سے کوئی سامان لئے نکلتیں تو فوراَ کوئی نہ کوئی لڑکا اپنا فرض سمجھ کر منزل تک چھوڑنے جاتا تھا۔ وہ بھی سر پر ہاتھ پھیر کر جھنڈیوں کی تعریف کرتیں۔ اور مزہ تو تب آتا تھا جب صبح جھنڈیاں بارش پڑنے سے دھل چکی ہوتی تھیں کیونکہ ہلکی پھلی بوندا باندی تو لازمی ہوا کرتی تھی۔ مگر جھنڈیوں سے گلی کا رنگ ہی اور ہو جاتا تھا۔ اور جب ہوا سے وہ کاغذ کی جھنڈیاں پھڑپھڑاتی تھیں تو وہ آواز سن کر نہ جانے کیوں اندر ہی اندر ایک فخر سا محسوس ہوتا تھا کہ یہ ہم نے اپنے وطن کی گلیوں کو سجایا ہے۔
آج 10 بجے ہی لائٹ چلی گئی۔ گزشتہ دو ہفتوں سے تو بہت ہی برا حال ہے۔ کہاں وہ دن کہ 500 واٹ کی چھوٹی لائٹس گلی میں لگا کر جھنڈیاں بنائی جاتی تھیں۔ ہر گھر میں 100، 200 واٹ کے بلب عام بات تھی اور کہاں یہ آج کا دور کہ بجلی ناپید اور بل دیکھو تو لگتا ہے چار پانچ گھروں کا ایک ہی کو بھیج دیا۔
پہلے کراچی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اب “کے الیکٹرک” کا۔ کیونکہ اب روشنیوں کا سوئچ ان کے ہاتھ میں ہے جس سے یہ ادارہ اکثر رات کو کھیلا کرتا ہے۔
آن۔۔آف ۔۔ آن ۔۔ آف ۔۔۔ آن۔۔آف ۔۔ آن ۔۔ آف
میں اندھیرے میں بیٹھا تھا یو پی ایس کب کا جواب دے چکا تھا۔ اچانک پوں پاں نے جو پہلے بھی کوئی کم نہیں ہورہی تھی اچانک شدت اختیار کر لی۔ پھر بارہ بج گئے۔ دھواں دھار فائرنگ کی آوازیں گونجنے لگیں۔ یہ اعلان تھا کہ یہ قوم آزاد ہے۔ فائرنگ کیلئے، پوں پاں کرنے کیلئے، سائلنسر نکال کر سڑکوں پر بھگانے کیلئے، سی ویو پر بدمست ہاتھی کی طرح طوفان بدتمیزی کیلئے۔
میں اندھیرے میں گھورتا رہا اور ماضی میں جانے کی کوشش کرتا رہا۔ اور پھر اس کوشش میں تھوڑی دیر کو کامیاب بھی ہوگیا۔ گلی میں وہی منظر تھا۔ نصیر نے آگے بڑھ کر گلے لگایا۔ فتو بھائی نے دور سے آواز دی “او ۔۔۔شہزادے۔۔ چل آ پہلے اخبار تو سنا دے۔۔۔ ان کی بات ختم ہوتے ہی چن زیب نے اچانک پیچھے سے کندھا تھپتھپایا۔ میں جوں ہی مڑا اس نے مسکرا کر گلے میں ہاتھ ڈال دئے۔ اسی وقت ریحان میرا پڑوسی گھر سے ایک پتیلی میں “لئی” بناکر لے آیا جس سے جھندیاں چپکاتے تھے۔ اور حسب معمول میرے سامنے کر کے بولا :”” دیکھو شہزاد بھائی کافی ہے یا اور بناؤں؟”” اور میں اسے دیکھ کر وہی بولا جو بولتا تھا۔ “ارے یہ کیا فردوس باجی کی جہیز کی پتیلی اٹھا لایا۔”
ایک جانب سے سورتی صاحب اپنا لمبا سا عربی جبہ جسے “توپ”کہتے تھے، براؤن امامہ پہنے مسکراتے ہوئے آئے۔ “شہزادے جمعے کو دوستوں کے ساتھ اذان سے پہلے پہنچ جانا مسجد۔ دریاں چٹائیاں بچھانے۔””
یہ سب زیادہ دیر میرے ساتھ نہ رہ سکے کیونکہ اچانک کمرہ روشن ہو گیا۔ لائٹ آگئی تھی۔ میں بھی واپس آگیا موجودہ سال میں۔
آپ سب کو جشن آزادی مبارک کہنے !!!
آپ کو میری طرف سے یوم آزادی مبارک ہو
تصویر: چن زیب اور شہزاد بشیر 13 اگست 1991
فوٹو گرافر : نصیر انور

مصنف / پبلشر / بلاگر
اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ پسند کئے جانے والے ناولز - ڈاؤن لوڈ کیجئے
ہمیں امید ہے کہ آپ اس ویب سائٹ سے اپنے مطالعاتی ذوق کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ کیا آپ اس ویب سائٹ کے ساتھ تعاون کرنا پسند فرمائیں گے؟ We hope you will enjoy downloading and reading Kitab Dost Magazine. You can support this website to grow and provide more stuff ! Donate | Contribute | Advertisement | Buy Books |
Buy Gift Items | Buy Household Items | Buy from Amazon |